صدائے کشمیر
پاکستان کے سامنے فوری طور پر اپنی بقا کا مسئلہ آ کھڑا ہوا ہے۔
نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کو اکھنڈ بھارت کا حصہ بنانے کے اقدامات کیے تو یہ اچانک نہیں ہوا۔ اس کے پیچھے طویل منصوبہ بندی تھی۔ داخلی طور پر انھوں نے آر ایس ایس کے جتھے منظم کیے، میڈیا کو قابوکیا اور پورے بھارت میں پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف ایسی فضا قائم کردی کہ کوئی اس کے خلاف آواز نہ اٹھا سکے،کشمیریوں کی پرامن جدوجہد کو دہشتگردی سے جوڑ دیا۔
خارجی محاذ پر دنیا کو باورکرایا کہ کشمیر میں جوکچھ ہو رہا ہے، اس کے پیچھے پاکستانی دہشتگردی ہے۔ ہمارے بیشتر سفارتکار سوئے رہے۔ یو اے ای، بحرین، سعودی عرب، قطر، امریکا، برطانیہ، فرانس غرض ہر جگہ اپنے ہنرمند، ڈاکٹرز، انجینئرز، آئی ٹی ایکسپرٹس بڑی تعداد میں بھیجے جو وہاں ان کے سفیروں کا کام کرتے رہے، بڑی بڑی انوسٹمنٹ کی۔ ان کے سفارتکار ہر ملک کے حکمران طبقے اور میں اپنا اثرورسوخ قائم کرتے رہے۔ اور ٹیکنالوجی درآمد کرکے ملک کی معاشی بنیاد کو مضبوط کیا۔
مگر نریندر مودی نے ہندو توا کے فلسفے کو اپنایا ہے جو ہندوستانی سیکولر مزاج کے خلاف ہے کیونکہ یہاں مسلمان، سکھ، عیسائی اور خود ہندو معاشرے میں ذات پات کی تقسیم جس میں دلت، شودر اور دیگر ذاتیں برہمن کے مقابلے میں نیچ سمجھی جاتی ہیں وہ سب اس جنونی فاشسٹ نظریے کوکبھی قبول نہیں کریں گی۔
وہاں کے لبرل اور معتدل مزاج دانشور اور سیاسی لیڈر جن میں ڈاکٹر امریتا سین، ارون دھتی رائے، اے جی نورانی اور بہت سی توانا آوازیں اس جارحیت اور نسل کشی کے خلاف اٹھ رہی ہیں اس کے علاوہ خود کشمیری عوام میں جو لاوا پک رہا ہے وہ جب پھٹے گا توکیا اسے بھارتی سیکیورٹی فورسز روک پائیں گی؟ پھر اس کے خلاف مغربی پریس میں بہت شدید ردعمل آیا ہے۔
جیوسائیڈ نامی ایک بڑی این جی او جو دنیا کے چوبیس ممالک میں کام کر رہی ہے اس کے ایک وفد نے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو آشکارکیا۔ تنظیم نے اپنی مفصل رپورٹ اقوام متحدہ کو ارسال کی جس میں یہ کہا گیا کہ وہ اپنے رکن ممالک پر زور دیں کہ ہندوستانی حکومت مسلمانوں کی نسل کشی سے باز رہے، اس کے علاوہ انھوں نے آسام کے 32 لاکھ مسلمان افراد پر ظلم وستم روکنے اور ان کی نسل کشی سے ہندوستانی حکومت کو باز رکھنے کی بین الاقوامی برادری اور حکومتوں سے پرزور اپیل کی۔
ہندوستان میں پہلے ہی 17 مختلف مقامات پر تحریکیں چل رہی ہیں اب مودی کے اس فاشسٹ ہندو توا کے نظریے سے ان میں مزید شدت آئے گی اور ایک متحدہ ہندوستان کے تصور کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
پاکستان کے سامنے فوری طور پر اپنی بقا کا مسئلہ آ کھڑا ہوا ہے۔ فاشسٹ مودی اور اس کے ساتھی کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ ہم آزاد کشمیر بھی لیں گے اور بقیہ پاکستان کو بھی اکھنڈ بھارت کا حصہ بنائیں گے اور دنیا ٹھنڈے پیسوں ان کی یہ ہرزہ سرائی سن رہی ہے۔ سعودی عرب ، بحرین، عرب امارات میں مودی کی جو پذیرائی ہوئی ہے، اس کے پیچھے ان کے معاشی مفادات ہیں۔
دوسرے انھوں نے جب یمن تنازع میں ایران کے خلاف محاذ آرائی کے لیے جو ہم سے فوجی اور سیاسی مدد مانگی تھی اس کو ہم پارلیمنٹ میں لے گئے تھے اور وہاں اس پر بحث میں غیر جانبدار رہ کر ثالثی کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ ہوا تھا جس کو ان ممالک میں برا سمجھا گیا اور امارات کے وزیر خارجہ نے تو ہمارے اس اقدام کی مذمت میں پاکستان کے خلاف بیان بھی دیا تھا۔ وقت نے ثابت کردیا کہ ہماری پالیسی دانشمندی پر مبنی تھی۔ آج یہ تمام ممالک امریکی، اسرائیلی پالیسیوں کے زیرنگیں ہوکر اپنے مستقبل کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ بہرحال یہ ان کا اپنا معاملہ ہے ہمیں ان کے خلاف بیان بازی سے گریز کرنا چاہیے اور زمینی حقائق کے مطابق تحمل سے کام لے کر ان سے تعلق میں اعتدال پیدا کرنا چاہیے۔
ملائیشیا میں اسلامک پارٹی نے کشمیر پر عالمی کانفرنس منعقد کی اور مختلف ممالک سے ممتاز اسکالرز اس میں شریک ہوئے اور کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے ساتھ ساتھ کشمیر میں جاری ظلم و ستم کی بھرپور مذمت کی اور ہندوستانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی بند کرے۔
پاکستان نے 70 سال میں جو بویا تھا اب اسے کاٹنے کا وقت آگیا ہے۔ قائد اعظم نے کہا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور کشمیرکے بغیر پاکستان نامکمل ہے کیوں؟ ایک تو اس لیے کہ کشمیر میں مسلمان اکثریت میں تھے جنھیں نہرو اور اس کے ساتھیوں نے ریڈکلف اور ماؤنٹ بیٹن کو اپنے ساتھ ملا کر ایک سازش کے ذریعے مہاراجہ ہری سنگھ سے الحاق کی دستاویزات پر دستخط کروا لیے۔ جس کی وجہ سے تقسیم کے وقت سے لے کر آج تک یہ مسئلہ سلگ رہا ہے اور روز اول سے وہاں کی مسلمان اکثریت پر ظلم و ستم ہو رہا ہے اور اب 2019ء میں یو این اوکی تمام قراردادوں سے منحرف ہوکر اسے اکھنڈ بھارت کا غیر قانونی طور پر حصہ بنا لیا گیا ہے اور مودی بزور طاقت مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔
ان کی عزت وحرمت بچانا اور انھیں اس ظلم سے نجات دلانا ہر پاکستانی اپنا فرض سمجھتا ہے۔ دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ وہاں سے جو پانچ دریا نکلتے ہیں اور جن پر ہندوستان نے جگہ جگہ ہر طرح کے ڈیم بنا دیے ہیں، ان کے ذریعے وہ جب چاہے پاکستان کا پانی بند کر سکتا ہے اور جب چاہے ان میں اپنا غیر ضروری پانی چھوڑ کر پاکستان میں سیلاب لا سکتا ہے۔ ہم پچھلے 72 سال میں خواب غفلت میں سوتے رہے اور نہ ہی ہم نے اپنے ملک میں اپنی ضرورت کے مطابق ڈیم بنائے۔ اب موجودہ حالات میں ہندوستانی فاشسٹ مودی پاکستان کے خلاف ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرسکتا ہے۔
ہماری سفارتی کوششیں اپنی جگہ مگرکیا ہم معاشی طور پر اس جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ بے شک ہماری بہادر افواج ہر محاذ پر ہندوستانی جارحیت کا مقابلہ کر رہی ہیں مگر عوامی سطح پر معاشی خود مختاری کے بغیر ہم کہاں تک جا سکتے ہیں؟ تفرقہ بازی، کرپشن اور سماجی جرائم کی ایک طویل فہرست ہے جو ہمارے گلے میں ایک طوق کی مانند پڑی ہے اس سے ہنگامی طور پر نجات پانے کی ضرورت ہے۔ ثالثی کی جو آوازیں سنائی دے رہی ہیں وہ ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ ہوسکتا ہے۔
اس کے پیچھے یہ منصوبہ ہو کہ مقبوضہ کشمیر تو بھارت کا حصہ بن ہی چکا۔ لڑائی جھگڑا بند کرو اور آزاد کشمیر اپنے پاس رکھنے پر اکتفا کرلو۔ مگر یہ حل نہ توکشمیری مسلمانوں کی نسل کشی بند کرسکتا ہے اور نہ ہی پاکستانی عوام قبول کریں گے کیونکہ دریاؤں کا قبضہ یعنی پاکستان کی شہ رگ رو پھر بھی ہندوستان کے قبضے میں رہے گی۔ یہ ہماری اور آیندہ نسلوں کی بقا کی جنگ ہے اور ہمیں بہت دانشمندی سے اسے لڑنا ہوگا۔ مزید جارحانہ سفارتکاری سابق منجھے ہوئے سفارت کاروں کے تعاون سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
عوامی سطح پر حکومت کی ایک سالہ کارکردگی پر شدید تحفظات ہیں اور عوام کو مطمئن کیے بغیر ہم یہ جنگ نہیں جیت سکتے۔ وزرا اور مشیران کے تقرر پر سخت نظرثانی کی ضرورت ہے۔ حکومتی رٹ قائم کرنے کے لیے قابل اور ایماندار اہلکاروں کو ترجیح دیے بغیر سفارشی اور نالائق اہلکاروں کے بل پر حکومت چلانا آگ سے کھیلنا ہے۔ دشمن کی جارحانہ پالیسیاں بڑھتی ہی جائیں گی۔ یہ جنگ ختم ہونے والی نہیں اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنی بقا اور قومی سلامتی کے لیے کہاں تک اورکیسے جاتے ہیں اور اس میں کامیاب ہوتے ہیں۔
خارجی محاذ پر دنیا کو باورکرایا کہ کشمیر میں جوکچھ ہو رہا ہے، اس کے پیچھے پاکستانی دہشتگردی ہے۔ ہمارے بیشتر سفارتکار سوئے رہے۔ یو اے ای، بحرین، سعودی عرب، قطر، امریکا، برطانیہ، فرانس غرض ہر جگہ اپنے ہنرمند، ڈاکٹرز، انجینئرز، آئی ٹی ایکسپرٹس بڑی تعداد میں بھیجے جو وہاں ان کے سفیروں کا کام کرتے رہے، بڑی بڑی انوسٹمنٹ کی۔ ان کے سفارتکار ہر ملک کے حکمران طبقے اور میں اپنا اثرورسوخ قائم کرتے رہے۔ اور ٹیکنالوجی درآمد کرکے ملک کی معاشی بنیاد کو مضبوط کیا۔
مگر نریندر مودی نے ہندو توا کے فلسفے کو اپنایا ہے جو ہندوستانی سیکولر مزاج کے خلاف ہے کیونکہ یہاں مسلمان، سکھ، عیسائی اور خود ہندو معاشرے میں ذات پات کی تقسیم جس میں دلت، شودر اور دیگر ذاتیں برہمن کے مقابلے میں نیچ سمجھی جاتی ہیں وہ سب اس جنونی فاشسٹ نظریے کوکبھی قبول نہیں کریں گی۔
وہاں کے لبرل اور معتدل مزاج دانشور اور سیاسی لیڈر جن میں ڈاکٹر امریتا سین، ارون دھتی رائے، اے جی نورانی اور بہت سی توانا آوازیں اس جارحیت اور نسل کشی کے خلاف اٹھ رہی ہیں اس کے علاوہ خود کشمیری عوام میں جو لاوا پک رہا ہے وہ جب پھٹے گا توکیا اسے بھارتی سیکیورٹی فورسز روک پائیں گی؟ پھر اس کے خلاف مغربی پریس میں بہت شدید ردعمل آیا ہے۔
جیوسائیڈ نامی ایک بڑی این جی او جو دنیا کے چوبیس ممالک میں کام کر رہی ہے اس کے ایک وفد نے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو آشکارکیا۔ تنظیم نے اپنی مفصل رپورٹ اقوام متحدہ کو ارسال کی جس میں یہ کہا گیا کہ وہ اپنے رکن ممالک پر زور دیں کہ ہندوستانی حکومت مسلمانوں کی نسل کشی سے باز رہے، اس کے علاوہ انھوں نے آسام کے 32 لاکھ مسلمان افراد پر ظلم وستم روکنے اور ان کی نسل کشی سے ہندوستانی حکومت کو باز رکھنے کی بین الاقوامی برادری اور حکومتوں سے پرزور اپیل کی۔
ہندوستان میں پہلے ہی 17 مختلف مقامات پر تحریکیں چل رہی ہیں اب مودی کے اس فاشسٹ ہندو توا کے نظریے سے ان میں مزید شدت آئے گی اور ایک متحدہ ہندوستان کے تصور کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
پاکستان کے سامنے فوری طور پر اپنی بقا کا مسئلہ آ کھڑا ہوا ہے۔ فاشسٹ مودی اور اس کے ساتھی کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ ہم آزاد کشمیر بھی لیں گے اور بقیہ پاکستان کو بھی اکھنڈ بھارت کا حصہ بنائیں گے اور دنیا ٹھنڈے پیسوں ان کی یہ ہرزہ سرائی سن رہی ہے۔ سعودی عرب ، بحرین، عرب امارات میں مودی کی جو پذیرائی ہوئی ہے، اس کے پیچھے ان کے معاشی مفادات ہیں۔
دوسرے انھوں نے جب یمن تنازع میں ایران کے خلاف محاذ آرائی کے لیے جو ہم سے فوجی اور سیاسی مدد مانگی تھی اس کو ہم پارلیمنٹ میں لے گئے تھے اور وہاں اس پر بحث میں غیر جانبدار رہ کر ثالثی کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ ہوا تھا جس کو ان ممالک میں برا سمجھا گیا اور امارات کے وزیر خارجہ نے تو ہمارے اس اقدام کی مذمت میں پاکستان کے خلاف بیان بھی دیا تھا۔ وقت نے ثابت کردیا کہ ہماری پالیسی دانشمندی پر مبنی تھی۔ آج یہ تمام ممالک امریکی، اسرائیلی پالیسیوں کے زیرنگیں ہوکر اپنے مستقبل کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ بہرحال یہ ان کا اپنا معاملہ ہے ہمیں ان کے خلاف بیان بازی سے گریز کرنا چاہیے اور زمینی حقائق کے مطابق تحمل سے کام لے کر ان سے تعلق میں اعتدال پیدا کرنا چاہیے۔
ملائیشیا میں اسلامک پارٹی نے کشمیر پر عالمی کانفرنس منعقد کی اور مختلف ممالک سے ممتاز اسکالرز اس میں شریک ہوئے اور کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے ساتھ ساتھ کشمیر میں جاری ظلم و ستم کی بھرپور مذمت کی اور ہندوستانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی بند کرے۔
پاکستان نے 70 سال میں جو بویا تھا اب اسے کاٹنے کا وقت آگیا ہے۔ قائد اعظم نے کہا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور کشمیرکے بغیر پاکستان نامکمل ہے کیوں؟ ایک تو اس لیے کہ کشمیر میں مسلمان اکثریت میں تھے جنھیں نہرو اور اس کے ساتھیوں نے ریڈکلف اور ماؤنٹ بیٹن کو اپنے ساتھ ملا کر ایک سازش کے ذریعے مہاراجہ ہری سنگھ سے الحاق کی دستاویزات پر دستخط کروا لیے۔ جس کی وجہ سے تقسیم کے وقت سے لے کر آج تک یہ مسئلہ سلگ رہا ہے اور روز اول سے وہاں کی مسلمان اکثریت پر ظلم و ستم ہو رہا ہے اور اب 2019ء میں یو این اوکی تمام قراردادوں سے منحرف ہوکر اسے اکھنڈ بھارت کا غیر قانونی طور پر حصہ بنا لیا گیا ہے اور مودی بزور طاقت مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔
ان کی عزت وحرمت بچانا اور انھیں اس ظلم سے نجات دلانا ہر پاکستانی اپنا فرض سمجھتا ہے۔ دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ وہاں سے جو پانچ دریا نکلتے ہیں اور جن پر ہندوستان نے جگہ جگہ ہر طرح کے ڈیم بنا دیے ہیں، ان کے ذریعے وہ جب چاہے پاکستان کا پانی بند کر سکتا ہے اور جب چاہے ان میں اپنا غیر ضروری پانی چھوڑ کر پاکستان میں سیلاب لا سکتا ہے۔ ہم پچھلے 72 سال میں خواب غفلت میں سوتے رہے اور نہ ہی ہم نے اپنے ملک میں اپنی ضرورت کے مطابق ڈیم بنائے۔ اب موجودہ حالات میں ہندوستانی فاشسٹ مودی پاکستان کے خلاف ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرسکتا ہے۔
ہماری سفارتی کوششیں اپنی جگہ مگرکیا ہم معاشی طور پر اس جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ بے شک ہماری بہادر افواج ہر محاذ پر ہندوستانی جارحیت کا مقابلہ کر رہی ہیں مگر عوامی سطح پر معاشی خود مختاری کے بغیر ہم کہاں تک جا سکتے ہیں؟ تفرقہ بازی، کرپشن اور سماجی جرائم کی ایک طویل فہرست ہے جو ہمارے گلے میں ایک طوق کی مانند پڑی ہے اس سے ہنگامی طور پر نجات پانے کی ضرورت ہے۔ ثالثی کی جو آوازیں سنائی دے رہی ہیں وہ ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ ہوسکتا ہے۔
اس کے پیچھے یہ منصوبہ ہو کہ مقبوضہ کشمیر تو بھارت کا حصہ بن ہی چکا۔ لڑائی جھگڑا بند کرو اور آزاد کشمیر اپنے پاس رکھنے پر اکتفا کرلو۔ مگر یہ حل نہ توکشمیری مسلمانوں کی نسل کشی بند کرسکتا ہے اور نہ ہی پاکستانی عوام قبول کریں گے کیونکہ دریاؤں کا قبضہ یعنی پاکستان کی شہ رگ رو پھر بھی ہندوستان کے قبضے میں رہے گی۔ یہ ہماری اور آیندہ نسلوں کی بقا کی جنگ ہے اور ہمیں بہت دانشمندی سے اسے لڑنا ہوگا۔ مزید جارحانہ سفارتکاری سابق منجھے ہوئے سفارت کاروں کے تعاون سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
عوامی سطح پر حکومت کی ایک سالہ کارکردگی پر شدید تحفظات ہیں اور عوام کو مطمئن کیے بغیر ہم یہ جنگ نہیں جیت سکتے۔ وزرا اور مشیران کے تقرر پر سخت نظرثانی کی ضرورت ہے۔ حکومتی رٹ قائم کرنے کے لیے قابل اور ایماندار اہلکاروں کو ترجیح دیے بغیر سفارشی اور نالائق اہلکاروں کے بل پر حکومت چلانا آگ سے کھیلنا ہے۔ دشمن کی جارحانہ پالیسیاں بڑھتی ہی جائیں گی۔ یہ جنگ ختم ہونے والی نہیں اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنی بقا اور قومی سلامتی کے لیے کہاں تک اورکیسے جاتے ہیں اور اس میں کامیاب ہوتے ہیں۔