علامہ شاہ احمد نورانی صدیقیؒ…
علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی زندگی کی آخری سانسوں تک اس ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے مصروفِ عمل رہے
PARIS:
پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے جو تیس لاکھ مسلمانوں کی لازوال قربانیوں کے بعد رمضان المبارک میں 27 ویں شب کو اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔ یہ دنیا کی واحد نظریاتی مملکت ہے جو اسلام کے نام پر وجود میں آئی لیکن افسوس کہ 65 سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود اس ملک میں اسلامی نظام نافذ نہ ہوسکا اور اس ملک کے حکمرانوں نے ہمیشہ ان لاکھوں شہدا کی قربانیوں کو نہ صرف فراموش کردیا بلکہ اسلام دشمن قوتوں کی کاسہ لیسی میں تحریکِ پاکستان کی تاریخ کو مسخ کرنے کی جہدِ مسلسل میں مصروف رہے لیکن آج تک وہ اپنے ناپاک مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکے، جہاں ایک طرف اسلام دشمن قوتیں اس ملک میں نظامِ مصطفی ؐ کے نفاذ میں رکاوٹیں بنی رہیں، وہیں کچھ عاشقانِ مصطفی ؐ اس ملک کی سالمیت، استحکام اور نظامِ مصطفی ؐ کے نفاذ کی جدوجہد میں تن من دھن کے ساتھ مصروفِ عمل رہے۔
ان میں ایک قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ؒ کا ہے جو زندگی کی آخری سانسوں تک اس ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے مصروفِ عمل رہے اور ہر ظلم و جبر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ آپ کی زندگی کے جس پہلو پر نظر ڈالیں وہ انتھک محنت اور جدوجہد سے عبارت نظر آتی ہے۔ آپ نے کبھی ذاتی مفادات کو پیشِ نظر نہیں رکھا اور دورِ جدید میں بھی قرونِ اولیٰ کی یاد تازہ کرتے ہوئے اسوۂ شبیری پر عمل پیرا رہے۔
ملک کی موجودہ سیاسی اور مذہبی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو مولانا نورانی ؒ کی شخصیت کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ جب مذہبی شدّت پسندی اور فرقہ پرستی، عصبیت و لسانیت کے رجحانات نے سر اٹھایا اور جس کے نتیجے میں تشدد اور دہشت گردی کو فروغ حاصل ہوا، اس وقت علامہ نورانی ؒ کی اعتدال پسندی اور رواداری میں کوئی فرق نہیں آیا، نہ صرف بہ حیثیت سربراہِ جمعیت علمائے پاکستان اپنے کارکنان کو ہمیشہ تشدد کے راستے سے دور رکھا، بلکہ فرقہ واریت، عصبیت اور لسانیت کے خلاف آواز بلند کی اور میدانِ عمل میں جواں مردی کے ساتھ ڈٹ گئے، جس کے لیے انھیں نہ صرف قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں بلکہ کئی مرتبہ قاتلانہ حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن آپ کے پایۂ استقامت میں کبھی لغزش نہیں آئی۔
ملتِ اسلامیہ کے لیے علامہ نورانی ؒ کی خدمات سے انحراف ان کے دشمن کے لیے بھی ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو ہم سے بچھڑے ہوئے 9 برس گزر جانے کے باوجود ان کی کمی کو شدّت سے محسوس کیا جارہا ہے۔ علامہ نورانیؒ داعی اتحاد بین المسلمین تھے، اس لیے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر سیاست کو عبادت سمجھتے ہوئے پاکستان میں اصولی سیاست کی پہلی اینٹ رکھی اور ٹھوس اور مضبوط کردار ادا کرتے ہوئے مذہبی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے ملک میں نظامِ مصطفی ؐ کے نفاذ کے لیے کی جانے والی جدوجہد میں اپنا اہم کردار ادا کیا، جس کی واضح مثال پاکستان قومی اتحاد اور متحدہ مجلس عمل جیسے اتحادوں کی ہے۔
متحدہ مجلس عمل کی صورت میں بننے والے اتحاد کو آپ کی قیادت میں جو پذیرائی حاصل ہوئی اور ایوانوں میں ایک واضح قوت بن کر یہ اتحاد سامنے آیا تھا جس سے یہ بات واضح نظر آرہی تھی کہ مستقبل قریب میں پاکستان میں نظامِ مصطفی ؐ کا دور دورہ ہوگا اور لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کو اپنی منزل نصیب ہوجائے گی اور ان شہدائے اسلام کی روحوں کو عرصہ دراز بعد قرار آجائے گا۔ ملک سے غربت و افلاس کا خاتمہ ہوجائے گا قانون کی بالادستی ہوگی، ہر شخص کو انصاف اس کی دہلیز پر میسر ہوگا، شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پئیں گے، ایک عام آدمی کسی بھی وقت حکمرانوں سے کچھ بھی پوچھنے کی طاقت رکھتا ہوگا۔
عوام کی مال و دولت کسی کو بھی لوٹنے اور لٹانے کی ہمت نہ ہوگی لیکن افسوس کہ علامہ شاہ احمد نورانی ؒ کی زندگی نے وفا نہ کی اور جب نظام مصطفی ؐ کے نفاذ کی منزل بہت قریب نظر آرہی تھی کہ وہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے اور اس کے فوراً بعد ہی متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعتوں کا شیرازہ جس طرح بکھرا اس کا تصور بھی ناممکن تھا لیکن اس حقیقت سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ علامہ نورانی ؒ ہی وہ سحر انگیز شخصیت تھی، جس نے مختلف مکاتبِ فکر اور مختلف اذہان کے لوگوں کو تسبیح کے دانوں کی طرح اکٹھا کیا ہوا تھا۔
علامہ نورانی ؒ کی سب سے بڑی خوبی آپ کا بے داغ کردار اور آپ کی تحمل مزاجی تھی۔ آپ پلاٹوں کی سیاست سے ہمیشہ دور رہے اور اسی لیے قیام پاکستان کے بعد اپنی زندگی کے پچاس سال سے زاید کا عرصہ کراچی میں صدر کے علاقے کے ایک خستہ حال کرایے کے فلیٹ میں بسر کیا، جس میں ایک عام آدمی بھی خوشی سے رہنا پسند نہ کرے، لیکن آپ نے فقیری میں ہی فخر کیا۔ آپ اختلاف برائے اختلاف یا تنقید برائے تنقید کے قائل نہ تھے، اصولوں پر اختلاف کرتے اور اس پر ڈٹ جاتے۔ تنقید برائے اصلاح کے قائل تھے۔ شائستگی کا دامن کبھی نہ چھوڑتے۔ چھوٹے چھوٹے اختلافات کو نظرانداز کرتے اور نگاہ کو ہمیشہ قوم کے وسیع مفاد پر مرکوز رکھتے۔
علامہ شاہ احمد نورانی ؒ کے بے شمار مذہبی و سیاسی کارناموں میں 1973 کے آئین کو تشکیل کے موقع پر آئین میں مسلمان کی تعریف شامل کرنے پر اصرار جس کا بنیادی مقصد کسی بھی غیر مسلم کو اس اسلامی نظریاتی مملکت کی سربراہی تک نہ پہنچنے دینا تھا، اسی لیے آپ کا اصرار تھا کہ آئین میں مسلمان کی تعریف کو اس طرح شامل کیا جائے جس سے یہ بات واضح ہو کہ ملک کا سربراہ مسلمان ہوگا ۔
علامہ شاہ احمد نورانی ؒ کا سب سے بڑا کارنامہ وہ قرارداد تھی جو مولانا نورانی ؒ نے 30 جون 1974 کو قومی اسمبلی میں پیش کی اور ایک کٹھن اور تھکا دینے والی جدوجہد کے بعد 7 ستمبر 1974 کو مولانا کی محنت رنگ لائی اور اس قرارداد کی منظوری کے ساتھ ہی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے کی طویل جدوجہد اپنے منطقی انجام کو پہنچی۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ہی کی اولاد علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ؒ کو یہ اعزاز حاصل ہوا اور اس قرارداد کی منظوری کے بعد حکومت نے باضابطہ طور پر قادیانی گروہ کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔
اس لیے پاکستانی عوام کو پاکستان اور عالم اسلام کے خلاف ہر قسم کی سازش کو ناکام بنانے کے لیے اپنے اندر اتحاد کو برقرار رکھتے ہوئے علامہ نورانیؒ کی عہد ساز شخصیت کو مشعل راہ بناتے ہوئے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے اور نئی نسل کو علامہ نورانی کی زندگی کے ہر ہر پہلو سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والا وقت ملک میں نظامِ مصطفی ؐ کے نفاذ کی نوید لے کر آئے، جس کے لیے علامہ نورانی ؒ نے اپنی پوری زندگی کو وقف کیے رکھا۔
پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے جو تیس لاکھ مسلمانوں کی لازوال قربانیوں کے بعد رمضان المبارک میں 27 ویں شب کو اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔ یہ دنیا کی واحد نظریاتی مملکت ہے جو اسلام کے نام پر وجود میں آئی لیکن افسوس کہ 65 سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود اس ملک میں اسلامی نظام نافذ نہ ہوسکا اور اس ملک کے حکمرانوں نے ہمیشہ ان لاکھوں شہدا کی قربانیوں کو نہ صرف فراموش کردیا بلکہ اسلام دشمن قوتوں کی کاسہ لیسی میں تحریکِ پاکستان کی تاریخ کو مسخ کرنے کی جہدِ مسلسل میں مصروف رہے لیکن آج تک وہ اپنے ناپاک مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکے، جہاں ایک طرف اسلام دشمن قوتیں اس ملک میں نظامِ مصطفی ؐ کے نفاذ میں رکاوٹیں بنی رہیں، وہیں کچھ عاشقانِ مصطفی ؐ اس ملک کی سالمیت، استحکام اور نظامِ مصطفی ؐ کے نفاذ کی جدوجہد میں تن من دھن کے ساتھ مصروفِ عمل رہے۔
ان میں ایک قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ؒ کا ہے جو زندگی کی آخری سانسوں تک اس ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے مصروفِ عمل رہے اور ہر ظلم و جبر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ آپ کی زندگی کے جس پہلو پر نظر ڈالیں وہ انتھک محنت اور جدوجہد سے عبارت نظر آتی ہے۔ آپ نے کبھی ذاتی مفادات کو پیشِ نظر نہیں رکھا اور دورِ جدید میں بھی قرونِ اولیٰ کی یاد تازہ کرتے ہوئے اسوۂ شبیری پر عمل پیرا رہے۔
ملک کی موجودہ سیاسی اور مذہبی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو مولانا نورانی ؒ کی شخصیت کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ جب مذہبی شدّت پسندی اور فرقہ پرستی، عصبیت و لسانیت کے رجحانات نے سر اٹھایا اور جس کے نتیجے میں تشدد اور دہشت گردی کو فروغ حاصل ہوا، اس وقت علامہ نورانی ؒ کی اعتدال پسندی اور رواداری میں کوئی فرق نہیں آیا، نہ صرف بہ حیثیت سربراہِ جمعیت علمائے پاکستان اپنے کارکنان کو ہمیشہ تشدد کے راستے سے دور رکھا، بلکہ فرقہ واریت، عصبیت اور لسانیت کے خلاف آواز بلند کی اور میدانِ عمل میں جواں مردی کے ساتھ ڈٹ گئے، جس کے لیے انھیں نہ صرف قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں بلکہ کئی مرتبہ قاتلانہ حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن آپ کے پایۂ استقامت میں کبھی لغزش نہیں آئی۔
ملتِ اسلامیہ کے لیے علامہ نورانی ؒ کی خدمات سے انحراف ان کے دشمن کے لیے بھی ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو ہم سے بچھڑے ہوئے 9 برس گزر جانے کے باوجود ان کی کمی کو شدّت سے محسوس کیا جارہا ہے۔ علامہ نورانیؒ داعی اتحاد بین المسلمین تھے، اس لیے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر سیاست کو عبادت سمجھتے ہوئے پاکستان میں اصولی سیاست کی پہلی اینٹ رکھی اور ٹھوس اور مضبوط کردار ادا کرتے ہوئے مذہبی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے ملک میں نظامِ مصطفی ؐ کے نفاذ کے لیے کی جانے والی جدوجہد میں اپنا اہم کردار ادا کیا، جس کی واضح مثال پاکستان قومی اتحاد اور متحدہ مجلس عمل جیسے اتحادوں کی ہے۔
متحدہ مجلس عمل کی صورت میں بننے والے اتحاد کو آپ کی قیادت میں جو پذیرائی حاصل ہوئی اور ایوانوں میں ایک واضح قوت بن کر یہ اتحاد سامنے آیا تھا جس سے یہ بات واضح نظر آرہی تھی کہ مستقبل قریب میں پاکستان میں نظامِ مصطفی ؐ کا دور دورہ ہوگا اور لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کو اپنی منزل نصیب ہوجائے گی اور ان شہدائے اسلام کی روحوں کو عرصہ دراز بعد قرار آجائے گا۔ ملک سے غربت و افلاس کا خاتمہ ہوجائے گا قانون کی بالادستی ہوگی، ہر شخص کو انصاف اس کی دہلیز پر میسر ہوگا، شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پئیں گے، ایک عام آدمی کسی بھی وقت حکمرانوں سے کچھ بھی پوچھنے کی طاقت رکھتا ہوگا۔
عوام کی مال و دولت کسی کو بھی لوٹنے اور لٹانے کی ہمت نہ ہوگی لیکن افسوس کہ علامہ شاہ احمد نورانی ؒ کی زندگی نے وفا نہ کی اور جب نظام مصطفی ؐ کے نفاذ کی منزل بہت قریب نظر آرہی تھی کہ وہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے اور اس کے فوراً بعد ہی متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعتوں کا شیرازہ جس طرح بکھرا اس کا تصور بھی ناممکن تھا لیکن اس حقیقت سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ علامہ نورانی ؒ ہی وہ سحر انگیز شخصیت تھی، جس نے مختلف مکاتبِ فکر اور مختلف اذہان کے لوگوں کو تسبیح کے دانوں کی طرح اکٹھا کیا ہوا تھا۔
علامہ نورانی ؒ کی سب سے بڑی خوبی آپ کا بے داغ کردار اور آپ کی تحمل مزاجی تھی۔ آپ پلاٹوں کی سیاست سے ہمیشہ دور رہے اور اسی لیے قیام پاکستان کے بعد اپنی زندگی کے پچاس سال سے زاید کا عرصہ کراچی میں صدر کے علاقے کے ایک خستہ حال کرایے کے فلیٹ میں بسر کیا، جس میں ایک عام آدمی بھی خوشی سے رہنا پسند نہ کرے، لیکن آپ نے فقیری میں ہی فخر کیا۔ آپ اختلاف برائے اختلاف یا تنقید برائے تنقید کے قائل نہ تھے، اصولوں پر اختلاف کرتے اور اس پر ڈٹ جاتے۔ تنقید برائے اصلاح کے قائل تھے۔ شائستگی کا دامن کبھی نہ چھوڑتے۔ چھوٹے چھوٹے اختلافات کو نظرانداز کرتے اور نگاہ کو ہمیشہ قوم کے وسیع مفاد پر مرکوز رکھتے۔
علامہ شاہ احمد نورانی ؒ کے بے شمار مذہبی و سیاسی کارناموں میں 1973 کے آئین کو تشکیل کے موقع پر آئین میں مسلمان کی تعریف شامل کرنے پر اصرار جس کا بنیادی مقصد کسی بھی غیر مسلم کو اس اسلامی نظریاتی مملکت کی سربراہی تک نہ پہنچنے دینا تھا، اسی لیے آپ کا اصرار تھا کہ آئین میں مسلمان کی تعریف کو اس طرح شامل کیا جائے جس سے یہ بات واضح ہو کہ ملک کا سربراہ مسلمان ہوگا ۔
علامہ شاہ احمد نورانی ؒ کا سب سے بڑا کارنامہ وہ قرارداد تھی جو مولانا نورانی ؒ نے 30 جون 1974 کو قومی اسمبلی میں پیش کی اور ایک کٹھن اور تھکا دینے والی جدوجہد کے بعد 7 ستمبر 1974 کو مولانا کی محنت رنگ لائی اور اس قرارداد کی منظوری کے ساتھ ہی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے کی طویل جدوجہد اپنے منطقی انجام کو پہنچی۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ہی کی اولاد علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ؒ کو یہ اعزاز حاصل ہوا اور اس قرارداد کی منظوری کے بعد حکومت نے باضابطہ طور پر قادیانی گروہ کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔
اس لیے پاکستانی عوام کو پاکستان اور عالم اسلام کے خلاف ہر قسم کی سازش کو ناکام بنانے کے لیے اپنے اندر اتحاد کو برقرار رکھتے ہوئے علامہ نورانیؒ کی عہد ساز شخصیت کو مشعل راہ بناتے ہوئے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے اور نئی نسل کو علامہ نورانی کی زندگی کے ہر ہر پہلو سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والا وقت ملک میں نظامِ مصطفی ؐ کے نفاذ کی نوید لے کر آئے، جس کے لیے علامہ نورانی ؒ نے اپنی پوری زندگی کو وقف کیے رکھا۔