سلامتی کونسل کی ناکامی
اگر ٹرمپ واقعی افغان مسئلے کو جلدازجلد حل کرنا چاہتے ہیں تو پھر انھیں مودی کو لگام دینا ہوگی۔
اس میں شک نہیں کہ پچاس سال بعد مسئلہ کشمیر کا سلامتی کونسل میں مثبت انداز میں زیر بحث آنا پاکستان کی ایک بڑی کامیابی ہے۔اس کامیابی میں ہم چین کے مشکور ہیں کہ اس نے ہمارے مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھا اور ہماری مدد کے لیے ماضی کی طرح آگے آگیا۔ چین کی ہی کوششوں سے سلامتی کونسل کے ممبران کے درمیان بند کمرے میں اس مسئلے پر بحث ہوئی جس میں کشمیرکو ایک متنازعہ مسئلہ قرار دے دیا گیا۔
دراصل ایسا تو ہونا ہی تھا، اس لیے کہ یہ مسئلہ تو پہلے سے ہی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے اور حل طلب مسائل کی فہرست میں سب سے اوپر ہے مگر افسوس کہ نہ پہلے سلامتی کونسل بھارت کو اس مسئلے کو حل کرنے پر مجبورکرسکی اور نہ اب اسے مجبورکیا جاسکا۔ مزید افسوس اس بات پر ہے کہ ممبران کے متفقہ فیصلے کا سلامتی کونسل کی طرف سے کوئی مشترکہ اعلامیہ بھی جاری نہیں کیا گیا۔
فیصلے کی تفصیل چینی سفیرکے ذریعے ہم تک پہنچی۔کہا جا رہا ہے کہ پانچ مستقل ممبران میں سے فرانس نے پوری بحث میں بھارت کا ساتھ دیا اور اس مسئلے پر مزید بحث کو آگے نہیں بڑھنے دیا۔ فرانس نے ایسا کیوں کیا اس کی وجہ واضح ہے کہ وہ اپنے رفائل جنگی جہاز بھارت کو فروخت کرنے کا معاہدہ کرچکا ہے وہ اپنے گاہک کو ناراض کرنا نہیں چاہتا۔اسی طرح لگتا ہے امریکا اور برطانیہ نے بھی بھارت سے اپنے مالی مفادات کے پیش نظر کشمیر کے مسئلے پر وہ جوش اور ولولہ نہیں دکھایا جو انھوں نے تیمور اور جنوبی سوڈان کے عیسائی عوام کے لیے انڈونیشیا اور سوڈان سے کاٹ کر ان کے علیحدہ آزاد ممالک بنانے کے لیے دکھایا تھا۔
البتہ روس جو ماضی میں بھارت کا ساتھ دیتا رہا تھا، اس مرتبہ اس نے غیر جانبداری سے کام لیا اس کی وجہ بھارت کی اس سے بے وفائی کے علاوہ پاکستان سے اس کی بڑھتی ہوئی قربت ہے پھر اس نے چین سے اپنی دوستی کا بھی پاس رکھا۔
بہرحال ہم پاکستانیوں کو سلامتی کونسل سے یہ گلہ ہے کہ اس نے بھارت کو کشمیر سے اپنی فوجیں نکالنے اور وہاں موجود مارشل لا جیسی کیفیت کو ختم کرنے کا حکم کیوں نہیں دیا تو اس کا ماہرین یہ جواب دے رہے ہیں چونکہ مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل میں شیڈول چھ کے تحت درج کیا گیا تھا جس کے تحت غاصب ملک پر زبردستی نہیں کی جاسکتی چنانچہ حسب سابق اس دفعہ بھی سلامتی کونسل نے بھارت کو کوئی سخت پیغام نہیں دیا حتیٰ کہ کرفیو تک اٹھانے کی ہدایت نہیں کی۔
اب اصل میں یہ بات تحقیق طلب ہے کہ کیا واقعی یہ درست ہے اور اگر ایسا ہے تو کہیں بعد میں بھارت کے اثر و رسوخ کی وجہ سے اس کے کسی دوست مستقل ممبر نے اس مسئلے کو شیڈول سات سے شیڈول چھ میں منتقل تو نہیں کرا دیا کیونکہ بھارت کشمیر کو ہڑپ کرنے کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے پھر مودی حکومت تو کشمیر کو ہڑپ کرنے کے لیے تمام سابقہ بھارتی حکومتوں سے زیادہ بے چین نظر آتی ہے۔حالانکہ اس وقت اس کی جانب سے کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے لیے جو ظالمانہ اور غیر قانونی اقدامات کیے گئے ہیں بھارتی حزب اختلاف بھی ان کے خلاف ہے۔ وہاں کا دانشور طبقہ بھی سخت احتجاج کر رہا ہے مگر مودی ڈھٹائی کے ساتھ اپنے فیصلے پر قائم ہے۔
آرٹیکل 370 اور 35A کے ہٹائے جانے کا کیس بھارتی سپریم کورٹ میں بھی درج کرایا گیا ہے مگر مودی نواز چیف جسٹس نے اسے سننے سے ہی انکار کردیا ہے مگر جب بھی یہ کیس سنا جائے گا تو فیصلہ مودی کے خلاف ہی آئے گا، تاہم لگتا ہے جب تک مودی کی حکومت برقرار ہے بھارتی سپریم کورٹ مودی کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکے گی۔ بہر حال مودی کی بے وقوفی نے اب کشمیرکی مکمل آزادی کا راستہ ہموارکردیا ہے اس لیے بھی کہ اب بھارت نواز کشمیری سیاسی پارٹیاں بھی بھارت نوازی سے ہاتھ کھینچتی نظر آرہی ہیں اور اگر واقعی ان کی غیرت جاگ گئی تو یقینا تحریک آزادی کشمیر پہلے سے کہیں زیادہ موثر اور طاقتور بن کر ابھرے گی اور پھر بھارتی نو لاکھ فوج بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکے گی۔
ابھی اس وقت بھی حریت کانفرنس کی جانب سے آزادی کی تحریک جاری ہے۔ بھارتی فوج اس سے ہی سخت پریشان ہے۔گوکہ روز ہی کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا جا رہا ہے اور ساتھ ہی پیلٹ گنوں سے حریت پسندوں کو ہی نہیں عام کشمیریوں کو بھی اندھا کیا جا رہا ہے اور خواتین کی بے حرمتی کی جا رہی ہے مگر تحریک آزادی میں ذرا بھی لغزش نہیں آئی ہے۔ وہ 1931 سے لے کر اب تک جاری ہے۔ اب نئی صورتحال میں کشمیریوں کو اپنی جدوجہد کو مزید تیزکرنا ہوگا اور مزید شہادتیں بھی پیش کرنا ہوں گی، اس لیے کہ اب ثابت ہوگیا ہے کہ سلامتی کونسل مسئلہ کشمیر کو حل کرانے سے قاصر ہے اس کے ممبران مصلحتوں کا شکار ہیں جس سے بھارت مسلسل فائدہ اٹھا رہا ہے مگر لگتا ہے اب اقوام متحدہ کا حشر لیگ آف نیشن جیسا ہونے والا ہے۔
فاشسٹ مودی اپنی نازی تنظیم آر ایس ایس کے اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے مغربی طاقتوں کی آنکھ کے تارے اسرائیل کی نقل کرتے ہوئے فلسطین کی طرز پر کشمیریوں کی زمینوں کو ہتھیانہ چاہتا ہے تاکہ غیر کشمیریوں کو وہاں آباد کرکے کشمیریوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرسکے۔ مودی نے کشمیریوں پر مزید ظلم یہ کیا ہے کہ ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔
پاکستان کے لیے کشمیر کی یہ صورتحال انتہائی دردناک ہے اور وہ کشمیریوں کو اس مشکل سے یقینا نجات دلانا چاہتا ہے مگر اس کے لیے جنگ کے سوا چارہ نہیں۔ وہ پہلے ہی کشمیریوں کی آزادی کی خاطر بھارت کی تھوپی گئیں تین جنگوں کا مقابلہ کرچکا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کشمیریوں کو آزاد کرانے کے لیے پہلے ہی ایک بڑی قربانی دے چکا ہے کیا مشرقی پاکستان کا سانحہ مسئلہ کشمیر کا شاخسانہ نہیں تھا؟
1965 کی جنگ کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے گلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت پاکستان نے مشرقی پاکستان کی حفاظت کے لیے کچھ نہیں کیا تھا اس کا سارا زور مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے پر مرکوز تھا۔ اس وقت پاکستان کا کشمیر کی موجودہ صورتحال پر بھارت سے الجھنا انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے البتہ بھارت ضرور اس وقت پاکستان سے جنگ کرنے کا خواہاں نظر آتا ہے۔ کشمیر میں اس نے اس وقت جو جنگی حالات پیدا کیے ہیں اس کی ٹائمنگ قابل غور ہے۔ وہ افغان جنگ کے خلاف ہے اس لیے کہ اس جنگ کے جاری رہنے میں اس کا فائدہ ہے۔
ایک طرف وہ وہاں کامیاب تجارت کر رہا ہے تو دوسری طرف وہاں سے پاکستان کے خلاف مسلسل دہشت گردی میں مصروف ہے اسے ڈر ہے کہ افغان مسئلے کے حل ہونے کے بعد طالبان اسے افغانستان سے نکال دیں گے جس سے اس کے پاکستان کے خلاف سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اسے یہ بھی خدشہ ہے کہ پھر طالبان کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کامیاب بنانے میں بھی مدد کرسکتے ہیں حالانکہ یہ اس کی خام خیالی ہے طالبان نے نہ پہلے کبھی کشمیر میں مداخلت کی اور نہ آیندہ ایسا ہوگا یہ دراصل بھارت کا کشمیریوں کی تحریک آزادی کو بدنام کرنے کا ایک حربہ ہے۔
چنانچہ پاکستان اس وقت افغان امن عمل کو کسی طرح نقصان نہیں پہنچانا چاہتا جب کہ بھارت پاکستان سے جنگ کرکے خطے کی صورتحال کو اتنا خراب کرنا چاہتا ہے کہ افغان مسئلہ بھی الجھ جائے اور جنگ کی گھن گرج میں کشمیر کا مسئلہ بھی دب جائے۔
مودی کا یہ جنگی جنون صدر ٹرمپ کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں۔ اگر ٹرمپ واقعی افغان مسئلے کو جلدازجلد حل کرنا چاہتے ہیں تو پھر انھیں مودی کو لگام دینا ہوگی۔ خطے کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مودی کو کشمیریوں کے بنیادی حقوق بحال کرنے اور مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی جانب راغب کرنا ہوگا۔
دراصل ایسا تو ہونا ہی تھا، اس لیے کہ یہ مسئلہ تو پہلے سے ہی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے اور حل طلب مسائل کی فہرست میں سب سے اوپر ہے مگر افسوس کہ نہ پہلے سلامتی کونسل بھارت کو اس مسئلے کو حل کرنے پر مجبورکرسکی اور نہ اب اسے مجبورکیا جاسکا۔ مزید افسوس اس بات پر ہے کہ ممبران کے متفقہ فیصلے کا سلامتی کونسل کی طرف سے کوئی مشترکہ اعلامیہ بھی جاری نہیں کیا گیا۔
فیصلے کی تفصیل چینی سفیرکے ذریعے ہم تک پہنچی۔کہا جا رہا ہے کہ پانچ مستقل ممبران میں سے فرانس نے پوری بحث میں بھارت کا ساتھ دیا اور اس مسئلے پر مزید بحث کو آگے نہیں بڑھنے دیا۔ فرانس نے ایسا کیوں کیا اس کی وجہ واضح ہے کہ وہ اپنے رفائل جنگی جہاز بھارت کو فروخت کرنے کا معاہدہ کرچکا ہے وہ اپنے گاہک کو ناراض کرنا نہیں چاہتا۔اسی طرح لگتا ہے امریکا اور برطانیہ نے بھی بھارت سے اپنے مالی مفادات کے پیش نظر کشمیر کے مسئلے پر وہ جوش اور ولولہ نہیں دکھایا جو انھوں نے تیمور اور جنوبی سوڈان کے عیسائی عوام کے لیے انڈونیشیا اور سوڈان سے کاٹ کر ان کے علیحدہ آزاد ممالک بنانے کے لیے دکھایا تھا۔
البتہ روس جو ماضی میں بھارت کا ساتھ دیتا رہا تھا، اس مرتبہ اس نے غیر جانبداری سے کام لیا اس کی وجہ بھارت کی اس سے بے وفائی کے علاوہ پاکستان سے اس کی بڑھتی ہوئی قربت ہے پھر اس نے چین سے اپنی دوستی کا بھی پاس رکھا۔
بہرحال ہم پاکستانیوں کو سلامتی کونسل سے یہ گلہ ہے کہ اس نے بھارت کو کشمیر سے اپنی فوجیں نکالنے اور وہاں موجود مارشل لا جیسی کیفیت کو ختم کرنے کا حکم کیوں نہیں دیا تو اس کا ماہرین یہ جواب دے رہے ہیں چونکہ مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل میں شیڈول چھ کے تحت درج کیا گیا تھا جس کے تحت غاصب ملک پر زبردستی نہیں کی جاسکتی چنانچہ حسب سابق اس دفعہ بھی سلامتی کونسل نے بھارت کو کوئی سخت پیغام نہیں دیا حتیٰ کہ کرفیو تک اٹھانے کی ہدایت نہیں کی۔
اب اصل میں یہ بات تحقیق طلب ہے کہ کیا واقعی یہ درست ہے اور اگر ایسا ہے تو کہیں بعد میں بھارت کے اثر و رسوخ کی وجہ سے اس کے کسی دوست مستقل ممبر نے اس مسئلے کو شیڈول سات سے شیڈول چھ میں منتقل تو نہیں کرا دیا کیونکہ بھارت کشمیر کو ہڑپ کرنے کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے پھر مودی حکومت تو کشمیر کو ہڑپ کرنے کے لیے تمام سابقہ بھارتی حکومتوں سے زیادہ بے چین نظر آتی ہے۔حالانکہ اس وقت اس کی جانب سے کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے لیے جو ظالمانہ اور غیر قانونی اقدامات کیے گئے ہیں بھارتی حزب اختلاف بھی ان کے خلاف ہے۔ وہاں کا دانشور طبقہ بھی سخت احتجاج کر رہا ہے مگر مودی ڈھٹائی کے ساتھ اپنے فیصلے پر قائم ہے۔
آرٹیکل 370 اور 35A کے ہٹائے جانے کا کیس بھارتی سپریم کورٹ میں بھی درج کرایا گیا ہے مگر مودی نواز چیف جسٹس نے اسے سننے سے ہی انکار کردیا ہے مگر جب بھی یہ کیس سنا جائے گا تو فیصلہ مودی کے خلاف ہی آئے گا، تاہم لگتا ہے جب تک مودی کی حکومت برقرار ہے بھارتی سپریم کورٹ مودی کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکے گی۔ بہر حال مودی کی بے وقوفی نے اب کشمیرکی مکمل آزادی کا راستہ ہموارکردیا ہے اس لیے بھی کہ اب بھارت نواز کشمیری سیاسی پارٹیاں بھی بھارت نوازی سے ہاتھ کھینچتی نظر آرہی ہیں اور اگر واقعی ان کی غیرت جاگ گئی تو یقینا تحریک آزادی کشمیر پہلے سے کہیں زیادہ موثر اور طاقتور بن کر ابھرے گی اور پھر بھارتی نو لاکھ فوج بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکے گی۔
ابھی اس وقت بھی حریت کانفرنس کی جانب سے آزادی کی تحریک جاری ہے۔ بھارتی فوج اس سے ہی سخت پریشان ہے۔گوکہ روز ہی کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا جا رہا ہے اور ساتھ ہی پیلٹ گنوں سے حریت پسندوں کو ہی نہیں عام کشمیریوں کو بھی اندھا کیا جا رہا ہے اور خواتین کی بے حرمتی کی جا رہی ہے مگر تحریک آزادی میں ذرا بھی لغزش نہیں آئی ہے۔ وہ 1931 سے لے کر اب تک جاری ہے۔ اب نئی صورتحال میں کشمیریوں کو اپنی جدوجہد کو مزید تیزکرنا ہوگا اور مزید شہادتیں بھی پیش کرنا ہوں گی، اس لیے کہ اب ثابت ہوگیا ہے کہ سلامتی کونسل مسئلہ کشمیر کو حل کرانے سے قاصر ہے اس کے ممبران مصلحتوں کا شکار ہیں جس سے بھارت مسلسل فائدہ اٹھا رہا ہے مگر لگتا ہے اب اقوام متحدہ کا حشر لیگ آف نیشن جیسا ہونے والا ہے۔
فاشسٹ مودی اپنی نازی تنظیم آر ایس ایس کے اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے مغربی طاقتوں کی آنکھ کے تارے اسرائیل کی نقل کرتے ہوئے فلسطین کی طرز پر کشمیریوں کی زمینوں کو ہتھیانہ چاہتا ہے تاکہ غیر کشمیریوں کو وہاں آباد کرکے کشمیریوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرسکے۔ مودی نے کشمیریوں پر مزید ظلم یہ کیا ہے کہ ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔
پاکستان کے لیے کشمیر کی یہ صورتحال انتہائی دردناک ہے اور وہ کشمیریوں کو اس مشکل سے یقینا نجات دلانا چاہتا ہے مگر اس کے لیے جنگ کے سوا چارہ نہیں۔ وہ پہلے ہی کشمیریوں کی آزادی کی خاطر بھارت کی تھوپی گئیں تین جنگوں کا مقابلہ کرچکا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کشمیریوں کو آزاد کرانے کے لیے پہلے ہی ایک بڑی قربانی دے چکا ہے کیا مشرقی پاکستان کا سانحہ مسئلہ کشمیر کا شاخسانہ نہیں تھا؟
1965 کی جنگ کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے گلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت پاکستان نے مشرقی پاکستان کی حفاظت کے لیے کچھ نہیں کیا تھا اس کا سارا زور مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے پر مرکوز تھا۔ اس وقت پاکستان کا کشمیر کی موجودہ صورتحال پر بھارت سے الجھنا انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے البتہ بھارت ضرور اس وقت پاکستان سے جنگ کرنے کا خواہاں نظر آتا ہے۔ کشمیر میں اس نے اس وقت جو جنگی حالات پیدا کیے ہیں اس کی ٹائمنگ قابل غور ہے۔ وہ افغان جنگ کے خلاف ہے اس لیے کہ اس جنگ کے جاری رہنے میں اس کا فائدہ ہے۔
ایک طرف وہ وہاں کامیاب تجارت کر رہا ہے تو دوسری طرف وہاں سے پاکستان کے خلاف مسلسل دہشت گردی میں مصروف ہے اسے ڈر ہے کہ افغان مسئلے کے حل ہونے کے بعد طالبان اسے افغانستان سے نکال دیں گے جس سے اس کے پاکستان کے خلاف سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اسے یہ بھی خدشہ ہے کہ پھر طالبان کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کامیاب بنانے میں بھی مدد کرسکتے ہیں حالانکہ یہ اس کی خام خیالی ہے طالبان نے نہ پہلے کبھی کشمیر میں مداخلت کی اور نہ آیندہ ایسا ہوگا یہ دراصل بھارت کا کشمیریوں کی تحریک آزادی کو بدنام کرنے کا ایک حربہ ہے۔
چنانچہ پاکستان اس وقت افغان امن عمل کو کسی طرح نقصان نہیں پہنچانا چاہتا جب کہ بھارت پاکستان سے جنگ کرکے خطے کی صورتحال کو اتنا خراب کرنا چاہتا ہے کہ افغان مسئلہ بھی الجھ جائے اور جنگ کی گھن گرج میں کشمیر کا مسئلہ بھی دب جائے۔
مودی کا یہ جنگی جنون صدر ٹرمپ کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں۔ اگر ٹرمپ واقعی افغان مسئلے کو جلدازجلد حل کرنا چاہتے ہیں تو پھر انھیں مودی کو لگام دینا ہوگی۔ خطے کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مودی کو کشمیریوں کے بنیادی حقوق بحال کرنے اور مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی جانب راغب کرنا ہوگا۔