مسز خان اور مسٹر مودی
مسز خان کی وہ بیوی مت بنیں جو ہر وقت جوتے سیدھے کرتی رہتی ہے اور اپنی شناخت کے ساتھ اپنے وجود کی اہمیت بھی کھو دیتی ہے
KARACHI:
شوہر جب گھر آئے تو توا چڑھا ہونا چاہیے، اس کے کپڑے پڑے ہونے چاہئیں، ہر چیز موجود ہونی چاہیے وغیرہ۔ اچانک سوشل میڈیا پر اس آواز نے چونکا دیا۔ اوہ مسز خان ایک بار پھر اپنا چورن بیچنے میں کامیاب ہوگئیں۔ مسکراہٹ نے لبوں کو کھینچ کر کچھ مزید پھیلا دیا اور آنکھیں بند کرکے ذرا تصور کیا کہ اگر اگلی بار ان کے شوہر کا انٹرویو کیا جائے (مگر ان کی عدم موجودگی میں) تو تصویر کا اصل رخ دیکھنے کو ملے گا۔
ایسا ہی چورن ہمارے عرب شہزادے بھی بیچ رہے ہیں آج کل۔ وہ ایک محاورہ ہے ناں 'سجی دکھا کر کھبی مارنا' بالکل ایسا ہی کر رہے ہمارے عرب اپنے اربوں کے زعم میں۔
اسلام کے نزول کی بات ہوتی تھی تو بچپن میں یہ سوال ذہن میں آتا تھا کہ عرب کی زمین کا انتخاب ہی کیوں کیا اللہ نے؟ تب ابا کہا کرتے تھے کیونکہ عرب سب سے سخت دل قوم ہوا کرتی تھی اس لیے۔ اور شاید آج بھی ہے۔ ہم بھی مسز خان کے خوابوں کی وہی لڑکی بن کر رہ گئے ہیں جو شوہر کی تابعداری میں زبان پر خاموشی کا قفل لگائے اس خوش فہمی میں خدمت کرتی رہے کہ شوہر اپنا ہی ہے۔ اسی سے محبت کرتا ہے، کچھ کہے یا نہ کہے۔
اب شوہر نے ایسی پلٹی کھائی کہ چودہ طبق روشن ہوگئے۔ کہیے مسز خان اب طلاق جائز ہوگی یا نہیں؟
کشمیریوں کی 72 سال کی جدوجہد اور آج بھارتی مودی کا خون کی ہولی کھیلنے کا پروانہ، ہم فلسطین میں جاری مظالم پر بھی ایمان کے سب سے کمزور زینے پر کھڑے رہے۔ چلیے مان لیتے ہیں حکومت کی اپنی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں، بالکل مسز خان کے بتائے ہوئے معصوم شوہر کی طرح۔
کشمیر کو تو ہم اپنی جنت کہتے رہے اور دعویٰ یہ رہا کہ 'جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی'۔ اب یا تو ہم کافر ٹھہرے یا پھر جنت کے حق دار۔ فیصلہ تو اب بھی ہمارے اختیار ہی میں ہے۔ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ہی آپ کو ظالم سے بچاسکتا ہے۔
دبئی اور بحرین کے حکمرانوں کی طرف سے مودی کو دیا گیا اعلیٰ سول ایوارڈ یہ بتانے کےلیے کافی ہے کہ مسز خان کے خوابوں والا شوہر اپنی فرمانبردار خاندانی بیوی کی خاموشی اور وفاداری کے باوجود اس کا نہیں رہا اور اب دیکھنا یہ ہے کہ رشتہ بچانا اہم ہے یا خوداری۔
سیانے کہتے تھے 'برے وقت کا ایک فائدہ ہوتا ہے، وہ دوست اور دشمن کی پہچان کرا دیتا ہے'۔ عرب کے شہزادے اور ایران کے حکمران، ہر چہرہ عیاں ہے۔ اب بھی اگر فیصلہ لینے میں دشواری ہے تو پھر کشمیر سے محبت کے دعوے سے باز رہیں آپ۔
جس زمین کی تین نسلیں اس بارود کی نذر ہوگئیں انہیں اپنی شناخت کےلیے کسی اور کے بازو کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں پاکستانی حکمرانوں کو اپنی صفوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ضرور ہے۔
ہر ملک میں پاکستانی سفارتخانہ موجود ہے۔ کیا حکومت کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کےلیے اپنے سفارت کاروں کو ہدایات دی گئی ہیں؟ مسلم امہ جہاں جہاں بھی ہے، آج ہر کشمیری بہن اور بچے کی آواز بننا آپ پر فرض ہوچکا۔ کشمیر نے آزاد ہونا ہی ہے، یہ طے ہے۔ جیسے جناح نے کہا تھا 'دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو توڑ نہیں سکتی'، بالکل ایسے ہی دنیا کی کوئی طاقت کشمیریوں سے ان کی سرزمین چھین نہیں سکتی۔
دشمن کا مشکل وقت میں عیاں ہونا بھی اللہ کی مدد کے مترادف ہے۔ مسز خان کی وہ بیوی مت بنیں جو ہر وقت جوتے سیدھے کرتی رہتی ہے اور اپنی شناخت کے ساتھ اپنے وجود کی اہمیت بھی کھو دیتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
شوہر جب گھر آئے تو توا چڑھا ہونا چاہیے، اس کے کپڑے پڑے ہونے چاہئیں، ہر چیز موجود ہونی چاہیے وغیرہ۔ اچانک سوشل میڈیا پر اس آواز نے چونکا دیا۔ اوہ مسز خان ایک بار پھر اپنا چورن بیچنے میں کامیاب ہوگئیں۔ مسکراہٹ نے لبوں کو کھینچ کر کچھ مزید پھیلا دیا اور آنکھیں بند کرکے ذرا تصور کیا کہ اگر اگلی بار ان کے شوہر کا انٹرویو کیا جائے (مگر ان کی عدم موجودگی میں) تو تصویر کا اصل رخ دیکھنے کو ملے گا۔
ایسا ہی چورن ہمارے عرب شہزادے بھی بیچ رہے ہیں آج کل۔ وہ ایک محاورہ ہے ناں 'سجی دکھا کر کھبی مارنا' بالکل ایسا ہی کر رہے ہمارے عرب اپنے اربوں کے زعم میں۔
اسلام کے نزول کی بات ہوتی تھی تو بچپن میں یہ سوال ذہن میں آتا تھا کہ عرب کی زمین کا انتخاب ہی کیوں کیا اللہ نے؟ تب ابا کہا کرتے تھے کیونکہ عرب سب سے سخت دل قوم ہوا کرتی تھی اس لیے۔ اور شاید آج بھی ہے۔ ہم بھی مسز خان کے خوابوں کی وہی لڑکی بن کر رہ گئے ہیں جو شوہر کی تابعداری میں زبان پر خاموشی کا قفل لگائے اس خوش فہمی میں خدمت کرتی رہے کہ شوہر اپنا ہی ہے۔ اسی سے محبت کرتا ہے، کچھ کہے یا نہ کہے۔
اب شوہر نے ایسی پلٹی کھائی کہ چودہ طبق روشن ہوگئے۔ کہیے مسز خان اب طلاق جائز ہوگی یا نہیں؟
کشمیریوں کی 72 سال کی جدوجہد اور آج بھارتی مودی کا خون کی ہولی کھیلنے کا پروانہ، ہم فلسطین میں جاری مظالم پر بھی ایمان کے سب سے کمزور زینے پر کھڑے رہے۔ چلیے مان لیتے ہیں حکومت کی اپنی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں، بالکل مسز خان کے بتائے ہوئے معصوم شوہر کی طرح۔
کشمیر کو تو ہم اپنی جنت کہتے رہے اور دعویٰ یہ رہا کہ 'جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی'۔ اب یا تو ہم کافر ٹھہرے یا پھر جنت کے حق دار۔ فیصلہ تو اب بھی ہمارے اختیار ہی میں ہے۔ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ہی آپ کو ظالم سے بچاسکتا ہے۔
دبئی اور بحرین کے حکمرانوں کی طرف سے مودی کو دیا گیا اعلیٰ سول ایوارڈ یہ بتانے کےلیے کافی ہے کہ مسز خان کے خوابوں والا شوہر اپنی فرمانبردار خاندانی بیوی کی خاموشی اور وفاداری کے باوجود اس کا نہیں رہا اور اب دیکھنا یہ ہے کہ رشتہ بچانا اہم ہے یا خوداری۔
سیانے کہتے تھے 'برے وقت کا ایک فائدہ ہوتا ہے، وہ دوست اور دشمن کی پہچان کرا دیتا ہے'۔ عرب کے شہزادے اور ایران کے حکمران، ہر چہرہ عیاں ہے۔ اب بھی اگر فیصلہ لینے میں دشواری ہے تو پھر کشمیر سے محبت کے دعوے سے باز رہیں آپ۔
جس زمین کی تین نسلیں اس بارود کی نذر ہوگئیں انہیں اپنی شناخت کےلیے کسی اور کے بازو کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں پاکستانی حکمرانوں کو اپنی صفوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ضرور ہے۔
ہر ملک میں پاکستانی سفارتخانہ موجود ہے۔ کیا حکومت کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کےلیے اپنے سفارت کاروں کو ہدایات دی گئی ہیں؟ مسلم امہ جہاں جہاں بھی ہے، آج ہر کشمیری بہن اور بچے کی آواز بننا آپ پر فرض ہوچکا۔ کشمیر نے آزاد ہونا ہی ہے، یہ طے ہے۔ جیسے جناح نے کہا تھا 'دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو توڑ نہیں سکتی'، بالکل ایسے ہی دنیا کی کوئی طاقت کشمیریوں سے ان کی سرزمین چھین نہیں سکتی۔
دشمن کا مشکل وقت میں عیاں ہونا بھی اللہ کی مدد کے مترادف ہے۔ مسز خان کی وہ بیوی مت بنیں جو ہر وقت جوتے سیدھے کرتی رہتی ہے اور اپنی شناخت کے ساتھ اپنے وجود کی اہمیت بھی کھو دیتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔