تزکیۂ قلوب
کیا نظر تھی جس نے مُردوں کو مسیحا کردیا
اللہ کریم قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم: '' اور سب سے بڑی بات یہ کہ کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کے باطن کا تزکیہ کرتے ہیں۔'' دل کا تزکیہ ہوجائے تو پاکیزگی آجائے گی اور دل روشن ہوجائے گا۔
اس تزکیے کا حاصل کیا ہوگا اور تزکیے کا ثواب کیا ملے گا ؟ اگر کوئی اس کے لیے مجاہدہ کرتا ہے، ذکر اللہ کرتا ہے تو اسے کیسے پتا چلے گا کہ اسے تزکیہ نصیب ہو رہا ہے؟ یہ اس کا کردار بتائے گا، اس کی اپنی سوچ بتائے گی۔
اس کے دل میں جو نیّت ہے وہ بتائے گی، اگر نیّت صالح ہے تو تزکیہ ہو رہا ہے، سوچ صالح ہے تو تزکیہ ہو رہا ہے، اعمال صالح ہیں تو ثواب مل رہا ہے اور اگر رات دن تسبیحات پڑھ کر لوگوں سے مال چھین رہا ہے، لوگوں کی عزتیں لوٹ رہا ہے، اخلاق درست نہیں ہوئے، کردار درست نہیں ہوا تو تزکیہ نہیں ہوا۔ اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ میں نے اتنے نفل پڑھے، اتنے سجدے کیے، اتنی تسبیحات پڑھیں۔ ہر عبادت اس بات کی پابند ہے کہ وہ اس طرح کی جائے جیسے کرنے کا حکم رسول اللہ ﷺ نے دیا ہے اور خلوص دل سے کی جائے۔
ہمارے ہاں ایک رواج ہوگیا ہے کہ ہر عبادت کو ہم ثواب کے حوالے سے جانتے ہیں کہ یہ کام کرنے کا اتنا ثواب ہے۔ یہ کوئی نہیں جانتا اور کوئی پوچھتا ہے نہ کوئی بتاتا ہے۔ ثواب ہے کیا ؟ ثواب کا معنی ہوتا ہے اجرت، مزدوری، بدلہ اور قرآن نے ثواب کو کافروں کے لیے بھی استعمال فرمایا، مفہوم: '' کافروں کو اور کیا اجرت ملے گی! جیسے ان کے کرتوت ہیں ویسی اجرت ملے گی۔'' (سورۃ المطففین) یعنی ثواب کو بہ طور اجرت اور بہ طور بدلہ ارشاد فرمایا۔ مومن کو بھی جو ثواب ملتا ہے وہ کام کا بدلہ ہے۔
آخرت میں جو ملے گا وہ تو انعام ہوگا، لیکن ثواب تو یہاں بھی ملتا رہتا ہے۔ جو کام ہم کرتے ہیں اس کا نتیجہ سامنے آتا رہتا ہے۔ اگر ہم نیکی کرتے ہیں تو مزید نیکی کی توفیق اس کا ثواب ہے۔ نماز کا ثواب قرآن نے بتایا کہ نماز بے حیائی اور برائی سے روک دیتی ہے۔ اب ایک آدمی نماز بھی پڑھتا ہے' برائی بھی کرتا ہے۔
اسے سوچنا پڑے گا کہ میں نماز درست نہیں پڑھتا، طریقے میں غلطی ہے، نیّت میں فتور ہے' وضو صحیح نہیں ہے، کہیں کوئی کمی ہے کہ اس نماز پہ ثواب جو ملنا تھا وہ یہ تھا کہ بُرائی چُھوٹ جاتی، بے حیائی چُھوٹ جاتی، وہ چُھوٹ نہیں رہی۔ اس کا مطلب ہے میری نماز میں کوئی کمی ہے۔
تزکیہ کی بنیاد کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے صحابہ کرامؓ کا تعلق بہ راہ راست تھا۔ ایک نگاہ میں ایک عام آدمی جس نے کلمہ پڑھا وہ تزکیے سے سرفراز ہو کر صحابی بن گیا۔ مرد صحابی اور خواتین صجابیہ بن گئیں' ان میں پڑھے لکھے بھی تھے اور ان پڑھ بھی۔ راز کیا تھا ؟ قلب اطہر رسول اللہ ﷺ سے نور کی جو لہر اٹھی ان کے دل کو منور کرگئی۔
ایک نگاہ نے بیڑا پار کردیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لوگ جو ڈاکو چور تھے، ان کا تزکیہ ہوا، خود بھوکے رہتے اور دوسروں کو کھلاتے تھے۔ یعنی سو فی صد تبدیلی آگئی جو اپنی ذات کے لیے لڑتے ان کی تلواریں راہ حق میں اٹھنا شروع ہوگئیں، جو بکھرے ہوئے تھے وہ متحد ہوگئے، جو گم راہ تھے وہ لوگوں کے راہ نما بن گئے :
خود نہ تھے جو راہ پر، اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مُردوں کو مسیحا کردیا
تزکیے کی بنیاد ہے حضور اکرم ﷺ سے تعلق۔ جنہیں بہ راہ راست نصیب ہوگیا وہ صحابیؓ ہوگئے۔ جنہوں نے صحابہؓ کو دیکھا اور ان کے سینے سے پرتو جمال ان کے سینے میں آیا، وہ تابعی ہوگئے۔ جنہوں نے تابعین کو دیکھا اور وہ نور جو ان کے سینے میں تھا۔
ان کے سینے میں منعکس ہوا، تبع تابعی ہوگئے اور اس کے بعد وہ سلسلہ اولیاء اللہ میں منتقل ہوا۔ بڑے اولوالعزم لوگ' بڑے باہمت لوگ زندگی صرف کرکے' محنتیں کرکے انوارات محمدیہ ﷺ کو اپنے دلوں میں منتقل کرتے رہے۔ پھر ان میں بہت مخصوص لوگ ہوئے جن میں یہ قوت بھی اللہ نے دی کہ اس نور کو آگے تقسیم کرسکیں۔ یہ بڑے عجیب' بڑے لاجواب اور بے نظیر لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے وجود سے اللہ کریم نے اپنی رحمتیں وابستہ کر رکھی ہوتی ہیں۔ وہ ایسے بھی ہو تے ہیں کہ ساری زندگی دیکھنا نصیب نہیں ہوا، ملاقات نہیں ہوئی لیکن دردِ دل کو پاگئے۔
اصل طریقہ کار حصول تزکیہ کا یہ ہے کہ اللہ کے بندوں سے انوارات و برکاتِ نبویؐ کو حاصل کیا جائے اور دل میں منتقل کیا جائے۔ دل کا تزکیہ ہوگا تو اس کے ساتھ علوم بھی آئیں گے، مفاہیم بھی آئیں گے، برکات بھی آئیں گی، قرآن کی سمجھ بھی آئے گی، عبادت کی سمجھ بھی آئے گی، عبادت کے اجر کی سمجھ بھی آئے گی' عبادت نصیب ہوگی ۔ اگر کردار یہ نہیں ہے تو پھر دھوکا ہے جو بندہ اپنے آپ کے ساتھ کر رہا ہے۔
نبی کریم ﷺ کے بارے میں حضرت ابراہیمؑ کی جس دعا کا تذکرہ قرآن حکیم کی ان آیات میں فرمایا گیا' اللہ کریم اس کے ثمرات سے ہمیں بھی نوازے، مفہوم: '' یااللہ! ان میں ایسا عالی شان رسولؐ مبعوث فرما جو انہیں تیری آیات سنائے، ان کے مفاہیم سمجھائے، انہیں اپنے احکام و فرامین سے دانش مند بنادے اور ان کا تزکیہ کر دے، انہیں پاک نفس بنادے، پاک دل بنادے، روشن سینہ کردے' چشم بینا کردے ، بے شک تُو غالب ہے اور تُو حکمت والا ہے۔''
اس تزکیے کا حاصل کیا ہوگا اور تزکیے کا ثواب کیا ملے گا ؟ اگر کوئی اس کے لیے مجاہدہ کرتا ہے، ذکر اللہ کرتا ہے تو اسے کیسے پتا چلے گا کہ اسے تزکیہ نصیب ہو رہا ہے؟ یہ اس کا کردار بتائے گا، اس کی اپنی سوچ بتائے گی۔
اس کے دل میں جو نیّت ہے وہ بتائے گی، اگر نیّت صالح ہے تو تزکیہ ہو رہا ہے، سوچ صالح ہے تو تزکیہ ہو رہا ہے، اعمال صالح ہیں تو ثواب مل رہا ہے اور اگر رات دن تسبیحات پڑھ کر لوگوں سے مال چھین رہا ہے، لوگوں کی عزتیں لوٹ رہا ہے، اخلاق درست نہیں ہوئے، کردار درست نہیں ہوا تو تزکیہ نہیں ہوا۔ اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ میں نے اتنے نفل پڑھے، اتنے سجدے کیے، اتنی تسبیحات پڑھیں۔ ہر عبادت اس بات کی پابند ہے کہ وہ اس طرح کی جائے جیسے کرنے کا حکم رسول اللہ ﷺ نے دیا ہے اور خلوص دل سے کی جائے۔
ہمارے ہاں ایک رواج ہوگیا ہے کہ ہر عبادت کو ہم ثواب کے حوالے سے جانتے ہیں کہ یہ کام کرنے کا اتنا ثواب ہے۔ یہ کوئی نہیں جانتا اور کوئی پوچھتا ہے نہ کوئی بتاتا ہے۔ ثواب ہے کیا ؟ ثواب کا معنی ہوتا ہے اجرت، مزدوری، بدلہ اور قرآن نے ثواب کو کافروں کے لیے بھی استعمال فرمایا، مفہوم: '' کافروں کو اور کیا اجرت ملے گی! جیسے ان کے کرتوت ہیں ویسی اجرت ملے گی۔'' (سورۃ المطففین) یعنی ثواب کو بہ طور اجرت اور بہ طور بدلہ ارشاد فرمایا۔ مومن کو بھی جو ثواب ملتا ہے وہ کام کا بدلہ ہے۔
آخرت میں جو ملے گا وہ تو انعام ہوگا، لیکن ثواب تو یہاں بھی ملتا رہتا ہے۔ جو کام ہم کرتے ہیں اس کا نتیجہ سامنے آتا رہتا ہے۔ اگر ہم نیکی کرتے ہیں تو مزید نیکی کی توفیق اس کا ثواب ہے۔ نماز کا ثواب قرآن نے بتایا کہ نماز بے حیائی اور برائی سے روک دیتی ہے۔ اب ایک آدمی نماز بھی پڑھتا ہے' برائی بھی کرتا ہے۔
اسے سوچنا پڑے گا کہ میں نماز درست نہیں پڑھتا، طریقے میں غلطی ہے، نیّت میں فتور ہے' وضو صحیح نہیں ہے، کہیں کوئی کمی ہے کہ اس نماز پہ ثواب جو ملنا تھا وہ یہ تھا کہ بُرائی چُھوٹ جاتی، بے حیائی چُھوٹ جاتی، وہ چُھوٹ نہیں رہی۔ اس کا مطلب ہے میری نماز میں کوئی کمی ہے۔
تزکیہ کی بنیاد کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے صحابہ کرامؓ کا تعلق بہ راہ راست تھا۔ ایک نگاہ میں ایک عام آدمی جس نے کلمہ پڑھا وہ تزکیے سے سرفراز ہو کر صحابی بن گیا۔ مرد صحابی اور خواتین صجابیہ بن گئیں' ان میں پڑھے لکھے بھی تھے اور ان پڑھ بھی۔ راز کیا تھا ؟ قلب اطہر رسول اللہ ﷺ سے نور کی جو لہر اٹھی ان کے دل کو منور کرگئی۔
ایک نگاہ نے بیڑا پار کردیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لوگ جو ڈاکو چور تھے، ان کا تزکیہ ہوا، خود بھوکے رہتے اور دوسروں کو کھلاتے تھے۔ یعنی سو فی صد تبدیلی آگئی جو اپنی ذات کے لیے لڑتے ان کی تلواریں راہ حق میں اٹھنا شروع ہوگئیں، جو بکھرے ہوئے تھے وہ متحد ہوگئے، جو گم راہ تھے وہ لوگوں کے راہ نما بن گئے :
خود نہ تھے جو راہ پر، اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مُردوں کو مسیحا کردیا
تزکیے کی بنیاد ہے حضور اکرم ﷺ سے تعلق۔ جنہیں بہ راہ راست نصیب ہوگیا وہ صحابیؓ ہوگئے۔ جنہوں نے صحابہؓ کو دیکھا اور ان کے سینے سے پرتو جمال ان کے سینے میں آیا، وہ تابعی ہوگئے۔ جنہوں نے تابعین کو دیکھا اور وہ نور جو ان کے سینے میں تھا۔
ان کے سینے میں منعکس ہوا، تبع تابعی ہوگئے اور اس کے بعد وہ سلسلہ اولیاء اللہ میں منتقل ہوا۔ بڑے اولوالعزم لوگ' بڑے باہمت لوگ زندگی صرف کرکے' محنتیں کرکے انوارات محمدیہ ﷺ کو اپنے دلوں میں منتقل کرتے رہے۔ پھر ان میں بہت مخصوص لوگ ہوئے جن میں یہ قوت بھی اللہ نے دی کہ اس نور کو آگے تقسیم کرسکیں۔ یہ بڑے عجیب' بڑے لاجواب اور بے نظیر لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے وجود سے اللہ کریم نے اپنی رحمتیں وابستہ کر رکھی ہوتی ہیں۔ وہ ایسے بھی ہو تے ہیں کہ ساری زندگی دیکھنا نصیب نہیں ہوا، ملاقات نہیں ہوئی لیکن دردِ دل کو پاگئے۔
اصل طریقہ کار حصول تزکیہ کا یہ ہے کہ اللہ کے بندوں سے انوارات و برکاتِ نبویؐ کو حاصل کیا جائے اور دل میں منتقل کیا جائے۔ دل کا تزکیہ ہوگا تو اس کے ساتھ علوم بھی آئیں گے، مفاہیم بھی آئیں گے، برکات بھی آئیں گی، قرآن کی سمجھ بھی آئے گی، عبادت کی سمجھ بھی آئے گی، عبادت کے اجر کی سمجھ بھی آئے گی' عبادت نصیب ہوگی ۔ اگر کردار یہ نہیں ہے تو پھر دھوکا ہے جو بندہ اپنے آپ کے ساتھ کر رہا ہے۔
نبی کریم ﷺ کے بارے میں حضرت ابراہیمؑ کی جس دعا کا تذکرہ قرآن حکیم کی ان آیات میں فرمایا گیا' اللہ کریم اس کے ثمرات سے ہمیں بھی نوازے، مفہوم: '' یااللہ! ان میں ایسا عالی شان رسولؐ مبعوث فرما جو انہیں تیری آیات سنائے، ان کے مفاہیم سمجھائے، انہیں اپنے احکام و فرامین سے دانش مند بنادے اور ان کا تزکیہ کر دے، انہیں پاک نفس بنادے، پاک دل بنادے، روشن سینہ کردے' چشم بینا کردے ، بے شک تُو غالب ہے اور تُو حکمت والا ہے۔''