کشمیر اورہماری خارجہ پالیسی
مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا کر بھارتی حکومت حالات پر قابو حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے
اب وہ لوگ ناپید ہوچکے ہیں، جو اپنے آپ کو نظریاتی قرار دے کر آرام اورآسائشوں کی زندگی ترک کرتے ہیں اور بڑی سے بڑی قربانی کو خوش ہوکر سہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، ورنہ آج اصول اور نظریہ کو مفادات کے ساتھ تبدیل کرنا ہی سیاست اوردانشمندی تصورکی جاتی ہے۔
آج کی ترقی یافتہ دنیا میں ممالک کی آپس کی قربتوں اور فاصلوں کا انحصار ان کے تجارتی اور معاشی مفادات پرہوتا ہے، یہی سکہ رائج الوقت ہے۔ اسی اصول کی بنیاد پر جب ہم اپنے علاقائی اور عالمی تعلقات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ماضی میں ہمیں اس کی زیادہ پرواہ اس لیے نہیں رہی کیونکہ ہم سرد جنگ کے زمانے میں روس کے خلاف امریکا اور مغربی دنیا کی ضرورت رہے اور دنیا ہمارے ہر طرح کے مفادات کا خیال رکھتی رہی، سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا اور مغربی دنیا کے نزدیک افغانستان میں پناہ گزیں عالمی دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے قائم کیے گئے اتحاد کی ہم ایک بار پھر ضرورت بن گئے اس طرح ایک مرتبہ پھر دنیا نے ہمارے ہر طرح کے مفادات کا خوب خیال رکھا لیکن ہم نے معاشی طور پر اپنے آپ کوکمزور اور غیر مستحکم ہی رکھا۔ ہم اپنی جغرافیائی حیثیت اور اس کی اہمیت کو ہی اپنی معاشی پالیسی تصورکرتے رہے۔ ہم نے اپنی قومی زندگی کے تقریباً 70برس پرائی لڑائیوں کی نذرکردیے اور آج جب دنیا کو ہماری اس طرح کی ضرورت نہیں رہی اور دنیا نے ہم سے آنکھیں پھیر لیں تو ہم علاقائی اور عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہوگئے جس کی ایک واضح مثال مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قبضہ اور اس پر علاقائی اور عالمی خاموشی ہے۔
ابھی چند ہفتے قبل وزیر اعظم پاکستان کے کامیاب دورہ امریکا کی بازگشت ختم بھی نہیں ہوئی تھی ،ابھی تو وزیر اعظم کو مبارکبا دیں ہی پیش کی جا رہی تھیں اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی پیش کش کو پاکستان کی سفارتی کامیابی اور بھارت کی عالمی تنہائی سے تعبیر کیا جا رہا تھا کہ اچانک 5اگست2019کو بھارت نے اپنے آئین سے صدارتی حکم نامے کے ذریعے ان دو آئینی شقوں کا خاتمہ کر دیا جس کی بنیاد پر کشمیر کو خصوصی اہمیت حاصل تھی اور خود بھارت نے اسے ایک متنازعہ علاقہ تسلیم کیا تھا۔اس حکم نامے کے بعد مقبوضہ کشمیر بھارت کا حصہ اور ایک غیر متنازعہ علاقہ قرار دے دیا گیا ہے۔
بھارت کے اس اقدام پر مقبوضہ کشمیر میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے،اس روز سے پورا علاقہ سراپا احتجاج ہے۔کئی روز گزر جانے کے باوجود پورے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا کر بھارتی حکومت حالات پر قابو حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
مقبوضہ کشمیر پر ہمارا موقف فوری طور پر عالمی پذیرائی حاصل کرنے میں ناکام رہا ۔ وہ امریکی صدر جنہوں نے ابھی محض چند ہفتہ قبل کشمیرکے مسئلہ کے حل کے لیے اپنی ثالثی کی پیش کش کی تھی اب بھارتی اقدام کے خلاف کوئی دو ٹوک بیان تک دینے کو تیار نہ تھے، آخرکار 16اگست وزیراعظم پاکستان سے ٹیلیفونک رابطہ پرانھوں نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ممالک سے پرامن طور پر مسئلہ کشمیر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا جب کہ امریکی محکمہ خارجہ سے جو فوری ریاستی موقف سامنے آیا وہ ہمارے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہے کیونکہ امریکا کے محکمہ خارجہ نے کہا کہ انھوں نے بھارت کے اس اقدام کا جائزہ لیا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔
چین نے اس بھارتی اقدام پرکوئی غیر معمولی ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا البتہ لداخ پر اپنی تشویش کا اظہارکیا اور ہمارے وزیرخارجہ کے دورہ چین کے موقعے پر انھوں نے اس بات کا ضرور عندیہ دیا کہ وہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا اجلاس طلب کر کے اس مسئلے کو وہاں پیش کریں گے۔انھوں نے اپنے کہے کے مطابق عمل بھی کیا اور بلاآخر ان کی کوششیںبارآور ہوئیں اور 16اگست کو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا جس میں 15ممالک نے حصہ لیا۔ بعد ازاں اقوام متحدہ میں چین کے مستقل مندوب نے پریس بریفنگ میں کہا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی چارٹرڈ اور دونوں ممالک کے درمیان کیے گئے معاہدوں کی روشنی میں کرنے پر زور دیا گیا ہے۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ مقبوضہ کشمیرکی حیثیت کی تبدیلی سے علاقے میں کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔
بھارت کے اس اقدام نے چین کی خود مختاری کو چیلنج کیا ہے۔ چین، پاکستان اور بھارت پڑوسی ممالک ہیں جو ترقی کے دوراہے پر ہیں ہم سب ترقی پزیر ممالک ہیں ہمیں اپنی تمام تر توجہ اپنی ترقی پر مرکوز رکھنی چاہیے۔ انھوں نے دونوں ممالک سے پر امن رہنے کی اپیل کی اور یکطرفہ اقدام سے گریزکرنے پر زور دیا۔ ہمارے وزیر خارجہ نے اپنا یہ بیان دے کر پوری قوم کو مزید حیران کر دیا کہ دنیا اور اسلامی امہ کے ممالک کے چونکہ بھارت سے بہت زیادہ تجارتی اور معاشی مفادات وابستہ ہیں لہذا اسلامی ممالک اور دنیا کے کئی ملک بھارت کے خلاف کوئی واضع موقف اختیارکرنے سے گریزاں ہیں ۔
ہمارے وزیر خارجہ نے گزشتہ دنوں آزاد کشمیر کے دورے کے موقع پر وہاں کے صدر سردار مسعود خان کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پوری قوم کو احمقوں کی جنت میں نہ رہنے کا مشورہ دیا اور باخبر کرتے ہوئے بتایا کہ نہ تو پاکستان سیکیورٹی کونسل کا مستقل رکن ہے اور نہ وہاں کوئی ہار لے کر ہمارے استقبال کے لیے منتظر کھڑا ہے بلکہ سیکیورٹی کونسل کے 5مستقل اراکین میںسے کوئی ملک بھی رکاوٹ بن سکتا ہے ۔ یہ ہے ہماری خود ساختہ اور کامیاب خارجہ پالیسی کا حال کہ امریکی صدر نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی لیکن جب مقبوضہ کشمیر پر بھارت نے قبضہ کیا تو ہماری حمایت تو درکنار کوئی مذمتی بیان تک جاری نہیں کیا ۔ پڑوسی ممالک اور خطے کے ممالک میں سے کس نے مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط کے خلاف پاکستان کے اصولی موقف کی حمایت کی ؟ اسلامی امہ سے اس اہم مسئلے پر کیا ردعمل دیکھنے کو ملا ہاں 16اگست کو ضرور OICنے مقبوضہ کشمیر سے فوری کرفیواٹھانے کا مطالبہ کیا ہے جب کہ جون میں مکہ میں ہونے والی OICکانفرنس کے ڈیکلریشن میں تنازعہ کشمیر پر ایک لفظ بھی شامل نہیں کیا گیا تھا۔
ملک کے اہل علم و دانش نے اسی موقعے پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو یہ باورکروانے کی کوشش کی تھی کہ مسئلہ کشمیرکو صحیح طور پر عالمی سطح پر اجاگرکیا جائے لیکن افسوس کہ حکومت نے اس تجویزکو اپنے اوپر تنقید تصورکیا اور اسے قابل توجہ نہ سمجھا، نتیجہ آج پوری قوم کے سامنے ہے۔
لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد کا درجہ دے دیا گیا لیکن اقوام متحدہ کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ ہماری خارجہ پالیسی کا محور 72سالہ دیرینہ تنازعہ کشمیر بقول بابائے قوم ہماری شہ رگ آج بھارت نے کاٹ دی ہے اور ہم بے بسی کے عالم میں دنیا کی توجہ حاصل کرنے میں بھی پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے۔ ہمیں اس مرحلے پر اس امر کا بھی ضرور جائزہ لینا چاہیے کہ آخر اب ایسا کیا ہوا کہ بھارت کے حکمرانوں کو اتنی جرآت حاصل ہوگئی کہ انھوں نے کشمیرکے دیرینہ مسئلے کو نتائج کی پرواہ کیے بغیر جیسا چاہا اپنی خواہش کے مطابق حل کر لیا ۔ یہ وہی حل ہے جس کی بازگشت دو عشرہ قبل اس وقت سننے کو ملی تھی جب پاکستان پر جنرل پرویز مشرف کی حکومت قابض تھی اور بھارت میں من موہن سنگھ حکومت میں تھے۔اس فارمولہ پر ان دونوں رہنماؤں کے درمیان اتفاق رائے کرلیا گیا تھا۔
آج امریکی صدرکی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کے بعد اچانک بھارت کا مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے بھارت کا حصہ قرار دینا، اسی منصوبے کا حصہ محسوس ہوتا ہے۔گمان کیا جاتا ہے کہ اب پاکستان کی جانب سے مزید شورشرابے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی پیشکش کے مطابق خطے میں امن کی خواہش کے ساتھ آگے بڑھیں گے اور دونوں ریاستوں کے درمیان اسی فارمولے پر ثالثی کروا دیں گے کہ لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد تسلیم کرلیا جائے، مقبوضہ کشمیر بھارت کے پاس ہی رہے اور آزاد کشمیر پاکستان کا حصہ تسلیم کرلیا جائے۔ بھارت ساری دنیا پر احسان کرتے ہوئے امن کی خاطر اس فارمولے کو مان لے گا اور ہم بھی اسے اپنی کامیابی قراردیںگے۔کیا ایسا ہوگا،اس کا فیصلہ بھی جلد ہو جائے گا۔
آج کی ترقی یافتہ دنیا میں ممالک کی آپس کی قربتوں اور فاصلوں کا انحصار ان کے تجارتی اور معاشی مفادات پرہوتا ہے، یہی سکہ رائج الوقت ہے۔ اسی اصول کی بنیاد پر جب ہم اپنے علاقائی اور عالمی تعلقات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ماضی میں ہمیں اس کی زیادہ پرواہ اس لیے نہیں رہی کیونکہ ہم سرد جنگ کے زمانے میں روس کے خلاف امریکا اور مغربی دنیا کی ضرورت رہے اور دنیا ہمارے ہر طرح کے مفادات کا خیال رکھتی رہی، سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا اور مغربی دنیا کے نزدیک افغانستان میں پناہ گزیں عالمی دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے قائم کیے گئے اتحاد کی ہم ایک بار پھر ضرورت بن گئے اس طرح ایک مرتبہ پھر دنیا نے ہمارے ہر طرح کے مفادات کا خوب خیال رکھا لیکن ہم نے معاشی طور پر اپنے آپ کوکمزور اور غیر مستحکم ہی رکھا۔ ہم اپنی جغرافیائی حیثیت اور اس کی اہمیت کو ہی اپنی معاشی پالیسی تصورکرتے رہے۔ ہم نے اپنی قومی زندگی کے تقریباً 70برس پرائی لڑائیوں کی نذرکردیے اور آج جب دنیا کو ہماری اس طرح کی ضرورت نہیں رہی اور دنیا نے ہم سے آنکھیں پھیر لیں تو ہم علاقائی اور عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہوگئے جس کی ایک واضح مثال مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قبضہ اور اس پر علاقائی اور عالمی خاموشی ہے۔
ابھی چند ہفتے قبل وزیر اعظم پاکستان کے کامیاب دورہ امریکا کی بازگشت ختم بھی نہیں ہوئی تھی ،ابھی تو وزیر اعظم کو مبارکبا دیں ہی پیش کی جا رہی تھیں اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی پیش کش کو پاکستان کی سفارتی کامیابی اور بھارت کی عالمی تنہائی سے تعبیر کیا جا رہا تھا کہ اچانک 5اگست2019کو بھارت نے اپنے آئین سے صدارتی حکم نامے کے ذریعے ان دو آئینی شقوں کا خاتمہ کر دیا جس کی بنیاد پر کشمیر کو خصوصی اہمیت حاصل تھی اور خود بھارت نے اسے ایک متنازعہ علاقہ تسلیم کیا تھا۔اس حکم نامے کے بعد مقبوضہ کشمیر بھارت کا حصہ اور ایک غیر متنازعہ علاقہ قرار دے دیا گیا ہے۔
بھارت کے اس اقدام پر مقبوضہ کشمیر میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے،اس روز سے پورا علاقہ سراپا احتجاج ہے۔کئی روز گزر جانے کے باوجود پورے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا کر بھارتی حکومت حالات پر قابو حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
مقبوضہ کشمیر پر ہمارا موقف فوری طور پر عالمی پذیرائی حاصل کرنے میں ناکام رہا ۔ وہ امریکی صدر جنہوں نے ابھی محض چند ہفتہ قبل کشمیرکے مسئلہ کے حل کے لیے اپنی ثالثی کی پیش کش کی تھی اب بھارتی اقدام کے خلاف کوئی دو ٹوک بیان تک دینے کو تیار نہ تھے، آخرکار 16اگست وزیراعظم پاکستان سے ٹیلیفونک رابطہ پرانھوں نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ممالک سے پرامن طور پر مسئلہ کشمیر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا جب کہ امریکی محکمہ خارجہ سے جو فوری ریاستی موقف سامنے آیا وہ ہمارے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہے کیونکہ امریکا کے محکمہ خارجہ نے کہا کہ انھوں نے بھارت کے اس اقدام کا جائزہ لیا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔
چین نے اس بھارتی اقدام پرکوئی غیر معمولی ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا البتہ لداخ پر اپنی تشویش کا اظہارکیا اور ہمارے وزیرخارجہ کے دورہ چین کے موقعے پر انھوں نے اس بات کا ضرور عندیہ دیا کہ وہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا اجلاس طلب کر کے اس مسئلے کو وہاں پیش کریں گے۔انھوں نے اپنے کہے کے مطابق عمل بھی کیا اور بلاآخر ان کی کوششیںبارآور ہوئیں اور 16اگست کو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا جس میں 15ممالک نے حصہ لیا۔ بعد ازاں اقوام متحدہ میں چین کے مستقل مندوب نے پریس بریفنگ میں کہا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی چارٹرڈ اور دونوں ممالک کے درمیان کیے گئے معاہدوں کی روشنی میں کرنے پر زور دیا گیا ہے۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ مقبوضہ کشمیرکی حیثیت کی تبدیلی سے علاقے میں کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔
بھارت کے اس اقدام نے چین کی خود مختاری کو چیلنج کیا ہے۔ چین، پاکستان اور بھارت پڑوسی ممالک ہیں جو ترقی کے دوراہے پر ہیں ہم سب ترقی پزیر ممالک ہیں ہمیں اپنی تمام تر توجہ اپنی ترقی پر مرکوز رکھنی چاہیے۔ انھوں نے دونوں ممالک سے پر امن رہنے کی اپیل کی اور یکطرفہ اقدام سے گریزکرنے پر زور دیا۔ ہمارے وزیر خارجہ نے اپنا یہ بیان دے کر پوری قوم کو مزید حیران کر دیا کہ دنیا اور اسلامی امہ کے ممالک کے چونکہ بھارت سے بہت زیادہ تجارتی اور معاشی مفادات وابستہ ہیں لہذا اسلامی ممالک اور دنیا کے کئی ملک بھارت کے خلاف کوئی واضع موقف اختیارکرنے سے گریزاں ہیں ۔
ہمارے وزیر خارجہ نے گزشتہ دنوں آزاد کشمیر کے دورے کے موقع پر وہاں کے صدر سردار مسعود خان کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پوری قوم کو احمقوں کی جنت میں نہ رہنے کا مشورہ دیا اور باخبر کرتے ہوئے بتایا کہ نہ تو پاکستان سیکیورٹی کونسل کا مستقل رکن ہے اور نہ وہاں کوئی ہار لے کر ہمارے استقبال کے لیے منتظر کھڑا ہے بلکہ سیکیورٹی کونسل کے 5مستقل اراکین میںسے کوئی ملک بھی رکاوٹ بن سکتا ہے ۔ یہ ہے ہماری خود ساختہ اور کامیاب خارجہ پالیسی کا حال کہ امریکی صدر نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی لیکن جب مقبوضہ کشمیر پر بھارت نے قبضہ کیا تو ہماری حمایت تو درکنار کوئی مذمتی بیان تک جاری نہیں کیا ۔ پڑوسی ممالک اور خطے کے ممالک میں سے کس نے مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط کے خلاف پاکستان کے اصولی موقف کی حمایت کی ؟ اسلامی امہ سے اس اہم مسئلے پر کیا ردعمل دیکھنے کو ملا ہاں 16اگست کو ضرور OICنے مقبوضہ کشمیر سے فوری کرفیواٹھانے کا مطالبہ کیا ہے جب کہ جون میں مکہ میں ہونے والی OICکانفرنس کے ڈیکلریشن میں تنازعہ کشمیر پر ایک لفظ بھی شامل نہیں کیا گیا تھا۔
ملک کے اہل علم و دانش نے اسی موقعے پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو یہ باورکروانے کی کوشش کی تھی کہ مسئلہ کشمیرکو صحیح طور پر عالمی سطح پر اجاگرکیا جائے لیکن افسوس کہ حکومت نے اس تجویزکو اپنے اوپر تنقید تصورکیا اور اسے قابل توجہ نہ سمجھا، نتیجہ آج پوری قوم کے سامنے ہے۔
لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد کا درجہ دے دیا گیا لیکن اقوام متحدہ کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ ہماری خارجہ پالیسی کا محور 72سالہ دیرینہ تنازعہ کشمیر بقول بابائے قوم ہماری شہ رگ آج بھارت نے کاٹ دی ہے اور ہم بے بسی کے عالم میں دنیا کی توجہ حاصل کرنے میں بھی پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے۔ ہمیں اس مرحلے پر اس امر کا بھی ضرور جائزہ لینا چاہیے کہ آخر اب ایسا کیا ہوا کہ بھارت کے حکمرانوں کو اتنی جرآت حاصل ہوگئی کہ انھوں نے کشمیرکے دیرینہ مسئلے کو نتائج کی پرواہ کیے بغیر جیسا چاہا اپنی خواہش کے مطابق حل کر لیا ۔ یہ وہی حل ہے جس کی بازگشت دو عشرہ قبل اس وقت سننے کو ملی تھی جب پاکستان پر جنرل پرویز مشرف کی حکومت قابض تھی اور بھارت میں من موہن سنگھ حکومت میں تھے۔اس فارمولہ پر ان دونوں رہنماؤں کے درمیان اتفاق رائے کرلیا گیا تھا۔
آج امریکی صدرکی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کے بعد اچانک بھارت کا مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے بھارت کا حصہ قرار دینا، اسی منصوبے کا حصہ محسوس ہوتا ہے۔گمان کیا جاتا ہے کہ اب پاکستان کی جانب سے مزید شورشرابے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی پیشکش کے مطابق خطے میں امن کی خواہش کے ساتھ آگے بڑھیں گے اور دونوں ریاستوں کے درمیان اسی فارمولے پر ثالثی کروا دیں گے کہ لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد تسلیم کرلیا جائے، مقبوضہ کشمیر بھارت کے پاس ہی رہے اور آزاد کشمیر پاکستان کا حصہ تسلیم کرلیا جائے۔ بھارت ساری دنیا پر احسان کرتے ہوئے امن کی خاطر اس فارمولے کو مان لے گا اور ہم بھی اسے اپنی کامیابی قراردیںگے۔کیا ایسا ہوگا،اس کا فیصلہ بھی جلد ہو جائے گا۔