فلاوانول سے بھرپور ڈارک چاکلیٹ بلڈپریشر کم کرتی ہے
ڈارک چاکلیٹ کو بلڈپریشر میں کمی کا واحد حل نہ سمجھا جائے اور اس...
ایک نئی اسٹڈی میں کہا گیا ہے کہ اگر کیمیائی مادے فلاوانول سے بھرپور کوکوا یا ڈارک چاکلیٹ روزانہ کھائی جائے تو اس کے نتیجے میں مختصر مدت کے لیے بلڈ پر یشر کو کم کیا جاسکتا ہے۔مختلف اسٹڈیز کے ڈیٹا کی جانچ کے بعد محققین کو پتہ چلا ہے کہ جو افراد روزانہ فلاوانول والی چاکلیٹ کھاتے ہیںان کا بلڈپریشر دو سے تین پوائنٹ تک کم ہوجاتا ہے۔
محققین کے مطابق اگرچہ یہ کمی اس کمی کے مقابلے میں بہت کم ہے جو کہ لوگ ادویات کے ذریعے کرتے ہیں تاہم یہ کمی اس کمی کے برابر ہے جو کہ لوگ خوراک میں تبدیلی یا ورزش کے ذریعے کرتے ہیں۔ ڈاکٹر الزبتھ جیکسن کے مطابق اس کا مطلب یہ نہیں کہ لوگ چاکلیٹ کھائیں اور ورزش چھوڑ دیں۔انھوں نے کہا کہ اگر انھیں کہا جائے کہ وہ چاکلیٹ یا ورزش میں سے کس کا انتخاب کریں گی تو وہ لازمی طورپر ورزش کو چنیں گی۔
انھوں نے مزید کہا کہ تھوڑی سی ڈارک چاکلیٹ کھانا برا نہیں تاہم بہت زیادہ چاکلیٹ کھا کر کیلوریز بڑھا کر وزن میں اضافے کا خطرہ مول نہیں لیا جاسکتا۔
اسٹڈی کے ضمن میں دو قسم کے گروہوں کا موازنہ کیا گیا ، ایک گروہ وہ جو فلاوانول سے بھرپور چاکلیٹ یا کوکوا پروڈکٹس تواتر سے کھاتے ہیں اور دوسرے وہ لوگ جو کم فلاوانول والی پروڈکٹس کھاتے ہیں۔یاد رہے کہ فلاوانول مادہ ڈارک چاکلیٹ کے علاوہ سبزچائے ، بیریز اور ریڈوائن میں بھی پایا جاتا ہے اور جسم میں نائٹرک ایسڈ کی پیداوار کو بڑھاتا ہے۔نائٹرک ایسڈ خون کی شریانوں کو ڈھیلا کرتا ہے جس کے نتیجے میں بلڈپریشر کم ہوتا ہے۔
امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے مطابق ایک فرد کا اوپر کا بلڈپریشر ایک سو بیس سے کم اور نیچے کا بلڈپریشر اسی سے کم ہونا چاہیے۔اسٹڈی کے ضمن میں 429افراد جو عمومی طورپر صحت مند تھے ان کو دو سے اٹھارہ ہفتے تک فالو کیا گیا۔یہ ٹوٹل آٹھ سو چھپن شرکاء تھے جن میں سے چارسو انتیس شرکاء نے تین گرام سے سو گرام ڈارک چاکلیٹ یا کوکوا روزانہ کھائی جس میں تیس ملی گرام سے ایک ہزار ملی گرام تک فلاوانول پائی جاتی تھی۔
اس طرح 429 افراد کو اس تقابلی گروہ میں رکھا گیا جنہوں نے کم فلاوانول والی یا ایسی چاکلیٹ کھائی جس میں سرے سے فلاوانول موجود نہیں تھی۔اسٹڈی کے آخر میں دیکھا گیا کہ جن افراد نے فلاوانول سے بھرپور چاکلیٹ کھائی تھی ان کا اوپر کا بلڈپریشر 2.8 اور نیچے کا بلڈپریشر 2.2 تک کم ہوا۔اس طرح جن افراد نے کم فلاوانول یا بغیر فلاوانول والی چاکلیٹ کھائی تھی ان میں بلڈپریشر میں کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہ آئی۔تاہم محققین نے متنبہ کیا کہ ڈارک چاکلیٹ کو بلڈپریشر میں کمی کا واحد حل نہ سمجھا جائے اور اس کو ورزش اور صحت مند خوراکوں سے تبدیل نہ کیا جائے۔
محققین کے مطابق اگرچہ یہ کمی اس کمی کے مقابلے میں بہت کم ہے جو کہ لوگ ادویات کے ذریعے کرتے ہیں تاہم یہ کمی اس کمی کے برابر ہے جو کہ لوگ خوراک میں تبدیلی یا ورزش کے ذریعے کرتے ہیں۔ ڈاکٹر الزبتھ جیکسن کے مطابق اس کا مطلب یہ نہیں کہ لوگ چاکلیٹ کھائیں اور ورزش چھوڑ دیں۔انھوں نے کہا کہ اگر انھیں کہا جائے کہ وہ چاکلیٹ یا ورزش میں سے کس کا انتخاب کریں گی تو وہ لازمی طورپر ورزش کو چنیں گی۔
انھوں نے مزید کہا کہ تھوڑی سی ڈارک چاکلیٹ کھانا برا نہیں تاہم بہت زیادہ چاکلیٹ کھا کر کیلوریز بڑھا کر وزن میں اضافے کا خطرہ مول نہیں لیا جاسکتا۔
اسٹڈی کے ضمن میں دو قسم کے گروہوں کا موازنہ کیا گیا ، ایک گروہ وہ جو فلاوانول سے بھرپور چاکلیٹ یا کوکوا پروڈکٹس تواتر سے کھاتے ہیں اور دوسرے وہ لوگ جو کم فلاوانول والی پروڈکٹس کھاتے ہیں۔یاد رہے کہ فلاوانول مادہ ڈارک چاکلیٹ کے علاوہ سبزچائے ، بیریز اور ریڈوائن میں بھی پایا جاتا ہے اور جسم میں نائٹرک ایسڈ کی پیداوار کو بڑھاتا ہے۔نائٹرک ایسڈ خون کی شریانوں کو ڈھیلا کرتا ہے جس کے نتیجے میں بلڈپریشر کم ہوتا ہے۔
امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے مطابق ایک فرد کا اوپر کا بلڈپریشر ایک سو بیس سے کم اور نیچے کا بلڈپریشر اسی سے کم ہونا چاہیے۔اسٹڈی کے ضمن میں 429افراد جو عمومی طورپر صحت مند تھے ان کو دو سے اٹھارہ ہفتے تک فالو کیا گیا۔یہ ٹوٹل آٹھ سو چھپن شرکاء تھے جن میں سے چارسو انتیس شرکاء نے تین گرام سے سو گرام ڈارک چاکلیٹ یا کوکوا روزانہ کھائی جس میں تیس ملی گرام سے ایک ہزار ملی گرام تک فلاوانول پائی جاتی تھی۔
اس طرح 429 افراد کو اس تقابلی گروہ میں رکھا گیا جنہوں نے کم فلاوانول والی یا ایسی چاکلیٹ کھائی جس میں سرے سے فلاوانول موجود نہیں تھی۔اسٹڈی کے آخر میں دیکھا گیا کہ جن افراد نے فلاوانول سے بھرپور چاکلیٹ کھائی تھی ان کا اوپر کا بلڈپریشر 2.8 اور نیچے کا بلڈپریشر 2.2 تک کم ہوا۔اس طرح جن افراد نے کم فلاوانول یا بغیر فلاوانول والی چاکلیٹ کھائی تھی ان میں بلڈپریشر میں کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہ آئی۔تاہم محققین نے متنبہ کیا کہ ڈارک چاکلیٹ کو بلڈپریشر میں کمی کا واحد حل نہ سمجھا جائے اور اس کو ورزش اور صحت مند خوراکوں سے تبدیل نہ کیا جائے۔