مغلیہ دور کی تاریخی دائی آنگہ مسجد حسن و خوبصورتی کا شاہکار
اگر حکومت کی جانب سے مسجد دائی آنگہ کےلئے فنڈز جاری کئے جائیں تو یہ تاریخی مسجد قائم دائم رہے گی
مغلیہ دور کی لاہور ریلوے اسٹیشن سے ملحقہ دائی آنگہ مسجد اپنے تاریخی حسن اس کی دیواروں اور میناروں پر پچی کاری کے دل کش کام اور وسیع و عریض صحن میں پانی کے تالاب نے مسجد کے تاریخی حسن کے ساتھ اسکی اہمیت میں اضافہ کردیا ہے۔
لاہور ریلوے اسٹیشن تاریخی لحاظ سے جتنا اہمیت کا حامل ہے اس کے ساتھ ساتھ ریلوے اسٹیشن پلیٹ فارم نمبر ایک سے ملحقہ مسجد دائی آنگہ بھی تاریخی لحاظ سے اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے۔ اس مسجد کو 1045ءمیں تعمیر کروایا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ شاہ جہاں نے دائی آنگہ (جس کا اصل نام زیب انساء تھا) کا دورھ پیا تھا اور وہ انکی خدمت گار بھی تھی اس کے عوض شاہ جہاں نے ریلوے اسٹیشن پر ایک مسجد دائی آنگہ کے نام سے بنوائی تھی۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں مسجد دائی آنگہ کو اسلحہ اور بارود خانہ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا اور مسجد کے مختلف حصوں میں اسلحہ رکھا گیا اور لڑائی جھگڑوں کےلیۓ اسلحہ اور بارود یہاں سے لیکر استعمال کیا جانے لگا۔ لیکن انگریزوں نے انتظامی کنٹرول سنبھالنے کے بعد مسجد دائی آنگہ کو اسلحہ بارود سے خالی کرواکے اسے نزول میں درج کرلیا۔
اس وقت لاہور کے کمشنر انگریز مسٹر ہنری کوپ نے سرکار سے اجازت لیکر مسجد دائی آنگہ کو ایک کوٹھی میں تبدیل کر دیا اور اس میں رہائش رکھ کر اسے رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا جس کا مقامی لوگوں کو کافی دکھ بھی ہوا لیکن جس وقت ریلوے اسٹیشن بنا تو مسجد دائی آنگہ میں ریلوے اسٹیشن سپرنٹنڈنٹ کا دفتر بناد یا گیا اور ٹرین آپریشن کا تمام نظام اسٹیشن سپرنٹنڈنٹ یہاں مسجد دائی آنگہ سے ہی کنٹرول کرتا تھا یعنی یوں کہیے کے اسے ریلوے کنٹرول روم کے طور پر بھی استعمال کیا گیا۔
نو مبر1901ءمیں منشی دین محمد مرحوم نے جب اپنے اخبار'' پنجہ فولاد " میں مسجد دائی آنگہ کو کسی اور کاموں کےلئے استعمال کرنے پر اس کے خلاف آواز اٹھائی جس کو دیکھتے دیکھتے اس وقت کے دیگر باقی مسلم پریس نے بھی مسجد دائی آنگہ کو مسجد کی بجائے کسی اور کاموں کےلئے استعمال کرنے پر آواز اٹھائی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس آواز میں شدت آتی گی اور اس طرح 1903ءمیں لارڈ کرزن نے مسجد دائی آنگہ کو مسلمانوں کو دیتے ہوئے اسے مسلمانوں کےلئے وقف کردیا گیا اور اب اس مسجد دائی آنگہ کو نماز کےلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ ریلوے اسٹیشن سے محلقہ مسجد دائی آنگہ نہایت ہی خوبصورت اور دل کش ہے اس پر اس زمانے کا پچی کاری کا کام ابھی تک کافی حدتک محفوظ ہے جو کہ نہایت ہی خوبصورت اور مسجد کی آب وتاب میں اضافہ کرتا ہے۔
لاہور ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر ایک کے آخر میں واقع دائی آنگہ مسجد کی دیوار ریلوے اسٹیشن اور مسجد دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے، گو اصل مصوری کئی جہگوں سے اکھڑ چکی ہے جسے بڑی خوبصورتی سے پُر کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن وہ اصل حالت پیدا نہیں ہوسکی ہے لیکن پھر بھی بہت اچھی ہے۔ امامت کی جگہ سے اصل مصوری تو غائب ہوچکی ہے لیکن اس کو خوبصورتی سے پر کرنے کی کوشش کی گئی ہے مسجد کے میناروں اور دیواروں پر " پچی کاری " کے کام نے مسجد کی خوبصورتی میں چار چاند لگائے ہوئے ہیں۔ مسجد خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ وسیع بھی ہے۔ ریل سے سفر کرنے والے متعدد مسافر یہاں نماز کی ادائیگی بھی کرتے ہیں جبکہ یہاں پانچوں وقت کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں۔
مسجد کے سامنے وضو کرنے کےلئے ایک خوبصورت بڑا سا تالاب بھی ہے اور اس وقت یہاں پانی کا تالاب اس غرض سے بنایا گیا تھا کہ اس وقت پانی کی قلت ہوتی تھی جس کے پیش نظر مسجد کے صحن میں پانی کا بڑا تالاب بنایا گیا تھا جبکہ پہلے پہل اس پانی کے تالاب میں مچھلیاں بھی ہوتی تھیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس تالاب سے مچھلیاں تو ختم ہوگئی لیکن اب بھی اس تالاب کے پانی سے نمازی وضو کرتے ہیں۔
مسجد دائی آنگہ آج بھی تاریخی لحاظ سے بڑی اہمیت کی حامل ہے اگر حکومت کی جانب سے مسجد دائی آنگہ کےلئے فنڈز جاری کئے جائیں اور اس کی تزین و آرائش پر توجہ دی جائے تو یہ تاریخی مسجد قائم دائم رہے گی اور اسکے حسن و خوبصورتی میں بھی کئی گنا اضافہ ہوگا۔۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تقسیم ہند کے وقت جب لوگ ٹرینوں سے لاہور ریلوے اسٹیشن پہنچے تو ان میں سے زیادہ تر افراد نے دائی آنگہ مسجد میں ہی قیام کیا تھا۔
لاہور ریلوے اسٹیشن تاریخی لحاظ سے جتنا اہمیت کا حامل ہے اس کے ساتھ ساتھ ریلوے اسٹیشن پلیٹ فارم نمبر ایک سے ملحقہ مسجد دائی آنگہ بھی تاریخی لحاظ سے اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے۔ اس مسجد کو 1045ءمیں تعمیر کروایا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ شاہ جہاں نے دائی آنگہ (جس کا اصل نام زیب انساء تھا) کا دورھ پیا تھا اور وہ انکی خدمت گار بھی تھی اس کے عوض شاہ جہاں نے ریلوے اسٹیشن پر ایک مسجد دائی آنگہ کے نام سے بنوائی تھی۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں مسجد دائی آنگہ کو اسلحہ اور بارود خانہ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا اور مسجد کے مختلف حصوں میں اسلحہ رکھا گیا اور لڑائی جھگڑوں کےلیۓ اسلحہ اور بارود یہاں سے لیکر استعمال کیا جانے لگا۔ لیکن انگریزوں نے انتظامی کنٹرول سنبھالنے کے بعد مسجد دائی آنگہ کو اسلحہ بارود سے خالی کرواکے اسے نزول میں درج کرلیا۔
اس وقت لاہور کے کمشنر انگریز مسٹر ہنری کوپ نے سرکار سے اجازت لیکر مسجد دائی آنگہ کو ایک کوٹھی میں تبدیل کر دیا اور اس میں رہائش رکھ کر اسے رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا جس کا مقامی لوگوں کو کافی دکھ بھی ہوا لیکن جس وقت ریلوے اسٹیشن بنا تو مسجد دائی آنگہ میں ریلوے اسٹیشن سپرنٹنڈنٹ کا دفتر بناد یا گیا اور ٹرین آپریشن کا تمام نظام اسٹیشن سپرنٹنڈنٹ یہاں مسجد دائی آنگہ سے ہی کنٹرول کرتا تھا یعنی یوں کہیے کے اسے ریلوے کنٹرول روم کے طور پر بھی استعمال کیا گیا۔
نو مبر1901ءمیں منشی دین محمد مرحوم نے جب اپنے اخبار'' پنجہ فولاد " میں مسجد دائی آنگہ کو کسی اور کاموں کےلئے استعمال کرنے پر اس کے خلاف آواز اٹھائی جس کو دیکھتے دیکھتے اس وقت کے دیگر باقی مسلم پریس نے بھی مسجد دائی آنگہ کو مسجد کی بجائے کسی اور کاموں کےلئے استعمال کرنے پر آواز اٹھائی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس آواز میں شدت آتی گی اور اس طرح 1903ءمیں لارڈ کرزن نے مسجد دائی آنگہ کو مسلمانوں کو دیتے ہوئے اسے مسلمانوں کےلئے وقف کردیا گیا اور اب اس مسجد دائی آنگہ کو نماز کےلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ ریلوے اسٹیشن سے محلقہ مسجد دائی آنگہ نہایت ہی خوبصورت اور دل کش ہے اس پر اس زمانے کا پچی کاری کا کام ابھی تک کافی حدتک محفوظ ہے جو کہ نہایت ہی خوبصورت اور مسجد کی آب وتاب میں اضافہ کرتا ہے۔
لاہور ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر ایک کے آخر میں واقع دائی آنگہ مسجد کی دیوار ریلوے اسٹیشن اور مسجد دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے، گو اصل مصوری کئی جہگوں سے اکھڑ چکی ہے جسے بڑی خوبصورتی سے پُر کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن وہ اصل حالت پیدا نہیں ہوسکی ہے لیکن پھر بھی بہت اچھی ہے۔ امامت کی جگہ سے اصل مصوری تو غائب ہوچکی ہے لیکن اس کو خوبصورتی سے پر کرنے کی کوشش کی گئی ہے مسجد کے میناروں اور دیواروں پر " پچی کاری " کے کام نے مسجد کی خوبصورتی میں چار چاند لگائے ہوئے ہیں۔ مسجد خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ وسیع بھی ہے۔ ریل سے سفر کرنے والے متعدد مسافر یہاں نماز کی ادائیگی بھی کرتے ہیں جبکہ یہاں پانچوں وقت کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں۔
مسجد کے سامنے وضو کرنے کےلئے ایک خوبصورت بڑا سا تالاب بھی ہے اور اس وقت یہاں پانی کا تالاب اس غرض سے بنایا گیا تھا کہ اس وقت پانی کی قلت ہوتی تھی جس کے پیش نظر مسجد کے صحن میں پانی کا بڑا تالاب بنایا گیا تھا جبکہ پہلے پہل اس پانی کے تالاب میں مچھلیاں بھی ہوتی تھیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس تالاب سے مچھلیاں تو ختم ہوگئی لیکن اب بھی اس تالاب کے پانی سے نمازی وضو کرتے ہیں۔
مسجد دائی آنگہ آج بھی تاریخی لحاظ سے بڑی اہمیت کی حامل ہے اگر حکومت کی جانب سے مسجد دائی آنگہ کےلئے فنڈز جاری کئے جائیں اور اس کی تزین و آرائش پر توجہ دی جائے تو یہ تاریخی مسجد قائم دائم رہے گی اور اسکے حسن و خوبصورتی میں بھی کئی گنا اضافہ ہوگا۔۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تقسیم ہند کے وقت جب لوگ ٹرینوں سے لاہور ریلوے اسٹیشن پہنچے تو ان میں سے زیادہ تر افراد نے دائی آنگہ مسجد میں ہی قیام کیا تھا۔