نیکو کاروں کے اوصاف

انسان کے بُرا ہونے کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ وہ کسی مسلمان کو حقیر جانے

انسان کے بُرا ہونے کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ وہ کسی مسلمان کو حقیر جانے فوٹو: فائل

اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم : ''اپنے رب کی عبادت کرو موت آنے تک۔''

پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، مفہوم: اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے لوگو! تمہارے جتنے بھی اعمال ہیں میں ان کو شمار کر رہا ہوں، پھر ان اعمال کا پورا پورا بدلہ دوں گا۔ جس نے اچھائی کی ہو وہ اللہ تعالیٰ کی تعریف کرے گا اور جس نے اچھے اعمال نہیں کیے وہ اپنے آپ کو ملامت کرے گا۔

اچھے اعمال ہمیشہ کریں کیوں کہ یہ اللہ کے ہاں بہت بہتر ہیں۔ نماز کے متعلق بھی یہی حکم ہے کہ جو نماز میں ہمیشگی کرتے ہیں، اصل میں اللہ کے نیک بندے وہی ہوتے ہیں۔ اسی لیے ہر نیکی کے بعد مسلمان کو استغفار سکھایا گیا ہے۔

عبداللہ بن مسعود ؓ اپنے ساتھیوں کو کہا کرتے تھے: قسم اللہ کی کبھی بھی میں کسی چیز کے لیے اتنا شرمندہ نہیں ہوتا، جتنا میں اس دن سے ہوتا ہوں، جس دن کا سورج غروب ہوگیا ہو اور اس دن میرے اعمال گزشتہ کل سے کم ہوں۔

ذرا سوچیں کیا یہ شرمندگی ہمیں بھی ہوتی ہے؟

ایک مرتبہ حضرت حنظلہؓ مدینے کہ گلیوں میں آوازیں لگا رہے تھے کہ لوگو! میں منافق ہوگیا، میں منافق ہوگیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے پوچھا کیا بات ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ جب میں پیارے پیغمبر ﷺ کی مجلس میں ہوتا ہوں تو میرے ایمان کی کیفیت بہت ا چھی ہوتی ہے اور جب اپنے گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ ہوتا ہوں تو ایمان کی کیفیت ویسے نہیں ہوتی۔ اس لیے میں منافق ہوگیا ہوں۔ حالاں کہ یہ نفاق نہیں احساس ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلالؓ سے پوچھا کہ اسلام لانے کے بعد سب سے اچھا عمل آپ نے کو ن سا کیا ہے؟ کیوں کہ میں نے جنت میں تمہارے قدموں کی آہٹ سنی ہے۔ بلالؓ نے بتایا کہ یارسول اللہ ﷺ! جب بھی میں وضو کرتا ہوں تو نوافل ضرور پڑھتا ہوں۔ اس چھوٹی سی نیکی پر ہمیشگی کی وجہ سے اللہ نے جنت کا حق دار بنا دیا۔


ہمیشگی اختیار کرنے کا دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور تیسرا فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال میں ہمیشگی اختیار کرتا ہے اور تسلسل کے ساتھ عمل سرانجام دیتا ہے۔ اگر وہ عمل کسی عذر کی وجہ سے رہ جائے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کا اجر پورا دے گا۔ مزید برآں ہمیشگی اختیار کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں ثابت قدمی عطا کرتا ہے۔ انسان جب خوش حالی میں ہوتا ہے تو کثرت سے اللہ سے دعا کیا کرے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جب انسان پر مشکلات آجائیں تو اللہ اس انسان کو نہیں بھلائے گا۔ وہ انسان کو مشکلات سے نکالے گا۔ اعمال میں ہمیشگی کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان مشکلات میں بھی اللہ کے قریب رہتا ہے اور اللہ اس پر فضل فرماتا ہے۔

ہمیں ان اعمال اور اوصاف کو اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے، جن اوصاف کو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر فخر سے بیان کرتے ہیں۔ سورہ فرقان میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے اوصاف کو بیان کیا ہے۔ ویسے تو پورا قرآن ہی ایمان والوں کے اوصاف سے بھرا پڑا ہے، لیکن سورہ فرقان میں کچھ خاص قسم کے اوصاف بیان کیے ہیں۔ ہم نے اپنا جائزہ لینا ہے کہ اللہ نے جو اپنے بندوں کے اوصاف بیان کیے ہیں وہ کس قدر ہم میں موجود ہیں اور کس قدر اس کی کمی ہے؟ تاکہ انہیں اپنا کر اللہ کا بندہ کہلانے میں ہمیں فخر محسوس ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرمی سے چلتے ہیں۔

ان میں تکبّر نہیں ہوتا۔ دنیا میں سبھی اللہ کے بندے ہیں۔ وہ چاہے مسلم ہیں یا منکر۔ کافر بھی اللہ کے بندے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ انہوں نے رحمان کو بہ طور معبود نہیں مانا اور مومنوں نے رحمٰن کو اپنا معبود تسلیم کیا ہے۔ لقمان حکیم نے اپنے بیٹے سے کہا کہ زمین پر اکڑ کر نہیں چلنا کیوں کہ عباد الرحمن کے اوصاف میں سے یہ وصف ہے کہ وہ زمین پر نرمی سے چلتے ہیں، تواضع اور انکساری اپناتے ہیں۔ جو انسان تکبّر اور غرور سے چلتا ہے تو یہ انسان درحقیقت عباد الرحمٰن کی بیان کردہ صفت چھوڑ رہا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔

حدیث نبوی ﷺ کے مطابق تین قسم کے لوگ ہیں، جن سے رب کریم کلام کرے گا، نہ رحمت کی نظر سے دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا۔ ایک جس نے چادر کپڑا وغیرہ ٹخنوں سے نیچے رکھا۔ دوم جو قسمیں اٹھا کر سودا بیچتا ہے۔ سوم احسان جتلانے والا۔ ان تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ کلام تک نہیں کرے گا۔ اس طرح کے متکبّرین کو دھکیل کر جہنم میں پھینکا جائے گا۔ جہنّم میں جو سب سے سخت آگ ہوگی اس میں ان متکبّرین کو جلایا جائے گا۔ انسان کے بُرا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ کسی مسلمان کو حقیر جانے۔

عبداللہ بن عمرؓ نے عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے کہا کہ مجھے کوئی حدیث سناؤ۔ دونوں ایک چٹان پر بیٹھے ہیں، عبداللہ بن عمرو بن عاص نے حدیث سنائی کہ فرمان رسولؐ ہے کہ جس انسان کے دل میں سرسوں کے دانے جتنا بھی تکبّر ہوگا اسے اللہ تعالیٰ جنّت میں داخل نہیں کریں گے۔ عبداللہ بن عمرؓ اسی چٹان پر بیٹھے زارو قطار رو رہے تھے۔ ساتھیوں کے پوچھنے پر بتایا کہ تھوڑا سا تکبّر ہر انسان میں آ جاتا ہے تو پھر جنّت میں کیسے جائیں گے؟ اسے کہتے ہیں خشیت الہی۔

یاد رہے کہ اللہ کے ہاں بدترین انسان وہ ہے جب اسے نصیحت کی جائے تو آگے سے باتیں شروع کر دیتا ہے کہ تُونے اپنی قبر میں جانا ہے، میرا حساب آپ نے نہیں دینا۔ یہ اللہ کے نزدیک بدترین انسان ہے۔ غلطی ہر کسی سے ہوجاتی ہے۔ آدم علیہ السلام سے بھی لغزش ہوئی تھی اور پھر اللہ سے معافی مانگنے پر معاف کیے گئے۔ ہم بھی بنو آدم سے ہیں۔ مومن کو نصیحت کی جائے تو قبول کرتا ہے اور جب کوئی جاہل ان سے بات کرتا ہے تو بہ جائے بحث کرنے کے اسے سلام کہہ کر آگے نکل جاتا ہے۔

اللہ ہمیں عباد الرحمن کے اوصاف اپنانے اور نیک اعمال پر ہمیشگی اختیار کرنے والا بنائے۔ آمین
Load Next Story