زبانوں کو لاحق خطرات
سندھ اسمبلی میں ہونے والا یہ چھوٹا سا واقعہ ہماری اور ہمارے سیاست کاروں کی نفسیات اجاگر کرتا ہے۔
نارائن شیام نے کہا تھا ''اے اﷲ ایسا نہ ہو کہ کتابوں میں یہ پڑھا جائے کہ کبھی سندھ اور سندھ والوں کی زبان بھی تھی۔'' انڈو یورپی خاندان سے تعلق رکھنے والی قدیم آریائی زبان سندھی آج زوال کا شکار نظر آتی ہے۔ یہ وہ زبان ہے جس کی تاریخ غالباً ویدوں (1500-1200bc) جتنی قدیم ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سندھی بولنے والے افراد کی تعداد 53,410,910 ہے۔ پاکستان کے علاوہ سندھی بھارت میں بھی بولی جاتی ہے۔ قریباً 5,820,485 بھارتی سندھی بولتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی دنیا کے کئی ممالک میں سندھی بولنے والے افراد ہیں اور ان کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج کل سندھی زبان کا استعمال کم ہوتا جارہا ہے، خاص کر شہروں میں۔
سندھ جو کہ سندھی کی جائے پیدائش بھی ہے اور سندھی کا مرکز بھی، آج اس کے شہروں میں آپ کو سندھی سب سے کم استعمال ہونے والی زبان نظر آئے گی۔ گھر، دفاتر، اسکول، کالج، یونیورسٹیز، اسپتال، عدالتیں غرض ہر جگہ انگریزی نے ایسا سکہ جمایا ہے کہ مقامی زبانیں متروک ہوتی جارہی ہیں۔خوشخال طبقے اپنے بچوں سے انگریزی میں بات کرنا پسند کرتے ہیں یا پھر اردو کو ہی ذریعہ اظہار بناتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے سندھ اسمبلی میں اس وقت بڑی دلچسپ صورت حال پیدا ہوگئی جب سندھ اسمبلی کے قانون سازوں نے اپنے ہی ایک ساتھی وزیر کو انگریزی میں جوابات دینے پر مجبور کرنا چاہا۔ وزیر موصوف وقفہ سوالات کے دوران انگریزی میں جوابات پڑھنے میں اور ضمنی سوالات کے انگریزی میں جوابات دینے میں دشواری محسوس کررہے تھے، لیکن انھیں شرم محسوس ہوتی تھی کہ وہ سندھ اسمبلی میں سندھی میں جواب دے سکیں۔ وہ درست سندھی یا اردو کے بجائے انگریزی ہی میں اظہار خیال کی کوشش کرتے رہے اورہم چشموں کی دل بستگی کا سامان کرتے رہے۔
حالانکہ اگر انہیں انگریزی نہیں آتی تھی تو وہ بڑی با آسانی سے سندھی میں بات کرلیتے تواس سے ان کی زیادہ عزت افزائی ہوتی اور سندھ کے عوام بھی انہیں اپنے زیادہ قریب سمجھتے لیکن وہ انگریزی پر ہی بضد رہے۔ یہاں تک کہ ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا کو مداخلت کرنی پڑی۔ اس دن آغا سراج خان درانی کی عدم موجودگی میں آپ اجلاس چلا رہی تھیں۔ آپ کو کہنا پڑا کہ سوالات انگریزی میں نہ کیے جائیں۔ سندھ اسمبلی میں ہونے والا یہ چھوٹا سا واقعہ ہماری اور ہمارے سیاست کاروں کی نفسیات اجاگر کرتا ہے۔ یہ ہماری غلامانہ ذہنیت کا عکاس ہے۔ ہم ہمارے گھر کی انگوٹھا چھاپ خواتین سے لے کر ہمارے بچے، جوان، بوڑھے ہمارے زعماء و عمائدین، سب کے سب درست اردو، سندھی، پنجابی، بلوچی، سرائیکی، پوٹوہاری، ہندکو وغیرہ بولنے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔
جب کہ غلط سلط انگریزی بولنے اور لطیفہ بننے میں ہم فخر محسوس کرتے ہیں۔ دوسرے اگر کسی کو انگریزی نہ آتی ہو تو ہم اس کا مذاق بناتے ہیں۔ سندھ اسمبلی کی تاریخ میں کئی مرتبہ ایسا ہوا جب اسمبلی کے اجلاسوں کے دوران سندھی اور اردو کی فاش غلطیاں سرزد ہوئیں، کیا کبھی کسی نے مذاق بنایا۔ کیوں؟ سندھ اسمبلی کے قانون ساز کے لیے کیا بات شرم ناک ہونی چاہیے؟ انگریزی سے عدم واقفیت یا سندھی سے عدم واقفیت؟ تو آخر ہمارے وزیر بے تدبیر کس بات پر خلجان محسوس کر رہے تھے؟ کیوں انھیں سبکی محسوس ہو رہی تھی؟ کیا ایسا رویہ اختیار کرنا جس سے کسی کی سبکی ہو وضع داری ہے؟ ہمارے سیاسی عمائدین یہ کون سی اخلاقیات اپنائے ہوئے ہیں؟ یقیناً یہ ہمارے مجموعی قومی اخلاقیات کی عکاس بھی ہے۔
ایسا صرف سندھی ہی کیساتھ نہیں ہورہا، اینڈریو ڈیلبی اپنی کتاب 'لینگویج ان ڈینجر' میں لکھتا ہے کہ ہر دو ہفتے میں دنیا سے ایک مقامی زبان مٹ رہی ہے۔ ایسی زبان جو صدیوں یا ہزاروں برس کے تاریخی عمل کے نتیجے میں وجود پذیر ہوئی تھی دنوں میں ختم ہو رہی ہے۔ اندازاً دنیا بھر میں 5000 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ڈیلبی کی پیش گوئی ہے کہ ان میں سے نصف زبانیں اسی صدی کے دوران مٹ جائیں گی۔ وہ سوال کرتا ہے کہ زبانوں کی معدومی کا یہ عمل کس طرح ہماری زندگیوں کو متاثر کر رہا ہے؟ کیا اس امر کا امکان ہے کہ انسانیت ایک زبان بولنے والی نوع بن کر رہ جائے گی؟ کیا کسی کو اس کی فکر ہے؟ہرمین ایم بیتیبو نے اپنی کتاب 'لینگویج ڈکلائناینڈ ڈیتھ اِن افریقا' میں ان زبانوں کا نوحہ پیش کیا ہے جو حال ہی میں افریقاسے معدوم ہوئیں۔ یونیسکو بھی ایسے ہی اعداد و شمار پیش کرتا ہے۔ اِن ڈینجرڈ لینگویجز کے تحت یونیسکو کہتا ہے کہ آج 6000 سے زائد زبانیں دنیا میں رائج ہیں، اس صدی کے اختتام تک ان میں سے نصف زبانیں ختم ہوچکی ہوں گی۔
عالمگیریت، سرمایہ داری، آزادی اور آزادی اظہار رائے کا طوفان مذاہب، تہذیبوں، ثقافتوں اور زبانوں کیلئے ایک خطرہ بن چکا ہے۔ دنیا بھر کے معاشروں میں کروڑوں سال سے موجود تنوع اور رنگارنگی، عالمگیریت اور سرمایہ دارانہ ثقافت و تہذیب کے استعماری غلبے کے باعث اپنا وجود کھو رہے ہیں جس کے نتیجے میں زبانیں تیزی سے مررہی ہیں اور تہذیبیں اپنی شناخت کھوتی جارہی ہیں۔ مذہب، ثقافت اور تہذیب کے تمام ڈھانچے تیزی سے سرمایہ داری کے سانچے میں ڈھالے جا رہے ہیں یا خودبخود ڈھلنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ مغربی تہذیب کے غلبے کے باعث خاندانی نظام زبردست شکست و ریخت کا شکار ہے۔ خواہشات نفس کی ہر صورت میں تکمیل تہذیب جدید کا فلسفہ ہے اور اس فلسفے پر عمل کے باعث خاندان اور قبیلے اپنے قدیم مقامات چھوڑ کر رزق کی تلاش میں ترک وطن کررہے ہیں۔
اعلیٰ معیارِ زندگی کی تلاش کے باعث خاندان دن بدن مختصر ہوتے جارہے ہیں۔ مختصر خاندان آبادی کے خطرے سے بچنے کیلئے امید کی علامت سمجھے گئے لیکن اس کے نتیجے میں زبانوں کو زوال کا سامنا کرنا پڑا۔ یورپ اور امریکا میں آبادی کی شرح تیزی سے کم ہونے کے باعث معیار زندگی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے لیکن دنیا بھر میں سب سے زیادہ زبانوں کیلئے خطرات یورپ اور امریکا میں پیدا ہوئے۔ افریقہ میں بھی زبانیں ختم ہو رہی ہیں۔ ایک ہزار چار سو زبانوں میں سے صرف آٹھ سو زبانیں باقی رہ گئی ہیں، اس کی وجہ مختلف ہے۔ امریکا کے قدیم باشندوں کی ایک ہزار زبانیں موجود تھیں لیکن اب ان زبانوں کی تعداد صرف 150 رہ گئی ہے۔ یورپ کی 225 زبانوں میں سے 50 زبانیں سنگین خطرات کا شکار ہیں۔آج مقامی زبانوں کو مقامی قوم پرست بچانے سے قاصر ہیں۔
جدیدیت اور مغربیت ان کے دل و دماغ مسخر کر چکی ہے، ان کے گھروں میں بسیرا کر چکی ہے، ان کی نسلوں میں پھیل چکی ہے۔ مذہب ہو، نظریہ ہو یا قوم پرستی، قربانی سب کا تقاضا ہے۔ آج قومیتیں تحلیل ہوتی جا رہی ہیں۔ قوم پرستی کا بھوت قربانی کے دام سے نکل کر تعیشات کے مغربی طلسم کدے میں گم ہوچکا ہے۔ ایسے میں عام فرد پر اپنی مادری زبان نیز تہذیب و ثقافت کے بچائو کی ذمے داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ ان ذمے داریوں سے با آسانی عہدہ برآ ہوا جا سکتا ہے۔ اگر فرد غلامانہ ذہنیت کے حصار سے نکل کر اپنی آنے والی نسل کو نانی، دادی کی گود میں ڈال دے۔ نانیاں، دادیاں اور خاندان کے دیگر بزرگ زبانوں کو زندہ رکھتے ہیں۔ بچپن کی لوریاں، سوتے وقت سنائی جانے والی کہانیاں، ہجر و فراق کے نغمے، لوک داستانیں، یہ سب زبان کو تبدیلی اور موت کے منہ سے بچانے کے آسان سے نسخے ہیں۔ نیز یہ طے کر لیا جائے کہ گھر میں صرف مادری زبان میں گفتگو ہوگی۔
ثقافتی استعماریت، عسکری استعماریت کے پہلو بہ پہلو دنیا بھر میں تخت و تاراج میں مصروف ہے، جان لیجیے اس کے آگے روک آپ صرف اپنی زبان کے استعمال کے آسان ترین عمل سے لگا سکتے ہیں۔
سندھ جو کہ سندھی کی جائے پیدائش بھی ہے اور سندھی کا مرکز بھی، آج اس کے شہروں میں آپ کو سندھی سب سے کم استعمال ہونے والی زبان نظر آئے گی۔ گھر، دفاتر، اسکول، کالج، یونیورسٹیز، اسپتال، عدالتیں غرض ہر جگہ انگریزی نے ایسا سکہ جمایا ہے کہ مقامی زبانیں متروک ہوتی جارہی ہیں۔خوشخال طبقے اپنے بچوں سے انگریزی میں بات کرنا پسند کرتے ہیں یا پھر اردو کو ہی ذریعہ اظہار بناتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے سندھ اسمبلی میں اس وقت بڑی دلچسپ صورت حال پیدا ہوگئی جب سندھ اسمبلی کے قانون سازوں نے اپنے ہی ایک ساتھی وزیر کو انگریزی میں جوابات دینے پر مجبور کرنا چاہا۔ وزیر موصوف وقفہ سوالات کے دوران انگریزی میں جوابات پڑھنے میں اور ضمنی سوالات کے انگریزی میں جوابات دینے میں دشواری محسوس کررہے تھے، لیکن انھیں شرم محسوس ہوتی تھی کہ وہ سندھ اسمبلی میں سندھی میں جواب دے سکیں۔ وہ درست سندھی یا اردو کے بجائے انگریزی ہی میں اظہار خیال کی کوشش کرتے رہے اورہم چشموں کی دل بستگی کا سامان کرتے رہے۔
حالانکہ اگر انہیں انگریزی نہیں آتی تھی تو وہ بڑی با آسانی سے سندھی میں بات کرلیتے تواس سے ان کی زیادہ عزت افزائی ہوتی اور سندھ کے عوام بھی انہیں اپنے زیادہ قریب سمجھتے لیکن وہ انگریزی پر ہی بضد رہے۔ یہاں تک کہ ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا کو مداخلت کرنی پڑی۔ اس دن آغا سراج خان درانی کی عدم موجودگی میں آپ اجلاس چلا رہی تھیں۔ آپ کو کہنا پڑا کہ سوالات انگریزی میں نہ کیے جائیں۔ سندھ اسمبلی میں ہونے والا یہ چھوٹا سا واقعہ ہماری اور ہمارے سیاست کاروں کی نفسیات اجاگر کرتا ہے۔ یہ ہماری غلامانہ ذہنیت کا عکاس ہے۔ ہم ہمارے گھر کی انگوٹھا چھاپ خواتین سے لے کر ہمارے بچے، جوان، بوڑھے ہمارے زعماء و عمائدین، سب کے سب درست اردو، سندھی، پنجابی، بلوچی، سرائیکی، پوٹوہاری، ہندکو وغیرہ بولنے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔
جب کہ غلط سلط انگریزی بولنے اور لطیفہ بننے میں ہم فخر محسوس کرتے ہیں۔ دوسرے اگر کسی کو انگریزی نہ آتی ہو تو ہم اس کا مذاق بناتے ہیں۔ سندھ اسمبلی کی تاریخ میں کئی مرتبہ ایسا ہوا جب اسمبلی کے اجلاسوں کے دوران سندھی اور اردو کی فاش غلطیاں سرزد ہوئیں، کیا کبھی کسی نے مذاق بنایا۔ کیوں؟ سندھ اسمبلی کے قانون ساز کے لیے کیا بات شرم ناک ہونی چاہیے؟ انگریزی سے عدم واقفیت یا سندھی سے عدم واقفیت؟ تو آخر ہمارے وزیر بے تدبیر کس بات پر خلجان محسوس کر رہے تھے؟ کیوں انھیں سبکی محسوس ہو رہی تھی؟ کیا ایسا رویہ اختیار کرنا جس سے کسی کی سبکی ہو وضع داری ہے؟ ہمارے سیاسی عمائدین یہ کون سی اخلاقیات اپنائے ہوئے ہیں؟ یقیناً یہ ہمارے مجموعی قومی اخلاقیات کی عکاس بھی ہے۔
ایسا صرف سندھی ہی کیساتھ نہیں ہورہا، اینڈریو ڈیلبی اپنی کتاب 'لینگویج ان ڈینجر' میں لکھتا ہے کہ ہر دو ہفتے میں دنیا سے ایک مقامی زبان مٹ رہی ہے۔ ایسی زبان جو صدیوں یا ہزاروں برس کے تاریخی عمل کے نتیجے میں وجود پذیر ہوئی تھی دنوں میں ختم ہو رہی ہے۔ اندازاً دنیا بھر میں 5000 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ڈیلبی کی پیش گوئی ہے کہ ان میں سے نصف زبانیں اسی صدی کے دوران مٹ جائیں گی۔ وہ سوال کرتا ہے کہ زبانوں کی معدومی کا یہ عمل کس طرح ہماری زندگیوں کو متاثر کر رہا ہے؟ کیا اس امر کا امکان ہے کہ انسانیت ایک زبان بولنے والی نوع بن کر رہ جائے گی؟ کیا کسی کو اس کی فکر ہے؟ہرمین ایم بیتیبو نے اپنی کتاب 'لینگویج ڈکلائناینڈ ڈیتھ اِن افریقا' میں ان زبانوں کا نوحہ پیش کیا ہے جو حال ہی میں افریقاسے معدوم ہوئیں۔ یونیسکو بھی ایسے ہی اعداد و شمار پیش کرتا ہے۔ اِن ڈینجرڈ لینگویجز کے تحت یونیسکو کہتا ہے کہ آج 6000 سے زائد زبانیں دنیا میں رائج ہیں، اس صدی کے اختتام تک ان میں سے نصف زبانیں ختم ہوچکی ہوں گی۔
عالمگیریت، سرمایہ داری، آزادی اور آزادی اظہار رائے کا طوفان مذاہب، تہذیبوں، ثقافتوں اور زبانوں کیلئے ایک خطرہ بن چکا ہے۔ دنیا بھر کے معاشروں میں کروڑوں سال سے موجود تنوع اور رنگارنگی، عالمگیریت اور سرمایہ دارانہ ثقافت و تہذیب کے استعماری غلبے کے باعث اپنا وجود کھو رہے ہیں جس کے نتیجے میں زبانیں تیزی سے مررہی ہیں اور تہذیبیں اپنی شناخت کھوتی جارہی ہیں۔ مذہب، ثقافت اور تہذیب کے تمام ڈھانچے تیزی سے سرمایہ داری کے سانچے میں ڈھالے جا رہے ہیں یا خودبخود ڈھلنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ مغربی تہذیب کے غلبے کے باعث خاندانی نظام زبردست شکست و ریخت کا شکار ہے۔ خواہشات نفس کی ہر صورت میں تکمیل تہذیب جدید کا فلسفہ ہے اور اس فلسفے پر عمل کے باعث خاندان اور قبیلے اپنے قدیم مقامات چھوڑ کر رزق کی تلاش میں ترک وطن کررہے ہیں۔
اعلیٰ معیارِ زندگی کی تلاش کے باعث خاندان دن بدن مختصر ہوتے جارہے ہیں۔ مختصر خاندان آبادی کے خطرے سے بچنے کیلئے امید کی علامت سمجھے گئے لیکن اس کے نتیجے میں زبانوں کو زوال کا سامنا کرنا پڑا۔ یورپ اور امریکا میں آبادی کی شرح تیزی سے کم ہونے کے باعث معیار زندگی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے لیکن دنیا بھر میں سب سے زیادہ زبانوں کیلئے خطرات یورپ اور امریکا میں پیدا ہوئے۔ افریقہ میں بھی زبانیں ختم ہو رہی ہیں۔ ایک ہزار چار سو زبانوں میں سے صرف آٹھ سو زبانیں باقی رہ گئی ہیں، اس کی وجہ مختلف ہے۔ امریکا کے قدیم باشندوں کی ایک ہزار زبانیں موجود تھیں لیکن اب ان زبانوں کی تعداد صرف 150 رہ گئی ہے۔ یورپ کی 225 زبانوں میں سے 50 زبانیں سنگین خطرات کا شکار ہیں۔آج مقامی زبانوں کو مقامی قوم پرست بچانے سے قاصر ہیں۔
جدیدیت اور مغربیت ان کے دل و دماغ مسخر کر چکی ہے، ان کے گھروں میں بسیرا کر چکی ہے، ان کی نسلوں میں پھیل چکی ہے۔ مذہب ہو، نظریہ ہو یا قوم پرستی، قربانی سب کا تقاضا ہے۔ آج قومیتیں تحلیل ہوتی جا رہی ہیں۔ قوم پرستی کا بھوت قربانی کے دام سے نکل کر تعیشات کے مغربی طلسم کدے میں گم ہوچکا ہے۔ ایسے میں عام فرد پر اپنی مادری زبان نیز تہذیب و ثقافت کے بچائو کی ذمے داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ ان ذمے داریوں سے با آسانی عہدہ برآ ہوا جا سکتا ہے۔ اگر فرد غلامانہ ذہنیت کے حصار سے نکل کر اپنی آنے والی نسل کو نانی، دادی کی گود میں ڈال دے۔ نانیاں، دادیاں اور خاندان کے دیگر بزرگ زبانوں کو زندہ رکھتے ہیں۔ بچپن کی لوریاں، سوتے وقت سنائی جانے والی کہانیاں، ہجر و فراق کے نغمے، لوک داستانیں، یہ سب زبان کو تبدیلی اور موت کے منہ سے بچانے کے آسان سے نسخے ہیں۔ نیز یہ طے کر لیا جائے کہ گھر میں صرف مادری زبان میں گفتگو ہوگی۔
ثقافتی استعماریت، عسکری استعماریت کے پہلو بہ پہلو دنیا بھر میں تخت و تاراج میں مصروف ہے، جان لیجیے اس کے آگے روک آپ صرف اپنی زبان کے استعمال کے آسان ترین عمل سے لگا سکتے ہیں۔