احتساب اور کرپشن
حکومت اپنی ناکامیوں کی ذمے داری احتساب پر ڈال رہی ہے۔ معیشت نہ چلنے کی ذمے دار وہی ہے۔
آج کل نیب کے پر کاٹنے کے لیے ماحول بنایا جا رہا ہے۔ احتساب کی سب سے بڑی وکیل تحریک انصاف بھی نیب سے ناراض نظر آرہی ہے۔ حکومت اپنی ناکامیوں کی ذمے داری احتساب پر ڈال رہی ہے۔ معیشت نہ چلنے کی ذمے دار وہی ہے۔ افسر شاہی کے کام نہ کرنے کی ذمے دار بھی وہی ہے۔
کاروبار ڈوبنے کی وجہ اور سیاسی بحران کی ذمے دار بھی وہی احتسابی عمل ہے۔ اس تناظر میں مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان کے مسائل کا واحد حل یہی ہے کہ احتساب کو بند کر دیا جائے۔
افسر شاہی کے کام نہ کرنے کی وجہ سے حکومت نیب قوانین میں ایسی ترامیم کرنا چاہتی ہے جس میں افسر شاہی کو عام معافی دلوا دی جائے۔ اسی طرح ملک کے معاشی اور کاروباری بحران کی وجہ سے حکومت تمام کاروباری حضرات کوآزادی دلوانے کی تیاری کر رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ احتساب کے خوف سے کاروباری لوگوں نے کاروبار بند کر دیے ہیں۔اس لیے نیب قوانین میں ترامیم آرہی ہیں اور اس ضمن میں ماحول کو سازگار کیا جا رہا ہے۔
تاہم اس ضمن میں نیب لاہور کی کارکردگی کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ حکومتی اور نیب کے اعداد و شمار کے مطابق نیب لاہور نے جعلی اور فراڈ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں بہت کامیابی حاصل کی ہے اور عام آدمی کے پیسے واپس دلائے ہیں۔ لاہور ہی نہیں ملک بھر میں جعلی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں ایک فراڈ شروع ہو گیا تھا۔ مالکان زمین سے زیادہ پلاٹ بیچ دیتے تھے۔
فرض کر لیں اگر ایک سوسائٹی میں ایک ہزار پلاٹ ہیں تو دو ہزار یاکئی مواقعے پر تو اس سے بھی زائد پلاٹ بیچ دیے گئے تھے۔ اگر کسی سوسائٹی کا ایک فیز ہے تو دوسرا اور تیسرا فیز بغیر کسی قانونی ضابطے کے لانچ کردیا جاتا۔ اس کے بعد عام آدمی جس نے زمین کے پیسے ادا کر دیے ہوتے تھے۔ وہ چکر لگا لگا کر مر جاتا تھا۔ ہزاروں لوگ اپنی زندگی کی جمع پونجی اس فراڈ میں کھو بیٹھے تھے۔ لوگوں نے پوری قسطیں بھی ادا کر دی ہوئی تھیں۔ لیکن پلاٹ اور گھر کا نام و نشان ہی نہ تھا۔
بعض سوسائٹیز کے کرتا دھرتا عوام کے پیسے لے کر بیرون ملک فرار ہو چکے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ جب عام آدمی سے فراڈ ہورہا تھا تو قانون نافذ کرنے والے باقی ادارے کہاں تھے، کسی نے ان کو چیک کیوں نہیں کیا۔
تاہم نیب لاہور کے ڈی جی سلیم شہزاد نے اس ضمن میں مثالی کام کیا ہے۔ انھوں نے عام آدمی کی ڈوبی ہوئی رقوم انھیں واپس دلائی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق نیب لاہور نے فراڈ یا جعلی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے خلاف 62مقدمات میں انکوائری شروع کی۔ اس ضمن میں نیب کو متعدد شکایات موصول ہوئیں۔ ان انکوائریوں میں سے نیب لاہور نے 40کے خلاف کارروائی مکمل کر لی ہے۔اور 22 انکوائریاں ابھی زیر التو ہیں۔ جن 40 مقدمات کی انکوائریاں مکمل ہوئی ہیں۔ ان سے عام لوگوں کی ابھی تک 25ارب روپے کی ریکوری ہو چکی ہے۔ یہ پیسہ کسی عام آدمی سے نہیں بلکہ بڑے بڑے ناموں سے وصول کر کے غریب لوگوں کو لوٹایا گیا ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو جعلی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنا کر عوام سے فراڈ کرنے کا کاروبار نیب کی وجہ سے شدید بدحالی کا شکار ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ نیب اور سلیم شہزاد کی وجہ سے یہ لوگ اب جتنے پلاٹ ہیں اتنے ہی بیچنے پر مجبور ہیں۔ اس لیے ان کے منافع میں کمی ہو گئی ہے۔ یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ کیا کاروبار ہے کہ اگر ایک ہزار پلاٹ ہیں تو ایک ہزار ہی بیچنے ہیں۔ پہلے کتنی موج تھی کہ ہزار پلاٹ ہیں تو پانچ ہزار بیچ دیں لیکن اب ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس لیے لوگوں نے ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانی بند کر دی ہیں۔ رئیل اسٹیٹ کا بزنس بیٹھ گیا ہے۔
اب نیب نے اس طرح کی جعلی اور فراڈ سوسائٹیوں کے خلاف ریفرنس بھی فائل کیے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ ان سات ریفرنسوں میں 21750افراد سے 25ارب روپے کا فراڈ کیا گیا ہے۔ کیا یہ کوئی معمولی فراڈ ہے۔ مجھے یاد ہے آج سے کئی سال پہلے کوآپریٹو کے نام پر عام لوگوں کے ساتھ ایسے ہی فراڈ کیا گیا تھا۔ لیکن تب کوئی نیب نہیں تھا اورکسی کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی ۔ آج نیب لا ہور نے سفید پوش لوگوں کے پیسے واپس دلوائے ہیں مگر اس کی کوئی نیک نامی نہیں ہے۔ غریب آدمی نیب کو دعا کے سوا کیا دے سکتا ہے۔ جب کہ جن لوگوں کی گردن مروڑ کر یہ رقم دلوائی گئی ہے ان کی چیخوں کی گونج اور بددعاؤں میں اثر بھی زیادہ ہے۔ لگتا ہے نیب کو انھیں فراڈیوں کی بددعا لگ گئی ہے۔
اگر اس مثال کو ہی سامنے رکھ لیا جائے تو کیا نیب کو ایسے فراڈیوں کے خلاف کارروائی کرنے سے روک دیا جائے جو عام آدمی سے فراڈ کرتے ہیں۔ اگر حکومت یہ چاہتی ہے کہ ٹیکس اور دیگر سرکاری محصولات میں فراڈ کے مقدمات نیب کو نہیں دیکھنے چاہیے تو یہ حکومت کی مرضی۔ ویسے بھی حکومت آجکل اربوں روپے ٹیکس معاف کر رہی ہے۔حالانکہ وہ بھی غریبوں سے اکٹھے کیے جاچکے ہیں۔ لیکن چلیں حکومت کی مرضی۔ اس لیے اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ٹیکس معاف کرنے اور ٹیکسوں میں فراڈ کرنے کی کھلی آزادی ہونی چاہیے۔ تو یہ اس کی مرضی ہے۔ مجھے اور آپ کو اس سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ یہی نیا پاکستان ہے۔
نیب لاہور کے ڈی جی سلیم شہزاد کو عام آدمی کو اس کی رقم واپس دلا کر کوئی خاص نیک نامی نہیں ملی ہے۔ انھیں اس سال 14اگست پر کوئی تمغہ بھی نہیں ملا ہے۔ ویسے بھی اس وقت نیب کو تمغہ دینے کا کوئی ماحول نہیں ہے۔جس طرح ڈی جی نیب لاہور سلیم شہزاد نے عام آدمی کو اس کے پیسے واپس دلائے ہیں، آج کل پنجاب حکومت میں ڈی جی اینٹی کرپشن گوہر نفیس کی بھی بہت دھوم ہے۔ انھوں نے پنجاب کی سرکاری زمین کو واگزار کرانے کی ایک مہم شروع کی ہوئی ہے۔ آپ کو اندازہ ہے کہ صرف شیخوپورہ میں پنجاب حکومت کی ڈیڑھ سو سے زائد دکانیں تھیں جن پر بیٹھے قابضین سالہا سال سے کرایہ نہیں دے رہے تھے۔
گوہر نفیس نے کہا کہ اگر کرایہ سرکاری خزانہ میں نہیں آئے گا تو اینٹی کرپشن قانون کے مطابق کارروائی کرے گا۔ بہرحال قصہ مختصر ان دکانوں کا گزشتہ دس سال کا کرایہ بھی وصول ہو گیا ہے۔اور وہ آیندہ بھی باقاعدہ کرایہ دینے پر مان گئے ہیں۔
لاہور میں ایک بہت بڑی فیکٹری سرکاری زمین پر بنی ہوئی ہے۔ وہ فیکٹری بھی سرکار کو کرایہ نہیں دیتی ہے اور کسی کو ہمت بھی نہیں ہے کہ ان سے کرایہ مانگ لے۔ گوہر نفیس ان سے بھی ماضی کا کرایہ لینے پر بضد ہیں۔ ڈی جی اینٹی کرپشن کا خیال ہے کہ صرف سرکاری زمینوں کے معاملات ٹھیک کر کے پنجاب کے خزانہ میں اربوں روپے آسکتے ہیں۔ بہرحال اللہ ہی خیر کرے۔
کاروبار ڈوبنے کی وجہ اور سیاسی بحران کی ذمے دار بھی وہی احتسابی عمل ہے۔ اس تناظر میں مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان کے مسائل کا واحد حل یہی ہے کہ احتساب کو بند کر دیا جائے۔
افسر شاہی کے کام نہ کرنے کی وجہ سے حکومت نیب قوانین میں ایسی ترامیم کرنا چاہتی ہے جس میں افسر شاہی کو عام معافی دلوا دی جائے۔ اسی طرح ملک کے معاشی اور کاروباری بحران کی وجہ سے حکومت تمام کاروباری حضرات کوآزادی دلوانے کی تیاری کر رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ احتساب کے خوف سے کاروباری لوگوں نے کاروبار بند کر دیے ہیں۔اس لیے نیب قوانین میں ترامیم آرہی ہیں اور اس ضمن میں ماحول کو سازگار کیا جا رہا ہے۔
تاہم اس ضمن میں نیب لاہور کی کارکردگی کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ حکومتی اور نیب کے اعداد و شمار کے مطابق نیب لاہور نے جعلی اور فراڈ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں بہت کامیابی حاصل کی ہے اور عام آدمی کے پیسے واپس دلائے ہیں۔ لاہور ہی نہیں ملک بھر میں جعلی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں ایک فراڈ شروع ہو گیا تھا۔ مالکان زمین سے زیادہ پلاٹ بیچ دیتے تھے۔
فرض کر لیں اگر ایک سوسائٹی میں ایک ہزار پلاٹ ہیں تو دو ہزار یاکئی مواقعے پر تو اس سے بھی زائد پلاٹ بیچ دیے گئے تھے۔ اگر کسی سوسائٹی کا ایک فیز ہے تو دوسرا اور تیسرا فیز بغیر کسی قانونی ضابطے کے لانچ کردیا جاتا۔ اس کے بعد عام آدمی جس نے زمین کے پیسے ادا کر دیے ہوتے تھے۔ وہ چکر لگا لگا کر مر جاتا تھا۔ ہزاروں لوگ اپنی زندگی کی جمع پونجی اس فراڈ میں کھو بیٹھے تھے۔ لوگوں نے پوری قسطیں بھی ادا کر دی ہوئی تھیں۔ لیکن پلاٹ اور گھر کا نام و نشان ہی نہ تھا۔
بعض سوسائٹیز کے کرتا دھرتا عوام کے پیسے لے کر بیرون ملک فرار ہو چکے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ جب عام آدمی سے فراڈ ہورہا تھا تو قانون نافذ کرنے والے باقی ادارے کہاں تھے، کسی نے ان کو چیک کیوں نہیں کیا۔
تاہم نیب لاہور کے ڈی جی سلیم شہزاد نے اس ضمن میں مثالی کام کیا ہے۔ انھوں نے عام آدمی کی ڈوبی ہوئی رقوم انھیں واپس دلائی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق نیب لاہور نے فراڈ یا جعلی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے خلاف 62مقدمات میں انکوائری شروع کی۔ اس ضمن میں نیب کو متعدد شکایات موصول ہوئیں۔ ان انکوائریوں میں سے نیب لاہور نے 40کے خلاف کارروائی مکمل کر لی ہے۔اور 22 انکوائریاں ابھی زیر التو ہیں۔ جن 40 مقدمات کی انکوائریاں مکمل ہوئی ہیں۔ ان سے عام لوگوں کی ابھی تک 25ارب روپے کی ریکوری ہو چکی ہے۔ یہ پیسہ کسی عام آدمی سے نہیں بلکہ بڑے بڑے ناموں سے وصول کر کے غریب لوگوں کو لوٹایا گیا ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو جعلی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنا کر عوام سے فراڈ کرنے کا کاروبار نیب کی وجہ سے شدید بدحالی کا شکار ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ نیب اور سلیم شہزاد کی وجہ سے یہ لوگ اب جتنے پلاٹ ہیں اتنے ہی بیچنے پر مجبور ہیں۔ اس لیے ان کے منافع میں کمی ہو گئی ہے۔ یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ کیا کاروبار ہے کہ اگر ایک ہزار پلاٹ ہیں تو ایک ہزار ہی بیچنے ہیں۔ پہلے کتنی موج تھی کہ ہزار پلاٹ ہیں تو پانچ ہزار بیچ دیں لیکن اب ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس لیے لوگوں نے ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانی بند کر دی ہیں۔ رئیل اسٹیٹ کا بزنس بیٹھ گیا ہے۔
اب نیب نے اس طرح کی جعلی اور فراڈ سوسائٹیوں کے خلاف ریفرنس بھی فائل کیے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ ان سات ریفرنسوں میں 21750افراد سے 25ارب روپے کا فراڈ کیا گیا ہے۔ کیا یہ کوئی معمولی فراڈ ہے۔ مجھے یاد ہے آج سے کئی سال پہلے کوآپریٹو کے نام پر عام لوگوں کے ساتھ ایسے ہی فراڈ کیا گیا تھا۔ لیکن تب کوئی نیب نہیں تھا اورکسی کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی ۔ آج نیب لا ہور نے سفید پوش لوگوں کے پیسے واپس دلوائے ہیں مگر اس کی کوئی نیک نامی نہیں ہے۔ غریب آدمی نیب کو دعا کے سوا کیا دے سکتا ہے۔ جب کہ جن لوگوں کی گردن مروڑ کر یہ رقم دلوائی گئی ہے ان کی چیخوں کی گونج اور بددعاؤں میں اثر بھی زیادہ ہے۔ لگتا ہے نیب کو انھیں فراڈیوں کی بددعا لگ گئی ہے۔
اگر اس مثال کو ہی سامنے رکھ لیا جائے تو کیا نیب کو ایسے فراڈیوں کے خلاف کارروائی کرنے سے روک دیا جائے جو عام آدمی سے فراڈ کرتے ہیں۔ اگر حکومت یہ چاہتی ہے کہ ٹیکس اور دیگر سرکاری محصولات میں فراڈ کے مقدمات نیب کو نہیں دیکھنے چاہیے تو یہ حکومت کی مرضی۔ ویسے بھی حکومت آجکل اربوں روپے ٹیکس معاف کر رہی ہے۔حالانکہ وہ بھی غریبوں سے اکٹھے کیے جاچکے ہیں۔ لیکن چلیں حکومت کی مرضی۔ اس لیے اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ٹیکس معاف کرنے اور ٹیکسوں میں فراڈ کرنے کی کھلی آزادی ہونی چاہیے۔ تو یہ اس کی مرضی ہے۔ مجھے اور آپ کو اس سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ یہی نیا پاکستان ہے۔
نیب لاہور کے ڈی جی سلیم شہزاد کو عام آدمی کو اس کی رقم واپس دلا کر کوئی خاص نیک نامی نہیں ملی ہے۔ انھیں اس سال 14اگست پر کوئی تمغہ بھی نہیں ملا ہے۔ ویسے بھی اس وقت نیب کو تمغہ دینے کا کوئی ماحول نہیں ہے۔جس طرح ڈی جی نیب لاہور سلیم شہزاد نے عام آدمی کو اس کے پیسے واپس دلائے ہیں، آج کل پنجاب حکومت میں ڈی جی اینٹی کرپشن گوہر نفیس کی بھی بہت دھوم ہے۔ انھوں نے پنجاب کی سرکاری زمین کو واگزار کرانے کی ایک مہم شروع کی ہوئی ہے۔ آپ کو اندازہ ہے کہ صرف شیخوپورہ میں پنجاب حکومت کی ڈیڑھ سو سے زائد دکانیں تھیں جن پر بیٹھے قابضین سالہا سال سے کرایہ نہیں دے رہے تھے۔
گوہر نفیس نے کہا کہ اگر کرایہ سرکاری خزانہ میں نہیں آئے گا تو اینٹی کرپشن قانون کے مطابق کارروائی کرے گا۔ بہرحال قصہ مختصر ان دکانوں کا گزشتہ دس سال کا کرایہ بھی وصول ہو گیا ہے۔اور وہ آیندہ بھی باقاعدہ کرایہ دینے پر مان گئے ہیں۔
لاہور میں ایک بہت بڑی فیکٹری سرکاری زمین پر بنی ہوئی ہے۔ وہ فیکٹری بھی سرکار کو کرایہ نہیں دیتی ہے اور کسی کو ہمت بھی نہیں ہے کہ ان سے کرایہ مانگ لے۔ گوہر نفیس ان سے بھی ماضی کا کرایہ لینے پر بضد ہیں۔ ڈی جی اینٹی کرپشن کا خیال ہے کہ صرف سرکاری زمینوں کے معاملات ٹھیک کر کے پنجاب کے خزانہ میں اربوں روپے آسکتے ہیں۔ بہرحال اللہ ہی خیر کرے۔