کراچی میں فراہمی آب کے لیے کینال کی تعمیر
وزیراعلیٰ سندھ نے واٹر بورڈ کوگجو تا پپری 250 ایم جی ڈی پانی کی گنجائش کی حامل ایک کینال تعمیر کرنے کی ہدایت کی ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کراچی کو 200 ایم جی ڈی اضافی پانی فراہم کرنے کے لیے گجو تا پپری ایک علیحدہ کینال تعمیرکرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ خبر مژدہ جانفزا سے کم نہیں ہے کیونکہ کراچی میں پانی کا شدید ترین بحران ہے، بعض علاقوں میں تو ناغہ سسٹم کے تحت تھوڑا بہت پانی ہفتے میں دو یا تین دن آجاتا ہے، لیکن شہرکی بیشتر آبادیوں میں سرے سے پانی کی فراہمی کا کوئی نظام نہیں، ان بستیوں رہائشی ٹینکرز مافیا کے رحم وکرم پر ہیں۔
اسی سنگین صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ منصوبہ انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا جاسکتا ہے۔کراچی میں جو پانی کا نظام اسے ہم '' کے۔ I، II اور III ''کے ناموں سے پکارتے ہیں جب کہ کے فورکا منصوبہ کئی برسوں سے التواء کا شکار چلا آرہا ہے۔شہر کی موجودہ پانی کی طلب 1200 ایم جی ڈی ہے،جس کے مقابلے میں تقریباً 406 ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔
یہ تو وہ اعدادوشمار ہیں جوکہ واٹربورڈکے حکام بتاتے ہیں جب کہ صورتحال اس سے بھی زیادہ الارمنگ ہے۔ پانی کی فراہمی کے منصوبوں پر عملدرآمد اور ڈیزائن پر جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے واٹر بورڈ کوگجو تا پپری 250 ایم جی ڈی پانی کی گنجائش کی حامل ایک کینال تعمیر کرنے کی ہدایت کی ہے جہاں سے پانی شہر پہلے سے کام کرنے والے سسٹم میں پمپ کیا جا سکے گا، صوبائی وزیر بلدیات کے مطابق منصوبے پر تقریباً 11 ارب روپے لاگت آئے گی۔
ان کے مطابق واٹر بورڈ نے خود کو ایک خود انحصار ادارہ بنایا ہے مگر ہم واٹر بورڈ کو سپورٹ کریں گے مگر واٹر بورڈ خود بھی اپنے آپ کو بہتر بنائے۔ خلوص نیت سے اس منصوبے پر صوبائی حکومت کام کرے تو یقینا شہرقائد میں پانی کی قلت دور کرنے میں مدد ملے گی۔
دوسری جانب ملیر ندی میں برساتی پانی کا ریلا آنے کی وجہ سے ٹریفک کے لیے بندکی جانے والی کورنگی کراسنگ روڈ 3 روزگزر جانے کے باوجودکھولی نہ جاسکی۔ قیوم آبادچورنگی سے کورنگی کو ملانے والا راستہ زیرآب آنے سے گھنٹوں ٹریفک جام ہوجاتا ہے جس سے شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مون سون کی دو بارشوں نے کورنگی کراسنگ کو شہریوں کے لیے ایک اذیت بنادیا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس راستے پرفوری پل تعمیرکیا جائے تاکہ ٹریفک کی روانی متاثر نہ ہو، اور شہریوں کو ریلیف مل سکے۔
یہ خبر مژدہ جانفزا سے کم نہیں ہے کیونکہ کراچی میں پانی کا شدید ترین بحران ہے، بعض علاقوں میں تو ناغہ سسٹم کے تحت تھوڑا بہت پانی ہفتے میں دو یا تین دن آجاتا ہے، لیکن شہرکی بیشتر آبادیوں میں سرے سے پانی کی فراہمی کا کوئی نظام نہیں، ان بستیوں رہائشی ٹینکرز مافیا کے رحم وکرم پر ہیں۔
اسی سنگین صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ منصوبہ انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا جاسکتا ہے۔کراچی میں جو پانی کا نظام اسے ہم '' کے۔ I، II اور III ''کے ناموں سے پکارتے ہیں جب کہ کے فورکا منصوبہ کئی برسوں سے التواء کا شکار چلا آرہا ہے۔شہر کی موجودہ پانی کی طلب 1200 ایم جی ڈی ہے،جس کے مقابلے میں تقریباً 406 ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔
یہ تو وہ اعدادوشمار ہیں جوکہ واٹربورڈکے حکام بتاتے ہیں جب کہ صورتحال اس سے بھی زیادہ الارمنگ ہے۔ پانی کی فراہمی کے منصوبوں پر عملدرآمد اور ڈیزائن پر جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے واٹر بورڈ کوگجو تا پپری 250 ایم جی ڈی پانی کی گنجائش کی حامل ایک کینال تعمیر کرنے کی ہدایت کی ہے جہاں سے پانی شہر پہلے سے کام کرنے والے سسٹم میں پمپ کیا جا سکے گا، صوبائی وزیر بلدیات کے مطابق منصوبے پر تقریباً 11 ارب روپے لاگت آئے گی۔
ان کے مطابق واٹر بورڈ نے خود کو ایک خود انحصار ادارہ بنایا ہے مگر ہم واٹر بورڈ کو سپورٹ کریں گے مگر واٹر بورڈ خود بھی اپنے آپ کو بہتر بنائے۔ خلوص نیت سے اس منصوبے پر صوبائی حکومت کام کرے تو یقینا شہرقائد میں پانی کی قلت دور کرنے میں مدد ملے گی۔
دوسری جانب ملیر ندی میں برساتی پانی کا ریلا آنے کی وجہ سے ٹریفک کے لیے بندکی جانے والی کورنگی کراسنگ روڈ 3 روزگزر جانے کے باوجودکھولی نہ جاسکی۔ قیوم آبادچورنگی سے کورنگی کو ملانے والا راستہ زیرآب آنے سے گھنٹوں ٹریفک جام ہوجاتا ہے جس سے شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مون سون کی دو بارشوں نے کورنگی کراسنگ کو شہریوں کے لیے ایک اذیت بنادیا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس راستے پرفوری پل تعمیرکیا جائے تاکہ ٹریفک کی روانی متاثر نہ ہو، اور شہریوں کو ریلیف مل سکے۔