کشمیر کا حل جنگ نہیں مذاکرات
کسی کان پر جوں تک نہیں رینگتی، شاید جنگ میں پہل نہ کرنے کے واشگاف اعلان پر بھی عالمی طاقتوں کا یہی رویہ ہوگا۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان جنگ میں پہل نہیں کرے گا، مسئلہ کشمیر مذاکرات سے حل ہوگا، انھوں نے ایک بار پھر عالمی برادری کے ضمیر کو آواز دی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال انسانیت کے لیے ناقابل برداشت ہے، وہاں جو کچھ ہو رہا ہے اگر وہ کسی اور مذہب کے ماننے والوں کے ساتھ ہوتا تو بھی میں آواز بلند کرتا۔
انھوں نے کہا کہ گزشتہ 29 دنوں سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے،80 لاکھ سے زائد لوگ گھروں میں بند ہیں، مریضوں کے لیے ادویات نہیں ہیں، کسی کے اندر اگر رحم ہو تو وہ انسانوں کے ساتھ ایسا سلوک روا نہیں رکھ سکتا۔ کوئی مذہب ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ یہ بات انھوں نے پیر کو یہاں انٹرنیشنل سکھ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔
عالمی سیاست اور سفارت کاری کی اخلاقیات میں شاید اب وہ انسانی رمق باقی نہیں رہی، نہ ہی ترقی یافتہ ممالک کی فعال اور وائبرینٹ پارلیمنٹس کی قراردادوں کا کوئی نوٹس لیا جاتا ہے، اب تک سیکڑوںصدائیں، لگتا ہے صحرا میں اذان کی طرح بیکار جاتی رہی ہیں۔
کسی کان پر جوں تک نہیں رینگتی، شاید جنگ میں پہل نہ کرنے کے واشگاف اعلان پر بھی عالمی طاقتوں کا یہی رویہ ہوگا جب کہ وزیراعظم کا اعلان بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے جواب میں ہے جنھوں نے دھمکی دی تھی کہ بھارت جنگ میں پہل نہ کرنے کا بیان کسی بھی وقت واپس لے سکتا ہے، اسی دردناک انسانی رویے کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان یہی گلہ عالمی برادری سے پہلے بھی کرچکے ہیں کہ اگر مظلوم مسلمان نہ ہوتے تو ان کی دست گیری کے لیے لاکھوں کا مجمع جلوس نکالتا،لیکن کشمیر میں چونکہ مظلوم اور بے نوا مسلمان بھارتی ظلم و بربریت کا نشانہ بن رہے ہیں اس لیے سارے ''نیرو'' چین کی بانسری بجارہے ہیں اور انسانیت خون کے آنسو رو رہی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہندوستان میں ہندوؤں کی بالادستی کی سوچ رکھنے والوں کی حکمرانی ہے جو نہ صرف ہندوستان میں بسنے والی اقلیتوں بلکہ دنیا کے لیے بھی خطرہ ہے، سب کو اس نظریے کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ قائداعظم نے بار بار مسلمانوں سے کہا کہ انگریز سے آزادی کے بعد اگر مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن نہ ہوا تو انھیں ہندو کی غلامی میں زندگی بسر کرنا پڑے گی۔
آج ہندوستان میں آر ایس ایس جس طرح گائے کا گوشت کھانے یا گائے کا کاروبار کرنے والوں کے ساتھ کر رہی ہے، ہندو سمیت کوئی بھی مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا۔ آج آر ایس ایس جس طرف ہندوستان کو لے کر جا رہی ہے۔
ہندوستانیوں کو بہت جلد اس کا ادراک ہو جائے گا کہ اس کی کہیں جگہ نہیں ہے۔ 20 کروڑ مسلمان ہندوستان میں خوف کے سائے میں زندگی بسر کر رہے ہیں، وہاں پر یہی سلوک عیسائیوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے، اگر اس کو روکا نہ کیا گیا تو سکھ بھی اس کا شکار ہوں گے۔ وزیراعظم کا اندیشہ زمینی حقائق سے جڑا ہوا ہے، ان کا کہنا ہے کہ سب کو اس نظریے کے خلاف آواز بلند کرنا ہو گی، اس سے پوری دنیا کو خطرہ ہے۔
عمران خان کے مطابق جب میں وزیراعظم بنا تو پہلی کوشش ہندوستان سے تعلقات بہتربنانا تھے۔ا س کے لیے ہم نے ہندوستان کو پیشکش کی کہ وہ ایک قدم آگے بڑھائے گا تو ہم دو قدم آگے بڑھائیں گے۔ وزیراعظم مودی کو ٹیلی فون پر کہا کہ دونوں ملکوں کو غربت، بے روزگاری اور ماحولیاتی تبدیلیوں ایسے ایک جیسے چیلنجوں کا سامنا ہے۔
مودی کو بتایا کہ 72 سال سے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشمیر کا ایک ہی تنازع ہے، وہ ہم مذاکرات سے حل کر سکتے ہیں لیکن بھارتی رویے سے ایسا لگا کہ جیسے ایک سُپر پاور ایک غریب ملک پر شرائط عائد کر رہی ہے، جو ہمارے لیے حیران کن تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ جنگ سے مسائل کا حل ہمارے ذہن میں نہیں ہے، جو بھی یہ کہتا ہے کہ جنگ سے کوئی مسئلہ حل ہوجائے گا تو لگتا ہے اس نے تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا، آج تک جنگ سے جو بھی جیتا وہ کئی محاذ پر ہار گیا۔ہمارے دین میں کوئی زبردستی نہیں۔
وزیراعظم نے اسلامی تاریخ کے صفحات پلٹتے ہوئے کہا کہ ہم سب انسانوں کو برابر سمجھتے ہیں، مسلمان کسی مذہب کے ماننے والے پر ظلم کرے تو ہمارے دین کے خلاف اقدام ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ کرتارپور راہداری کھولنے پر شکریہ والی کوئی بات نہیں ہے۔ہم سکھوں کو ایئرپورٹ پر ویزہ کی فراہمی سمیت دیگر سہولیات دینگے۔، ہم نے اقتدار میں آتے ہی ویزہ کا نظام تبدیل کیا ہے، کوشش کریں گے کہ سکھوں کو ایئرپورٹ پر ویزہ ملے۔وزیراعظم نے سکھوں کو یقین دہانی کرائی کہ انھیں ملٹی پل ویزے دلوائے جائیں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ کرتارپور اور ننکانہ ہمارے مکہ اور مدینہ کی طرح سکھوں کے مقدس مقامات ہیں، ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ کوئی ہمیں مکہ مدینہ جانے سے روکے، سکھوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہمارا فرض تھا، ہم مذہبی مقامات پر سکھوں کو سہولیات دیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ بابا گرونانک کی 550 ویں سالگرہ سکھ بھائیوں کے ساتھ مل کر بھرپور انداز میں منائیں گے۔کشمیر کے وسیع تر اور الم ناک تناظر میں پاکستان بلاشبہ ایک مشکل اور جانبدار مسلم دشمن مغربی دنیا سے امید کی آس لگائے بیٹھاہے جہاں مفادات، نئے بلاکوں کی تشکیل اور حلیفوں کی ری الائنمنٹس ہورہی ہیں۔
کلبھوشن کو قونصلر رسائی ملی ہے، تاہم عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کی سزا پر کوئی اثرنہیں پڑے گا،پاکستان کی نمایندگی کرنے والے وکیل خاور قریشی کا کہنا ہے کہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی کے بعد آرٹیکل 199 کے تحت ہائیکورٹ میں اپیل دائر کرنی چاہیے۔
وقت کی ستم رانی دیکھئے کہ کشمیریوں کوکرفیو سے نجات نہیں مل رہی، خارجہ کمیٹی یورپی یونین نے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر سے کرفیو ہٹائے، یورپین یونین نے بھی تسلیم کرلیا کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال تشویش ناک،ہے ، بھارت کے سابق سفارت کار، مبصر اور تجزیہ کار مسلسل مودی پرزور دے رہے ہیں کہ انسانی المیے کاادراک کریں اورکشمیریوں سے ظلم کی انتہا کو نہ پہنچیں۔ ادھراسرائیل اور لبنان میں جنگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں، خون مسلم پھر سے ارزاںہونے لگا ہے،مقبوضہ کشمیر میں محصورین کو بد ترین اذیت کا سامنا ہے، ٹارچر سیل بنے ہوئے ہیں۔
بھارت کا تکبر خطے کی تباہی پر منتج ہوگا،مگر مودی اور اس کے مشیران دنیا کی تباہی کا تماشا دیکھنے میں مگن ہیں، حال ہی میں بھارت کے آرمی چیف جنرل بپن راوت سرینگر پہنچے تھے، انھوں نے صورت حال کا جائزہ لیا لیکن بھارتی میڈیا نے کشمیریوں کی درد انگیز صورتحال کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی، بپن راوت نے کہا کہ پاکستان نے بھارت کوانفارمیشن وارفیئر میںمات دے دی ہے۔
بھارتی فوجی افسر وارفیئر سے خوفزدہ نکلے، میڈیا کے مطابق بھارتی آرمی چیف نے سابق فوجی افسروں کوسوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق محتاظ کردیا ۔بہرحال کشمیریوں کی مظلومیت کے خاتمے کے لیے پاکستان کی سفارتی اور انسانی کوششیںجاری ہیں، ان میں سیاسی قوتوں اور اپوزیشن جماعتوں کو ایک پیج پر لانے کی ضرورت ہے، بھارت کو منقسم پاکستانی سنیاریو سے فائدہ نہیں پہنچنا چاہیے، قوم یک زبان ہوکر ہی بھارتی ظلم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک سکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ گزشتہ 29 دنوں سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے،80 لاکھ سے زائد لوگ گھروں میں بند ہیں، مریضوں کے لیے ادویات نہیں ہیں، کسی کے اندر اگر رحم ہو تو وہ انسانوں کے ساتھ ایسا سلوک روا نہیں رکھ سکتا۔ کوئی مذہب ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ یہ بات انھوں نے پیر کو یہاں انٹرنیشنل سکھ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔
عالمی سیاست اور سفارت کاری کی اخلاقیات میں شاید اب وہ انسانی رمق باقی نہیں رہی، نہ ہی ترقی یافتہ ممالک کی فعال اور وائبرینٹ پارلیمنٹس کی قراردادوں کا کوئی نوٹس لیا جاتا ہے، اب تک سیکڑوںصدائیں، لگتا ہے صحرا میں اذان کی طرح بیکار جاتی رہی ہیں۔
کسی کان پر جوں تک نہیں رینگتی، شاید جنگ میں پہل نہ کرنے کے واشگاف اعلان پر بھی عالمی طاقتوں کا یہی رویہ ہوگا جب کہ وزیراعظم کا اعلان بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے جواب میں ہے جنھوں نے دھمکی دی تھی کہ بھارت جنگ میں پہل نہ کرنے کا بیان کسی بھی وقت واپس لے سکتا ہے، اسی دردناک انسانی رویے کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان یہی گلہ عالمی برادری سے پہلے بھی کرچکے ہیں کہ اگر مظلوم مسلمان نہ ہوتے تو ان کی دست گیری کے لیے لاکھوں کا مجمع جلوس نکالتا،لیکن کشمیر میں چونکہ مظلوم اور بے نوا مسلمان بھارتی ظلم و بربریت کا نشانہ بن رہے ہیں اس لیے سارے ''نیرو'' چین کی بانسری بجارہے ہیں اور انسانیت خون کے آنسو رو رہی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہندوستان میں ہندوؤں کی بالادستی کی سوچ رکھنے والوں کی حکمرانی ہے جو نہ صرف ہندوستان میں بسنے والی اقلیتوں بلکہ دنیا کے لیے بھی خطرہ ہے، سب کو اس نظریے کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ قائداعظم نے بار بار مسلمانوں سے کہا کہ انگریز سے آزادی کے بعد اگر مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن نہ ہوا تو انھیں ہندو کی غلامی میں زندگی بسر کرنا پڑے گی۔
آج ہندوستان میں آر ایس ایس جس طرح گائے کا گوشت کھانے یا گائے کا کاروبار کرنے والوں کے ساتھ کر رہی ہے، ہندو سمیت کوئی بھی مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا۔ آج آر ایس ایس جس طرف ہندوستان کو لے کر جا رہی ہے۔
ہندوستانیوں کو بہت جلد اس کا ادراک ہو جائے گا کہ اس کی کہیں جگہ نہیں ہے۔ 20 کروڑ مسلمان ہندوستان میں خوف کے سائے میں زندگی بسر کر رہے ہیں، وہاں پر یہی سلوک عیسائیوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے، اگر اس کو روکا نہ کیا گیا تو سکھ بھی اس کا شکار ہوں گے۔ وزیراعظم کا اندیشہ زمینی حقائق سے جڑا ہوا ہے، ان کا کہنا ہے کہ سب کو اس نظریے کے خلاف آواز بلند کرنا ہو گی، اس سے پوری دنیا کو خطرہ ہے۔
عمران خان کے مطابق جب میں وزیراعظم بنا تو پہلی کوشش ہندوستان سے تعلقات بہتربنانا تھے۔ا س کے لیے ہم نے ہندوستان کو پیشکش کی کہ وہ ایک قدم آگے بڑھائے گا تو ہم دو قدم آگے بڑھائیں گے۔ وزیراعظم مودی کو ٹیلی فون پر کہا کہ دونوں ملکوں کو غربت، بے روزگاری اور ماحولیاتی تبدیلیوں ایسے ایک جیسے چیلنجوں کا سامنا ہے۔
مودی کو بتایا کہ 72 سال سے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشمیر کا ایک ہی تنازع ہے، وہ ہم مذاکرات سے حل کر سکتے ہیں لیکن بھارتی رویے سے ایسا لگا کہ جیسے ایک سُپر پاور ایک غریب ملک پر شرائط عائد کر رہی ہے، جو ہمارے لیے حیران کن تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ جنگ سے مسائل کا حل ہمارے ذہن میں نہیں ہے، جو بھی یہ کہتا ہے کہ جنگ سے کوئی مسئلہ حل ہوجائے گا تو لگتا ہے اس نے تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا، آج تک جنگ سے جو بھی جیتا وہ کئی محاذ پر ہار گیا۔ہمارے دین میں کوئی زبردستی نہیں۔
وزیراعظم نے اسلامی تاریخ کے صفحات پلٹتے ہوئے کہا کہ ہم سب انسانوں کو برابر سمجھتے ہیں، مسلمان کسی مذہب کے ماننے والے پر ظلم کرے تو ہمارے دین کے خلاف اقدام ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ کرتارپور راہداری کھولنے پر شکریہ والی کوئی بات نہیں ہے۔ہم سکھوں کو ایئرپورٹ پر ویزہ کی فراہمی سمیت دیگر سہولیات دینگے۔، ہم نے اقتدار میں آتے ہی ویزہ کا نظام تبدیل کیا ہے، کوشش کریں گے کہ سکھوں کو ایئرپورٹ پر ویزہ ملے۔وزیراعظم نے سکھوں کو یقین دہانی کرائی کہ انھیں ملٹی پل ویزے دلوائے جائیں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ کرتارپور اور ننکانہ ہمارے مکہ اور مدینہ کی طرح سکھوں کے مقدس مقامات ہیں، ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ کوئی ہمیں مکہ مدینہ جانے سے روکے، سکھوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہمارا فرض تھا، ہم مذہبی مقامات پر سکھوں کو سہولیات دیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ بابا گرونانک کی 550 ویں سالگرہ سکھ بھائیوں کے ساتھ مل کر بھرپور انداز میں منائیں گے۔کشمیر کے وسیع تر اور الم ناک تناظر میں پاکستان بلاشبہ ایک مشکل اور جانبدار مسلم دشمن مغربی دنیا سے امید کی آس لگائے بیٹھاہے جہاں مفادات، نئے بلاکوں کی تشکیل اور حلیفوں کی ری الائنمنٹس ہورہی ہیں۔
کلبھوشن کو قونصلر رسائی ملی ہے، تاہم عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کی سزا پر کوئی اثرنہیں پڑے گا،پاکستان کی نمایندگی کرنے والے وکیل خاور قریشی کا کہنا ہے کہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی کے بعد آرٹیکل 199 کے تحت ہائیکورٹ میں اپیل دائر کرنی چاہیے۔
وقت کی ستم رانی دیکھئے کہ کشمیریوں کوکرفیو سے نجات نہیں مل رہی، خارجہ کمیٹی یورپی یونین نے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر سے کرفیو ہٹائے، یورپین یونین نے بھی تسلیم کرلیا کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال تشویش ناک،ہے ، بھارت کے سابق سفارت کار، مبصر اور تجزیہ کار مسلسل مودی پرزور دے رہے ہیں کہ انسانی المیے کاادراک کریں اورکشمیریوں سے ظلم کی انتہا کو نہ پہنچیں۔ ادھراسرائیل اور لبنان میں جنگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں، خون مسلم پھر سے ارزاںہونے لگا ہے،مقبوضہ کشمیر میں محصورین کو بد ترین اذیت کا سامنا ہے، ٹارچر سیل بنے ہوئے ہیں۔
بھارت کا تکبر خطے کی تباہی پر منتج ہوگا،مگر مودی اور اس کے مشیران دنیا کی تباہی کا تماشا دیکھنے میں مگن ہیں، حال ہی میں بھارت کے آرمی چیف جنرل بپن راوت سرینگر پہنچے تھے، انھوں نے صورت حال کا جائزہ لیا لیکن بھارتی میڈیا نے کشمیریوں کی درد انگیز صورتحال کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی، بپن راوت نے کہا کہ پاکستان نے بھارت کوانفارمیشن وارفیئر میںمات دے دی ہے۔
بھارتی فوجی افسر وارفیئر سے خوفزدہ نکلے، میڈیا کے مطابق بھارتی آرمی چیف نے سابق فوجی افسروں کوسوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق محتاظ کردیا ۔بہرحال کشمیریوں کی مظلومیت کے خاتمے کے لیے پاکستان کی سفارتی اور انسانی کوششیںجاری ہیں، ان میں سیاسی قوتوں اور اپوزیشن جماعتوں کو ایک پیج پر لانے کی ضرورت ہے، بھارت کو منقسم پاکستانی سنیاریو سے فائدہ نہیں پہنچنا چاہیے، قوم یک زبان ہوکر ہی بھارتی ظلم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک سکتی ہے۔