مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
کاش! جس طرح امریکا جو سپر پاور اس لیے ہے کہ اس کے پاس طاقت ہے۔
انڈیا میں مختصر قیام کے بعد جب میں نے اپنے ایک کرم فرما کو لاہور میں اطلاع دی کہ ہم واپس آگئے ہیں۔ تو جواب میں ان کا ایسا SMS آیا کہ میں حیران ہوگئی۔ انھوں نے لکھا تھا "Welcome to Peaceful Pakistan" میں حیرت زدہ رہ گئی۔ پیس فل پاکستان! یہ چند دنوں میں کیا ماجرا ہوگیا۔ بقول شاعر:
یہ دو دن میں کیا ماجرا ہوگیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہوگیا
کیا واقعی صرف پندرہ دن میں ہمارا وطن پیس فل ہوگیا؟ مگر کیسے؟ کیا میرے کرم فرما نے لاہور میں ہی زیادتی کا شکار ہونے والی بچی کے بارے میں کچھ نہیں سنا؟ جہاں ایک صرف اور صرف پانچ سالہ بچی کے ساتھ سفاک درندے وحشیوں جیسا سلوک کرتے ہوں وہاں امن کیونکر ممکن ہے؟ کراچی میں سات سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کرنے والے کو بالآخر 10 سال کی قید کی سزا سنا دی گئی۔ جو دن رات کے شمار کے بعد پانچ سال کی رہ جائے گی اور پانچ سال کے بعد وہ درندہ پھر سے آزاد ہوگا اپنی ہوس مٹانے کے لیے۔
کاش! جس طرح امریکا جو سپر پاور اس لیے ہے کہ اس کے پاس طاقت ہے۔ اسے سنبل اور اس کے ماں باپ کو امریکی شہریت دے دینی چاہیے تاکہ بچی اس حادثے کو فراموش کرسکے اور اس کے والدین کو تمام عمر نظریں نہ جھکانی پڑیں۔ لیکن امریکا ایسا کیوں کرے گا؟ سنبل ایک مسلمان بچی ہے جب کہ جن عورتوں، مردوں، بچوں اور لڑکیوں پر توہین رسالت کا الزام لگایا گیا تھا وہ سب غیر مسلم تھے۔ اسی لیے امریکا کی آغوش ان کے لیے وا تھی۔ کاش! عاصمہ جہانگیر ہی اس طرف توجہ فرمائیں کہ کراچی میں 6 دسمبر 2011 میں 7 برس کی بچی کے ساتھ زیادتی کے مجرم کو تمام شواہد اور ثبوتوں کے باوجود 18 ستمبر 2013 کو سزا سنائی گئی۔ عاصمہ جہانگیر صاحبہ عورتوں کو خلع دلواتی ہیں۔ ان کے جھگڑے نمٹاتی ہیں۔ اور گھریلو تشدد کی شکار عورتوں کو انصاف دلواتی ہیں۔ کیا وہ معصوم سنبل اور کراچی کی بچی کو انصاف دلواسکیں گی؟ ان کے مجرموں کو سرعام پھانسی دلوانے کا مطالبہ کرسکیں گی؟ اس تمام تر سنگین اور شرمناک صورتحال کے باوجود کیا ہم پاکستان کو ایک پرامن ملک کہہ سکتے ہیں؟ جہاں پھول جیسی بچیوں کے لیے درندے سفلی جذبات رکھتے ہوں۔
19 ستمبر کو ساہیوال، میلسی میں پانچ بہنیں شادی نہ ہونے کی وجہ سے نہر میں کود گئیں ، جن میں سے صرف ایک کو بچالیا گیا جب کہ چار اپنی جان ہار گئیں۔ کیا اب بھی ہم اپنے وطن کو پیس فل کہہ سکتے ہیں؟ کاش! کہہ سکتے۔
برصغیر میں عجیب صورت حال ہے۔ انڈیا میں جونہی بچے کی جنس کا پتہ چلتا ہے بدقسمتی سے اگر وہ لڑکی ہوتی ہے تو ابارشن کروادیا جاتا ہے۔ لہٰذا اب وہاں صورت حال یہ ہے کہ لڑکوں کو شادی کے لیے لڑکیاں دستیاب نہیں ہیں۔ جو مال دار ہیں اور قوت خرید رکھتے ہیں انھیں باآسانی بیوی دستیاب ہوجاتی ہے۔ لیکن غریبوں کی وہاں بھی مصیبت ہے کہ کوئی بیٹی دینے کو تیار نہیں۔ طلب اور رسد کا توازن بگڑ گیا ہے۔ جس سے لڑکیوں کے اغواء کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں۔ جرائم پیشہ گروہ غریب لڑکیوں اور شادی شدہ عورتوں تک کو اغواء کرکے مہنگے داموں بیچ دیتے ہیں۔ بعض دیہاتوں میں یہ حال ہے کہ ایک ہی عورت کئی بھائیوں کی بیوی ہے۔ باقاعدہ اس کی چوکسی کی جاتی ہے کہ کہیں بھاگ نہ جائے۔
خوش قسمتی سے اگر پولیس کو پتہ چل جاتا ہے تو بعض اوقات تو وہ چھڑالیتی ہے اور بعض دفعہ مجرموں کے ساتھ مل جاتی ہے۔ وہاں اس صورت حال پر بھی سول سوسائٹی اور سماجی خدمات انجام دینے والے ادارے سرگرم عمل ہیں۔ ڈاکٹروں کے تعاون سے سول سوسائٹی نے یہ بل بھی منظور کرالیا ہے کہ بچے کی پیدائش سے پہلے اس کی جنس بتانا قانوناً جرم قرار دیا جاچکا ہے۔ لیکن چوری چھپے یہ کام اب بھی جاری ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہمارے پیارے وطن میں ضمیر فروش ڈاکٹرز لاہور، کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں لوگوں کے گردے نکال کر فروخت کر رہے ہیں۔ اور کوئی مائی کا لال ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کہ بڑے جرائم بغیر پولیس کے اعلیٰ افسران اور سیاست دانوں کی آشیرواد کے ڈھٹائی سے جاری نہیں رکھے جاسکتے۔
لڑکیوں کے معاملے میں ہمارے ہاں معاملات بالکل الگ ہیں۔ تعلیم اور معلومات نہ ہونے کی بناء پر ضبط تولید سے اکثریت واقف نہیں۔ مذہبی علماء بھی اس کے خلاف ہیں۔ ہمارے پاس صرف جہالت، کم علمی اور غیر منطقی دلائل۔ اسی لیے مغرب میں آپ کو کسی بھی خاندان میں بچے زیادہ نہیں ملیں گے۔ چین میں تو ایک عرصے تک صرف ایک بچے کی اجازت تھی۔ ادھر مسلم ملک ترکی میں بھی ضبط تولید پہ عمل کیا جاتا ہے۔ خواہ بیٹا ہو یا بیٹی خدا نے اولاد تو دی۔ کیا یہ کافی نہیں کہ تندرست اولاد سے خدا نے نوازا؟ لیکن نہیں۔۔۔۔شکر کا مقام تو ہمارے ہاں سرے سے موجود ہی نہیں۔ بیٹے کی آرزو میں کسی کے ہاں سات بیٹیاں ہیں کسی کے ہاں نو ہیں۔ ایک خاندان ایسا بھی ہے جہاں گیارہ بیٹیاں ہیں۔ باپ بیٹے کی آرزو میں مرگیا۔ بیوہ اور بچیاں رہ گئیں۔ 1958 میں میرے والد نے اپنا بنگلو اقوام متحدہ کو کرائے پر دے رکھا تھا۔ اس دوران کئی غیر ملکی خاندان وہاں آکر رہے۔ کسی کے دو بچے، کسی کا ایک۔ ایک آسٹریلین جوڑے کی تین بیٹیاں تھیں۔ ایک کی دو بیٹیاں۔ لیکن میری دادی اس بات پہ حیران ہوتی تھیں کہ ان جوڑوں کو بیٹے کی خواہش کیوں نہیں ستاتی۔ لیکن ہمارے ہاں بیٹے کا نہ ہونا زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ چاہے منتوں مرادوں سے جنم لینے والے بیٹے ماں باپ کو ایدھی ہوم یا سہارا میں پھینک جائیں۔ یا اکیلا چھوڑ کر بیرون ملک چلے جائیں۔
دہلی میں جس ہوٹل میں ہم پہلے بھی دو بار ٹھہر چکے تھے۔ اس کے مالک اکرم صاحب سے بہت دوستانہ اور گہرے مراسم تھے۔ وہ ہمیشہ ہمارا بہت خیال رکھتے تھے۔ صرف ہمارا ہی نہیں بلکہ اپنے ہر کلائنٹ پہ خصوصی توجہ دیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے ہوٹل میں جگہ بہت مشکل سے ملتی تھی۔ لیکن اس دفعہ جانے پر یہ افسوس ناک خبر ملی کہ دو سال قبل ان کا انتقال ہوگیا۔ پتہ چلا کہ ان کی سات بیٹیاں ہیں بیٹا کوئی نہیں۔ اسی غم میں چلے گئے جب کہ عمر بھی کوئی اتنی زیادہ نہیں تھی۔ چونکہ یہ دہلی کا پڑھا لکھا خاندان تھا اس لیے انھوں نے تمام بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ اب دو بیٹیاں اور ان کے شوہر کاروبار سنبھالے ہوئے ہیں۔ پانچویں نمبر کی بیٹی حجاب سے تفصیلی ملاقاتیں رہیں۔ اکرم صاحب نے بہت پہلے سے بیٹیوں کو کاروباری امور سمجھانا شروع کردیے تھے۔ لیکن عام طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ میلسی میں نہر میں ڈوب کر ہلاک ہونے والی لڑکیوں کی عمریں بالترتیب 45، 43،38، 35 اور 31 سال تھیں۔
ماں باپ غربت کی وجہ سے شادیاں نہ کرسکے اور انھوں نے روز روز کے جھگڑوں اور طعنوں سے دل برداشتہ ہوکر موت کو گلے لگالیا۔ ایک اور افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ پہلے تو بیٹے کی چاہ میں لاتعداد بیٹیاں پیدا کرلیں۔ ایک لمحے کو بھی نہ سوچا کہ ان کا کیا بنے گا۔ کہاں سے کھلائیں گے۔ کیونکر شادیاں ہوں گی؟ اور جب بڑی ہوگئیں تو ان کی زندگی اجیرن کردی۔ کیا وہ خود اس دنیا میں آنے کی قصور وار ہیں؟ اور اس سے بھی زیادہ جاہلانہ اور مایوس کن رویہ یہ کہ لڑکیوں کو نہ تعلیم دلوائی جائے گی نہ نوکری کرنے دی جائے گی۔ کچھ عرصہ قبل کراچی کی بھینس کالونی میں ایک شخص نے اپنی تین یا چار بیٹیوں کو بے ہوشی کی دوا پلاکر پانی کے حوض میں ڈبودیا جہاں ان کی موت واقع ہوگئی۔ سچ ہے غربت تمام جرائم کی جڑ ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ گاؤں، گوٹھوں، دیہاتوں اور شہروں میں علمائے کرام، ڈاکٹرز اور سماجی کارکن لوگوں میں یہ شعور پیدا کریں کہ فیملی پلاننگ آج پاکستان کی ضرورت ہے۔ بیٹے اور بیٹی کے چکر میں پڑے بغیر جو بھی خدا دے اسے اپنے رب کا شکر ادا کرکے پالنا چاہیے۔ اگر صرف بیٹیاں ہیں تو انھیں کسی طرح کمتر اور بے کار نہ سمجھا جائے۔ انھیں تعلیم اور ہنر دونوں سے آراستہ کرکے ایک ذمے دار شہری اور گھر کی کفالت کے قابل بنانا چاہیے۔ اس سوچ کو عام کرنے کی ضرورت ہے کہ لڑکیاں بوجھ نہیں ہیں صرف اپنی منفی سوچ کو بدلیے۔ انھیں اللہ کی رحمت سمجھ کر سینے سے لگا لیجیے۔
یہ دو دن میں کیا ماجرا ہوگیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہوگیا
کیا واقعی صرف پندرہ دن میں ہمارا وطن پیس فل ہوگیا؟ مگر کیسے؟ کیا میرے کرم فرما نے لاہور میں ہی زیادتی کا شکار ہونے والی بچی کے بارے میں کچھ نہیں سنا؟ جہاں ایک صرف اور صرف پانچ سالہ بچی کے ساتھ سفاک درندے وحشیوں جیسا سلوک کرتے ہوں وہاں امن کیونکر ممکن ہے؟ کراچی میں سات سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کرنے والے کو بالآخر 10 سال کی قید کی سزا سنا دی گئی۔ جو دن رات کے شمار کے بعد پانچ سال کی رہ جائے گی اور پانچ سال کے بعد وہ درندہ پھر سے آزاد ہوگا اپنی ہوس مٹانے کے لیے۔
کاش! جس طرح امریکا جو سپر پاور اس لیے ہے کہ اس کے پاس طاقت ہے۔ اسے سنبل اور اس کے ماں باپ کو امریکی شہریت دے دینی چاہیے تاکہ بچی اس حادثے کو فراموش کرسکے اور اس کے والدین کو تمام عمر نظریں نہ جھکانی پڑیں۔ لیکن امریکا ایسا کیوں کرے گا؟ سنبل ایک مسلمان بچی ہے جب کہ جن عورتوں، مردوں، بچوں اور لڑکیوں پر توہین رسالت کا الزام لگایا گیا تھا وہ سب غیر مسلم تھے۔ اسی لیے امریکا کی آغوش ان کے لیے وا تھی۔ کاش! عاصمہ جہانگیر ہی اس طرف توجہ فرمائیں کہ کراچی میں 6 دسمبر 2011 میں 7 برس کی بچی کے ساتھ زیادتی کے مجرم کو تمام شواہد اور ثبوتوں کے باوجود 18 ستمبر 2013 کو سزا سنائی گئی۔ عاصمہ جہانگیر صاحبہ عورتوں کو خلع دلواتی ہیں۔ ان کے جھگڑے نمٹاتی ہیں۔ اور گھریلو تشدد کی شکار عورتوں کو انصاف دلواتی ہیں۔ کیا وہ معصوم سنبل اور کراچی کی بچی کو انصاف دلواسکیں گی؟ ان کے مجرموں کو سرعام پھانسی دلوانے کا مطالبہ کرسکیں گی؟ اس تمام تر سنگین اور شرمناک صورتحال کے باوجود کیا ہم پاکستان کو ایک پرامن ملک کہہ سکتے ہیں؟ جہاں پھول جیسی بچیوں کے لیے درندے سفلی جذبات رکھتے ہوں۔
19 ستمبر کو ساہیوال، میلسی میں پانچ بہنیں شادی نہ ہونے کی وجہ سے نہر میں کود گئیں ، جن میں سے صرف ایک کو بچالیا گیا جب کہ چار اپنی جان ہار گئیں۔ کیا اب بھی ہم اپنے وطن کو پیس فل کہہ سکتے ہیں؟ کاش! کہہ سکتے۔
برصغیر میں عجیب صورت حال ہے۔ انڈیا میں جونہی بچے کی جنس کا پتہ چلتا ہے بدقسمتی سے اگر وہ لڑکی ہوتی ہے تو ابارشن کروادیا جاتا ہے۔ لہٰذا اب وہاں صورت حال یہ ہے کہ لڑکوں کو شادی کے لیے لڑکیاں دستیاب نہیں ہیں۔ جو مال دار ہیں اور قوت خرید رکھتے ہیں انھیں باآسانی بیوی دستیاب ہوجاتی ہے۔ لیکن غریبوں کی وہاں بھی مصیبت ہے کہ کوئی بیٹی دینے کو تیار نہیں۔ طلب اور رسد کا توازن بگڑ گیا ہے۔ جس سے لڑکیوں کے اغواء کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں۔ جرائم پیشہ گروہ غریب لڑکیوں اور شادی شدہ عورتوں تک کو اغواء کرکے مہنگے داموں بیچ دیتے ہیں۔ بعض دیہاتوں میں یہ حال ہے کہ ایک ہی عورت کئی بھائیوں کی بیوی ہے۔ باقاعدہ اس کی چوکسی کی جاتی ہے کہ کہیں بھاگ نہ جائے۔
خوش قسمتی سے اگر پولیس کو پتہ چل جاتا ہے تو بعض اوقات تو وہ چھڑالیتی ہے اور بعض دفعہ مجرموں کے ساتھ مل جاتی ہے۔ وہاں اس صورت حال پر بھی سول سوسائٹی اور سماجی خدمات انجام دینے والے ادارے سرگرم عمل ہیں۔ ڈاکٹروں کے تعاون سے سول سوسائٹی نے یہ بل بھی منظور کرالیا ہے کہ بچے کی پیدائش سے پہلے اس کی جنس بتانا قانوناً جرم قرار دیا جاچکا ہے۔ لیکن چوری چھپے یہ کام اب بھی جاری ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہمارے پیارے وطن میں ضمیر فروش ڈاکٹرز لاہور، کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں لوگوں کے گردے نکال کر فروخت کر رہے ہیں۔ اور کوئی مائی کا لال ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کہ بڑے جرائم بغیر پولیس کے اعلیٰ افسران اور سیاست دانوں کی آشیرواد کے ڈھٹائی سے جاری نہیں رکھے جاسکتے۔
لڑکیوں کے معاملے میں ہمارے ہاں معاملات بالکل الگ ہیں۔ تعلیم اور معلومات نہ ہونے کی بناء پر ضبط تولید سے اکثریت واقف نہیں۔ مذہبی علماء بھی اس کے خلاف ہیں۔ ہمارے پاس صرف جہالت، کم علمی اور غیر منطقی دلائل۔ اسی لیے مغرب میں آپ کو کسی بھی خاندان میں بچے زیادہ نہیں ملیں گے۔ چین میں تو ایک عرصے تک صرف ایک بچے کی اجازت تھی۔ ادھر مسلم ملک ترکی میں بھی ضبط تولید پہ عمل کیا جاتا ہے۔ خواہ بیٹا ہو یا بیٹی خدا نے اولاد تو دی۔ کیا یہ کافی نہیں کہ تندرست اولاد سے خدا نے نوازا؟ لیکن نہیں۔۔۔۔شکر کا مقام تو ہمارے ہاں سرے سے موجود ہی نہیں۔ بیٹے کی آرزو میں کسی کے ہاں سات بیٹیاں ہیں کسی کے ہاں نو ہیں۔ ایک خاندان ایسا بھی ہے جہاں گیارہ بیٹیاں ہیں۔ باپ بیٹے کی آرزو میں مرگیا۔ بیوہ اور بچیاں رہ گئیں۔ 1958 میں میرے والد نے اپنا بنگلو اقوام متحدہ کو کرائے پر دے رکھا تھا۔ اس دوران کئی غیر ملکی خاندان وہاں آکر رہے۔ کسی کے دو بچے، کسی کا ایک۔ ایک آسٹریلین جوڑے کی تین بیٹیاں تھیں۔ ایک کی دو بیٹیاں۔ لیکن میری دادی اس بات پہ حیران ہوتی تھیں کہ ان جوڑوں کو بیٹے کی خواہش کیوں نہیں ستاتی۔ لیکن ہمارے ہاں بیٹے کا نہ ہونا زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ چاہے منتوں مرادوں سے جنم لینے والے بیٹے ماں باپ کو ایدھی ہوم یا سہارا میں پھینک جائیں۔ یا اکیلا چھوڑ کر بیرون ملک چلے جائیں۔
دہلی میں جس ہوٹل میں ہم پہلے بھی دو بار ٹھہر چکے تھے۔ اس کے مالک اکرم صاحب سے بہت دوستانہ اور گہرے مراسم تھے۔ وہ ہمیشہ ہمارا بہت خیال رکھتے تھے۔ صرف ہمارا ہی نہیں بلکہ اپنے ہر کلائنٹ پہ خصوصی توجہ دیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے ہوٹل میں جگہ بہت مشکل سے ملتی تھی۔ لیکن اس دفعہ جانے پر یہ افسوس ناک خبر ملی کہ دو سال قبل ان کا انتقال ہوگیا۔ پتہ چلا کہ ان کی سات بیٹیاں ہیں بیٹا کوئی نہیں۔ اسی غم میں چلے گئے جب کہ عمر بھی کوئی اتنی زیادہ نہیں تھی۔ چونکہ یہ دہلی کا پڑھا لکھا خاندان تھا اس لیے انھوں نے تمام بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ اب دو بیٹیاں اور ان کے شوہر کاروبار سنبھالے ہوئے ہیں۔ پانچویں نمبر کی بیٹی حجاب سے تفصیلی ملاقاتیں رہیں۔ اکرم صاحب نے بہت پہلے سے بیٹیوں کو کاروباری امور سمجھانا شروع کردیے تھے۔ لیکن عام طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ میلسی میں نہر میں ڈوب کر ہلاک ہونے والی لڑکیوں کی عمریں بالترتیب 45، 43،38، 35 اور 31 سال تھیں۔
ماں باپ غربت کی وجہ سے شادیاں نہ کرسکے اور انھوں نے روز روز کے جھگڑوں اور طعنوں سے دل برداشتہ ہوکر موت کو گلے لگالیا۔ ایک اور افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ پہلے تو بیٹے کی چاہ میں لاتعداد بیٹیاں پیدا کرلیں۔ ایک لمحے کو بھی نہ سوچا کہ ان کا کیا بنے گا۔ کہاں سے کھلائیں گے۔ کیونکر شادیاں ہوں گی؟ اور جب بڑی ہوگئیں تو ان کی زندگی اجیرن کردی۔ کیا وہ خود اس دنیا میں آنے کی قصور وار ہیں؟ اور اس سے بھی زیادہ جاہلانہ اور مایوس کن رویہ یہ کہ لڑکیوں کو نہ تعلیم دلوائی جائے گی نہ نوکری کرنے دی جائے گی۔ کچھ عرصہ قبل کراچی کی بھینس کالونی میں ایک شخص نے اپنی تین یا چار بیٹیوں کو بے ہوشی کی دوا پلاکر پانی کے حوض میں ڈبودیا جہاں ان کی موت واقع ہوگئی۔ سچ ہے غربت تمام جرائم کی جڑ ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ گاؤں، گوٹھوں، دیہاتوں اور شہروں میں علمائے کرام، ڈاکٹرز اور سماجی کارکن لوگوں میں یہ شعور پیدا کریں کہ فیملی پلاننگ آج پاکستان کی ضرورت ہے۔ بیٹے اور بیٹی کے چکر میں پڑے بغیر جو بھی خدا دے اسے اپنے رب کا شکر ادا کرکے پالنا چاہیے۔ اگر صرف بیٹیاں ہیں تو انھیں کسی طرح کمتر اور بے کار نہ سمجھا جائے۔ انھیں تعلیم اور ہنر دونوں سے آراستہ کرکے ایک ذمے دار شہری اور گھر کی کفالت کے قابل بنانا چاہیے۔ اس سوچ کو عام کرنے کی ضرورت ہے کہ لڑکیاں بوجھ نہیں ہیں صرف اپنی منفی سوچ کو بدلیے۔ انھیں اللہ کی رحمت سمجھ کر سینے سے لگا لیجیے۔