پنجاب میں موٹر سائیکل رکشا ٹریفک کی بدنظمی و حادثات کا بڑا سبب

10، 15 فیصد موٹر سائیکل رکشا چینی کمپنیوں کے بنائے ہوئے ہیں جن کا معیار بہتر ہے، رپوٹ

حکومت متبادل سفری نظام نہ لا سکی، 85 فیصد سے زائد رکشوںکا بریک سسٹم غیر محفوظ۔ فوٹو : فائل

نیشنل ٹرانسپورٹ ریسرچ سینٹر نے برطانوی حکومت کے اشتراک سے پنجاب میں موٹر سائیکل رکشا کے استعمال، مسائل اور تکنیکی خامیوں کے حوالے سے کی جانیوالی ریسرچ میں اہم ترین نکات کی نشاندہی کر دی ہے، یہ ریسرچ رپورٹ 5 ستمبر کو جاری کی جائے گی۔

پنجاب سمیت ملک بھر میں چلنے والے غیرمعیاری اور غیر قانونی 20لاکھ سے زائد موٹرسائیکل رکشا ٹریفک کی بدنظمی اور حادثات کا بڑا سبب بن گئے ہیں، 85 فیصد سے زائد موٹر سائیکل رکشوںکا بریک سسٹم غیرمحفوظ ہے۔

گزشتہ 15 برس کے دوران برسر اقدار آنے والی وفاقی و صوبائی حکومتیں سیاسی مفادات اور عوامی دباؤ کی وجہ سے اس معاملے کو حل کرنے میں ناکام رہی ہیں جبکہ ٹرانسپورٹ، ٹریفک ، صنعت، ایکسائز، اسٹینڈرڈ کوالٹی کنٹرول کے وفاقی وصوبائی محکمے باہمی رابطے کے فقدان، قوانین میں سقم، متبادل نظام کیلیے مالی وسائل کی قلت کے سبب ریگولیٹ اور انفورسمنٹ کے معاملے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔


پنجاب میں 2006-7 کے دوران موٹر سائیکل رکشا کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوا تھا، 10، 15فیصد موٹر سائیکل رکشا چائنا کمپنیوں کے بنائے ہوئے ہیں جن کا معیار بہتر ہے اور یہ سنگل چیسز پر بنے ہوئے ہیں لیکن دیگر 85 فیصد رکشا ایسے ہیں جو لوہے کا فریم موٹر سائیکل ڈھانچہ کے ساتھ ویلڈنگ کرکے بنائے گئے ہیں۔

90 فیصد سے زائد موٹر سائیکل رکشوں میں 70 سی سی ہارس پاور کی استعمال کی جاتی ہیں جو 6 سواریوں اور ایک ڈرائیور کا وزن برداشت کرنے کیلیے ناکافی ہے، پاکستان اسٹینڈرڈ کوالٹی کنٹرول کے ادارے کے مطابق موٹر سائیکل رکشا کا چیسز سنگل فریم ہونا چاہیے، خودساختہ موٹر سائیکل رکشے غیر قانونی ہیں۔

ریسرچ رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں20 لاکھ سے زائد موٹر سائیکل رکشا ہیں جو شہری اور دیہی علاقوں میں غریب عوام کیلیے آسان ٹرانسپورٹ کا ذریعہ ہیں لیکن عوام اور حکومت ان موٹر سائیکل رکشا کو غیر معیاری اور خطرناک ٹرانسپورٹ وہیکل قرار دیتی ہے، چیف نیشنل ٹرانسپورٹ ریسرچ سینٹر حمید اختر نے ایکسپریس کو بتایا کہ قوانین کا جائزہ لیا گیا ہے، مشاورت کے بعد عوام کے سامنے لایا جائے گا۔

 
Load Next Story