آزاد جموں و کشمیر بمقابلہ مقبوضہ کشمیر
بھارت کو آزاد جموں و کشمیر پر بات چیت کی دعوت دی جائے کہ جو فارمولا یہاں طے ہوگا اس کا اطلاق مقبوضہ کشمیر پر بھی ہوگا
آپس کی بات ہے ہمارا موقف کیا ہے جس پر ہم دنیا کو لانا چاہ رہے ہیں؟ جسے حمایت سمجھا جارہا ہے وہ ہمارے موقف کی جیت ہے یا محض صورتحال پر تشویش کا اظہار؟ ہماری یہ شدید اور پرخلوص خواہش بلاشبہ لائق تحسین ہے کہ دنیا اور اس دنیا کے سارے پنڈت جموں و کشمیر کو اب ترجیح دیں۔ جب ہمیں ایسا ہوتا محسوس نہیں ہوتا تو ہماری جھنجھلاہٹ ایک قدرتی ردعمل ہے، اس لیے کہ اہل جموں و کشمیر سے ہمارا تعلق قلبی ہے۔ یہ جھنجھلاہٹ دل کی بے قراری کا اظہاریہ ہے۔ دراصل اس درد دل ہی کی بدولت دنیا ہمارا مدعا سمجھ نہیں پارہی، محض تشویش کا اظہار کر رہی ہے۔ کیوں کہ درد تشویش ہی پیدا کرتا ہے، جس کا برملا اظہار ہورہا ہے۔ ہمیں دنیا کو رلانا ہے یا اپنے موقف کا حمایتی بنانا ہے؟ جس کا فی الوقت کوئی وجود ہی نہیں۔ درد کو اپنی طاقت بنائیے اور موجودہ منظرنامہ سے چند لمحوں کےلیے نظر ہٹا کر سوچئے کہ بھارتی جموں و کشمیر کی نئی حیثیت کے بعد ہمارا نیا موقف کیا ہے۔ حمایت تو موقف کی حاصل کی جاتی ہے منظر کی نہیں۔
ہم نے تاحال 5 اگست کے بھارتی اقدام کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سنگینی کا واویلا ہی کیا ہے۔ جس پر اعتراض نہیں کیوں کہ یہ فطری ردعمل تھا۔ مگر سوال یہ ہے کہ جس منظرنامہ کی تصویرکشی کرکے ہم دنیا سے حمایت کے خواہاں ہیں، وہ اسی دنیا کے ذریعے تو ہم تک پہنچ رہا ہے۔ عالمی میڈیا کا دم غنیمت ہے کہ کشمیریوں کی کسمپرسی کی کوئی جھلک گاہے بگاہے ہمیں دکھا دیتا ہے، ہم جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے اور فون اٹھا کر اپنا درد دل دنیا کے آگے رکھ دیتے ہیں۔ پھر آئیوری کوسٹ جیسا ملک بھی ہماری ڈھارس بندھاتے ہوئے مشورہ دیتا ہے کہ بھارت کے ساتھ بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کرلیں۔
یاد کیجئے جوہری افزودگی کے مسئلے پر جب ایران امریکی پابندیوں کی زد میں آیا تو عالمی میڈیا نے یہ تاثر دیا جیسے اب ایران دنیا کے نقشے سے مٹ جائے گا۔ ہم بھولے لوگ بھی جھانسے میں آگئے۔ اقتصادی پابندیاں... توبہ توبہ! ایرانی تو اب بھوکے مرجائیں گے۔ لیکن ایران آج بھی ویسا ہے جیسا جوہری پابندیوں سے پہلے تھا۔ روٹی وہاں اتنی ہی سستی ہے جتنی پہلے تھی۔ اور ظاہر ہے ایرانی اتنی ہی مقدار میں کھا بھی رہے ہیں جتنی پہلے کھاتے تھے، اس لیے کہ ان کی صحت کا معیار بھی ویسا ہے۔ یہ سب کیونکر ممکن ہوا؟ صرف ایک واضح، جاندار اور منطقی موقف کی بدولت، جسے آہستہ آہستہ حمایت حاصل ہوتی رہی، جس کی دنیا دھیرے دھیرے ہم نوا بنتی گئی۔ جس نے بھی سنا کہا ہاں بات تو ایرانی ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ یہ ہوتا ہے موقف۔
ایران نے اقتصادی پابندیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سنگین صورتحال کا رونا نہیں رویا، نہ ہی اپنا وقار کھویا، ساری طاقت اپنے موقف میں ڈال دی، جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
خدارا موقف اپنائیے۔ صورتحال کا واویلا نہ کیجیے۔ دشمن کو ہنسنے کا موقع نہ دیجئے۔ اپنا وقار قائم رکھیے۔ اپنے غصہ اور درد و غم کو اپنی طاقت بنائیے، جو ہمارے موقف سے جھلکے۔ ہم بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے، زیادہ جاننے کی ضرورت بھی نہیں، بس اتنا جان لیجئے کہ بھارت میں مودی امیت ہندوؤں کے عقیدہ کی محافظ جوڑی دیوتائوں کی خاص کرپا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد سے سیکولر سیاست کے نام پر ہندو عقیدے پر جو حملے ہوتے رہے، اب ان کی تلافی کا وقت آگیا۔ اب مودی کا ساتھ دینے امیت شاہ بھی آگیا۔ گاؤ ماتا کے پجاریوں کےلیے یہ سیاستدانوں کی نہیں مہا اوتاروں کی جوڑی ہے، جو بھارت کو صحیح معنوں میں ہندو راشڑیہ ریاست بنائے گی۔ امیت شاہ کی انتخابی تقریروں میں جن دو وعدوں کی تکرار کی جاتی رہی، وہ دونوں پورے کر دیئے گئے۔ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور شہریت ایکٹ میں ترمیم، جس کا نشانہ ریاست آسام کے مسلمان ہیں۔ تو کہنا یہ مقصود ہے اس جوڑی سے ہم نبرد آزما ہیں جو مروجہ مہذب سفارتی اور سیاسی طریقوں سے قابو نہیں آئے گی۔ ان کی قیادت میں بھارت کو غیر معروف مگر باوقار طریقوں سے گھیرا ڈالنا ہوگا۔
یوں بھی ہوسکتا ہے، بلکہ ہونا چاہیے کہ ایک سچ کی مدد سے دوسرے سچ کو ثابت کیا جائے۔ یعنی آزاد جموں و کشمیر بمقابلہ مقبوضہ کشمیر۔
آزاد جموں و کشمیر ایک سچائی ہے جس کی مدد سے ہمیں بھارتی مقبوضہ کشمیر کے جھوٹ کی قلعی کھولنا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ اب صرف پاکستانی کشمیر پر بات ہوگی۔ پاکستان کو چاہیے تھا کہ وہ اس کے جواب میں کہتا بسم اللہ۔ آئیں آزاد جموں و کشمیر پر پہلے بات کرلیتے ہیں۔ بات کرنے سے آزاد جموں و کشمیر بھارت کا ہوجائے گا؟ بات کرنے میں کیا حرج ہے؟ کیا ہمیں بات کرنی نہیں آتی؟ گفتگو کی بنیاد کیا ہوگی؟ بھارت کہے گا آزاد جموں و کشمیر ہمارا ہے، آپ نے اس پر قبضہ کر رکھا ہے۔ یہی تو ہم سننا چاہتے ہیں۔ کسی بھی خطہ ارضی کے مقدر کا فیصلہ وہاں کے رہنے والوں نے کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں پاکستانی کشمیریوں پر اعتماد نہیں؟ یقیناً ہے۔ تو پھر جو ماڈل ہم بھارتی کشمیر پر لاگو کرانا چاہتے ہیں، اسے پاکستانی کشمیر پر لاگو کرنے میں کیا حرج ہے؟ اب تو دونوں اطراف کے کشمیری یک زبان اور یک جان ہیں۔ بھارت کو اس شرط کے ساتھ آزاد جموں و کشمیر پر بات چیت کی دعوت دی جائے کہ جو فارمولا یہاں طے ہوگا اس کا اطلاق مقبوضہ کشمیر پر بھی ہوگا۔ کیوں کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد بھارت کا ریاست کے ساتھ اب الحاق نہیں رہا، قبضہ ہوگیا ہے۔ بھارت اس گھیرے میں نہ آئے تو ہمیں رضاکارانہ طور پر اقوام متحدہ سے درخواست کرنی چاہیے کہ اپنی نگرانی میں آزاد جموں و کشمیر میں ریفرنڈم کرائے اور یہاں کے باشندوں کی مرضی معلوم کرلے۔ آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم اس ریفرنڈم کے نتیجے کو لے کر ساری دنیا گھوم جائیں اور ایک چہکار مچا دیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ہم نے تاحال 5 اگست کے بھارتی اقدام کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سنگینی کا واویلا ہی کیا ہے۔ جس پر اعتراض نہیں کیوں کہ یہ فطری ردعمل تھا۔ مگر سوال یہ ہے کہ جس منظرنامہ کی تصویرکشی کرکے ہم دنیا سے حمایت کے خواہاں ہیں، وہ اسی دنیا کے ذریعے تو ہم تک پہنچ رہا ہے۔ عالمی میڈیا کا دم غنیمت ہے کہ کشمیریوں کی کسمپرسی کی کوئی جھلک گاہے بگاہے ہمیں دکھا دیتا ہے، ہم جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے اور فون اٹھا کر اپنا درد دل دنیا کے آگے رکھ دیتے ہیں۔ پھر آئیوری کوسٹ جیسا ملک بھی ہماری ڈھارس بندھاتے ہوئے مشورہ دیتا ہے کہ بھارت کے ساتھ بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کرلیں۔
یاد کیجئے جوہری افزودگی کے مسئلے پر جب ایران امریکی پابندیوں کی زد میں آیا تو عالمی میڈیا نے یہ تاثر دیا جیسے اب ایران دنیا کے نقشے سے مٹ جائے گا۔ ہم بھولے لوگ بھی جھانسے میں آگئے۔ اقتصادی پابندیاں... توبہ توبہ! ایرانی تو اب بھوکے مرجائیں گے۔ لیکن ایران آج بھی ویسا ہے جیسا جوہری پابندیوں سے پہلے تھا۔ روٹی وہاں اتنی ہی سستی ہے جتنی پہلے تھی۔ اور ظاہر ہے ایرانی اتنی ہی مقدار میں کھا بھی رہے ہیں جتنی پہلے کھاتے تھے، اس لیے کہ ان کی صحت کا معیار بھی ویسا ہے۔ یہ سب کیونکر ممکن ہوا؟ صرف ایک واضح، جاندار اور منطقی موقف کی بدولت، جسے آہستہ آہستہ حمایت حاصل ہوتی رہی، جس کی دنیا دھیرے دھیرے ہم نوا بنتی گئی۔ جس نے بھی سنا کہا ہاں بات تو ایرانی ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ یہ ہوتا ہے موقف۔
ایران نے اقتصادی پابندیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سنگین صورتحال کا رونا نہیں رویا، نہ ہی اپنا وقار کھویا، ساری طاقت اپنے موقف میں ڈال دی، جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
خدارا موقف اپنائیے۔ صورتحال کا واویلا نہ کیجیے۔ دشمن کو ہنسنے کا موقع نہ دیجئے۔ اپنا وقار قائم رکھیے۔ اپنے غصہ اور درد و غم کو اپنی طاقت بنائیے، جو ہمارے موقف سے جھلکے۔ ہم بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے، زیادہ جاننے کی ضرورت بھی نہیں، بس اتنا جان لیجئے کہ بھارت میں مودی امیت ہندوؤں کے عقیدہ کی محافظ جوڑی دیوتائوں کی خاص کرپا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد سے سیکولر سیاست کے نام پر ہندو عقیدے پر جو حملے ہوتے رہے، اب ان کی تلافی کا وقت آگیا۔ اب مودی کا ساتھ دینے امیت شاہ بھی آگیا۔ گاؤ ماتا کے پجاریوں کےلیے یہ سیاستدانوں کی نہیں مہا اوتاروں کی جوڑی ہے، جو بھارت کو صحیح معنوں میں ہندو راشڑیہ ریاست بنائے گی۔ امیت شاہ کی انتخابی تقریروں میں جن دو وعدوں کی تکرار کی جاتی رہی، وہ دونوں پورے کر دیئے گئے۔ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور شہریت ایکٹ میں ترمیم، جس کا نشانہ ریاست آسام کے مسلمان ہیں۔ تو کہنا یہ مقصود ہے اس جوڑی سے ہم نبرد آزما ہیں جو مروجہ مہذب سفارتی اور سیاسی طریقوں سے قابو نہیں آئے گی۔ ان کی قیادت میں بھارت کو غیر معروف مگر باوقار طریقوں سے گھیرا ڈالنا ہوگا۔
یوں بھی ہوسکتا ہے، بلکہ ہونا چاہیے کہ ایک سچ کی مدد سے دوسرے سچ کو ثابت کیا جائے۔ یعنی آزاد جموں و کشمیر بمقابلہ مقبوضہ کشمیر۔
آزاد جموں و کشمیر ایک سچائی ہے جس کی مدد سے ہمیں بھارتی مقبوضہ کشمیر کے جھوٹ کی قلعی کھولنا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ اب صرف پاکستانی کشمیر پر بات ہوگی۔ پاکستان کو چاہیے تھا کہ وہ اس کے جواب میں کہتا بسم اللہ۔ آئیں آزاد جموں و کشمیر پر پہلے بات کرلیتے ہیں۔ بات کرنے سے آزاد جموں و کشمیر بھارت کا ہوجائے گا؟ بات کرنے میں کیا حرج ہے؟ کیا ہمیں بات کرنی نہیں آتی؟ گفتگو کی بنیاد کیا ہوگی؟ بھارت کہے گا آزاد جموں و کشمیر ہمارا ہے، آپ نے اس پر قبضہ کر رکھا ہے۔ یہی تو ہم سننا چاہتے ہیں۔ کسی بھی خطہ ارضی کے مقدر کا فیصلہ وہاں کے رہنے والوں نے کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں پاکستانی کشمیریوں پر اعتماد نہیں؟ یقیناً ہے۔ تو پھر جو ماڈل ہم بھارتی کشمیر پر لاگو کرانا چاہتے ہیں، اسے پاکستانی کشمیر پر لاگو کرنے میں کیا حرج ہے؟ اب تو دونوں اطراف کے کشمیری یک زبان اور یک جان ہیں۔ بھارت کو اس شرط کے ساتھ آزاد جموں و کشمیر پر بات چیت کی دعوت دی جائے کہ جو فارمولا یہاں طے ہوگا اس کا اطلاق مقبوضہ کشمیر پر بھی ہوگا۔ کیوں کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد بھارت کا ریاست کے ساتھ اب الحاق نہیں رہا، قبضہ ہوگیا ہے۔ بھارت اس گھیرے میں نہ آئے تو ہمیں رضاکارانہ طور پر اقوام متحدہ سے درخواست کرنی چاہیے کہ اپنی نگرانی میں آزاد جموں و کشمیر میں ریفرنڈم کرائے اور یہاں کے باشندوں کی مرضی معلوم کرلے۔ آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم اس ریفرنڈم کے نتیجے کو لے کر ساری دنیا گھوم جائیں اور ایک چہکار مچا دیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔