لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
پوری دنیا ایک بے یقینی کا شکار ہے، جمہوریت کا مستقبل تاریک سے تاریک تر ہورہا ہے اور دنیا کسی نئے نظام کی تلاش میں ہے
سلطنتِ متحدہ (یونائیٹڈ کنگ ڈم) کی ملکہ الزبتھ دوم نے یورپی یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) کے معاملے پر وزیراعظم بورس جانسن کی سفارش پر پارلیمنٹ معطل کرنے کی منظوری دے دی۔ جس کے بعد ستمبر کے دوسرے ہفتے میں برطانوی پارلیمنٹ معطل کردی جائے گی۔ اس طرح تاریخ میں پہلی بار برطانوی پارلیمان معطل ہوگی۔ اس اقدام کا مقصد برطانوی قانون سازوں کو کسی نئی قانون سازی سے باز رکھنا ہے، تاکہ یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کو کسی معاہدے کے بغیر یقینی بنایا جاسکے۔
برطانوی پارلیمان کے ممبران ان دنوں ''موسم گرما کی تعطیلات'' پر ہیں اور 3 ستمبر کو واپس آئیں گے، جبکہ پارلیمنٹ کو 14 اکتوبر تک ملتوی رکھا جائے گا۔ پارلیمنٹ معطل ہونے سے برطانیہ میں کوئی نئی قانون سازی نہیں ہوسکے گی اور اپوزیشن قانون سازوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہوگا کہ وہ 30 اکتوبر تک یورپی یونین سے علیحدگی کے خلاف کوئی قانون پاس کرسکیں۔ اس طرح برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہوجائے گا۔
اس ضمن میں برطانوی وزیراعظم کا استدلال یہ ہے کہ پارلیمنٹ معطلی کا فیصلہ ضروری تھا کیونکہ ان کی حکومت کو آئندہ کا ''لائحہ عمل'' تیار کرنا ہے۔ ہاؤس آف کامن کے اسپیکر نے اسے آئینی ظلم قرار دے دیا ہے۔ کوئی بورس جانسن کو برطانیہ کا ڈکٹیٹر قرار دے رہا ہے تو کوئی اس عمل کو برطانوی جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل گردان رہا ہے۔ کسی نے اسے آئین کی ہتک قرار دیا ہے، تو کسی نے بورس جانسن کو بزدلی کے خطاب سے نوازا ہے۔ اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانوی حکومت کے اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے بورس جانسن کےلیے عظیم (Great) کا لفظ استعمال کیا ہے اور اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ حقائق کی روشنی میں بورس نے وہی کیا جو کرنا چاہیے تھا اور وہ درست ثابت ہوں گے۔ تاہم پوری دنیا اس فیصلے پر انگشت بدنداں ہے کہ مادرِ جمہوریت کہلانے والے برطانیہ میں ہی جمہوریت کا یوں گلا گھونٹ دیا گیا کہ بریگزٹ معاملے پر پارلیمنٹ کو معطل کرکے قوم کے حقِ نمائندگی کی نفی کردی گئی۔
پارلیمنٹ کا مقصد ہی یہ ہوتا ہےکہ کسی بھی نئی قانون سازی، فیصلہ سازی میں تمام نمائندوں کو شریک کیا جائے اور رائے شماری کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے۔ اگر فردِ واحد نے یا ایک پارٹی نے ہی تمام فیصلے کرنا ہوں اور پارلیمنٹ کو عضو معطل بنا کر رکھنا ہو تو اسے کم از کم جمہوریت نہیں کہتے۔ یہ خلیج کا آمرانہ یا چین کا ون پارٹی سسٹم تو ہوسکتا ہے، وہ جمہوریت نہیں جس کی تعریف ''گورنمنٹ آف دی پیپل، فار دی پیپل، بائے دی پیپل'' کے خوشنما نعرے سے کی جاتی ہے۔ وزیراعظم کے اس اقدام کو کس قدر پذیرائی ملی ہے، اس کا اس بات سے حساب لگایاجا سکتا ہے کہ محض چوبیس گھنٹوں میں لاکھوں افراد وزیراعظم کے اس عمل کےخلاف دستخطی مہم کا حصہ بن چکے ہیں اور پارلیمان کی معطلی کے خلاف پٹیشن پر اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد دستخط کرچکے ہیں۔
ایک طرف یورپ کے سر کا تاج برطانیہ ہے، جسے دنیا کی قدیم ترین جمہوریت اور جمہوریت کا فالو ایبل ماڈل قرار دیا جاتا ہے، جہاں حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ ایک آٹھ دن کا وزیراعظم پوری پارلیمنٹ ہی معطل کر دیتا ہے اور دوسرے سرے پر امریکا ہے جس کا صدر اپنے سے اوپر کسی کو کچھ گردانتا ہی نہیں۔ بیچ میں کہیں ''دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت'' بھارت کی آجاتی ہے، جہاں حالات یہ ہیں کہ ایک صدارتی حکم نامے سے ایک قانون پاس کروا کر اُس خطہ کشمیر میں نافذ کر دیا جاتا ہے جس کو پہلے سے ہی حقِ نمائندگی سے محروم رکھا ہوا ہے، جس کی پارلیمنٹ ختم کرکے گورنر راج نافذ کیا جاچکا تھا، بلکہ گورنر راج تو چھ ماہ کے لیے تھا، گزشتہ 8 ماہ سے وہاں ''صدر راج'' نافذ تھا۔ دنیا کی بڑی اور نام نہاد جمہوریتوں، اونچی دکانوں کے پھیکے پکوانوں کا یہ حال ہے۔
اس سارے منظر نامے میں علامہ اقبالؔ بہت یاد آرہے ہیں۔ اقبالؔ نے دہائیوں قبل بتا دیا تھا کہ
ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
اقبال فرماتے ہیں کہ یہ جمہوری نظام جسے تم آزادی کی نیلم پری سمجھ رہے ہو، درحقیقت ظلم و استبداد کا دیو ہے جو پاؤں مارتا تمہاری جانب بڑھ رہا ہے۔ اقبال نے محض جمہوری نظام کا حقیقی چہرہ ہی عیاں نہیں کیا بلکہ ''ضربِ کلیم'' میں ''جمہوریت'' کے عنوان سے ایک قطعہ میں اس کا سبب بھی بتایا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جمہوریت قابلِ بھروسہ نہیں۔ فرماتے ہیں:
اس راز کو اک مردِ فرنگی نے کیا فاش
ہرچند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اِک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے
روایت ہے کہ افلاطون نے سقراط کے مقدمہ، اس کی سزا اور اس کی موت کا منظر خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس مشہور زمانہ مقدمے میں تقریباً چار سو یا بعض روایتوں کے مطابق پانچ سو شہری جیوری کی حیثیت سے بٹھائے گئے تھے۔ گویا سقراط کی سزائے موت کا پروانہ ایتھنز کی ''جمہوری سوسائٹی'' نے صادر کیا تھا۔ نتیجتاً افلاطون کو اس عوامی جمہوری نظام سے سخت نفرت ہوگئی اور اس نے اس جمہوری نظام کے مقابلے میں ایک نئے نظامِ حکومت کا خاکہ تجویز کیا۔ یہ خاکہ ہمیں افلاطون کی کتاب ''ری پبلک'' میں ملتا ہے، جو درحقیقت سقراط کے ساتھ مکالمے پر مشتمل ہے۔ افلاطون کے خیال میں ایک اچھا معاشرہ اور اچھی حکومت اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتی جب تک بادشاہ فلسفیوں کی طرح نہ سوچنے لگے یا دوسرے لفظوں میں زمامِ کار فلسفیوں کو نہ سونپ دی جائے، کیونکہ سوسائٹی کا ہر فرد یہ اہلیت نہیں رکھتا کہ وہ حکومت کی ذمے داریاں سنبھال سکے۔ اسی لیے صرف ان لوگوں کو حکومت میں آنا چاہیے جو اس کا ہنر جانتے ہوں۔
اقبال نے اپنے قطعہ میں افلاطون کی اسی فکر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ راز ایک مردِ فرنگی نے فاش کیا ہے کہ سب لوگوں کی عقل میزانِ خرد و فکر میں یکساں وزن کی حامل نہیں ہے۔
افلاطون کا تمام تر کام وقت کی گردش کے باعث گرد میں دب گیا، مگر بعد میں ایک مسلمان مفکر ابو نصر فارابی نے افلاطون کے کام کو پھر سے زندہ کیا اور اس کی کتب کا نہ صرف عربی زبان میں ترجمہ کیا بلکہ اس پر اپنا تبصرہ بھی لکھا۔ فارابی کے بعد ان کے کام کو ابن سینا نے آگے بڑھایا اور اس کے بعد ابن رشد اس کام میں ایک نئی کڑی کے طور پر منسلک ہوئے۔ ان تینوں مسلمان فلسفیوں میں یہ بات مشترک ہے کہ یہ ریشنلسٹس (RATIONALISTS) یعنی استدلالی تھے۔ انہوں نے روایتی فکر کے مقابلے پر تجزیاتی تحقیقات اور عقل کی بنیاد پر کیے گئے تجربات کو ترقی دی۔ ہم نے ان فلسفیوں سے کچھ سیکھنے کے بجائے یہ ظلم کیا کہ دین و دنیا کو علیحدہ علیحدہ کردیا۔ محراب و منبر کی وراثت کےلیے ہم نے الگ معیار بنالیا اور قانون و سیاست کےلیے الگ۔ اس سے جہاں دونوں معاملات میں ایک خلیج حائل ہوئی، وہیں تحقیق کا در بھی بند ہوگیا اور ہم بالکل محتاج ہو کر بیٹھ گئے۔ کیونکہ دینی معاملات میں عقل و استدلال کو پسِ پشت ڈالنے کی وجہ سے ہمیں تقلید جامد کو دانتوں میں دابنا پڑا، جبکہ دنیاوی معاملات میں ہم نے اقوامِ دیگر بالخصوص مغرب کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔ جس کی دانش کا جلوہ ہمیں خیرہ کررہا تھا۔ جب ہم مکمل دربدر ہو گئے تو ''گورنمنٹ آف دی پیپل، فار دی پیپل، بائے دی پیپل'' کے نعرے سے متاثر ہو گئے اور مغرب سے ''اکیاون فیصد'' والی جمہوریت مستعار لے کر اسے دیسی سانچے میں ڈھال کر اپنے ہاں نافذ کردیا۔
اگرچہ میں جمہوریت کے خلاف نہیں ہوں مگر یہ ''51 فیصد'' والی مغربی جمہوریت کسی بھی طور جمہور کی حکمرانی نہیں ہے، مگر ہم نے اسی کو حتمی نظامِ حکومت مان کر اپنے ہاں لاگو کرلیا۔ جب کبھی اس نظام کے خلاف آواز بلند ہوئی یا اس کے لولے لنگڑے ہونے پر تنقید کی گئی تو یہ کہہ کر چپ کرادیا گیا کہ یہ ایک ارتقائی عمل ہے۔ مغرب نے یہ بلند مقام انہی گھاٹیوں سے گزر کر حاصل کیا ہے۔ اس نظام میں وقت کے ساتھ ساتھ تطہیر ہوتی ہے، جوں جوں لوگوں میں شعور آتا جائے گا، حالات بہتری کی طرف گامزن ہوتے جائیں گے۔
ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے کسی معجزے کی آس میں بیٹھ گئے کہ شاید کبھی آسمان سے خرد و فکر کی بارش ہو اور عوام ذات، برادری، حسب، نسب، رنگ، نسل، زبان ، قوم، قبیلے او ربرادری کی قید سے ماورا ہو کر اپنے حکمرانوں کا انتخاب کر سکیں۔ مگریہ بھول گئے کہ اَن ہونیاں کبھی نہیں ہوتیں۔
جب اس جمہوری نظام نے بھارت کو ''نریندر مودی'' جیسا متعصب شخص ہدیتاً پیش کیا تو اس نظام کی بنیادوں پر پھر سے سوال اٹھے مگر یہ کہہ کر تسلی دی گئی کہ بھارت کے بیشتر عوام شعور سے عاری ہیں، اس وجہ سے ایسا ممکن ہوا مگر جب امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ بیشتر امریکی عوام کی ناپسندیدگی کے باوجود منتخب ہوگئے تو دنیا کو ایک سانپ سا سونگھ گیا۔ اب برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے اونٹ پر آخری تنکے کے مصداق پارلیمان معطل کرنے کے فیصلے سے یہ آشکار کردیا ہے کہ اب جمہوریت کا وقت تمام ہوچکا، دنیا بھر میں جمہوری نظام آخری دموں پر ہے۔
اقبالؔ نے جمہوری نظام کی بالکل درست نشاندہی کی تھی کہ
گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کارے شو
کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آید
(اے تجربہ کار اور عقلمند غلام! جمہوری طرزِ حکومت سے دور رہ کیونکہ کبھی دو سو گدھوں کی عقل ایک انسانی فکر کے برابر نہیں ہوسکتی)
اس وقت سبھی گنگ ہیں، کسی کو سمجھ نہیں آرہا کہ کیا ہو رہا ہے، پوری دنیا ایک بے یقینی کا شکار ہے، جمہوریت کا مستقبل تاریک سے تاریک تر ہورہا ہے اور دنیا کسی نئے نظام کی تلاش میں ہے۔ جمہوریت کے جال سے صیاد اپنے ہی دام میں آچکا ہے۔ اب تجزیہ کار نت نئی تاویلات سامنے لائیں گے کہ بورس جانسن کا یہ اقدام جمہوریت کو فلاں فلاں طریقے سے مضبوط بنائے گا، حالانکہ حقیقت سب جانتے ہیں۔ اگر جمہوریت میں فیصلہ سازی ملکی و قومی مفاد کو دیکھ کر کی جاتی تو کبھی بھی پارلیمان کو معطل کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ (یہاں ملکی و قومی مفاد سے مراد وہی مفاد ہے جسے برسرِ اقتدار جماعت ملکی و قومی مفاد گردانتی ہے)
ہم نے دیکھا کہ جب بھی اکیاون فیصد والی جمہوریت کو انچاس فیصد کی جانب سے برابر کی ٹکر دی گئی تو فساد برپا ہوا۔ وہ چاہے کشمیر میں اَن گنت پابندیوں کی صورت میں برآمد ہوا ہو یا پھر برطانیہ میں پارلیمنٹ کی معطلی سے، ان سب نے یہی ثابت کیا کہ جب ایک سے زائد لوگوں کے ہاتھ میں معاملات آجائیں تو پھر نظام تباہی کی جانب ہی بڑھتا ہے۔ یہی وقت ہے کہ ہم اپنے اُس نظام، جسے صدیوں سے ہم نے کتابوں میں چھپا کر رکھا ہوا ہے، گرد جھاڑ کر باہر نکالیں اور اس کے تجربات شروع کریں تاکہ جنوری 1948 کو اسلامیہ کالج پشاور سے کیے گئے قائداعظم کے خطاب کو عملی شکل دی جا سکے کہ ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کےلیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے، جہاں ہم اسلامی اصولوں کو آزما سکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
برطانوی پارلیمان کے ممبران ان دنوں ''موسم گرما کی تعطیلات'' پر ہیں اور 3 ستمبر کو واپس آئیں گے، جبکہ پارلیمنٹ کو 14 اکتوبر تک ملتوی رکھا جائے گا۔ پارلیمنٹ معطل ہونے سے برطانیہ میں کوئی نئی قانون سازی نہیں ہوسکے گی اور اپوزیشن قانون سازوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہوگا کہ وہ 30 اکتوبر تک یورپی یونین سے علیحدگی کے خلاف کوئی قانون پاس کرسکیں۔ اس طرح برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہوجائے گا۔
اس ضمن میں برطانوی وزیراعظم کا استدلال یہ ہے کہ پارلیمنٹ معطلی کا فیصلہ ضروری تھا کیونکہ ان کی حکومت کو آئندہ کا ''لائحہ عمل'' تیار کرنا ہے۔ ہاؤس آف کامن کے اسپیکر نے اسے آئینی ظلم قرار دے دیا ہے۔ کوئی بورس جانسن کو برطانیہ کا ڈکٹیٹر قرار دے رہا ہے تو کوئی اس عمل کو برطانوی جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل گردان رہا ہے۔ کسی نے اسے آئین کی ہتک قرار دیا ہے، تو کسی نے بورس جانسن کو بزدلی کے خطاب سے نوازا ہے۔ اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانوی حکومت کے اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے بورس جانسن کےلیے عظیم (Great) کا لفظ استعمال کیا ہے اور اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ حقائق کی روشنی میں بورس نے وہی کیا جو کرنا چاہیے تھا اور وہ درست ثابت ہوں گے۔ تاہم پوری دنیا اس فیصلے پر انگشت بدنداں ہے کہ مادرِ جمہوریت کہلانے والے برطانیہ میں ہی جمہوریت کا یوں گلا گھونٹ دیا گیا کہ بریگزٹ معاملے پر پارلیمنٹ کو معطل کرکے قوم کے حقِ نمائندگی کی نفی کردی گئی۔
پارلیمنٹ کا مقصد ہی یہ ہوتا ہےکہ کسی بھی نئی قانون سازی، فیصلہ سازی میں تمام نمائندوں کو شریک کیا جائے اور رائے شماری کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے۔ اگر فردِ واحد نے یا ایک پارٹی نے ہی تمام فیصلے کرنا ہوں اور پارلیمنٹ کو عضو معطل بنا کر رکھنا ہو تو اسے کم از کم جمہوریت نہیں کہتے۔ یہ خلیج کا آمرانہ یا چین کا ون پارٹی سسٹم تو ہوسکتا ہے، وہ جمہوریت نہیں جس کی تعریف ''گورنمنٹ آف دی پیپل، فار دی پیپل، بائے دی پیپل'' کے خوشنما نعرے سے کی جاتی ہے۔ وزیراعظم کے اس اقدام کو کس قدر پذیرائی ملی ہے، اس کا اس بات سے حساب لگایاجا سکتا ہے کہ محض چوبیس گھنٹوں میں لاکھوں افراد وزیراعظم کے اس عمل کےخلاف دستخطی مہم کا حصہ بن چکے ہیں اور پارلیمان کی معطلی کے خلاف پٹیشن پر اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد دستخط کرچکے ہیں۔
ایک طرف یورپ کے سر کا تاج برطانیہ ہے، جسے دنیا کی قدیم ترین جمہوریت اور جمہوریت کا فالو ایبل ماڈل قرار دیا جاتا ہے، جہاں حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ ایک آٹھ دن کا وزیراعظم پوری پارلیمنٹ ہی معطل کر دیتا ہے اور دوسرے سرے پر امریکا ہے جس کا صدر اپنے سے اوپر کسی کو کچھ گردانتا ہی نہیں۔ بیچ میں کہیں ''دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت'' بھارت کی آجاتی ہے، جہاں حالات یہ ہیں کہ ایک صدارتی حکم نامے سے ایک قانون پاس کروا کر اُس خطہ کشمیر میں نافذ کر دیا جاتا ہے جس کو پہلے سے ہی حقِ نمائندگی سے محروم رکھا ہوا ہے، جس کی پارلیمنٹ ختم کرکے گورنر راج نافذ کیا جاچکا تھا، بلکہ گورنر راج تو چھ ماہ کے لیے تھا، گزشتہ 8 ماہ سے وہاں ''صدر راج'' نافذ تھا۔ دنیا کی بڑی اور نام نہاد جمہوریتوں، اونچی دکانوں کے پھیکے پکوانوں کا یہ حال ہے۔
اس سارے منظر نامے میں علامہ اقبالؔ بہت یاد آرہے ہیں۔ اقبالؔ نے دہائیوں قبل بتا دیا تھا کہ
ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
اقبال فرماتے ہیں کہ یہ جمہوری نظام جسے تم آزادی کی نیلم پری سمجھ رہے ہو، درحقیقت ظلم و استبداد کا دیو ہے جو پاؤں مارتا تمہاری جانب بڑھ رہا ہے۔ اقبال نے محض جمہوری نظام کا حقیقی چہرہ ہی عیاں نہیں کیا بلکہ ''ضربِ کلیم'' میں ''جمہوریت'' کے عنوان سے ایک قطعہ میں اس کا سبب بھی بتایا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جمہوریت قابلِ بھروسہ نہیں۔ فرماتے ہیں:
اس راز کو اک مردِ فرنگی نے کیا فاش
ہرچند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اِک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے
روایت ہے کہ افلاطون نے سقراط کے مقدمہ، اس کی سزا اور اس کی موت کا منظر خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس مشہور زمانہ مقدمے میں تقریباً چار سو یا بعض روایتوں کے مطابق پانچ سو شہری جیوری کی حیثیت سے بٹھائے گئے تھے۔ گویا سقراط کی سزائے موت کا پروانہ ایتھنز کی ''جمہوری سوسائٹی'' نے صادر کیا تھا۔ نتیجتاً افلاطون کو اس عوامی جمہوری نظام سے سخت نفرت ہوگئی اور اس نے اس جمہوری نظام کے مقابلے میں ایک نئے نظامِ حکومت کا خاکہ تجویز کیا۔ یہ خاکہ ہمیں افلاطون کی کتاب ''ری پبلک'' میں ملتا ہے، جو درحقیقت سقراط کے ساتھ مکالمے پر مشتمل ہے۔ افلاطون کے خیال میں ایک اچھا معاشرہ اور اچھی حکومت اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتی جب تک بادشاہ فلسفیوں کی طرح نہ سوچنے لگے یا دوسرے لفظوں میں زمامِ کار فلسفیوں کو نہ سونپ دی جائے، کیونکہ سوسائٹی کا ہر فرد یہ اہلیت نہیں رکھتا کہ وہ حکومت کی ذمے داریاں سنبھال سکے۔ اسی لیے صرف ان لوگوں کو حکومت میں آنا چاہیے جو اس کا ہنر جانتے ہوں۔
اقبال نے اپنے قطعہ میں افلاطون کی اسی فکر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ راز ایک مردِ فرنگی نے فاش کیا ہے کہ سب لوگوں کی عقل میزانِ خرد و فکر میں یکساں وزن کی حامل نہیں ہے۔
افلاطون کا تمام تر کام وقت کی گردش کے باعث گرد میں دب گیا، مگر بعد میں ایک مسلمان مفکر ابو نصر فارابی نے افلاطون کے کام کو پھر سے زندہ کیا اور اس کی کتب کا نہ صرف عربی زبان میں ترجمہ کیا بلکہ اس پر اپنا تبصرہ بھی لکھا۔ فارابی کے بعد ان کے کام کو ابن سینا نے آگے بڑھایا اور اس کے بعد ابن رشد اس کام میں ایک نئی کڑی کے طور پر منسلک ہوئے۔ ان تینوں مسلمان فلسفیوں میں یہ بات مشترک ہے کہ یہ ریشنلسٹس (RATIONALISTS) یعنی استدلالی تھے۔ انہوں نے روایتی فکر کے مقابلے پر تجزیاتی تحقیقات اور عقل کی بنیاد پر کیے گئے تجربات کو ترقی دی۔ ہم نے ان فلسفیوں سے کچھ سیکھنے کے بجائے یہ ظلم کیا کہ دین و دنیا کو علیحدہ علیحدہ کردیا۔ محراب و منبر کی وراثت کےلیے ہم نے الگ معیار بنالیا اور قانون و سیاست کےلیے الگ۔ اس سے جہاں دونوں معاملات میں ایک خلیج حائل ہوئی، وہیں تحقیق کا در بھی بند ہوگیا اور ہم بالکل محتاج ہو کر بیٹھ گئے۔ کیونکہ دینی معاملات میں عقل و استدلال کو پسِ پشت ڈالنے کی وجہ سے ہمیں تقلید جامد کو دانتوں میں دابنا پڑا، جبکہ دنیاوی معاملات میں ہم نے اقوامِ دیگر بالخصوص مغرب کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔ جس کی دانش کا جلوہ ہمیں خیرہ کررہا تھا۔ جب ہم مکمل دربدر ہو گئے تو ''گورنمنٹ آف دی پیپل، فار دی پیپل، بائے دی پیپل'' کے نعرے سے متاثر ہو گئے اور مغرب سے ''اکیاون فیصد'' والی جمہوریت مستعار لے کر اسے دیسی سانچے میں ڈھال کر اپنے ہاں نافذ کردیا۔
اگرچہ میں جمہوریت کے خلاف نہیں ہوں مگر یہ ''51 فیصد'' والی مغربی جمہوریت کسی بھی طور جمہور کی حکمرانی نہیں ہے، مگر ہم نے اسی کو حتمی نظامِ حکومت مان کر اپنے ہاں لاگو کرلیا۔ جب کبھی اس نظام کے خلاف آواز بلند ہوئی یا اس کے لولے لنگڑے ہونے پر تنقید کی گئی تو یہ کہہ کر چپ کرادیا گیا کہ یہ ایک ارتقائی عمل ہے۔ مغرب نے یہ بلند مقام انہی گھاٹیوں سے گزر کر حاصل کیا ہے۔ اس نظام میں وقت کے ساتھ ساتھ تطہیر ہوتی ہے، جوں جوں لوگوں میں شعور آتا جائے گا، حالات بہتری کی طرف گامزن ہوتے جائیں گے۔
ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے کسی معجزے کی آس میں بیٹھ گئے کہ شاید کبھی آسمان سے خرد و فکر کی بارش ہو اور عوام ذات، برادری، حسب، نسب، رنگ، نسل، زبان ، قوم، قبیلے او ربرادری کی قید سے ماورا ہو کر اپنے حکمرانوں کا انتخاب کر سکیں۔ مگریہ بھول گئے کہ اَن ہونیاں کبھی نہیں ہوتیں۔
جب اس جمہوری نظام نے بھارت کو ''نریندر مودی'' جیسا متعصب شخص ہدیتاً پیش کیا تو اس نظام کی بنیادوں پر پھر سے سوال اٹھے مگر یہ کہہ کر تسلی دی گئی کہ بھارت کے بیشتر عوام شعور سے عاری ہیں، اس وجہ سے ایسا ممکن ہوا مگر جب امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ بیشتر امریکی عوام کی ناپسندیدگی کے باوجود منتخب ہوگئے تو دنیا کو ایک سانپ سا سونگھ گیا۔ اب برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے اونٹ پر آخری تنکے کے مصداق پارلیمان معطل کرنے کے فیصلے سے یہ آشکار کردیا ہے کہ اب جمہوریت کا وقت تمام ہوچکا، دنیا بھر میں جمہوری نظام آخری دموں پر ہے۔
اقبالؔ نے جمہوری نظام کی بالکل درست نشاندہی کی تھی کہ
گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کارے شو
کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آید
(اے تجربہ کار اور عقلمند غلام! جمہوری طرزِ حکومت سے دور رہ کیونکہ کبھی دو سو گدھوں کی عقل ایک انسانی فکر کے برابر نہیں ہوسکتی)
اس وقت سبھی گنگ ہیں، کسی کو سمجھ نہیں آرہا کہ کیا ہو رہا ہے، پوری دنیا ایک بے یقینی کا شکار ہے، جمہوریت کا مستقبل تاریک سے تاریک تر ہورہا ہے اور دنیا کسی نئے نظام کی تلاش میں ہے۔ جمہوریت کے جال سے صیاد اپنے ہی دام میں آچکا ہے۔ اب تجزیہ کار نت نئی تاویلات سامنے لائیں گے کہ بورس جانسن کا یہ اقدام جمہوریت کو فلاں فلاں طریقے سے مضبوط بنائے گا، حالانکہ حقیقت سب جانتے ہیں۔ اگر جمہوریت میں فیصلہ سازی ملکی و قومی مفاد کو دیکھ کر کی جاتی تو کبھی بھی پارلیمان کو معطل کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ (یہاں ملکی و قومی مفاد سے مراد وہی مفاد ہے جسے برسرِ اقتدار جماعت ملکی و قومی مفاد گردانتی ہے)
ہم نے دیکھا کہ جب بھی اکیاون فیصد والی جمہوریت کو انچاس فیصد کی جانب سے برابر کی ٹکر دی گئی تو فساد برپا ہوا۔ وہ چاہے کشمیر میں اَن گنت پابندیوں کی صورت میں برآمد ہوا ہو یا پھر برطانیہ میں پارلیمنٹ کی معطلی سے، ان سب نے یہی ثابت کیا کہ جب ایک سے زائد لوگوں کے ہاتھ میں معاملات آجائیں تو پھر نظام تباہی کی جانب ہی بڑھتا ہے۔ یہی وقت ہے کہ ہم اپنے اُس نظام، جسے صدیوں سے ہم نے کتابوں میں چھپا کر رکھا ہوا ہے، گرد جھاڑ کر باہر نکالیں اور اس کے تجربات شروع کریں تاکہ جنوری 1948 کو اسلامیہ کالج پشاور سے کیے گئے قائداعظم کے خطاب کو عملی شکل دی جا سکے کہ ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کےلیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے، جہاں ہم اسلامی اصولوں کو آزما سکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔