عابد علی فن کا سورج غروب ہوگیا
اداکار عابد علی کے نام سے منسوب کسی فنی اکیڈمی یا ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے تو یہ ایک ٹریبویٹ ہوگا۔
فن اداکاری کو درجہ کمال پر پہنچانے والے اداکارعابد علی اب ہم ہمارے درمیان نہیں رہے، لیکن ان کا فن امر ہے اور وہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔ وہ اپنی ذات میں اداکاری کا مکمل ادارہ تھے۔
ریڈیو ، ٹی وی ، فلم اور تھیٹر میں دہائیوں تک ان کے فن کا راج رہا۔ ریڈیو پاکستان سے فنی کیریئرکا آغازکرنے والے عابد علی کو پاکستان ٹیلی وژن کے 1979 میں نشر ہونے والے معروف ڈرامہ ''وارث'' میں ''دلاور'' کے کردار نے شناخت دی۔ ان کے مقبول ٹی وی ڈراموں میں پیاس ، دوریاں ، دشت ، مہندی ، میرا رب وارث شامل ہیں۔ عابد علی نے فلموں میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔
ان کی پہلی فلم 1979 میں ریلیز ہونے والی''خاک اور خون'' جب کہ حال ہی میں ریلیز ہونے والی ''ہیر مان جا'' ان کی زندگی کی آخری فلم ثابت ہوئی۔ لاجواب اداکاری اور شعبے میں قابل قدر خدمات انجام دینے پرصدر پاکستان نے1985 میں انھیں پرائڈ آف پر فارمنس سے بھی نوازا تھا۔ عابد علی نے جو بھی کردارکیا اسے امرکر دیا۔ وہ ایک پیدائشی فنکار تھے، الفاظ کے زیروبم سے کردار میں جان ڈال دیتے تھے۔
وراسٹائل فنکار تھے جو بھی رول ادا کرتے ایسا محسوس ہوتا کہ وہ ان کے لیے تخلیق کیا گیا تھا۔ خود کوکردارکے سانچے میں ایسا ڈھالتے کہ اس میں حقیقت کا رنگ بھر دیتے۔ فن کو اوڑھنا بچھونا بنانے والے عابد علی ایک لیجنڈ اداکار تھے۔انھوں نے فن کے شعبے میں لازوال خدمات سر انجام دی ہیں۔ پاکستان اوردنیا بھر میں ان کی وفات کی خبر مداحوں پر بجلی بن کرگری ہے۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے عابد علی کی دہائیوں پر محیط فنی خدمات کو سراہا اورکہا اداکاری کے شعبے میں مرحوم کی خدمات کو تا دیر یاد رکھا جائے گا۔
معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے نامور اداکار عابد علی کے انتقال پر گہرے رنج وغم کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ آج پاکستان ڈرامہ، فلم اور تھیٹرکے شعبہ کے ایک درخشندہ ستارے سے محروم ہوگیا ہے۔ یہ درست ہے کہ عابد علی بہت بڑے فنکار تھے اور ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہیں ہوسکتا۔
حکومت کو شعبہ فن کی ترویج وترقی کے لیے ایسے اقدامات اٹھانے چاہئیں جس سے فنکاروں کے فن کو جلا ملے۔اداکار عابد علی کے نام سے منسوب کسی فنی اکیڈمی یا ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے تو یہ ایک ٹریبویٹ ہوگا، لیجنڈاداکار عابدعلی کے لیے۔
ریڈیو ، ٹی وی ، فلم اور تھیٹر میں دہائیوں تک ان کے فن کا راج رہا۔ ریڈیو پاکستان سے فنی کیریئرکا آغازکرنے والے عابد علی کو پاکستان ٹیلی وژن کے 1979 میں نشر ہونے والے معروف ڈرامہ ''وارث'' میں ''دلاور'' کے کردار نے شناخت دی۔ ان کے مقبول ٹی وی ڈراموں میں پیاس ، دوریاں ، دشت ، مہندی ، میرا رب وارث شامل ہیں۔ عابد علی نے فلموں میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔
ان کی پہلی فلم 1979 میں ریلیز ہونے والی''خاک اور خون'' جب کہ حال ہی میں ریلیز ہونے والی ''ہیر مان جا'' ان کی زندگی کی آخری فلم ثابت ہوئی۔ لاجواب اداکاری اور شعبے میں قابل قدر خدمات انجام دینے پرصدر پاکستان نے1985 میں انھیں پرائڈ آف پر فارمنس سے بھی نوازا تھا۔ عابد علی نے جو بھی کردارکیا اسے امرکر دیا۔ وہ ایک پیدائشی فنکار تھے، الفاظ کے زیروبم سے کردار میں جان ڈال دیتے تھے۔
وراسٹائل فنکار تھے جو بھی رول ادا کرتے ایسا محسوس ہوتا کہ وہ ان کے لیے تخلیق کیا گیا تھا۔ خود کوکردارکے سانچے میں ایسا ڈھالتے کہ اس میں حقیقت کا رنگ بھر دیتے۔ فن کو اوڑھنا بچھونا بنانے والے عابد علی ایک لیجنڈ اداکار تھے۔انھوں نے فن کے شعبے میں لازوال خدمات سر انجام دی ہیں۔ پاکستان اوردنیا بھر میں ان کی وفات کی خبر مداحوں پر بجلی بن کرگری ہے۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے عابد علی کی دہائیوں پر محیط فنی خدمات کو سراہا اورکہا اداکاری کے شعبے میں مرحوم کی خدمات کو تا دیر یاد رکھا جائے گا۔
معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے نامور اداکار عابد علی کے انتقال پر گہرے رنج وغم کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ آج پاکستان ڈرامہ، فلم اور تھیٹرکے شعبہ کے ایک درخشندہ ستارے سے محروم ہوگیا ہے۔ یہ درست ہے کہ عابد علی بہت بڑے فنکار تھے اور ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہیں ہوسکتا۔
حکومت کو شعبہ فن کی ترویج وترقی کے لیے ایسے اقدامات اٹھانے چاہئیں جس سے فنکاروں کے فن کو جلا ملے۔اداکار عابد علی کے نام سے منسوب کسی فنی اکیڈمی یا ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے تو یہ ایک ٹریبویٹ ہوگا، لیجنڈاداکار عابدعلی کے لیے۔