دفاع کے لیے وسائل اہمیت چند تجاویز
ستم ظریفی یہ ہے کہ مسلح افواج کے اہلکاروں کی ابتدائی ریٹائرمنٹ کے 'نتائج' مکمل طور پر متضاد ہیں۔
میں 6 ستمبر 1965 کو فوج میں شامل ہوچکا تھا اور پاکستان ملٹری اکیڈمی (پی ایم اے) کاکول کے محفوظ احاطے میں تھا۔ 11 ستمبر 1965کو پی اے ایف کے فارغ التحصیل ہونے والے 32 ویں اور 33 ویں پی ایم اے لانگ کورسز کے جینٹلمین کیڈٹس (جی سی) کی ''پاسنگ آؤٹ'' پریڈ کا نظارہ ایک جذباتی تجربہ تھا۔ (ان میں سے کئی کمیشنڈ افسر 23 ستمبر کو جنگ بندی تک 12 دن کے اندر شہید یا زخمی ہوئے)۔ کئی شہادتیں، خاص طور پر 1971 میں اور پھر انسداد دہشت گردی کی گزشتہ دو دہائیوں میں ہوئیں۔
یہ قربانیاں ہم سے سوال کرتی ہیں کہ کیا ہم نے اپنے تمام وسائل کو جنگ کی تیاری میں اور / یا امن کے لیے ہی، ان کو پوری طرح استعمال کیا ہے؟ جیسا کہ 54 سال قبل ہوا تھا۔ کشمیر کی ابھرتی ہوئی موجودہ صورت حال تیزی سے ہمارے آپشنز محدود کرتی جارہی ہے، شاید ہمارے پاس جنگ کے سوا کوئی راستہ نہ بچے۔ ہم صورت حال کو برقرار رکھنے کی سہل پسندی سے کب نکلیں گے جب کہ ہمارا وجود ہی خطرے سے دوچار ہے؟
جہاں تک معیشت کا تعلق ہے تو پاکستان ایک انتہائی نازک مرحلے سے گزر رہا ہے۔ پستی کے اس سفر کا آغاز زرداری اور پیپلز پارٹی کی حکومت کی 2008 میں آمد سے ہوا اور 2013 میں نواز شریف کے برسر اقتدار آنے کے بعد بھی جوں کا توں جاری رہا۔ معاشی نظام کی ابتری ملکی سلامتی کی ضروریات کو بری طرح متاثر کررہی ہے۔ معیشت اور سلامتی باہمی طورپر وابستہ تصور کرنے کے منفرد تصور سے ہی اس صورتحال کو بہتر بنایا جاسکتا ہے، پاکستان کو روایتی سانچوں اور جمود کو ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ اگرچہ محصولات میں اضافہ لازمی ہے، لیکن ہمیں بچت اور تبدیلیوں کو موثر بنانے کے ہر طریقے پر غور کرنا چاہیے۔
دفاع سے متعلق اخراجات غیر معمولی طور پر بڑھے ہیں۔ اس کی وجہ پنشن اور اس کی منتقلی ہیں۔ آج یہ 250 ارب روپے سے زیادہ ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ شماریاتی مقاصد کے لیے، یہ رقم کس کھاتے میں ڈالی جاتی ہے، اسے وصول خزانے سے ہی کرنا پڑتا ہے۔ ان اخراجات کے مسلسل اضافے سے آنے والی دہائی میں سیکیورٹی کے اخراجات بہت کم ہو جائیں گے، آیندہ ہم اس کو کس طرح برقرار رکھ سکیں گے؟
ہر سال قومی بجٹ کا ایک اہم حصہ ریٹائر ہونے والے اہلکاروں کی ''پنشن کمیوٹیشن'' پر صرف ہوتا ہے۔ پنشن فنڈ کو خودکار طور پر برقرار رکھنے کے لیے اس منصوبے کے حوالے سے علیحدہ اور تفصیلی تحقیق کی ضرورت ہے۔ مسلح افواج کے اہل کار اپنے سویلین ہم منصبوں سے بہت پہلے ریٹائر ہوجاتے ہیں مگر وہ قومی خزانے پر بوجھ بنے بغیر بھی قومی زندگی میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ مسلح افواج کے اہلکاروں کی ابتدائی ریٹائرمنٹ کے 'نتائج' مکمل طور پر متضاد ہیں۔ (1) دوسری 'نوکری'، جو انھیں 'ریٹائرمنٹ کی حقیقی عمر ' تک لے جائے، کی تلاش میں انھیں سڑکوں پر بھیج دینا مجرمانہ فعل ہے۔ 2) صرف ایک سرسری سروے سے ظاہر ہوجائے گا کہ ان میں سے بہت سارے افراد 'کمیوٹیڈ پینشن' کو شادیوں کے انتظامات، نمود و نمائش کی اشیاء کی خریداری اور بے روزگار افراد کی صفوں میں شامل ہونے میں ضایع کردیتے ہیں۔ 3) المیہ یہ ہے کہ ریاست کو ان لوگوں کو 'پنشن کمیوٹیشن' ادا کرنا پڑتی ہے جو اب بھی پیداواری کام کرنے کے اہل ہیں، اس سے بجٹ میں سے بہت زیادہ حصہ نکل جاتا ہے۔ 4) ریاست کی ایک بڑی تربیت یافتہ اور منظم افرادی قوت سے محرومی حماقت ہے۔
دفاعی خدمات کی تربیت رکھنے والی افرادی قوت کا استعمال ریاست کے لیے انتہائی ضروری ہے جس میں جوان اور افسر دونوں شامل ہیں جو بالترتیب 35-45 سال کے درمیان ریٹائر ہوتے ہیں۔ 60 سال کی عمر میں ریٹائر ہونے اور 12 سال کی کمیوٹیشن کے بعد ان کے سویلین ہم منصب 72 سال کی عمر میں مکمل پنشن ملنے کے اہل ہوتے ہیں۔ پنشن اور تبدیلی کا موجودہ نظام سرکاری خزانے اور کم عمری میں ریٹائر ہونے والے دفاعی اہلکاروں، دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ قومی بجٹ میں تقریبا 35-40 سالوں تک ان کے اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ بہت کم عمر میں اچھی تربیت یافتہ افرادی قوت کے ساتھ ایسی ملازمتوں کی تلاش کرتے ہوئے وہ اپنی زندگی کے ایک اہم مرحلے پر کئی مالی پریشانیوں سے گذرتے ہیں۔ چوںکہ اس عمر میں صرف محدود تعداد میں ملازمتیں دستیاب ہوتی ہیں، لہذا یہ انسان کے لیے مایوس کن مشق ہوسکتی ہے۔
کسی بھی بندوبست کو لازمی طور پر ان چیزوں کو ملحوظ رکھنا ہو (1) ریاست کی'کمیوٹڈ پنشن'پر خرچ کی گئی رقم کی بچت (2)اہلکاروں کی پیداواری صلاحیت کا بھرپور استعمال، جن کی تربیت پر اس وسائل صرف کیے ہیں (3)تربیت کے اخراجات کی بچت۔ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور کمیوٹیشن کے اخراجات کو بچانے کے لیے تجویز کیا گیا ہے کہ (1) 35-45 سال کی عمر میں مزید ترقی کا موقع نہ ہونے کے سبب ملازمت کو مکمل کرنے والے افسران اور جوان 60 سال کی عمر تک سول آرمڈ فورسز (سی اے ایف)، پولیس / مجسٹریسی، وزارت قانون و تعلیم (خاص طور پر مشکل علاقوں میں) شامل ہوں۔ سول سروس کے قواعد کے مطابق 60 سال تک کی عمر کے تمام افسران اور دیگر رینکس (جو اس آپشن کو منتخب کرتے ہیں) کو ملازمت کی ضمانت فراہم ہوجاتی ہے۔
کیا آپ معیار میں بہتری کا تصور کرسکتے ہیں جب وہ (1)پاکستان رینجرز (2) پاکستان کوسٹ گارڈز (3)فرنٹیئر کانسٹیبلری کے پی کے (4) فرنٹیئر کور کے پی کے (5)فرنٹیئر کور بلوچستان (6) ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس (7) اینٹی نارکوٹکس فورس اور (8) پولیس میں شامل ہیں جہاں تمام براہ راست بھرتیوں کو روکنا ہوگا، (9) انھیں نچلی عدالتوں کے مجسٹریٹ اور جج کے طور پر بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ ان ریٹائرڈ اہلکاروں کو انتظامیہ، فوجی قانون، سیکیورٹی، تربیت وغیرہ کا پہلے سے ہی کافی علم ہے۔ فوج میں شامل اہلکاروں کو شامل کرنے سے قبل انھیں متعلقہ شعبے میں خصوصی شارٹ کورس / تربیت حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ (2) جو افسر یا جوان اس آپشن کے لیے جانا چاہتے ہیں، انھیں 60 سال کی عمر کے بعد مکمل پنشن دی جانی چاہیے۔ (3)کچھ افسروں کے گریڈز سمیت کئی بھرتیوں کا انتخاب براہ راست ان اداروں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ کسی بھی سی اے ایف برانچ / فورس میں ابتدائی بھرتی نہیں ہونی چاہیے۔
پولیس کا حکومت کے ذریعہ سیاسی بنیادوں پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے پولیس اہلکاروں کے لیے ممکن ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق کام کریں۔ بے حسی سلوک کو دیکھیں، کوئی بھی عزت نفس رکھنے والا شخص تھانے نہیں جانا چاہتا ہے۔ کسی خاتون کو شکایت درج کروانے کے لیے کسی تھانے میں جانے کے لیے بھیجنا پریشانی کو دعوت دینا ہے۔ پولیس کا رویہ اور کارکردگی عوام کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے۔ تھانہ شہریوں کے لیے جائے امان کے بجائے عقوبت خانے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اس طرح کے اہلکار یقینی طور پر تھانہ کلچر کو بدل دیں گے۔ احاطے میں 24 گھنٹے عدالتی مجسٹریٹ رہنا ضروری ہے۔ ایسے سنجیدہ ذہن اور بھرپور صلاحیت رکھنے والے مجسٹریٹس کہاں پہنچتے ہیں؟ پولیس میں جانے والے فوج کے افسروں کو تبادلے کے لیے پہلے ہی اسلام آباد میں موجودہ پولیس ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے تحت کم سے کم 06 ماہ کی تربیت حاصل کرنی ہوگی۔ فوج کے جوانوں کو پولیس ٹریننگ مراکز میں یا آرمی کے تحت منظم ہونے والے ایک دو ماہ کی تبدیلی کی تربیت فراہم کرنا ہوگی۔
تھانہ میں مجسٹریٹ / (نچلی عدالتوں میں) ججز اور چوبیس گھنٹے پوری تعداد برقرار رکھنے کے لیے، قانون کی سمجھ بوجھ رکھنے والے ریٹائرڈ آرمی افسران کی تعیناتی مفید ہوگی۔ افسران 'کیپٹن ٹو میجر' پروموشن امتحان پاس کیے بغیر میجر نہیں بن سکتے تھے جس میں بطور مضمون ''ملٹری لاء'' شامل ہوتا ہے، آپ کو فوجی قانون کے نفاذ کے لیے سول قانون کا عملی علم حاصل کرنا پڑتا ہے۔ اضافی تربیت / قانونی تعلیم سے یقینی طور پر بہتر نتائج فراہم ہوں گے اور عدالتوں پر بوجھ کم ہوگا۔ زیر التوا مقدمات کی فہرست کم ہوگی اور حکومت کی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔
ریاست کے لیے فائدہ (1) کمیوٹیشن کی ادائیگی میں تاخیر (ایک بہت بڑا بوجھ) اور تقریباً 15 سال تک بقیہ پنشن میں بہت بڑی رقم کی بچت میں ہے۔ یہ خاص طور پر اس وقت ملک کے لیے ایک بہت بڑا ریلیف ہوگا جب ہم استعمال کیے جانے والے ہر ایک پیسے کی ضرورت ہوگی۔ (2) سی اے ایف ہیڈ کوارٹرز کے تحت سی اے ایف کے تمام شعبوں کے لیے ایک ٹریننگ سینٹر رکھنے سے ظاہر ہے کہ ریاست کو بڑی بچت ہوگی۔(3) ہر وقت سی اے ایف کو تربیت یافتہ / نظم و ضبط / تجربہ کار افرادی قوت کی مسلسل دستیابی ہوگی۔ (4) مسلح افواج کے سابقہ افسران کو مجسٹریٹ / جج / اساتذہ کی حیثیت سے ایڈجسٹ کیا جاسکے گا اور پولیس اسٹیشنوں میں کام کرنے والے مجموعی طور پر مروجہ کلچر کو تبدیل کریں گے جو بالآخر ریاست کے لیے مددگار ثابت ہوگا۔ (5) مجسٹریسی / جونیئر کورٹ کے ججوں میں کمی دور کی جاسکتی ہے۔ (6)خاص طور پر دیہی علاقوں میں اسکول اساتذہ اور انتظامیہ کی کمی ہے۔ این سی اوز، جے سی اوز اور ضروری کورسز اور تربیت کے بعد افسران خاص طور پر اپنے گھر کے قریب ان اسامیوں کو پُر کرسکتے ہیں۔
(جاری ہے)
یہ قربانیاں ہم سے سوال کرتی ہیں کہ کیا ہم نے اپنے تمام وسائل کو جنگ کی تیاری میں اور / یا امن کے لیے ہی، ان کو پوری طرح استعمال کیا ہے؟ جیسا کہ 54 سال قبل ہوا تھا۔ کشمیر کی ابھرتی ہوئی موجودہ صورت حال تیزی سے ہمارے آپشنز محدود کرتی جارہی ہے، شاید ہمارے پاس جنگ کے سوا کوئی راستہ نہ بچے۔ ہم صورت حال کو برقرار رکھنے کی سہل پسندی سے کب نکلیں گے جب کہ ہمارا وجود ہی خطرے سے دوچار ہے؟
جہاں تک معیشت کا تعلق ہے تو پاکستان ایک انتہائی نازک مرحلے سے گزر رہا ہے۔ پستی کے اس سفر کا آغاز زرداری اور پیپلز پارٹی کی حکومت کی 2008 میں آمد سے ہوا اور 2013 میں نواز شریف کے برسر اقتدار آنے کے بعد بھی جوں کا توں جاری رہا۔ معاشی نظام کی ابتری ملکی سلامتی کی ضروریات کو بری طرح متاثر کررہی ہے۔ معیشت اور سلامتی باہمی طورپر وابستہ تصور کرنے کے منفرد تصور سے ہی اس صورتحال کو بہتر بنایا جاسکتا ہے، پاکستان کو روایتی سانچوں اور جمود کو ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ اگرچہ محصولات میں اضافہ لازمی ہے، لیکن ہمیں بچت اور تبدیلیوں کو موثر بنانے کے ہر طریقے پر غور کرنا چاہیے۔
دفاع سے متعلق اخراجات غیر معمولی طور پر بڑھے ہیں۔ اس کی وجہ پنشن اور اس کی منتقلی ہیں۔ آج یہ 250 ارب روپے سے زیادہ ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ شماریاتی مقاصد کے لیے، یہ رقم کس کھاتے میں ڈالی جاتی ہے، اسے وصول خزانے سے ہی کرنا پڑتا ہے۔ ان اخراجات کے مسلسل اضافے سے آنے والی دہائی میں سیکیورٹی کے اخراجات بہت کم ہو جائیں گے، آیندہ ہم اس کو کس طرح برقرار رکھ سکیں گے؟
ہر سال قومی بجٹ کا ایک اہم حصہ ریٹائر ہونے والے اہلکاروں کی ''پنشن کمیوٹیشن'' پر صرف ہوتا ہے۔ پنشن فنڈ کو خودکار طور پر برقرار رکھنے کے لیے اس منصوبے کے حوالے سے علیحدہ اور تفصیلی تحقیق کی ضرورت ہے۔ مسلح افواج کے اہل کار اپنے سویلین ہم منصبوں سے بہت پہلے ریٹائر ہوجاتے ہیں مگر وہ قومی خزانے پر بوجھ بنے بغیر بھی قومی زندگی میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ مسلح افواج کے اہلکاروں کی ابتدائی ریٹائرمنٹ کے 'نتائج' مکمل طور پر متضاد ہیں۔ (1) دوسری 'نوکری'، جو انھیں 'ریٹائرمنٹ کی حقیقی عمر ' تک لے جائے، کی تلاش میں انھیں سڑکوں پر بھیج دینا مجرمانہ فعل ہے۔ 2) صرف ایک سرسری سروے سے ظاہر ہوجائے گا کہ ان میں سے بہت سارے افراد 'کمیوٹیڈ پینشن' کو شادیوں کے انتظامات، نمود و نمائش کی اشیاء کی خریداری اور بے روزگار افراد کی صفوں میں شامل ہونے میں ضایع کردیتے ہیں۔ 3) المیہ یہ ہے کہ ریاست کو ان لوگوں کو 'پنشن کمیوٹیشن' ادا کرنا پڑتی ہے جو اب بھی پیداواری کام کرنے کے اہل ہیں، اس سے بجٹ میں سے بہت زیادہ حصہ نکل جاتا ہے۔ 4) ریاست کی ایک بڑی تربیت یافتہ اور منظم افرادی قوت سے محرومی حماقت ہے۔
دفاعی خدمات کی تربیت رکھنے والی افرادی قوت کا استعمال ریاست کے لیے انتہائی ضروری ہے جس میں جوان اور افسر دونوں شامل ہیں جو بالترتیب 35-45 سال کے درمیان ریٹائر ہوتے ہیں۔ 60 سال کی عمر میں ریٹائر ہونے اور 12 سال کی کمیوٹیشن کے بعد ان کے سویلین ہم منصب 72 سال کی عمر میں مکمل پنشن ملنے کے اہل ہوتے ہیں۔ پنشن اور تبدیلی کا موجودہ نظام سرکاری خزانے اور کم عمری میں ریٹائر ہونے والے دفاعی اہلکاروں، دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ قومی بجٹ میں تقریبا 35-40 سالوں تک ان کے اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ بہت کم عمر میں اچھی تربیت یافتہ افرادی قوت کے ساتھ ایسی ملازمتوں کی تلاش کرتے ہوئے وہ اپنی زندگی کے ایک اہم مرحلے پر کئی مالی پریشانیوں سے گذرتے ہیں۔ چوںکہ اس عمر میں صرف محدود تعداد میں ملازمتیں دستیاب ہوتی ہیں، لہذا یہ انسان کے لیے مایوس کن مشق ہوسکتی ہے۔
کسی بھی بندوبست کو لازمی طور پر ان چیزوں کو ملحوظ رکھنا ہو (1) ریاست کی'کمیوٹڈ پنشن'پر خرچ کی گئی رقم کی بچت (2)اہلکاروں کی پیداواری صلاحیت کا بھرپور استعمال، جن کی تربیت پر اس وسائل صرف کیے ہیں (3)تربیت کے اخراجات کی بچت۔ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور کمیوٹیشن کے اخراجات کو بچانے کے لیے تجویز کیا گیا ہے کہ (1) 35-45 سال کی عمر میں مزید ترقی کا موقع نہ ہونے کے سبب ملازمت کو مکمل کرنے والے افسران اور جوان 60 سال کی عمر تک سول آرمڈ فورسز (سی اے ایف)، پولیس / مجسٹریسی، وزارت قانون و تعلیم (خاص طور پر مشکل علاقوں میں) شامل ہوں۔ سول سروس کے قواعد کے مطابق 60 سال تک کی عمر کے تمام افسران اور دیگر رینکس (جو اس آپشن کو منتخب کرتے ہیں) کو ملازمت کی ضمانت فراہم ہوجاتی ہے۔
کیا آپ معیار میں بہتری کا تصور کرسکتے ہیں جب وہ (1)پاکستان رینجرز (2) پاکستان کوسٹ گارڈز (3)فرنٹیئر کانسٹیبلری کے پی کے (4) فرنٹیئر کور کے پی کے (5)فرنٹیئر کور بلوچستان (6) ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس (7) اینٹی نارکوٹکس فورس اور (8) پولیس میں شامل ہیں جہاں تمام براہ راست بھرتیوں کو روکنا ہوگا، (9) انھیں نچلی عدالتوں کے مجسٹریٹ اور جج کے طور پر بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ ان ریٹائرڈ اہلکاروں کو انتظامیہ، فوجی قانون، سیکیورٹی، تربیت وغیرہ کا پہلے سے ہی کافی علم ہے۔ فوج میں شامل اہلکاروں کو شامل کرنے سے قبل انھیں متعلقہ شعبے میں خصوصی شارٹ کورس / تربیت حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ (2) جو افسر یا جوان اس آپشن کے لیے جانا چاہتے ہیں، انھیں 60 سال کی عمر کے بعد مکمل پنشن دی جانی چاہیے۔ (3)کچھ افسروں کے گریڈز سمیت کئی بھرتیوں کا انتخاب براہ راست ان اداروں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ کسی بھی سی اے ایف برانچ / فورس میں ابتدائی بھرتی نہیں ہونی چاہیے۔
پولیس کا حکومت کے ذریعہ سیاسی بنیادوں پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے پولیس اہلکاروں کے لیے ممکن ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق کام کریں۔ بے حسی سلوک کو دیکھیں، کوئی بھی عزت نفس رکھنے والا شخص تھانے نہیں جانا چاہتا ہے۔ کسی خاتون کو شکایت درج کروانے کے لیے کسی تھانے میں جانے کے لیے بھیجنا پریشانی کو دعوت دینا ہے۔ پولیس کا رویہ اور کارکردگی عوام کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے۔ تھانہ شہریوں کے لیے جائے امان کے بجائے عقوبت خانے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اس طرح کے اہلکار یقینی طور پر تھانہ کلچر کو بدل دیں گے۔ احاطے میں 24 گھنٹے عدالتی مجسٹریٹ رہنا ضروری ہے۔ ایسے سنجیدہ ذہن اور بھرپور صلاحیت رکھنے والے مجسٹریٹس کہاں پہنچتے ہیں؟ پولیس میں جانے والے فوج کے افسروں کو تبادلے کے لیے پہلے ہی اسلام آباد میں موجودہ پولیس ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے تحت کم سے کم 06 ماہ کی تربیت حاصل کرنی ہوگی۔ فوج کے جوانوں کو پولیس ٹریننگ مراکز میں یا آرمی کے تحت منظم ہونے والے ایک دو ماہ کی تبدیلی کی تربیت فراہم کرنا ہوگی۔
تھانہ میں مجسٹریٹ / (نچلی عدالتوں میں) ججز اور چوبیس گھنٹے پوری تعداد برقرار رکھنے کے لیے، قانون کی سمجھ بوجھ رکھنے والے ریٹائرڈ آرمی افسران کی تعیناتی مفید ہوگی۔ افسران 'کیپٹن ٹو میجر' پروموشن امتحان پاس کیے بغیر میجر نہیں بن سکتے تھے جس میں بطور مضمون ''ملٹری لاء'' شامل ہوتا ہے، آپ کو فوجی قانون کے نفاذ کے لیے سول قانون کا عملی علم حاصل کرنا پڑتا ہے۔ اضافی تربیت / قانونی تعلیم سے یقینی طور پر بہتر نتائج فراہم ہوں گے اور عدالتوں پر بوجھ کم ہوگا۔ زیر التوا مقدمات کی فہرست کم ہوگی اور حکومت کی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔
ریاست کے لیے فائدہ (1) کمیوٹیشن کی ادائیگی میں تاخیر (ایک بہت بڑا بوجھ) اور تقریباً 15 سال تک بقیہ پنشن میں بہت بڑی رقم کی بچت میں ہے۔ یہ خاص طور پر اس وقت ملک کے لیے ایک بہت بڑا ریلیف ہوگا جب ہم استعمال کیے جانے والے ہر ایک پیسے کی ضرورت ہوگی۔ (2) سی اے ایف ہیڈ کوارٹرز کے تحت سی اے ایف کے تمام شعبوں کے لیے ایک ٹریننگ سینٹر رکھنے سے ظاہر ہے کہ ریاست کو بڑی بچت ہوگی۔(3) ہر وقت سی اے ایف کو تربیت یافتہ / نظم و ضبط / تجربہ کار افرادی قوت کی مسلسل دستیابی ہوگی۔ (4) مسلح افواج کے سابقہ افسران کو مجسٹریٹ / جج / اساتذہ کی حیثیت سے ایڈجسٹ کیا جاسکے گا اور پولیس اسٹیشنوں میں کام کرنے والے مجموعی طور پر مروجہ کلچر کو تبدیل کریں گے جو بالآخر ریاست کے لیے مددگار ثابت ہوگا۔ (5) مجسٹریسی / جونیئر کورٹ کے ججوں میں کمی دور کی جاسکتی ہے۔ (6)خاص طور پر دیہی علاقوں میں اسکول اساتذہ اور انتظامیہ کی کمی ہے۔ این سی اوز، جے سی اوز اور ضروری کورسز اور تربیت کے بعد افسران خاص طور پر اپنے گھر کے قریب ان اسامیوں کو پُر کرسکتے ہیں۔
(جاری ہے)