احساس کمتری کا شکار بچے اور تعلیم

ذہنی تناؤ، پریشانیاں اور ڈپریشن جیسی بیماریوں سے آج ہمارے بچے بھی محفوظ نہیں رہے

بچوں کے کاندھوں پر ابھی سے حد سے زیادہ بوجھ نہ ڈالیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہمارے اردگرد ہر دم پلنے بڑھنے والی نازک اور معصوم مخلوق، ہمارے بچے بھی آج کل کے تیز رفتار دور میں بہت سی نئی الجھنوں کا شکار نظر آتے ہیں۔ معصوم ہونے کی وجہ سے وہ اپنے اندر کی کیفیات کو ہمارے ساتھ کھل کر بیاں نہیں کر پاتے، لیکن کئی ایسے مسائل دیکھنے میں آرہے ہیں جو بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما میں ایک ناسور کی طرح پل بڑھ رہے ہیں۔ ذہنی تناؤ، پریشانیاں اور ڈپریشن، یہ کسی زمانے میں امیروں اور بڑوں کی بیماریاں سمجھی جاتی تھیں، لیکن آج اس سے ہمارے بچے بھی محفوظ نہیں رہے۔

تعلیم کے ابتدائی چند سال کا عرصہ ہر بچے کی زندگی کا ایک ایسا وقت ہوتا ہے جب اس کی کئی طرح کی مشق ہوتی ہے۔ جس میں دباؤ کو قبول کرنے کی صلاحیت کو بھی پروان چڑھایا جاتا ہے۔ کچھ بچے اس سائیکل میں بہت کامیاب رہتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے زیادہ تر بچے اس عمل میں احساس کمتری کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں۔

تعلیم کے دوران آئے دن ٹیسٹ اور اسائمنٹ سے جہاں ان کی کارکردگی کو دیکھا جاتا ہے، وہیں مسلسل گرتی کارکردگی کچھ بچوں کے ذہن میں تشویش کا باعث بن کر سامنے آتی ہے۔ حتیٰ کہ معاملہ اس قدر سنگین صورت اختیار کر جاتا ہے کہ بچے کو اپنے اندر کسی صلاحیت پر یقین نہیں رہتا اور وہ اپنی ذات کو لے کر شک و شبہات میں مبتلا نظر آتا ہے۔ اس طرح کے جذبات کے ساتھ زیادہ عرصے تک منسلک رہنے سے بچے کے اندر احساس کمتری جنم لیتی ہے، جو ایک یقین میں بدل جاتی ہے اور بہت جلد اس کو اپنے بارے میں یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا۔

ایسی صورتحال میں یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ عام طور پر بچہ یہ الجھن خود حل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ اس کیفیت کو بیان کرنے سے بھی قاصر ہوتا ہے۔ مندرجہ ذیل عوامل ایسے ہیں جن کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بچہ احساس کمتری کی زد میں آچکا ہے۔

مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں سوچنا


بچوں میں عام رویہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ان کے پاس مستقبل میں کچھ بننے کے بہت سے خواب ہوتے ہیں۔ اکثر جب بچوں سے سوال کیا جاتا ہے کہ بڑے ہوکر کیا بننا ہے؟ تو چمکتی آنکھوں اور روشن چہرے کے ساتھ اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اکثر ان کے خواب اور ہدف وقت کے ساتھ بدلتے بھی رہتے ہیں۔ لیکن انہی میں کچھ ایسے بچے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جو مستقبل کے بارے میں کوئی خاص پلاننگ نہیں رکھتے، بلکہ ان کا ذہن کسی بھی جواب سے خالی نظر آتا ہے۔

اگر والدین یہ مشاہدہ کریں کہ ان کا بچہ روایتی بچوں کی طرح کچھ بھی بننا نہیں چاہ رہا تو یہ ایک قسم کے خطرے کی علامت ہے۔ لہٰذا اگر نوٹ کریں کہ بچہ مستقبل کے بارے میں یا اسکول کے پلان بتانے کے بارے میں بالکل دلچسپی نہیں دِکھا رہا تو اس کا صاف اور واضح مطلب ہے کہ وہ خود کو کسی کامیاب پوزیشن پر نہیں دیکھتا۔

دوسرے بچوں کے ساتھ موازنہ کرنا


اگر بچہ مسلسل کلاس کے کسی بہترین بچے سے خود کا موازنہ اس طریقے سے کرتا ہے کہ وہ تو لیتا ہی اچھے گریڈز ہے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس کے مقابلے کا نہیں سمجھتا۔ وہ اپنے ذہن میں اس بچے کو ایک ایسے مقام پر دیکھتا ہے جہاں اس کو اپنا پہنچنا ناممکن لگتا ہے اور بچہ نہ چاہتے ہوئے بھی حسد کا شکار ہوجاتا ہے۔ اکثر ایسے بچے دوسرے بچوں سے ناخوش اور غیر مطمئن نظر آتے ہیں، جو کہ اس کی کارکردگی کو مزید گرانے کا باعث بن جاتی ہے۔

اسکول کی بات پر چڑچڑاپن



اگلی بار جب آپ اپنے بچے سے اسکول کے بارے میں پوچھیں تو اس کے ردعمل کو نوٹ کریں۔ اگر آپ کا بچہ جارحیت یا دفاعی ردعمل دے تو یہ نشانی ظاہر کرتی ہے کہ وہ اسکول کی قابلیت کے بارے میں خود کو غیر محفوظ محسوس کرتا ہے۔ وہ اکثر اسکول بدلنے یا چھوڑنے کی بات کرتا ہے۔ وہ خود کو اس ماحول میں نالائق اور کمتر محسوس کرتا ہے اور کسی ایسی جگہ جانا چاہتا ہے جہاں اس کی حیثیت بھی باقی بچوں کی طرح ہو اور وہ اپنے ذہن میں اس کیفیت سے نکلنے کا واحد حل فرار یعنی اسکول چھوڑنا یا بدلنا نکالتا ہے۔

ہر بات پر رائے مانگنا


جن بچوں کو اپنی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں ہوتا وہ اکثر دوسروں سے توثیق کرنے کےلیے رجوع کرتے ہیں۔ دوسرے انھیں مستقل طور پر یہ بتائیں کہ وہ کسی کام کو کرنے کے قابل ہیں بھی یا نہیں۔ دوسروں کے خیالات اور رائے کو وہ بہت اہمیت دیتے ہیں۔ اگر آپ کا بچہ آپ سے پوچھتا رہتا ہے ''کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں ہوشیار ہوں؟'' یا ''مجھے نہیں معلوم کہ میں اسائنمنٹ کرسکتا ہوں یا نہیں؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ میں کرسکتا ہوں؟'' اس کا مطلب ہے کہ آپ کا بچہ امید کررہا ہے کہ آپ اسے یقین دہانی کروائیں کہ ہاں وہ کرسکتا ہے۔ اس معاملے میں کوتاہی اور لاپروائی اس کو مزید قائل کردیتی ہے کہ وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں ہے۔

ایسے حالات میں سب سے زیادہ ذمے داری والدین اور استاتذہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کا بغور مطالعہ کریں اور انہیں جانچنے کی مکمل کوشش کریں۔ کیا وہ اس طرح کی نفسیاتی الجھنون کا شکار تو نہیں ہیں؟ اگر بچے پر مکمل توجہ دی جائے تو کچھ ہی عرصے بعد ان کے اندر بدلاؤ لانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

اپنے بچے کے ساتھ بیٹھیں اور اس سے کارکردگی کے بارے میں پوچھیں اور اس کو سننے اور جاننے کی مکمل کوشش کریں۔ آج کے تیز رفتار دور میں والدین کا سب سے بڑا مسئلہ وقت کی کمی اور بچوں کی بات کو پوری توجہ سے نہ سننے کا ہے۔ بچے کی بات کو پوری توجہ سے سنیں اور اس کے اندر یہ اعتماد ڈالیں کہ وہ کسی بھی چیز کو حاصل کر سکتا ہے۔ اس کو اچھی کارکردگی کےلیے بہت بڑی چھلانگ مارنے کی ضرورت نہیں، بلکہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے بھی وہ بہتری لاسکتا ہے، جو کہ تھوڑی توجہ اور محنت سے ہی ممکن ہے۔ اس کے اندر چھوٹے چھوٹے گول حاصل کرنے کی خواہش پیدا کریں۔ جیسے ہی بچہ ایک ہدف مکمل کرلے گا تو اس کے اندر دوسرے کام کرنے کا اعتماد بڑھے گا۔

دوسروں سے حسد اور کمتری محسوس کرتے ہوئے بچے کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ہر کوئی مختلف ہوتا ہے۔ ہر کسی کا اپنا ایک سیکھنے کا عمل ہوتا ہے۔ اس کو برسوں پہلے کا وہ تمام مواد اور کام دکھائیں جو وہ سیکھ چکا ہے۔ پھر اس کا موازنہ آج سے کریں۔ اس کو یہ باور کروائیں کہ وہ اتنا کچھ سیکھ کر یہاں تک پہنچا ہے۔ اس سے بچے کو یہ معلوم ہوگا کہ اس کے اندر بھی سیکھنے کی صلاحیت ہے۔ جب وہ اپنی سیکھنے کی کارکردگی سے متاثر ہوگا تو اس کے اندر مزید سیکھنے کا عمل اور اعتماد بڑھے گا۔

سب سے بہترین اور آزمودہ حل غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا ہے۔ غیر نصابی سرگرمیاں طلبا میں اعتماد پیدا کرنے کا ایک زبردست طریقہ ہے۔ کھیلوں کی ٹیمیں، آرٹ کلاسز، اسکول ڈرامے اور دیگر سرگرمیاں طلبا کے اعتماد میں زبردست اضافہ کرتی ہیں۔ یہ اعتماد اسکول سمیت زندگی کے ہر شعبے میں پھیلا ہوا ہے۔ اپنے بچے سے پوچھیں کہ وہ کس چیز میں دلچسپی رکھتا ہے؟ انہیں اس کلاس میں داخل کروائیں اور اس کی ہر کارکردگی کو خوب سراہتے ہوئے اس کے اندر اعتماد اور حوصلہ بڑھائیں۔

ایک بات یاد رکھیں! یہ بچے ہمارا کل ہیں اور اپنے کل کو سنورانے کےلیے ہمیں اپنے آج کو بہتر بنانا ہوگا۔ اپنے بچوں کی ضروریات کو سنتے ہوئے اس کا آج بہترین بنانا ہوگا۔ جو مسائل اور پریشانیاں ان کو عمر کے ایک خاص حصے میں ملنا نصیب ہونی ہیں، ان کے کاندھوں پر ابھی سے وہ بوجھ نہ ڈالیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story