موجودہ سیلابی صورتحال… حالات سے نمٹنے کیلئے تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں
حکومت، ماہر آب اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال
پاکستان میں زیادہ بارشوں اور بھارت کی جانب سے پانی چھوڑے جانے کے باعث ہر سال سیلاب آتا ہے جس سے جانی و مالی نقصان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ پانی سمندر میں گر کر ضائع ہوجاتا ہے حالانکہ اسے ذخیرہ کرکے پانی کے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔
اس سال بھی ہمیں اسی قسم کی صورتحال کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے حقائق کیا ہیں ، حکومت نے کیا حفاظتی اقدامات کیے ہیں ، کیا یہ پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا؟ اس طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ''سیلاب کی موجودہ صورتحال اور حفاظتی اقدامات'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میںایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، سول سوسائٹی اور پانی سے متعلقہ ادارے کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
میاں خالد محمود
(صوبائی وزیر برائے ڈیزاسٹر مینجمنٹ پنجاب)
میٹ آفس نے ہمیں 3 ماہ قبل آگاہ کیا کہ 'سپر فلڈ'آنے والا ہے لہٰذا الرٹ رہیں۔ اس کے فوری بعد وزیراعلیٰ پنجاب نے اجلاس طلب کیا جس میں تمام اداروں کے نمائندے موجود تھے اور سب کو ہدایت جاری کی گئی کہ ہنگامی بنیادوں پر کام کا آغاز کریں۔ 'پی ڈی ایم اے' نے اس حوالے سے بہترین کام کیا اور سب کو الرٹ کردیا۔
ہم نے تمام علاقوں خصوصاًجہاں سیلاب کا خطرہ زیادہ تھا، سروے کروایا۔ اس وقت ہمارے پاس پنجاب کے 21 اضلاع کا مکمل ڈیٹا موجود ہے کہ دریاؤں کے کنارے کتنے مکان ، چھونپڑیاں، مویشی، بڑے اور بچے موجود ہیں، ہم نے اس کے پیش نظر منصوبہ بندی کی اور تمام اضلاع کی انتظامیہ کو اطلاع دی کہ رسک والے علاقوں میں مقیم لوگوں کو محفوظ مقام پر نقل مکانی کے لیے کہا جائے۔ ہمارے ہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ لوگ آخری وقت تک اپنا گھر نہیں چھوڑتے۔ حکومت نے انہیں نقل مکانی کیلئے قائل کرنے کی کوشش کی۔
اس کے ساتھ ساتھ سرکاری سکولوں میں خصوصی کیمپ قائم کیے جبکہ ان کے مویشیوں کیلئے الگ انتظام کیا گیا اور سب کی ٹرانسپورٹ، خوراک، جانوروں کے چارے سمیت تمام اخراجات حکومت برداشت کررہی ہے۔ حکومت نے ایک ماہ قبل مویشیوں کی مکمل ویکسی نیشن بھی کرلی تاکہ کسی قسم کی وباء کا خطرہ پیدا نہ ہو۔
وہاں موبائل ہیلتھ یونٹ بھی بھیجے گئے تاکہ لوگوں کی صحت کا خیال بھی رکھا جائے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی سربراہی میں تین اعلیٰ سطحی میٹنگز ہوئیں جن میں تمام اداروں کے نمائندے موجود تھے، اس میں انتظامات کا جائزہ لیا گیا اور ہم مطمئن ہوگئے کہ اگر خدانخواستہ کوئی مشکل صورتحال پیدا ہوتی ہے تو ہم اس سے اچھے طریقے سے نمٹ لیں گے۔ دریائے راوی میں اب پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے اور پانی کی سطح انتہائی کم ہے۔ ستلج پر گزشتہ چند دنوں میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے۔
اس میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ سیلاب آیا ہے۔ میں خود وہاں متعدد بار جا چکا ہوں اور علاقے کا دورہ کیا ہے۔ ستلج میں 60 ہزار کیوسک سے اوپر پانی نہیں گیا حالانکہ کہا جا رہا تھا کہ بھارت نے 2 لاکھ 40 ہزار کیوسک پانی چھوڑا ہے۔ ہم نے اس کا حساب کتاب لگایا کہ اگر بھارت سے 2 لاکھ 40 ہزار کیوسک پانی 222 کلومیٹر کا سفر 33 گھنٹوں میں طے کرکے پاکستان آئے گا تو تقریباََ ڈیڑھ لاکھ کیوسک سے کم پانی پاکستان کی حدود میں داخل ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہوا کہ پانی 27 ہزار کیوسک سے 60 ہزار کیوسک تک گیا۔ یہ پانی وہاں کے لوگوں کے لیے رحمت کا باعث بنا اور اس سے کوئی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا۔ ایسا تین مرتبہ ہوا کہ پانی دریا کے قریبی بیلٹ میں گیا اور واپس چلا گیا۔
اب بھی ہمارے تمام انتظامات مکمل ہیں، ریسکیو ٹیمیں، پولیس، رضاکار، فوج، ضلعی انتظامیہ و دیگر ادارے مکمل الرٹ ہیں اور ہم ہرممکن صورتحال کے لیے تیار ہیں۔ 'این ڈی ایم اے ' کے تحت کمیشن کے قیام کے حوالے سے 2 ماہ قبل چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل سے بات ہوئی تھی۔
آئندہ ماہ پنجاب میں اس حوالے سے باقاعدہ کمیشن قائم کردیا جائے گا جس کے چیئرمین وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ہوں گے، اس میں مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کو شامل کیا جائے گا یقینا اس سے معاملات میں بہتری آئے گی۔ صوبائی سطح پر کیبنٹ کی ذیلی کمیٹی برائے سیلاب ہے جس کا نام اب تبدیل کرکے کیبنٹ سب کمیٹی ڈیزاسٹر مینجمنٹ رکھ دیا ہے۔ اس میں واپڈا کے چیف انجینئر، فوج و دیگر اداروں کے نمائندے آتے ہیں،تفصیلی گفتگو ہوتی ہے اور سب اپنی رائے دیتے ہیں۔
میں نے وزارت سنبھالنے کے بعد تین میٹنگز میں شرکت کی اور مجھے سب واضح ہوگیا کہ کس ادارے نے کیا کیا کرنا ہے اور ہمارے دائرہ اختیار میں کیا ہے۔ میں نے پی ڈی ایم اے میں جو کام کیا اس سے پہلے کسی نے نہیں کیا۔جن دیہاتوں میں سیلاب کا خطرہ تھا ہم نے وہاں کے مقامی لوگوں کو ریسکیو 1122 کی مدد سے تربیت دے کر یونین کونسل کی سطح پر رضاکار فورس بنائی ہے جن کا مکمل ڈیٹا ہمارے پاس موجود ہے اور وہ ہمارے شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں۔انہیں کارڈ بھی جاری کیے گئے ہیں اور انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ ان کو عزت دیں۔
اس کے پیچھے ویژن یہ تھا کہ ہماری ٹیمیں پہنچنے سے پہلے ہی وہ لوگ اپنے اپنے گاؤں میں ابتدائی کام کر چکے ہوں گے۔ ابھی جب سیلاب کی صورتحال پیدا ہوئی تو وہ رضاکار وہاں خدمت کر رہے تھے اور خوش ہیں کہ انہیں اپنے لوگوں کے لیے کچھ کرنے کا موقع ملا۔ میں جب وہاں گیا تو وہ رضاکار مجھے ملے، وہ پرعزم تھے اور ان میں لگن تھی۔ اس اقدام کو حکومتی و عوامی سطح پر سراہا گیا۔ ہم اب شہری علاقوں میں تعلیمی اداروں کے طلبہ کو بھی تربیت فراہم کریں گے۔
موجودہ حکومت نوجوانوں کی شمولیت سے مسائل حل کرنے پر توجہ دے رہی ہے۔ سول ڈیفنس کے ادارے کی تشکیل نو کے تمام اقدامات مکمل کر لیے گئے ہیں، انہیں اختیارات دینے کے ساتھ ساتھ بہتر تنظیم سازی بھی کی جا رہی ہے تاکہ عوام کی بہتر خدمت ہوسکے۔ چیئرمین 'این ڈی ایم اے' نے ملاقات میں کہا کہ اب اربن فلڈنگ بڑا مسئلہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے قدرتی نالوں پر قبضہ کر رکھا ہے، 80 فیصد نالے بند ہوچکے ہیں، ہم نے اس پر کام کا آغاز کر دیا ہے، ناجائز قبضے ختم کرکے نالے اصل حالت میں بحال کیے جارہے ہیں۔
شاہد حمید
( جنرل منیجر ہائیڈرو ریسورس مینجمنٹ واپڈا)
پانی زندگی ہے اور اس کا انسان کی بنیادی ضروریات ، خوراک، انرجی وغیرہ سے براہ راست تعلق ہے۔ آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جبکہ پانی کی مقدار محدود ہے لہٰذا اس حوالے سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ملکی آبی وسائل کی بات کریں تو اس وقت ہمارے پاس تقریباََ 145 ملین ایکڑ فٹ پانی ہے۔
کسی سال ہمیں اوسطاََ 90 ملین ایکڑ فٹ پانی ملتا ہے اور کبھی 190 ملین ایکڑ فٹ۔ جب 90 ملین ایکڑ فٹ ہوتا ہے تو خشک سالی ہوتی ہے اور جب 90 1ملین ایکڑ فٹ ہوتا ہے تو سیلاب آتا ہے۔90 اور 190 ملین ایکڑ فٹ کے اس فرق کا مطلب یہ ہے کہ کسی سال ملک میں خشک سالی ہوگی اور کسی سال سیلاب آئیں گے لہٰذا اس صورتحال کو بیلنس کرنے کیلئے ہمیں ڈیم بنانا ہوں گے تاکہ جب پانی زیادہ ہو تو ذخیرہ کرلیں اور جب خشک سالی ہو تو اسے استعمال کر لیا جائے۔
سال میں 100 دن ایسے ہوتے ہیں کہ جب برف پگھل رہی ہوتی ہے اور مون سون بھی، ان دنوں میں سیلاب جیسی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے اور ہمارے پاس 80 فیصد پانی آجاتا ہے جبکہ باقی کے 265 دنوں میں 20 فیصد پانی آتا ہے۔ جب تربیلا اور منگلا ڈیم نہیں تھا تو اس وقت تقریباََ 65 سے 75 ملین ایکڑ فٹ تک پانی نہروں کی طرف موڑا جاتا تھا مگر جب 1974ء میں ڈیم بنائے تو 106 ملین ایکڑ فٹ تک پانی نہروں میں چھوڑا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے جیسے ہماری سٹوریج کپیسٹی بڑھے گی تو نہروں میں زیادہ پانی جائے گا۔
ہمیں ڈیم کی اس لیے ضرورت ہے کہ سال کے اندر بھی اور مختلف برسوں میں بھی پانی کے حوالے سے تغیر ہے۔ اس وقت ہمارے پاس 40 ملین ایکڑ فٹ سٹوریج کپیسٹی ہے جو انڈس بیسن پر ہے۔ انڈس بیسن پر پانی کے ساتھ آنے والے دوسرے میٹریل کی وجہ سے 1974ء کے مقابلے میں 24فیصد سٹوریج کپیسٹی کم ہوگئی ہے جو ایک ڈیم کے برابر ہے جسے بیلنس کرنے کے لیے ہمیں ایک اور ڈیم بنانا ہوگا۔ ہر دس سال میں ایک نئے ڈیم کی ضرورت ہے اور یہی واپڈا کا مشن ہے۔ ہم سپریم کورٹ کے مشکور ہیں جس کی وجہ سے ہمیں سپورٹ ملی ہے۔
اس وقت مہمند ڈیم اور بھاشا ڈیم پر کام شروع ہوچکا ہے، مہمند ڈیم 2024ء تک مکمل ہوجائے گا جبکہ بھاشا ڈیم کی بڈنگ ایولیوایشن جاری ہے، رواں سال نومبر میں اس پر کام کا آغاز ہوجائے گا۔بھاشا ڈیم کے لیے 80 فیصد زمین حاصل کرلی گئی ہے جبکہ 20 فیصد زمین پر کچھ مسائل تھے، جنہیں حکومت نے حل کردیا ہے، جلد وہ بھی حاصل کرلی جائے گی۔ اس کے علاوہ سٹرکیں، آفس، کالونیاں، لیبارٹریز و دیگر کام جاری ہیں۔ واپڈا کے ویژن 2050ء کا نام تبدیل کرکے ویژن 2047ء رکھا جا رہا ہے تاکہ پاکستان کے 100 سال مکمل ہونے پر جائزہ لیا جاسکے۔
2047ء میں آبادی 315ملین ہوجائے گی جس کے لیے 70ملین ایکڑ فٹ اضافی پانی درکار ہوگا۔اس کے لیے 48ملین ایکڑ فٹ کی سٹوریج کپیسٹی بڑھانا ہوگی۔ ڈرپ ایری گیشن و دیگر طریقوں سے بھی پانی محفوظ بنانا ہوگا اور لوگوں کو شعور دینا ہوگا کہ وہ گھریلو سطح پر پانی کو محفوظ بنائیں اور بے جا ضائع نہ کریں۔ 95 فیصد پانی زراعت جبکہ 5 فیصد کے قریب پانی صنعت و گھریلو استعمال میں آتا ہے لہٰذا ہمیں آب پاشی و نہری نظام کو بہتر کرنا ہوگا۔ہر سال بڑی تعداد میں پانی ضائع ہوجاتا ہے جسے محفوظ کرنے کیلئے ڈیم بنانے کی ضرورت ہے۔
اگر ایسا کرلیںتو سیلاب و دیگر پانی رحمت بن جائے گا وگرنہ ہمیں زحمت ہوگی اور جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ہم رسک لینے والی قوم ہیں اور احتیاطی تدابیر نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ سیلاب کی صورت میں نقصان زیادہ ہوتا ہے، اس کے لے لوگوں کو ایجوکیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سال بارشیں زیادہ ہوئیں اور اب 8 سے 10 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں مل کر ضائع ہوجائے گا جسے محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔ اب ہم نے انڈس پر سندھ بیراج بنانے کی تجویز دی ہے جو سمندر سے 45 کلومیٹر اور کوٹری بیراج سے 180 کلومیٹر ہے۔ اس بیراج میں 2 سے 3 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کریں گے اور پانی کو ضائع ہونے بچایا جاسکے گا۔ اس سے وہاں کے ماحول پر مثبت اثر پڑے گا۔ اس کے علاوہ وہاں سے 10 ہزار کیوسک کی نہر بناکر کراچی و ارد گرد کے علاقوں کو پانی سپلائی کیا جائے گا جس سے سندھ کے ریگستان میں بھی نئی زندگی آئے گی۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اب شہروں میں سیلاب آرہے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے ناجائز تجاوزات قائم کر لی ہیں، نالے بند ہوچکے ہیں، ان کی صفائی نہیں ہورہی، زیادہ تر زمین پر پلازے و مکان بن چکے ہیں، سڑکیں بھی پکی ہیں جس کی وجہ سے زمین میں پانی جذب نہیں ہورہا لہٰذا اس حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
عبداللہ ملک
(نمائندہ سول سوسائٹی)
اقوام متحدہ کا ادارہ جب معرز وجود میں آیا تو دنیا کی بقاء، اس کے وسائل اور موسمی تغیر و تبدل کے حوالے سے قانون سازی کی گئی اور رکن ممالک کو پابند کیا گیا کہ وہ دنیا اور انسانیت کی بقاء کے لیے اس پر عملدرآمد کریں۔ رکن ممالک کے لیے لازمی ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اپنے اپنے ملک میں کام کریں گے، اس حوالے سے ادارے قائم کریں گے اور طریقہ کار وضع کریں گے تاکہ صحیح معنوں میں عملدرآمد کیا جا سکے۔ ہر سال اقوام متحدہ کا اجلاس ہوتا ہے جن میں ان تمام معاملات پر نظر ثانی کی جاتی ہے۔
اس سال بھی ستمبر میں اقوام متحدہ کا اجلاس ہو رہا ہے جس میں ان تمام چیزوں کا جائزہ لیا جائے گا۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں پیشگی اقدامات کے بجائے کسی بھی حادثے یا آفت کے آنے کے بعد ردعمل کے طور پر کام کیا جاتا ہے اور تب ہمیں خیال آتا ہے کہ کچھ کرنا چاہیے۔ 2005ء میں پاکستان کی تاریخ کا بدترین زلزلہ آیا جس میں ہزاروں اموات ہوئیں جبکہ لاکھوں افراد زخمی ہوئے۔
2010ء میں ملکی تاریخ کا بدترین سیلاب آیا جس میں بہت زیادہ نقصان ہوا۔ اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو 1996ء سے 2015ء تک تقریباََ 50 ملین لوگ متاثر ہوئے ہیں جبکہ معیشت کو 25.5 ملین ڈالر نقصان ہوا۔ 2005ء سے 2016ء تک 20 ملین افراد متاثر ہوئے ،4205 افراد کی سیلاب جبکہ 73 ہزار 894 افراد کی اموات زلزلوں سے ہوئیں۔ 1 لاکھ 29 ہزار 705 لوگ زخمی ہوئے۔ 3942لوگ خشک سالی سے متاثر ہوئے جبکہ ہزاروں بے گھر ہوگئے۔
افسوس ہے کہ اب تک زلزلوں اور سیلاب سے لاکھوں لوگ موت کے منہ میں جا چکے ہیں اور اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے جبکہ صحت، خوراک، زمین، گھر، پانی و سینی ٹیشن اور دیگر مسائل الگ ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے لہٰذا ریاست کا یہ کردار بنتا ہے کہ وہ ان آفات کے اثرات سے لوگوں کو محفوظ بنائے اور پیشگی اقدامات کرے۔ پاکستان انسانی حقوق اور قدرتی آفات کے حوالے سے اقوام متحدہ کے چارٹر کا پابند ہے مگر اس پر ابھی تک خاطر خواہ کام نہیں ہوا، امید ہے موجودہ حکومت اس حوالے سے بھرپور کام کرے گی۔ 2010ء میں پہلی مرتبہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے)قائم کی گئی ۔
'این ڈی ایم اے' کا ایک اہم کام وزیراعظم کی سربراہی میں قومی کمیشن کا قیام تھا جس میں حکومتی و عالمی اداروں، متعلقہ وزارتوں، افواج، میڈیا، سول سوسائٹی و دیگر سٹیک ہولڈرز کو شامل کرنا تھا تاکہ قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کرنے کیلئے لائحہ عمل طے کیا جاسکے مگر بدقسمتی سے آج تک یہ کمیشن نہیں بنایا جا سکا جبکہ ہم ہر سال آفات سے متاثر ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ عملدرآمد کا ہے۔ ہم ہمیشہ ہی کہتے ہیں کہ نئی قانون سازی کے بجائے جو قوانین موجود ہیں ان پر عملدرآمد کا طریقہ کار وضع کیا جائے اور اسے بہتر بنایا جائے۔
'این ڈی ایم اے' کی ویب سائٹ پر بہت زیادہ ڈیٹا موجود ہے لیکن قومی و صوبائی اداروں میں رابطے کی کمی ہے جس کا نقصان ہورہا ہے۔سیلاب کی صورت میں دریاؤں کے کنارے موجود آبادیاں تباہ ہوتی ہیں۔ 2010ء میں سیلاب کی ایک وجہ یہ تھی کہ لوگوں نے بند باندھ کر دریا کا رخ موڑ دیا تھا، اب بھی اسی قسم کے مسائل موجود ہیں، دریاؤں کی زمین پر ناجائز قبضہ ہے لہٰذا حکومت کو اس حوالے سے ایکشن لینا ہوگا۔2010ء کے سیلاب کے بعد شہباز شریف نے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں کمیشن بنایا تھا جس نے 500صفحات کی رپورٹ دی۔ اس رپورٹ میں ذمہ داران کا تعین کیا گیا تھا، اگر اس رپورٹ کی روشنی میں اقدامات کیے جائیں اور اس میں دی جانے والی تجاویز پر عملدرآمد کیا جائے تو صورتحال بہتر بنائی جاسکتی ہے۔
لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، رحیم یار خان، ڈی جی خان و دیگر گرے ایریاز ہیں جہاں بارشوں سے سیلاب جیسی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ رواں سال 8کے قریب بڑے سیلاب آئے۔ افسوس ہے کہ پانی کے حوالے سے ابھی تک قانون سازی ہی نہیں ہوئی کہ اس پر کنٹرول وفاق کا ہے یا صوبے کا۔ بدقسمتی سے بڑی مقدار میں پانی ضائع ہورہا ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔سوال یہ ہے کہ 72 برسوں میں اس پر کام کیوں نہیں کیا گیا ؟1985ء میں کالا باغ ڈیم پر کام مکمل ہو گیا، فزیبیلٹی بن گئی، زمین حاصل کرلی گئی، کالونیاں بن گئیں مگر اس کے بعد وہ سیاست کی نظر ہوگیا اور اربوں ڈالر ضائع ہوگئے۔
افسوس ہے کہ ہم قوم کو یہ ہی نہیں بتا سکے کہ پانی کیوں ضروری ہے۔ اگر ڈیم بن گیا ہوتا تو پانی ضائع نہ ہوتا۔ سندھ طاس معاہدہ کے تحت روای، ستلج ، بیاس بھارت کو دے دیے مگر بھارت ہم پر پانی کی جنگ مسلط کر رہا ہے، ہمیں ہر ممکن صورتحال کیلئے تیار رہنا ہوگا۔ ہم دنیا کے ان کے 7 ممالک میں شامل ہیں جہاں تواتر کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلیاں آتی ہیں۔ اداروں کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ 2030ء کے بعد پانی کی قلت پیدا ہوگی جس کے پیش نظر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے از خود نوٹس لیا اور پانی کے حوالے سے کام کا آغاز کیا۔
بھاشا ڈیم، دیامیر ڈیم پائپ لائن میں ہیں اور واپڈا ان پر کام کر رہا ہے مگر بدقسمتی ہے کہ حکومت کی توجہ پانی پر نہیں ہے اور نہ ہی ابھی تک اس حوالے سے قانون سازی ہوئی۔ ڈیم بنانا عدلیہ کا کام نہیں مگر جب حکومت کام نہ کرے تو پھر عوامی مفاد میں عدلیہ کو ایکشن لینے کا اختیار ہے۔ ڈیم کے لیے جمع شدہ رقم آج سپریم کورٹ کے فنڈ میں موجود ہے، حکومت کو چاہیے کہ ویژن اور پالیسی لائے تاکہ لوگوں کی زیادہ سے زیادہ شمولیت ہو اور ڈیم بنائے جاسکیں۔ پانی کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر ہمیں زیادہ سے زیادہ ڈیم بنانا ہوں گے۔
اس سال بھی ہمیں اسی قسم کی صورتحال کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے حقائق کیا ہیں ، حکومت نے کیا حفاظتی اقدامات کیے ہیں ، کیا یہ پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا؟ اس طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ''سیلاب کی موجودہ صورتحال اور حفاظتی اقدامات'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میںایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، سول سوسائٹی اور پانی سے متعلقہ ادارے کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
میاں خالد محمود
(صوبائی وزیر برائے ڈیزاسٹر مینجمنٹ پنجاب)
میٹ آفس نے ہمیں 3 ماہ قبل آگاہ کیا کہ 'سپر فلڈ'آنے والا ہے لہٰذا الرٹ رہیں۔ اس کے فوری بعد وزیراعلیٰ پنجاب نے اجلاس طلب کیا جس میں تمام اداروں کے نمائندے موجود تھے اور سب کو ہدایت جاری کی گئی کہ ہنگامی بنیادوں پر کام کا آغاز کریں۔ 'پی ڈی ایم اے' نے اس حوالے سے بہترین کام کیا اور سب کو الرٹ کردیا۔
ہم نے تمام علاقوں خصوصاًجہاں سیلاب کا خطرہ زیادہ تھا، سروے کروایا۔ اس وقت ہمارے پاس پنجاب کے 21 اضلاع کا مکمل ڈیٹا موجود ہے کہ دریاؤں کے کنارے کتنے مکان ، چھونپڑیاں، مویشی، بڑے اور بچے موجود ہیں، ہم نے اس کے پیش نظر منصوبہ بندی کی اور تمام اضلاع کی انتظامیہ کو اطلاع دی کہ رسک والے علاقوں میں مقیم لوگوں کو محفوظ مقام پر نقل مکانی کے لیے کہا جائے۔ ہمارے ہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ لوگ آخری وقت تک اپنا گھر نہیں چھوڑتے۔ حکومت نے انہیں نقل مکانی کیلئے قائل کرنے کی کوشش کی۔
اس کے ساتھ ساتھ سرکاری سکولوں میں خصوصی کیمپ قائم کیے جبکہ ان کے مویشیوں کیلئے الگ انتظام کیا گیا اور سب کی ٹرانسپورٹ، خوراک، جانوروں کے چارے سمیت تمام اخراجات حکومت برداشت کررہی ہے۔ حکومت نے ایک ماہ قبل مویشیوں کی مکمل ویکسی نیشن بھی کرلی تاکہ کسی قسم کی وباء کا خطرہ پیدا نہ ہو۔
وہاں موبائل ہیلتھ یونٹ بھی بھیجے گئے تاکہ لوگوں کی صحت کا خیال بھی رکھا جائے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی سربراہی میں تین اعلیٰ سطحی میٹنگز ہوئیں جن میں تمام اداروں کے نمائندے موجود تھے، اس میں انتظامات کا جائزہ لیا گیا اور ہم مطمئن ہوگئے کہ اگر خدانخواستہ کوئی مشکل صورتحال پیدا ہوتی ہے تو ہم اس سے اچھے طریقے سے نمٹ لیں گے۔ دریائے راوی میں اب پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے اور پانی کی سطح انتہائی کم ہے۔ ستلج پر گزشتہ چند دنوں میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے۔
اس میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ سیلاب آیا ہے۔ میں خود وہاں متعدد بار جا چکا ہوں اور علاقے کا دورہ کیا ہے۔ ستلج میں 60 ہزار کیوسک سے اوپر پانی نہیں گیا حالانکہ کہا جا رہا تھا کہ بھارت نے 2 لاکھ 40 ہزار کیوسک پانی چھوڑا ہے۔ ہم نے اس کا حساب کتاب لگایا کہ اگر بھارت سے 2 لاکھ 40 ہزار کیوسک پانی 222 کلومیٹر کا سفر 33 گھنٹوں میں طے کرکے پاکستان آئے گا تو تقریباََ ڈیڑھ لاکھ کیوسک سے کم پانی پاکستان کی حدود میں داخل ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہوا کہ پانی 27 ہزار کیوسک سے 60 ہزار کیوسک تک گیا۔ یہ پانی وہاں کے لوگوں کے لیے رحمت کا باعث بنا اور اس سے کوئی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا۔ ایسا تین مرتبہ ہوا کہ پانی دریا کے قریبی بیلٹ میں گیا اور واپس چلا گیا۔
اب بھی ہمارے تمام انتظامات مکمل ہیں، ریسکیو ٹیمیں، پولیس، رضاکار، فوج، ضلعی انتظامیہ و دیگر ادارے مکمل الرٹ ہیں اور ہم ہرممکن صورتحال کے لیے تیار ہیں۔ 'این ڈی ایم اے ' کے تحت کمیشن کے قیام کے حوالے سے 2 ماہ قبل چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل سے بات ہوئی تھی۔
آئندہ ماہ پنجاب میں اس حوالے سے باقاعدہ کمیشن قائم کردیا جائے گا جس کے چیئرمین وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ہوں گے، اس میں مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کو شامل کیا جائے گا یقینا اس سے معاملات میں بہتری آئے گی۔ صوبائی سطح پر کیبنٹ کی ذیلی کمیٹی برائے سیلاب ہے جس کا نام اب تبدیل کرکے کیبنٹ سب کمیٹی ڈیزاسٹر مینجمنٹ رکھ دیا ہے۔ اس میں واپڈا کے چیف انجینئر، فوج و دیگر اداروں کے نمائندے آتے ہیں،تفصیلی گفتگو ہوتی ہے اور سب اپنی رائے دیتے ہیں۔
میں نے وزارت سنبھالنے کے بعد تین میٹنگز میں شرکت کی اور مجھے سب واضح ہوگیا کہ کس ادارے نے کیا کیا کرنا ہے اور ہمارے دائرہ اختیار میں کیا ہے۔ میں نے پی ڈی ایم اے میں جو کام کیا اس سے پہلے کسی نے نہیں کیا۔جن دیہاتوں میں سیلاب کا خطرہ تھا ہم نے وہاں کے مقامی لوگوں کو ریسکیو 1122 کی مدد سے تربیت دے کر یونین کونسل کی سطح پر رضاکار فورس بنائی ہے جن کا مکمل ڈیٹا ہمارے پاس موجود ہے اور وہ ہمارے شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں۔انہیں کارڈ بھی جاری کیے گئے ہیں اور انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ ان کو عزت دیں۔
اس کے پیچھے ویژن یہ تھا کہ ہماری ٹیمیں پہنچنے سے پہلے ہی وہ لوگ اپنے اپنے گاؤں میں ابتدائی کام کر چکے ہوں گے۔ ابھی جب سیلاب کی صورتحال پیدا ہوئی تو وہ رضاکار وہاں خدمت کر رہے تھے اور خوش ہیں کہ انہیں اپنے لوگوں کے لیے کچھ کرنے کا موقع ملا۔ میں جب وہاں گیا تو وہ رضاکار مجھے ملے، وہ پرعزم تھے اور ان میں لگن تھی۔ اس اقدام کو حکومتی و عوامی سطح پر سراہا گیا۔ ہم اب شہری علاقوں میں تعلیمی اداروں کے طلبہ کو بھی تربیت فراہم کریں گے۔
موجودہ حکومت نوجوانوں کی شمولیت سے مسائل حل کرنے پر توجہ دے رہی ہے۔ سول ڈیفنس کے ادارے کی تشکیل نو کے تمام اقدامات مکمل کر لیے گئے ہیں، انہیں اختیارات دینے کے ساتھ ساتھ بہتر تنظیم سازی بھی کی جا رہی ہے تاکہ عوام کی بہتر خدمت ہوسکے۔ چیئرمین 'این ڈی ایم اے' نے ملاقات میں کہا کہ اب اربن فلڈنگ بڑا مسئلہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے قدرتی نالوں پر قبضہ کر رکھا ہے، 80 فیصد نالے بند ہوچکے ہیں، ہم نے اس پر کام کا آغاز کر دیا ہے، ناجائز قبضے ختم کرکے نالے اصل حالت میں بحال کیے جارہے ہیں۔
شاہد حمید
( جنرل منیجر ہائیڈرو ریسورس مینجمنٹ واپڈا)
پانی زندگی ہے اور اس کا انسان کی بنیادی ضروریات ، خوراک، انرجی وغیرہ سے براہ راست تعلق ہے۔ آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جبکہ پانی کی مقدار محدود ہے لہٰذا اس حوالے سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ملکی آبی وسائل کی بات کریں تو اس وقت ہمارے پاس تقریباََ 145 ملین ایکڑ فٹ پانی ہے۔
کسی سال ہمیں اوسطاََ 90 ملین ایکڑ فٹ پانی ملتا ہے اور کبھی 190 ملین ایکڑ فٹ۔ جب 90 ملین ایکڑ فٹ ہوتا ہے تو خشک سالی ہوتی ہے اور جب 90 1ملین ایکڑ فٹ ہوتا ہے تو سیلاب آتا ہے۔90 اور 190 ملین ایکڑ فٹ کے اس فرق کا مطلب یہ ہے کہ کسی سال ملک میں خشک سالی ہوگی اور کسی سال سیلاب آئیں گے لہٰذا اس صورتحال کو بیلنس کرنے کیلئے ہمیں ڈیم بنانا ہوں گے تاکہ جب پانی زیادہ ہو تو ذخیرہ کرلیں اور جب خشک سالی ہو تو اسے استعمال کر لیا جائے۔
سال میں 100 دن ایسے ہوتے ہیں کہ جب برف پگھل رہی ہوتی ہے اور مون سون بھی، ان دنوں میں سیلاب جیسی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے اور ہمارے پاس 80 فیصد پانی آجاتا ہے جبکہ باقی کے 265 دنوں میں 20 فیصد پانی آتا ہے۔ جب تربیلا اور منگلا ڈیم نہیں تھا تو اس وقت تقریباََ 65 سے 75 ملین ایکڑ فٹ تک پانی نہروں کی طرف موڑا جاتا تھا مگر جب 1974ء میں ڈیم بنائے تو 106 ملین ایکڑ فٹ تک پانی نہروں میں چھوڑا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے جیسے ہماری سٹوریج کپیسٹی بڑھے گی تو نہروں میں زیادہ پانی جائے گا۔
ہمیں ڈیم کی اس لیے ضرورت ہے کہ سال کے اندر بھی اور مختلف برسوں میں بھی پانی کے حوالے سے تغیر ہے۔ اس وقت ہمارے پاس 40 ملین ایکڑ فٹ سٹوریج کپیسٹی ہے جو انڈس بیسن پر ہے۔ انڈس بیسن پر پانی کے ساتھ آنے والے دوسرے میٹریل کی وجہ سے 1974ء کے مقابلے میں 24فیصد سٹوریج کپیسٹی کم ہوگئی ہے جو ایک ڈیم کے برابر ہے جسے بیلنس کرنے کے لیے ہمیں ایک اور ڈیم بنانا ہوگا۔ ہر دس سال میں ایک نئے ڈیم کی ضرورت ہے اور یہی واپڈا کا مشن ہے۔ ہم سپریم کورٹ کے مشکور ہیں جس کی وجہ سے ہمیں سپورٹ ملی ہے۔
اس وقت مہمند ڈیم اور بھاشا ڈیم پر کام شروع ہوچکا ہے، مہمند ڈیم 2024ء تک مکمل ہوجائے گا جبکہ بھاشا ڈیم کی بڈنگ ایولیوایشن جاری ہے، رواں سال نومبر میں اس پر کام کا آغاز ہوجائے گا۔بھاشا ڈیم کے لیے 80 فیصد زمین حاصل کرلی گئی ہے جبکہ 20 فیصد زمین پر کچھ مسائل تھے، جنہیں حکومت نے حل کردیا ہے، جلد وہ بھی حاصل کرلی جائے گی۔ اس کے علاوہ سٹرکیں، آفس، کالونیاں، لیبارٹریز و دیگر کام جاری ہیں۔ واپڈا کے ویژن 2050ء کا نام تبدیل کرکے ویژن 2047ء رکھا جا رہا ہے تاکہ پاکستان کے 100 سال مکمل ہونے پر جائزہ لیا جاسکے۔
2047ء میں آبادی 315ملین ہوجائے گی جس کے لیے 70ملین ایکڑ فٹ اضافی پانی درکار ہوگا۔اس کے لیے 48ملین ایکڑ فٹ کی سٹوریج کپیسٹی بڑھانا ہوگی۔ ڈرپ ایری گیشن و دیگر طریقوں سے بھی پانی محفوظ بنانا ہوگا اور لوگوں کو شعور دینا ہوگا کہ وہ گھریلو سطح پر پانی کو محفوظ بنائیں اور بے جا ضائع نہ کریں۔ 95 فیصد پانی زراعت جبکہ 5 فیصد کے قریب پانی صنعت و گھریلو استعمال میں آتا ہے لہٰذا ہمیں آب پاشی و نہری نظام کو بہتر کرنا ہوگا۔ہر سال بڑی تعداد میں پانی ضائع ہوجاتا ہے جسے محفوظ کرنے کیلئے ڈیم بنانے کی ضرورت ہے۔
اگر ایسا کرلیںتو سیلاب و دیگر پانی رحمت بن جائے گا وگرنہ ہمیں زحمت ہوگی اور جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ہم رسک لینے والی قوم ہیں اور احتیاطی تدابیر نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ سیلاب کی صورت میں نقصان زیادہ ہوتا ہے، اس کے لے لوگوں کو ایجوکیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سال بارشیں زیادہ ہوئیں اور اب 8 سے 10 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں مل کر ضائع ہوجائے گا جسے محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔ اب ہم نے انڈس پر سندھ بیراج بنانے کی تجویز دی ہے جو سمندر سے 45 کلومیٹر اور کوٹری بیراج سے 180 کلومیٹر ہے۔ اس بیراج میں 2 سے 3 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کریں گے اور پانی کو ضائع ہونے بچایا جاسکے گا۔ اس سے وہاں کے ماحول پر مثبت اثر پڑے گا۔ اس کے علاوہ وہاں سے 10 ہزار کیوسک کی نہر بناکر کراچی و ارد گرد کے علاقوں کو پانی سپلائی کیا جائے گا جس سے سندھ کے ریگستان میں بھی نئی زندگی آئے گی۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اب شہروں میں سیلاب آرہے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے ناجائز تجاوزات قائم کر لی ہیں، نالے بند ہوچکے ہیں، ان کی صفائی نہیں ہورہی، زیادہ تر زمین پر پلازے و مکان بن چکے ہیں، سڑکیں بھی پکی ہیں جس کی وجہ سے زمین میں پانی جذب نہیں ہورہا لہٰذا اس حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
عبداللہ ملک
(نمائندہ سول سوسائٹی)
اقوام متحدہ کا ادارہ جب معرز وجود میں آیا تو دنیا کی بقاء، اس کے وسائل اور موسمی تغیر و تبدل کے حوالے سے قانون سازی کی گئی اور رکن ممالک کو پابند کیا گیا کہ وہ دنیا اور انسانیت کی بقاء کے لیے اس پر عملدرآمد کریں۔ رکن ممالک کے لیے لازمی ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اپنے اپنے ملک میں کام کریں گے، اس حوالے سے ادارے قائم کریں گے اور طریقہ کار وضع کریں گے تاکہ صحیح معنوں میں عملدرآمد کیا جا سکے۔ ہر سال اقوام متحدہ کا اجلاس ہوتا ہے جن میں ان تمام معاملات پر نظر ثانی کی جاتی ہے۔
اس سال بھی ستمبر میں اقوام متحدہ کا اجلاس ہو رہا ہے جس میں ان تمام چیزوں کا جائزہ لیا جائے گا۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں پیشگی اقدامات کے بجائے کسی بھی حادثے یا آفت کے آنے کے بعد ردعمل کے طور پر کام کیا جاتا ہے اور تب ہمیں خیال آتا ہے کہ کچھ کرنا چاہیے۔ 2005ء میں پاکستان کی تاریخ کا بدترین زلزلہ آیا جس میں ہزاروں اموات ہوئیں جبکہ لاکھوں افراد زخمی ہوئے۔
2010ء میں ملکی تاریخ کا بدترین سیلاب آیا جس میں بہت زیادہ نقصان ہوا۔ اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو 1996ء سے 2015ء تک تقریباََ 50 ملین لوگ متاثر ہوئے ہیں جبکہ معیشت کو 25.5 ملین ڈالر نقصان ہوا۔ 2005ء سے 2016ء تک 20 ملین افراد متاثر ہوئے ،4205 افراد کی سیلاب جبکہ 73 ہزار 894 افراد کی اموات زلزلوں سے ہوئیں۔ 1 لاکھ 29 ہزار 705 لوگ زخمی ہوئے۔ 3942لوگ خشک سالی سے متاثر ہوئے جبکہ ہزاروں بے گھر ہوگئے۔
افسوس ہے کہ اب تک زلزلوں اور سیلاب سے لاکھوں لوگ موت کے منہ میں جا چکے ہیں اور اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے جبکہ صحت، خوراک، زمین، گھر، پانی و سینی ٹیشن اور دیگر مسائل الگ ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے لہٰذا ریاست کا یہ کردار بنتا ہے کہ وہ ان آفات کے اثرات سے لوگوں کو محفوظ بنائے اور پیشگی اقدامات کرے۔ پاکستان انسانی حقوق اور قدرتی آفات کے حوالے سے اقوام متحدہ کے چارٹر کا پابند ہے مگر اس پر ابھی تک خاطر خواہ کام نہیں ہوا، امید ہے موجودہ حکومت اس حوالے سے بھرپور کام کرے گی۔ 2010ء میں پہلی مرتبہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے)قائم کی گئی ۔
'این ڈی ایم اے' کا ایک اہم کام وزیراعظم کی سربراہی میں قومی کمیشن کا قیام تھا جس میں حکومتی و عالمی اداروں، متعلقہ وزارتوں، افواج، میڈیا، سول سوسائٹی و دیگر سٹیک ہولڈرز کو شامل کرنا تھا تاکہ قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کرنے کیلئے لائحہ عمل طے کیا جاسکے مگر بدقسمتی سے آج تک یہ کمیشن نہیں بنایا جا سکا جبکہ ہم ہر سال آفات سے متاثر ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ عملدرآمد کا ہے۔ ہم ہمیشہ ہی کہتے ہیں کہ نئی قانون سازی کے بجائے جو قوانین موجود ہیں ان پر عملدرآمد کا طریقہ کار وضع کیا جائے اور اسے بہتر بنایا جائے۔
'این ڈی ایم اے' کی ویب سائٹ پر بہت زیادہ ڈیٹا موجود ہے لیکن قومی و صوبائی اداروں میں رابطے کی کمی ہے جس کا نقصان ہورہا ہے۔سیلاب کی صورت میں دریاؤں کے کنارے موجود آبادیاں تباہ ہوتی ہیں۔ 2010ء میں سیلاب کی ایک وجہ یہ تھی کہ لوگوں نے بند باندھ کر دریا کا رخ موڑ دیا تھا، اب بھی اسی قسم کے مسائل موجود ہیں، دریاؤں کی زمین پر ناجائز قبضہ ہے لہٰذا حکومت کو اس حوالے سے ایکشن لینا ہوگا۔2010ء کے سیلاب کے بعد شہباز شریف نے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں کمیشن بنایا تھا جس نے 500صفحات کی رپورٹ دی۔ اس رپورٹ میں ذمہ داران کا تعین کیا گیا تھا، اگر اس رپورٹ کی روشنی میں اقدامات کیے جائیں اور اس میں دی جانے والی تجاویز پر عملدرآمد کیا جائے تو صورتحال بہتر بنائی جاسکتی ہے۔
لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، رحیم یار خان، ڈی جی خان و دیگر گرے ایریاز ہیں جہاں بارشوں سے سیلاب جیسی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ رواں سال 8کے قریب بڑے سیلاب آئے۔ افسوس ہے کہ پانی کے حوالے سے ابھی تک قانون سازی ہی نہیں ہوئی کہ اس پر کنٹرول وفاق کا ہے یا صوبے کا۔ بدقسمتی سے بڑی مقدار میں پانی ضائع ہورہا ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔سوال یہ ہے کہ 72 برسوں میں اس پر کام کیوں نہیں کیا گیا ؟1985ء میں کالا باغ ڈیم پر کام مکمل ہو گیا، فزیبیلٹی بن گئی، زمین حاصل کرلی گئی، کالونیاں بن گئیں مگر اس کے بعد وہ سیاست کی نظر ہوگیا اور اربوں ڈالر ضائع ہوگئے۔
افسوس ہے کہ ہم قوم کو یہ ہی نہیں بتا سکے کہ پانی کیوں ضروری ہے۔ اگر ڈیم بن گیا ہوتا تو پانی ضائع نہ ہوتا۔ سندھ طاس معاہدہ کے تحت روای، ستلج ، بیاس بھارت کو دے دیے مگر بھارت ہم پر پانی کی جنگ مسلط کر رہا ہے، ہمیں ہر ممکن صورتحال کیلئے تیار رہنا ہوگا۔ ہم دنیا کے ان کے 7 ممالک میں شامل ہیں جہاں تواتر کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلیاں آتی ہیں۔ اداروں کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ 2030ء کے بعد پانی کی قلت پیدا ہوگی جس کے پیش نظر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے از خود نوٹس لیا اور پانی کے حوالے سے کام کا آغاز کیا۔
بھاشا ڈیم، دیامیر ڈیم پائپ لائن میں ہیں اور واپڈا ان پر کام کر رہا ہے مگر بدقسمتی ہے کہ حکومت کی توجہ پانی پر نہیں ہے اور نہ ہی ابھی تک اس حوالے سے قانون سازی ہوئی۔ ڈیم بنانا عدلیہ کا کام نہیں مگر جب حکومت کام نہ کرے تو پھر عوامی مفاد میں عدلیہ کو ایکشن لینے کا اختیار ہے۔ ڈیم کے لیے جمع شدہ رقم آج سپریم کورٹ کے فنڈ میں موجود ہے، حکومت کو چاہیے کہ ویژن اور پالیسی لائے تاکہ لوگوں کی زیادہ سے زیادہ شمولیت ہو اور ڈیم بنائے جاسکیں۔ پانی کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر ہمیں زیادہ سے زیادہ ڈیم بنانا ہوں گے۔