کراچی کا کوڑا قومی مسئلہ
پیپلز پارٹی کا دور شروع ہوا تو بلدیاتی ادارے بھی مفلوج ہوگئے۔
لاہور:
شہری سندھ حکومت کو ٹیکس نہ دیں،گلیاں کچرے کے ڈھیروں اور محلے سیوریج کے پانی سے بھرگئے ہیں۔ کراچی تبادہ ہورہا ہے، واٹر بورڈ اور سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ کو درست کیے بغیر مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ بطور میئر وسیم اختر کے 1095 دن کراچی کی تاریخ کے سیاہ ترین دن ثابت ہوئے۔
وسیم اختر کا بیان سول نافرمانی کے زمرے میں آتا ہے۔ میئر کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں، معلوم نہیں کیوں ناراض ہیں، صفائی مہم جاری رہے گی۔ میئرکراچی وسیم اختر، حکومت سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب اور وفاقی وزیرعلی زیدی کے گھن گرج کے ساتھ بیانات کی تکرار جاری ہے مگرکراچی کے شہریوں کی اجیرن ہوئی زندگی کی بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔
کراچی گزشتہ 12سال میں کچرے کے ٹیلوں میں تبدیل ہوگیا۔ امراء، متوسط طبقے اور غریبوں کی بستیوں میں گندے پانی کی نکاسی کی پائپ لائن ٹوٹ پھوٹ گئی، یوں سیوریج کا پانی ہر روز ہر طرف پھیلتا ہے۔ صدرکا علاقہ ہو یا امراض قلب اسپتال جانے والی سڑک، گلشن اقبال ہو یا بلدیہ ٹاؤن، لیاری یا شاہ فیصل کالونی، کورنگی یا اورنگی، لیاقت آباد، کلفٹن اور ڈیفنس وغیرہ ہر طرف ایک جیسے حالات ہیں۔کراچی میں گزشتہ مہینے کے اختتام اور نئے مہینے کے آغاز پر بارش ہوئی تھی، شہر کے بیشتر علاقے زیر آب آگئے تھے۔
بیشتر علاقوں میں بجلی معطل رہی تھی، عیدالاضحی سے ایک دن پہلے بارش ہوئی، یوں سڑکوں، گلیوں اورکمپاؤنڈ میں قربانی کے جانوروں کا خون سیوریج لائنوں میں جانے اور سیوریج کا پانی پینے کے پانی کی لائنوں میں ملنے سے شہر ی وبائی امراض میں مبتلا ہوئے ۔آلودہ پانی اور غیر صحت مندانہ ماحول سے بچے زیادہ متاثر ہوئے۔ اس دفعہ کانگو وائرس اور ڈینگی وائرس سے کئی افراد جاں بحق ہوئے، اس ماحول میں کتوں کے کاٹنے کے واقعات بڑھ گئے۔
کراچی ایک زمانے میں صاف ستھرا شہر تھا۔ شہر کی سڑکوں کی علی الصبح دھلائی ہوتی تھی اور بلدیہ کراچی کے خاکروب دل جمعی سے کام کرتے۔ اگرچہ بلدیہ کراچی کے پاس بڑے ٹرکوں کی تعدا دکم تھی مگر شہر سے باقاعدگی سے کوڑا اٹھایا جاتا تھا۔ محلے کی صفائی کے کام کی ذمے داری کونسلر کی ہوتی تھی۔
کونسلر صفائی کے عملے کی نگرانی کا فریضہ انجام دیتا تھا۔ جس شخص کو شکایت ہوتی وہ کونسلر کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور صدارت میں نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی نظام میں ناظم ،نائب ناظم اور اس کے معاونین کو انتظامی اور مالیاتی اختیارات حاصل تھے۔ اس دور میں صفائی کا نظام بہتر ہوا۔ نعمت اﷲ خان ایڈووکیٹ اور مصطفی کمال کے نظامت کے ادوار میں عیدالاضحی کے دنوں میں متعلقہ عملے نے حیرت انگیز طور پر جانوروں کی آلائشیں اٹھائیں، جراثیم کو مارنے کے لیے بدبو ختم کرنے کے لے چونا ڈالنے کا کام بھی تیزی سے ہوا تھا، اس پر بہت سے لوگوں کو حیرت ہونے لگی تھی۔
پیپلز پارٹی کا دور شروع ہوا تو بلدیاتی ادارے بھی مفلوج ہوگئے۔کراچی سٹی گورنمنٹ نے بلدیہ کے ملازمین کی تنخواہ اور پنشن کے فنڈز کو ترقیاتی منصوبوں کے لیے غیر قانونی طور پر استعمال کیا تھا جس کی بناء پر بلدیاتی ادارہ دیوالیہ ہوگئے۔ خاص طور پر نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کوکئی کئی ماہ تنخواہیں نہ ملیں۔ پنشن پر گزارہ کرنے والے غریب سابق ملازمین کی زندگی برباد ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی شہر میں کچرے کے پہاڑ بننا شروع ہوئے۔
ذرایع ابلاغ میں شہر میں صفائی کی صورتحال پر خبریں شایع ہوئیں تو سندھ حکومت نے سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ قائم کیا۔ اس بورڈ کے سربراہ وزیر اعلیٰ خود ہیں اور بورڈ کی انتظامی کمیٹی میں بیوروکریٹس کی بھرمار ہے، حکومت سندھ نے ایک چینی کمپنی کو صفائی کا ٹھیکہ دیدیا۔ کئی برسوں بعد شہر میں رنگ برنگے ڈسٹ بن نظر آئے۔
کوڑا اٹھانے اور سڑک پر جھاڑو دینے کے لیے کبھی کبھی بڑی مشینوں والی گاڑیاں بھی نظر آنے لگیں۔ حکومت نے کوڑے کے لیے علیحدہ ادارہ بنایا اور سیوریج کے پانی کا معاملہ واٹر بورڈ کے سپرد رہا، مگر سندھ حکومت نے صفائی کے کام کی نگرانی کے لیے کونسلر اور یونین کونسل کا کردار ختم کردیا۔ کونسلر بے اختیار ہوگئے تو صفائی کے کام کی نگرانی کرنے والا کوئی نہیں رہا۔
مگر نئے بلدیاتی قانون میں نالوں کی صفائی کا کام بلدیہ کراچی کے سپرد ہوگیا۔ اب بلدیہ کراچی کے علاوہ ڈسٹرکٹ کارپورشن، کراچی ڈسٹرکٹ کونسل، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ، واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، کنٹونمنٹ بورڈ، سول ایوی ایشن اتھارٹی ، کراچی پورٹ ٹرسٹ اور ریلوے سمیت 21 ادارے صفائی کے ذمے دار ہیں۔
بلدیاتی امور کے ماہر سینئر صحافی اسلم شاہ کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے 2016 میں بڑے نالوں کی صفائی کے لیے گرانٹ دی جس سے بڑے نالوں کی صفائی ہوئی مگر یہ رقم 2017میں استعمال ہوئی۔ پھر شاید حکومت سندھ نے بلدیہ کراچی کو اس مد میں بجٹ نہیں دیا، یوں اس سال ہونے والی بارشوں کا پانی نالوں کے ذریعے نکاسی نہ ہونے کی بناء پر آبادیوں میں داخل ہوا۔
2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف نے کراچی سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں اکثریت حاصل کی۔ تحریک انصاف کے کارکن ایم این اے عالمگیر خان کی قیادت میں کوڑے کے مسئلے پر آگہی مہم چلاتے رہے تھے۔ اب تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیر علی زیدی نے کراچی کی صفائی کا بیڑا اٹھالیا۔
انھوں نے اعلان کیا کہ وفاقی حکومت کراچی صفائی مہم کے لیے کئی کروڑ روپے دے گی مگر کراچی آکر انھوں نے چندہ جمع کرنا شروع کردیا۔ علی زیدی کا کہنا ہے کہ نالوں کی صفائی میں وفاقی ادارے تعاون کریں گے مگر عملی طور پر کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی۔ کراچی میں بلدیہ کراچی کے زیر نگرانی علاقوں میں کوڑے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور سیوریج کا پانی سڑکوں پر بہہ رہا ہے تو کنٹونمنٹ اور ڈی ایم سی کے علاقوں میں بھی صورتحال اتنی ہی خراب ہے۔
بلدیات کی رپورٹنگ کرنے والے سینئر رپورٹروں کا کہنا ہے کہ اس وقت شہر میں 21 ادارے بلدیاتی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ بلدیہ کے قانون کی پیچیدگیوں کی بناء پر صفائی کا کام بیک وقت کئی اداروں کی ذمے داریوں میں شامل ہے۔ حکومت سندھ کا قائم کردہ سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ اپنے فرائض کی انجام دہی میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔
سینئر صحافی اسلم شاہ کی رائے میں شہر میں بلدیاتی کام کرنے والے 21 اداروں سے یہ کام لے کر مکمل طور پر بلدیہ کرچی، ڈسٹرکٹ کارپوریشن اور ڈسٹرکٹ کونسل کے سپرد کیا جائے اور وفاق اور صوبائی حکومتیں ان اداروں کو معقول گرانٹ دیں ۔کونسلر اور یونین کونسل کو صفائی کے کام کی نگرانی کا فریضہ سونپا جائے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت بلدیاتی اداروں کو مکمل بااختیار کرنے کو تیار نہیں جس کی بناء پر کوڑے کا معاملہ محلہ سے اٹھ کر قومی مسئلہ بن گیا ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ عالمی مسئلہ بن جائے گا۔ کراچی کے عوام کراچی کے میئر ،وزیر بلدیات اور وفاقی وزراء کی زبانی جھڑپوں سے تنگ آگئے ہیں۔ صوبائی حکومت کو حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے بلدیاتی اداروں کو بااختیار کرنا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ طالع آزما قوتیں کراچی کو وفاق کی نگرانی میں دینے کے اپنے منصوبے پر عملدرآمد شروع کردیں۔
شہری سندھ حکومت کو ٹیکس نہ دیں،گلیاں کچرے کے ڈھیروں اور محلے سیوریج کے پانی سے بھرگئے ہیں۔ کراچی تبادہ ہورہا ہے، واٹر بورڈ اور سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ کو درست کیے بغیر مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ بطور میئر وسیم اختر کے 1095 دن کراچی کی تاریخ کے سیاہ ترین دن ثابت ہوئے۔
وسیم اختر کا بیان سول نافرمانی کے زمرے میں آتا ہے۔ میئر کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں، معلوم نہیں کیوں ناراض ہیں، صفائی مہم جاری رہے گی۔ میئرکراچی وسیم اختر، حکومت سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب اور وفاقی وزیرعلی زیدی کے گھن گرج کے ساتھ بیانات کی تکرار جاری ہے مگرکراچی کے شہریوں کی اجیرن ہوئی زندگی کی بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔
کراچی گزشتہ 12سال میں کچرے کے ٹیلوں میں تبدیل ہوگیا۔ امراء، متوسط طبقے اور غریبوں کی بستیوں میں گندے پانی کی نکاسی کی پائپ لائن ٹوٹ پھوٹ گئی، یوں سیوریج کا پانی ہر روز ہر طرف پھیلتا ہے۔ صدرکا علاقہ ہو یا امراض قلب اسپتال جانے والی سڑک، گلشن اقبال ہو یا بلدیہ ٹاؤن، لیاری یا شاہ فیصل کالونی، کورنگی یا اورنگی، لیاقت آباد، کلفٹن اور ڈیفنس وغیرہ ہر طرف ایک جیسے حالات ہیں۔کراچی میں گزشتہ مہینے کے اختتام اور نئے مہینے کے آغاز پر بارش ہوئی تھی، شہر کے بیشتر علاقے زیر آب آگئے تھے۔
بیشتر علاقوں میں بجلی معطل رہی تھی، عیدالاضحی سے ایک دن پہلے بارش ہوئی، یوں سڑکوں، گلیوں اورکمپاؤنڈ میں قربانی کے جانوروں کا خون سیوریج لائنوں میں جانے اور سیوریج کا پانی پینے کے پانی کی لائنوں میں ملنے سے شہر ی وبائی امراض میں مبتلا ہوئے ۔آلودہ پانی اور غیر صحت مندانہ ماحول سے بچے زیادہ متاثر ہوئے۔ اس دفعہ کانگو وائرس اور ڈینگی وائرس سے کئی افراد جاں بحق ہوئے، اس ماحول میں کتوں کے کاٹنے کے واقعات بڑھ گئے۔
کراچی ایک زمانے میں صاف ستھرا شہر تھا۔ شہر کی سڑکوں کی علی الصبح دھلائی ہوتی تھی اور بلدیہ کراچی کے خاکروب دل جمعی سے کام کرتے۔ اگرچہ بلدیہ کراچی کے پاس بڑے ٹرکوں کی تعدا دکم تھی مگر شہر سے باقاعدگی سے کوڑا اٹھایا جاتا تھا۔ محلے کی صفائی کے کام کی ذمے داری کونسلر کی ہوتی تھی۔
کونسلر صفائی کے عملے کی نگرانی کا فریضہ انجام دیتا تھا۔ جس شخص کو شکایت ہوتی وہ کونسلر کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور صدارت میں نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی نظام میں ناظم ،نائب ناظم اور اس کے معاونین کو انتظامی اور مالیاتی اختیارات حاصل تھے۔ اس دور میں صفائی کا نظام بہتر ہوا۔ نعمت اﷲ خان ایڈووکیٹ اور مصطفی کمال کے نظامت کے ادوار میں عیدالاضحی کے دنوں میں متعلقہ عملے نے حیرت انگیز طور پر جانوروں کی آلائشیں اٹھائیں، جراثیم کو مارنے کے لیے بدبو ختم کرنے کے لے چونا ڈالنے کا کام بھی تیزی سے ہوا تھا، اس پر بہت سے لوگوں کو حیرت ہونے لگی تھی۔
پیپلز پارٹی کا دور شروع ہوا تو بلدیاتی ادارے بھی مفلوج ہوگئے۔کراچی سٹی گورنمنٹ نے بلدیہ کے ملازمین کی تنخواہ اور پنشن کے فنڈز کو ترقیاتی منصوبوں کے لیے غیر قانونی طور پر استعمال کیا تھا جس کی بناء پر بلدیاتی ادارہ دیوالیہ ہوگئے۔ خاص طور پر نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کوکئی کئی ماہ تنخواہیں نہ ملیں۔ پنشن پر گزارہ کرنے والے غریب سابق ملازمین کی زندگی برباد ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی شہر میں کچرے کے پہاڑ بننا شروع ہوئے۔
ذرایع ابلاغ میں شہر میں صفائی کی صورتحال پر خبریں شایع ہوئیں تو سندھ حکومت نے سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ قائم کیا۔ اس بورڈ کے سربراہ وزیر اعلیٰ خود ہیں اور بورڈ کی انتظامی کمیٹی میں بیوروکریٹس کی بھرمار ہے، حکومت سندھ نے ایک چینی کمپنی کو صفائی کا ٹھیکہ دیدیا۔ کئی برسوں بعد شہر میں رنگ برنگے ڈسٹ بن نظر آئے۔
کوڑا اٹھانے اور سڑک پر جھاڑو دینے کے لیے کبھی کبھی بڑی مشینوں والی گاڑیاں بھی نظر آنے لگیں۔ حکومت نے کوڑے کے لیے علیحدہ ادارہ بنایا اور سیوریج کے پانی کا معاملہ واٹر بورڈ کے سپرد رہا، مگر سندھ حکومت نے صفائی کے کام کی نگرانی کے لیے کونسلر اور یونین کونسل کا کردار ختم کردیا۔ کونسلر بے اختیار ہوگئے تو صفائی کے کام کی نگرانی کرنے والا کوئی نہیں رہا۔
مگر نئے بلدیاتی قانون میں نالوں کی صفائی کا کام بلدیہ کراچی کے سپرد ہوگیا۔ اب بلدیہ کراچی کے علاوہ ڈسٹرکٹ کارپورشن، کراچی ڈسٹرکٹ کونسل، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ، واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، کنٹونمنٹ بورڈ، سول ایوی ایشن اتھارٹی ، کراچی پورٹ ٹرسٹ اور ریلوے سمیت 21 ادارے صفائی کے ذمے دار ہیں۔
بلدیاتی امور کے ماہر سینئر صحافی اسلم شاہ کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے 2016 میں بڑے نالوں کی صفائی کے لیے گرانٹ دی جس سے بڑے نالوں کی صفائی ہوئی مگر یہ رقم 2017میں استعمال ہوئی۔ پھر شاید حکومت سندھ نے بلدیہ کراچی کو اس مد میں بجٹ نہیں دیا، یوں اس سال ہونے والی بارشوں کا پانی نالوں کے ذریعے نکاسی نہ ہونے کی بناء پر آبادیوں میں داخل ہوا۔
2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف نے کراچی سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں اکثریت حاصل کی۔ تحریک انصاف کے کارکن ایم این اے عالمگیر خان کی قیادت میں کوڑے کے مسئلے پر آگہی مہم چلاتے رہے تھے۔ اب تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیر علی زیدی نے کراچی کی صفائی کا بیڑا اٹھالیا۔
انھوں نے اعلان کیا کہ وفاقی حکومت کراچی صفائی مہم کے لیے کئی کروڑ روپے دے گی مگر کراچی آکر انھوں نے چندہ جمع کرنا شروع کردیا۔ علی زیدی کا کہنا ہے کہ نالوں کی صفائی میں وفاقی ادارے تعاون کریں گے مگر عملی طور پر کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی۔ کراچی میں بلدیہ کراچی کے زیر نگرانی علاقوں میں کوڑے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور سیوریج کا پانی سڑکوں پر بہہ رہا ہے تو کنٹونمنٹ اور ڈی ایم سی کے علاقوں میں بھی صورتحال اتنی ہی خراب ہے۔
بلدیات کی رپورٹنگ کرنے والے سینئر رپورٹروں کا کہنا ہے کہ اس وقت شہر میں 21 ادارے بلدیاتی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ بلدیہ کے قانون کی پیچیدگیوں کی بناء پر صفائی کا کام بیک وقت کئی اداروں کی ذمے داریوں میں شامل ہے۔ حکومت سندھ کا قائم کردہ سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ اپنے فرائض کی انجام دہی میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔
سینئر صحافی اسلم شاہ کی رائے میں شہر میں بلدیاتی کام کرنے والے 21 اداروں سے یہ کام لے کر مکمل طور پر بلدیہ کرچی، ڈسٹرکٹ کارپوریشن اور ڈسٹرکٹ کونسل کے سپرد کیا جائے اور وفاق اور صوبائی حکومتیں ان اداروں کو معقول گرانٹ دیں ۔کونسلر اور یونین کونسل کو صفائی کے کام کی نگرانی کا فریضہ سونپا جائے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت بلدیاتی اداروں کو مکمل بااختیار کرنے کو تیار نہیں جس کی بناء پر کوڑے کا معاملہ محلہ سے اٹھ کر قومی مسئلہ بن گیا ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ عالمی مسئلہ بن جائے گا۔ کراچی کے عوام کراچی کے میئر ،وزیر بلدیات اور وفاقی وزراء کی زبانی جھڑپوں سے تنگ آگئے ہیں۔ صوبائی حکومت کو حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے بلدیاتی اداروں کو بااختیار کرنا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ طالع آزما قوتیں کراچی کو وفاق کی نگرانی میں دینے کے اپنے منصوبے پر عملدرآمد شروع کردیں۔