صرف کراچی کے ٹیکس گزاروں کو نچوڑنے کی پالیسیوں پر تحفظات
ایماندارٹیکس دہندگان کوہراساں نہیں کیاجانا چاہیے،ٹیکس کی شرح میں اضافہ محصولات میں اضافے کادرست حل نہیں،صدرکراچی چیمبر
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر جنید اسماعیل ماکڈا نے صرف کراچی کے ٹیکس دہندگان کو نچوڑ کر محصولات میں اضافے کی پالیسیوں پر شک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔
کے سی سی آئی کے صدر جنید اسماعیل ماکڈا نے وزیراعظم عمران خان کے محصولات کی وصولی کو بہتر بنانے کے عزائم کو سراہا ہے تاہم ایف بی آر جوکہ ملک بھر سے محصولات میں اضافے کے لیے پالیسیوں پر عمل درآمد کی کاپابند ہے کی جانب سے صرف کراچی کے ٹیکس دہندگان کو نچوڑ کر محصولات میں اضافے کی پالیسیوں پر شک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پورے پاکستان کو ان پالیسیوں سے استثنیٰ حاصل ہے۔
ایف بی آر کراچی کے موجودہ ٹیکس دہندگان کو مزید نچوڑ کر اپنے محصولات کے اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے جو پہلے ہی قومی خزانے میں 70فیصد سے زائد ریونیو جمع کرواتے ہیں جبکہ اس قسم کی سرگرمیاں کسی دوسرے شہر یا صوبے میں نظر نہیں آتیں۔ہم کراچی میں ٹیکس چوروں سے سختی سے نمٹنے کے لیے کارروائی کے خلاف نہیں جنھیں لازمی طور پر ٹیکس نیٹ میں لانا چاہیے مگر ملک کے دیگر علاقوں کے ٹیکس چوروں کو بھی ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کے اقدام کیے جائیں تاہم ایماندار ٹیکس دہندگان کو ہراساں نہیں کیا جانا چاہیے اور نہ ہی بھاری ٹیکسوں کا بوجھ لادنا چاہیے۔
انھوں نے ملک کے ہر حصے اور کونے میں پالیسیوں پر سختی سے عمل درآمد کرنے پر بھی زور دیا۔انھوں نے کہاکہ ٹیکس کی شرح میں اضافہ محصولات میں اضافے کا درست حل نہیں کیونکہ اس سے صنعتوں کی توسیع اور فروغ کی حوصلہ شکنی ہوگی البتہ اصل حل ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے میں ہے جس کے نتیجے میں ٹیکس کا بوجھ تقسیم ہو گا اور ٹیکس کی شرح میں کمی واقع ہو گی۔اس سے یقینی طور پر تاجروصنعتکار برادری کی اپنی سرگرمیوں کو توسیع دینے کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
جنید ماکڈا نے کہاکہ ان اقدام کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ پیداوار،شاندار فروخت،محصولات کی وصولی میں اضافہ، عوام کو وسیع پیمانے پر روزگار کی فراہمی، غربت کا خاتمہ اور ملک بھر میں طویل مدتی خوشحالی آئے گی۔
انھوں نے کہاکہ درآمدی، ریگولیٹری ڈیوٹی، ڈالر کی قدر میں اضافے اور ٹیکسوں کی بھرمار وغیرہ کی وجہ سے کاروباری لاگت پہلے ہی بہت زیادہ ہوچکی ہے جبکہ کئی صنعتوں کے لیے اپنی پیداواری سرگرمیاں جاری رکھنا دشوار ہو گیاہے جبکہ ایسی صنعتیں جو اپنی بقا کسی طریقے سے قائم رکھے ہوئے ہیں ان کا پاس کوئی اور راستہ نہیں ماسوا اس کے کہ وہ ٹیکسوں کا بوجھ صارفین پرمنتقل کردیں جس کی وجہ سے ہر جگہ ہی مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
جنید ماکڈا نے زور دیتے ہوئے کہاکہ حکومت کو معیشت کی سپلائی سائیڈ پر عمل کرنا پڑے گا جہاں نمو کے ذریعے زیادہ محصولات حاصل ہوتی ہیں اور صارفین کے لیے قیمتوں میں کم کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکسوں میں بھی کمی کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں نمو میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا اور محصولات پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ٹیکسوں میں اضافے سے ترقی واپس نیچے آنا شروع ہوجاتی ہے اور بلآخر پہلے حاصل کیا گیا ریونیو بھی گھٹ کر رہ جائے گاجبکہ زائد ٹیکسز چوری کی ترغیب دیتے ہیں۔
کے سی سی آئی کے صدر نے وزیراعظم عمران خان سے درخواست کی کہ وہ ٹیکس کے دائرہ کار میں اضافے اور متعلقہ پالیسیوں کے ملک بھر میں نفاذ کو یقینی بنانے کے سلسلے میں احکام جاری کریں جس سے یقینی طور پر مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔
جنیدماکڈا نے کہاکہ ہم جانتے ہیں کہ اس وقت ملک کو اضافی محصولات کی اشد ضرورت ہے لیکن اس بات کا تدارک ہونا چاہیے کہ محصولات صرف نئے وسائل سے حاصل کیے جانے چاہیے اور اگر پرانے وسائل سے لیے بھی جائیں تو اسے درست اورکم ترین شرح پر رکھنا چاہیے تاکہ ہزاروں افراد کو اس جانب راغب کیا جاسکے ۔انھوں نے کہاکہ ہر شعبے میں ہی بھاری ٹیکس عائد کر دیے گئے ہیں اور اس اضافی بوجھ نے کاوربار اور نمو کو بری طرح متاثر کیا ہے جو کہ پہلے ہی زوال پذیر ہیں ۔
کے سی سی آئی کے صدر جنید اسماعیل ماکڈا نے وزیراعظم عمران خان کے محصولات کی وصولی کو بہتر بنانے کے عزائم کو سراہا ہے تاہم ایف بی آر جوکہ ملک بھر سے محصولات میں اضافے کے لیے پالیسیوں پر عمل درآمد کی کاپابند ہے کی جانب سے صرف کراچی کے ٹیکس دہندگان کو نچوڑ کر محصولات میں اضافے کی پالیسیوں پر شک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پورے پاکستان کو ان پالیسیوں سے استثنیٰ حاصل ہے۔
ایف بی آر کراچی کے موجودہ ٹیکس دہندگان کو مزید نچوڑ کر اپنے محصولات کے اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے جو پہلے ہی قومی خزانے میں 70فیصد سے زائد ریونیو جمع کرواتے ہیں جبکہ اس قسم کی سرگرمیاں کسی دوسرے شہر یا صوبے میں نظر نہیں آتیں۔ہم کراچی میں ٹیکس چوروں سے سختی سے نمٹنے کے لیے کارروائی کے خلاف نہیں جنھیں لازمی طور پر ٹیکس نیٹ میں لانا چاہیے مگر ملک کے دیگر علاقوں کے ٹیکس چوروں کو بھی ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کے اقدام کیے جائیں تاہم ایماندار ٹیکس دہندگان کو ہراساں نہیں کیا جانا چاہیے اور نہ ہی بھاری ٹیکسوں کا بوجھ لادنا چاہیے۔
انھوں نے ملک کے ہر حصے اور کونے میں پالیسیوں پر سختی سے عمل درآمد کرنے پر بھی زور دیا۔انھوں نے کہاکہ ٹیکس کی شرح میں اضافہ محصولات میں اضافے کا درست حل نہیں کیونکہ اس سے صنعتوں کی توسیع اور فروغ کی حوصلہ شکنی ہوگی البتہ اصل حل ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے میں ہے جس کے نتیجے میں ٹیکس کا بوجھ تقسیم ہو گا اور ٹیکس کی شرح میں کمی واقع ہو گی۔اس سے یقینی طور پر تاجروصنعتکار برادری کی اپنی سرگرمیوں کو توسیع دینے کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
جنید ماکڈا نے کہاکہ ان اقدام کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ پیداوار،شاندار فروخت،محصولات کی وصولی میں اضافہ، عوام کو وسیع پیمانے پر روزگار کی فراہمی، غربت کا خاتمہ اور ملک بھر میں طویل مدتی خوشحالی آئے گی۔
انھوں نے کہاکہ درآمدی، ریگولیٹری ڈیوٹی، ڈالر کی قدر میں اضافے اور ٹیکسوں کی بھرمار وغیرہ کی وجہ سے کاروباری لاگت پہلے ہی بہت زیادہ ہوچکی ہے جبکہ کئی صنعتوں کے لیے اپنی پیداواری سرگرمیاں جاری رکھنا دشوار ہو گیاہے جبکہ ایسی صنعتیں جو اپنی بقا کسی طریقے سے قائم رکھے ہوئے ہیں ان کا پاس کوئی اور راستہ نہیں ماسوا اس کے کہ وہ ٹیکسوں کا بوجھ صارفین پرمنتقل کردیں جس کی وجہ سے ہر جگہ ہی مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
جنید ماکڈا نے زور دیتے ہوئے کہاکہ حکومت کو معیشت کی سپلائی سائیڈ پر عمل کرنا پڑے گا جہاں نمو کے ذریعے زیادہ محصولات حاصل ہوتی ہیں اور صارفین کے لیے قیمتوں میں کم کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکسوں میں بھی کمی کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں نمو میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا اور محصولات پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ٹیکسوں میں اضافے سے ترقی واپس نیچے آنا شروع ہوجاتی ہے اور بلآخر پہلے حاصل کیا گیا ریونیو بھی گھٹ کر رہ جائے گاجبکہ زائد ٹیکسز چوری کی ترغیب دیتے ہیں۔
کے سی سی آئی کے صدر نے وزیراعظم عمران خان سے درخواست کی کہ وہ ٹیکس کے دائرہ کار میں اضافے اور متعلقہ پالیسیوں کے ملک بھر میں نفاذ کو یقینی بنانے کے سلسلے میں احکام جاری کریں جس سے یقینی طور پر مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔
جنیدماکڈا نے کہاکہ ہم جانتے ہیں کہ اس وقت ملک کو اضافی محصولات کی اشد ضرورت ہے لیکن اس بات کا تدارک ہونا چاہیے کہ محصولات صرف نئے وسائل سے حاصل کیے جانے چاہیے اور اگر پرانے وسائل سے لیے بھی جائیں تو اسے درست اورکم ترین شرح پر رکھنا چاہیے تاکہ ہزاروں افراد کو اس جانب راغب کیا جاسکے ۔انھوں نے کہاکہ ہر شعبے میں ہی بھاری ٹیکس عائد کر دیے گئے ہیں اور اس اضافی بوجھ نے کاوربار اور نمو کو بری طرح متاثر کیا ہے جو کہ پہلے ہی زوال پذیر ہیں ۔