امدادی ٹیموں پر دہشت گردوں کے ناروا حملے

مزاحمت کاروں کی طرف سے ریلیف سرگرمیوں کو معطل کرنے کے لیے مسلح مزاحمت اوربھاری ہتھیاروں سے حملے کا کوئی جواز نہیں

اس اندوہ ناک اور درد انگیز صورتحال میںبھی بعض دہشت گردوں کا ریلیف کے کاموں میں رکاوٹ ڈالنا سخت افسوس ناک ہی نہیں ناقابل فہم بھی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

بلوچستان میں قیامت خیز زلزلے سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد400 سے تجاوز کر گئی ہے، آواران میں ہلاکتیں الم ناک ہیں۔ طبی سہولیات کے فقدان کے باعث زخمیوں کی بڑی تعداد کو کراچی منتقل کردیا گیا ہے جب کہ دوسری طرف کئی علاقوں تک رسائی مشکل ہونے کی وجہ سے امدادی ٹیمیں نہ پہنچ سکیں، متاثرہ علاقوں میں ملبہ گرنے سے سڑکیں بند ہیں، بجلی اور مواصلات کا نظام بھی درہم برہم ہوگیا ہے، متاثرہ علاقوں میں پینے کی پانی اورکھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت دیکھی گئی ہے، طبی سہولتوں کا فقدان ہے ، زخمیوں کے علاج کے لیے مقامی اسپتالوں میں جگہ ختم ہوچکی ہے جب کہ امدادی کیمپوں کی بھی شدید کمی ہے جس کی وجہ سے ہزاروں افراد رات کھلے آسمان تلے گزارنے پر مجبور ہیں۔

اس اندوہ ناک اور درد انگیز صورتحال میںبھی بعض دہشت گردوں کا ریلیف کے کاموں میں رکاوٹ ڈالنا سخت افسوس ناک ہی نہیں ناقابل فہم بھی ہے، مسلح افراد نے زلزلے سے متاثرہ ضلع آواران میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین کے ہیلی کاپٹر کو راکٹوں سے نشانہ بنایا۔ چیئرمین این ڈی ایم اے میجر جنرل سعید علیم پر حملہ اس وقت کیا گیا جب وہ ہیلی کاپٹر میں بلوچستان کے متاثرہ ضلع آواران کی تحصیل مشکے کا فضائی جائزہ لے رہے تھے ، تاہم فوجی ہیلی کاپٹر میں موجود میجر جنرل سعید علیم اور جی او سی 33 ڈویژن میجر جنرل ثمریزسالک حملے میں محفوظ رہے۔


ایک اور واقعہ میں مسلح افراد نے متاثرین کی امداد میں مصروف ایف سی اہلکاروں پر فائرنگ کی جب کہ وزیراعظم نے آواران میں امدادی سامان کی فراہمی میں تاخیر کا نوٹس لیا ہے، چنانچہ مزاحمت کاروں کی طرف سے ریلیف سرگرمیوں کو معطل کرنے کے لیے مسلح مزاحمت اوربھاری ہتھیاروں سے حملے کا کوئی جواز نہیں، اس وقت پوری دنیا کی نظریں بدنصیب اور ستم رسیدہ بلوچستان کے زلزلہ متاثرین پر مرکوز ہیں، خانماں برباد لوگوں کی بحالی اور ان تک خوراک اور طبی امداد پہنچانا اشد ضروری ہے۔انسانی ہمدردی کا تو تقاضہ تھا کہ دہشت گردی اور بدامنی میں وقفہ دیا جاتا ، امدادی سرگرمیوں میں اپنوں کی در پردہ مدد کی جاتی تاکہ آواران و دیگر جگہوں پر ریسکیو اور ریلیف کا عمل بلا روک ٹوک جاری رہتا، آواران میں پانی اور کھانے پینے کی اشیا کی قلت ہے۔

مشکے، پیر اندراور منگولی میں چالیس ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور امدادی کارروائیاں نہ ہونے کے برابر ہیں، کتنے رنج کی بات ہے کہ مقامی افراد اپنی مدد آپ کے تحت اجتماعی قبریں تیار کر رہے ہیں۔تاہم ایک طرف تباہی و بربادی کا منظر ہے ، دوسری جانب آواران کے بے یاروگار مدد گار بچے چٹانوں جیسے عزم و ہمت کے ساتھ حصول علم کے لیے اسکول پہنچ گئے۔انسانی ہمدردی بھی کوئی چیز ہے، صوبائی وزیراعلیٰ نے اپیل انسانی ہمدردی کے حوالے سے کی ہے، اگر بروقت امداد نہیں ملی تو ہلاکتیں بڑھ سکتی ہیں۔مشکل کی اس گھڑی میں زلزلہ زدگان کو اکیلا نہ چھوڑا جائے۔
Load Next Story