بھارت کے دو اگنی میزائل
بھارت دو ایسے راستوں پر چل پڑا ہے جو نہ صرف ایشیا کے مستقبل کے لیے شدید خطرات کا باعث بن سکتے ہیں بلکہ خود...
بھارت دو ایسے راستوں پر چل پڑا ہے جو نہ صرف ایشیا کے مستقبل کے لیے شدید خطرات کا باعث بن سکتے ہیں بلکہ خود بھارت کے مستقبل کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان میں ایک راستہ ہندوازم کا فروغ ہے دوسرا راستہ جدید ترین ہتھیاروں کی تیاری کا ہے۔ 2014 میں ہونے والے عام انتخابات میں بھارت کی مذہبی انتہا پسند جماعت بھارت جنتا پارٹی نے گجرات کے بدنام وزیر اعلیٰ اور گجرات کے مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کو وزیر اعظم نامزد کیا ہے یہ وہی نریندر مودی ہے جس نے اپنی نگرانی میں گجرات کے مسلمانوں کا بدترین قتل عام کرایا جس کی مذمت بھارت کے غیر جانبدار حلقے آج تک کر رہے ہیں۔
الٰہ آباد کے ایک ہندو شاعر نے گجرات کے قتل عام پر ''ماں'' کے نام سے جو نظم لکھی تھی وہ پاکستان اور ہندوستان میں بے حد مقبول ہوئی اس نظم میں شاعر نے ایک مسلمان ماں کے پیٹ میں پلنے والے بچے کی زبانی اپنی ماں کے قتل کا ایسا شکوہ کیا ہے کہ سننے والوں کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ کراچی میں جب اس شاعر نے یہ نظم سنائی تو ہم سمیت تمام حاضرین کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل گئے۔ ایسے مذہبی انتہا پسند کو 2014 کے الیکشن میں بھارت کا وزیر اعظم نامزد کرنا بی جے پی کی مذہبی انتہا پسندی کی ایک بدترین مثال ہی نہیں بلکہ اس سے بھارت کا وہ سیکولر تشخص بھی تباہ ہوجائے گا جس پر بھارتی حکمران فخر کرتے رہتے ہیں۔
بی جے پی اپنے انتہا پسندانہ کارناموں کی وجہ ساری دنیا میں بدنام ہے بابری مسجد اور رام مندر کا خونریز جھگڑا بھی بی جے پی ہی کا کارنامہ ہے بھارت میں مذہبی انتہا پسندی جس طرح فروغ پا رہی ہے اس کا اندازہ اس حوالے سے لگایا جاسکتا ہے کہ بی جے پی جیسی ہندو توا کا پروگرام رکھنے والی جماعت نہ صرف مرکز میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب رہی بلکہ اب بھی بھارت کی کئی اہم ریاستوں میں اس کی حکومتیں قائم ہیں جن میں مہاراشٹر جیسی اہم ریاست بھی شامل ہے۔ واجپائی بی جے پی کی حکومت میں وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور خطرناک ترین بات یہ ہے کہ بی جے پی عوام کے ووٹوں سے یہ کامیابی حاصل کرتی آرہی ہے۔ بھارت کی سیاسی پارٹیوں نے ہی مودی کو وزیر اعظم نامزد کرنے کی مذمت نہیں کی بلکہ خود بی جے پی کے ایک مشہور مرکزی رہنما نے بی جے پی کے اس فیصلے کی نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ اس فیصلے کے خلاف پارٹی چھوڑنے کا اعلان بھی کیا ہے۔
نریندر مودی کو وزیر اعظم نامزد کرنے کا پاکستان پر بھی گہرا اثر پڑے گا یہاں کی مذہبی انتہا پسند طاقتوں کے لیے اپنی انتہا پسندی کے لیے یہ جواز بن جائے گا اور پاکستان میں پہلے ہی سے بے لگام مذہبی انتہا پسندی اور زیادہ بے لگام ہوجائے گی اور برصغیر کے 1947 کی طرف واپسی کے خطرناک امکانات پیدا ہوجائیں گے بھارتی حکمران اور دانشور ہمیشہ یہ کہتے ہوئے آئے ہیں کہ بھارتی معاشرے کی عمارت سیکولرزم کی بنیاد پر کھڑی ہوئی ہے اگر بھارت کی سیاست سے سیکولرزم نکل جائے گا تو بھارت کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانا ممکن نہیں رہے گا اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ دنیا میں امن اور خوشحالی کے لیے سیکولرزم کا پھیلاؤ اور استحکام ضروری ہے لیکن دنیا کے دوسرے بڑے ملک میں اگر سیکولرزم ناکام ہوجاتا ہے تو پھر دنیا کا مستقبل ایک سوالیہ نشان بن جائے گا۔ اور خود بھارت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گا۔
آج پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی جس مقام پر پہنچ گئی ہے اس کی ایک بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ بھارت کے حکمران طبقے نے 66 سال سے کشمیر کے حوالے سے جو پالیسی اپنائی ہے وہ سامراجی ذہنیت کی پیداوار ہے سامراج کی سب سے بڑی پہچان طاقت کے ذریعے کمزور ملکوں پر قبضہ کرنا ہے نوآبادیاتی نظام سامراجی ذہنیت کا ترجمان تھا اور جنگل کے قانون کی بنیاد بھی طاقت کے اصول پر قائم ہے یعنی طاقت ور کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی طاقت کے ذریعے کمزور کا شکار کرے۔ بھارت 66 سالوں سے کشمیر پر طاقت کے ذریعے حکمرانی کر رہا ہے اور 6 لاکھ فوج کشمیر میں بھارت کی حکمرانی کی طاقت بنی ہوئی ہے لیکن دنیا کی جدید تاریخ شاہد ہے کہ ملکوں کی اصل طاقت اس کے عوام ہوتے ہیں فوج نہیں، اس کا تجربہ امریکا جیسی سپر پاور کو عراق اور افغانستان میں ہوا ہے اور بھارت کو کشمیر میں ہورہا ہے۔ بھارت میں نریندر مودی جیسے مذہبی فاشسٹ برسر اقتدار آئیں تو اس پورے خطے کے جہنم بن جانے میں کوئی شک باقی نہیں رہے گا۔
بھارتی حکمران طبقے نے 5 بھارتی فوجیوں کے قتل کو بہانہ بناکر دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے عمل اور اقوام متحدہ میں دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کی ملاقات کو جس طرح مشکوک یا رسمی بنا دیا ہے اگر بھارت میں بی جے پی جیسی مذہبی انتہا پسند جماعت برسر اقتدار آتی ہے تو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کیا صورت اختیار کرسکتے ہیں اس کا اندازہ مشکل نہیں۔ ہندو انتہا پسندی بھارت میں دوبارہ کس طرح سر اٹھا رہی ہے اس کا اندازہ اترپردیش کے ضلع مظفر نگر میں اسی ہفتے ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات سے ہوسکتا ہے جس میں 40 سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کردیا گیا اور ہزاروں خاندان بے گھر ہوگئے۔ بھارتی جنتا پارٹی سرعام اعلان کرتی رہی ہے کہ وہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کرے گی اگر بی جے پی یہ شر انگیز اقدام کرتی ہے تو بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کا ایک اور خطرناک سلسلہ شروع ہوسکتا ہے جس کا ایندھن ایک بار پھر بڑے پیمانے پر مسلمان ہی بن سکتے ہیں اگر ایسا ہوا تو پاکستان کی مذہبی انتہا پسند طاقتیں اپنا فرض پورا کرنے کے لیے کئی بابری مسجدیں اور رام مندر ڈھونڈنے نکل سکتی ہیں۔
بھارت جس دوسرے خطرناک راستے پر چل پڑا ہے وہ ہے جدید ترین ہتھیاروں کی لگاتار تیاری۔ ابھی چند دن پہلے بھارت نے 5 ہزار کلومیٹر تک مار کرنے والے اگنی 5 کا کامیاب تجربہ کیا ہے ریاست اڑیسہ کے ساحلی علاقے ویلر آئس لینڈ سے اس میزائل کا کامیاب تجربہ کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق یہ پہلا میزائل ہے جو ایک ٹن نیوکلیئر وارہیڈ کے ساتھ پاکستان اور چین کے آخری کناروں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بھارت کا جنگ پسند چیف آف اسٹاف ایک طرف لائن آف کنٹرول پر اپنی فوجوں کو سخت کارروائیوں کا حکم دے رہا ہے تو دوسری طرف شراب پیئے ہوئے چوہے کی طرح فوجی طاقت کی دم پر کھڑے ہوکر کہہ رہا ہے کہ ''چین بھارت کی فوجی قوت سے خوفزدہ ہے'' ۔ کیا بھارت کی یہ بڑھتی ہوئی فوجی طاقت کو نریندر مودی جیسے ممکنہ حکمران ہندو توا کے مقصد کے لیے اسی طرح استعمال نہیں کرسکتے جس طرح افغانستان اور پاکستان کے مذہب انتہا پسند دہشت گردی کو دنیا پر غالب آنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں؟
چین کو اپنی فوجی طاقت سے خوفزدہ ہوتے دیکھنے والے بھارتی چیف آف اسٹاف کیا اس حقیقت سے واقف نہیں کہ چینی حکومت اپنی ساری توانائیاں صنعتی اور اقتصادی ترقی پر خرچ کر رہی ہے اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ آج بھارت پاکستان سمیت ساری ترقی یافتہ اور پسماندہ دنیا کی منڈیاں چین کی انتہائی سستی مصنوعات سے بھری پڑی ہیں اور چینی عوام تک اس ترقی کے ثمرات پہنچ رہے ہیں؟ افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ بھارت میں نریندر مودی کے وزیر اعظم نامزد ہونے پر واویلا کرنے والے بھارتی اہل دانش اور اہل قلم اس خطے میں مذہبی انتہا پسندی کے فروغ کی اصل وجہ یعنی مسئلہ کشمیر پر حکومت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہتے ہیں اور انتہائی ڈھٹائی سے یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ 1947 میں کشمیر کے راجہ ہری سنگھ نے بھارت میں شمولیت کی دستاویز پر دستخط کیے تھے جس کی وجہ کشمیر بھارت کا آئینی طور پر اٹوٹ انگ بن گیا۔ دوسری طرف جونا گڑھ کا مسلمان حکمران جب جونا گڑ کی پاکستان میں شمولیت کا اعلان کرتا ہے تو اس اعلان کو یہ کہہ کر رد کیا جاتا ہے اور جونا گڑھ پر فوجی طاقت کے ذریعے قبضہ کیا جاتا ہے کہ ہندو اکثریت والی اس ریاست کے مسلمان حکمران کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ایک ہندو اکثریت والی ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق کرے۔
بھارتی حکمرانوں کو نئی دنیا کی اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ دنیا کا مستقبل طاقت کی برتری اور جنگوں سے وابستہ نہیں رہا بلکہ اب دنیا کے 7 ارب کے لگ بھگ عوام امن اور خوشحالی چاہتے ہیں اور اس فضا میں نہ اگنی 5 کی کوئی گنجائش ہے نہ نریندر مودی کی۔ بھارت اور دنیا کو مذہبی انتہا پسندی اور جنگوں سے بچانے کے لیے اگنی میزائل 5 اور مودی میزائل گجرات سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔
الٰہ آباد کے ایک ہندو شاعر نے گجرات کے قتل عام پر ''ماں'' کے نام سے جو نظم لکھی تھی وہ پاکستان اور ہندوستان میں بے حد مقبول ہوئی اس نظم میں شاعر نے ایک مسلمان ماں کے پیٹ میں پلنے والے بچے کی زبانی اپنی ماں کے قتل کا ایسا شکوہ کیا ہے کہ سننے والوں کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ کراچی میں جب اس شاعر نے یہ نظم سنائی تو ہم سمیت تمام حاضرین کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل گئے۔ ایسے مذہبی انتہا پسند کو 2014 کے الیکشن میں بھارت کا وزیر اعظم نامزد کرنا بی جے پی کی مذہبی انتہا پسندی کی ایک بدترین مثال ہی نہیں بلکہ اس سے بھارت کا وہ سیکولر تشخص بھی تباہ ہوجائے گا جس پر بھارتی حکمران فخر کرتے رہتے ہیں۔
بی جے پی اپنے انتہا پسندانہ کارناموں کی وجہ ساری دنیا میں بدنام ہے بابری مسجد اور رام مندر کا خونریز جھگڑا بھی بی جے پی ہی کا کارنامہ ہے بھارت میں مذہبی انتہا پسندی جس طرح فروغ پا رہی ہے اس کا اندازہ اس حوالے سے لگایا جاسکتا ہے کہ بی جے پی جیسی ہندو توا کا پروگرام رکھنے والی جماعت نہ صرف مرکز میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب رہی بلکہ اب بھی بھارت کی کئی اہم ریاستوں میں اس کی حکومتیں قائم ہیں جن میں مہاراشٹر جیسی اہم ریاست بھی شامل ہے۔ واجپائی بی جے پی کی حکومت میں وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور خطرناک ترین بات یہ ہے کہ بی جے پی عوام کے ووٹوں سے یہ کامیابی حاصل کرتی آرہی ہے۔ بھارت کی سیاسی پارٹیوں نے ہی مودی کو وزیر اعظم نامزد کرنے کی مذمت نہیں کی بلکہ خود بی جے پی کے ایک مشہور مرکزی رہنما نے بی جے پی کے اس فیصلے کی نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ اس فیصلے کے خلاف پارٹی چھوڑنے کا اعلان بھی کیا ہے۔
نریندر مودی کو وزیر اعظم نامزد کرنے کا پاکستان پر بھی گہرا اثر پڑے گا یہاں کی مذہبی انتہا پسند طاقتوں کے لیے اپنی انتہا پسندی کے لیے یہ جواز بن جائے گا اور پاکستان میں پہلے ہی سے بے لگام مذہبی انتہا پسندی اور زیادہ بے لگام ہوجائے گی اور برصغیر کے 1947 کی طرف واپسی کے خطرناک امکانات پیدا ہوجائیں گے بھارتی حکمران اور دانشور ہمیشہ یہ کہتے ہوئے آئے ہیں کہ بھارتی معاشرے کی عمارت سیکولرزم کی بنیاد پر کھڑی ہوئی ہے اگر بھارت کی سیاست سے سیکولرزم نکل جائے گا تو بھارت کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانا ممکن نہیں رہے گا اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ دنیا میں امن اور خوشحالی کے لیے سیکولرزم کا پھیلاؤ اور استحکام ضروری ہے لیکن دنیا کے دوسرے بڑے ملک میں اگر سیکولرزم ناکام ہوجاتا ہے تو پھر دنیا کا مستقبل ایک سوالیہ نشان بن جائے گا۔ اور خود بھارت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گا۔
آج پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی جس مقام پر پہنچ گئی ہے اس کی ایک بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ بھارت کے حکمران طبقے نے 66 سال سے کشمیر کے حوالے سے جو پالیسی اپنائی ہے وہ سامراجی ذہنیت کی پیداوار ہے سامراج کی سب سے بڑی پہچان طاقت کے ذریعے کمزور ملکوں پر قبضہ کرنا ہے نوآبادیاتی نظام سامراجی ذہنیت کا ترجمان تھا اور جنگل کے قانون کی بنیاد بھی طاقت کے اصول پر قائم ہے یعنی طاقت ور کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی طاقت کے ذریعے کمزور کا شکار کرے۔ بھارت 66 سالوں سے کشمیر پر طاقت کے ذریعے حکمرانی کر رہا ہے اور 6 لاکھ فوج کشمیر میں بھارت کی حکمرانی کی طاقت بنی ہوئی ہے لیکن دنیا کی جدید تاریخ شاہد ہے کہ ملکوں کی اصل طاقت اس کے عوام ہوتے ہیں فوج نہیں، اس کا تجربہ امریکا جیسی سپر پاور کو عراق اور افغانستان میں ہوا ہے اور بھارت کو کشمیر میں ہورہا ہے۔ بھارت میں نریندر مودی جیسے مذہبی فاشسٹ برسر اقتدار آئیں تو اس پورے خطے کے جہنم بن جانے میں کوئی شک باقی نہیں رہے گا۔
بھارتی حکمران طبقے نے 5 بھارتی فوجیوں کے قتل کو بہانہ بناکر دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے عمل اور اقوام متحدہ میں دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کی ملاقات کو جس طرح مشکوک یا رسمی بنا دیا ہے اگر بھارت میں بی جے پی جیسی مذہبی انتہا پسند جماعت برسر اقتدار آتی ہے تو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کیا صورت اختیار کرسکتے ہیں اس کا اندازہ مشکل نہیں۔ ہندو انتہا پسندی بھارت میں دوبارہ کس طرح سر اٹھا رہی ہے اس کا اندازہ اترپردیش کے ضلع مظفر نگر میں اسی ہفتے ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات سے ہوسکتا ہے جس میں 40 سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کردیا گیا اور ہزاروں خاندان بے گھر ہوگئے۔ بھارتی جنتا پارٹی سرعام اعلان کرتی رہی ہے کہ وہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کرے گی اگر بی جے پی یہ شر انگیز اقدام کرتی ہے تو بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کا ایک اور خطرناک سلسلہ شروع ہوسکتا ہے جس کا ایندھن ایک بار پھر بڑے پیمانے پر مسلمان ہی بن سکتے ہیں اگر ایسا ہوا تو پاکستان کی مذہبی انتہا پسند طاقتیں اپنا فرض پورا کرنے کے لیے کئی بابری مسجدیں اور رام مندر ڈھونڈنے نکل سکتی ہیں۔
بھارت جس دوسرے خطرناک راستے پر چل پڑا ہے وہ ہے جدید ترین ہتھیاروں کی لگاتار تیاری۔ ابھی چند دن پہلے بھارت نے 5 ہزار کلومیٹر تک مار کرنے والے اگنی 5 کا کامیاب تجربہ کیا ہے ریاست اڑیسہ کے ساحلی علاقے ویلر آئس لینڈ سے اس میزائل کا کامیاب تجربہ کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق یہ پہلا میزائل ہے جو ایک ٹن نیوکلیئر وارہیڈ کے ساتھ پاکستان اور چین کے آخری کناروں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بھارت کا جنگ پسند چیف آف اسٹاف ایک طرف لائن آف کنٹرول پر اپنی فوجوں کو سخت کارروائیوں کا حکم دے رہا ہے تو دوسری طرف شراب پیئے ہوئے چوہے کی طرح فوجی طاقت کی دم پر کھڑے ہوکر کہہ رہا ہے کہ ''چین بھارت کی فوجی قوت سے خوفزدہ ہے'' ۔ کیا بھارت کی یہ بڑھتی ہوئی فوجی طاقت کو نریندر مودی جیسے ممکنہ حکمران ہندو توا کے مقصد کے لیے اسی طرح استعمال نہیں کرسکتے جس طرح افغانستان اور پاکستان کے مذہب انتہا پسند دہشت گردی کو دنیا پر غالب آنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں؟
چین کو اپنی فوجی طاقت سے خوفزدہ ہوتے دیکھنے والے بھارتی چیف آف اسٹاف کیا اس حقیقت سے واقف نہیں کہ چینی حکومت اپنی ساری توانائیاں صنعتی اور اقتصادی ترقی پر خرچ کر رہی ہے اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ آج بھارت پاکستان سمیت ساری ترقی یافتہ اور پسماندہ دنیا کی منڈیاں چین کی انتہائی سستی مصنوعات سے بھری پڑی ہیں اور چینی عوام تک اس ترقی کے ثمرات پہنچ رہے ہیں؟ افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ بھارت میں نریندر مودی کے وزیر اعظم نامزد ہونے پر واویلا کرنے والے بھارتی اہل دانش اور اہل قلم اس خطے میں مذہبی انتہا پسندی کے فروغ کی اصل وجہ یعنی مسئلہ کشمیر پر حکومت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہتے ہیں اور انتہائی ڈھٹائی سے یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ 1947 میں کشمیر کے راجہ ہری سنگھ نے بھارت میں شمولیت کی دستاویز پر دستخط کیے تھے جس کی وجہ کشمیر بھارت کا آئینی طور پر اٹوٹ انگ بن گیا۔ دوسری طرف جونا گڑھ کا مسلمان حکمران جب جونا گڑ کی پاکستان میں شمولیت کا اعلان کرتا ہے تو اس اعلان کو یہ کہہ کر رد کیا جاتا ہے اور جونا گڑھ پر فوجی طاقت کے ذریعے قبضہ کیا جاتا ہے کہ ہندو اکثریت والی اس ریاست کے مسلمان حکمران کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ایک ہندو اکثریت والی ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق کرے۔
بھارتی حکمرانوں کو نئی دنیا کی اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ دنیا کا مستقبل طاقت کی برتری اور جنگوں سے وابستہ نہیں رہا بلکہ اب دنیا کے 7 ارب کے لگ بھگ عوام امن اور خوشحالی چاہتے ہیں اور اس فضا میں نہ اگنی 5 کی کوئی گنجائش ہے نہ نریندر مودی کی۔ بھارت اور دنیا کو مذہبی انتہا پسندی اور جنگوں سے بچانے کے لیے اگنی میزائل 5 اور مودی میزائل گجرات سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔