حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
کون نہیں جانتا کہ شہریوں کے لیے زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی ریاست کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ پاکستان اس وقت جتنے بھی بحرانوں کا شکار ہے، ان سب نے '' کردار'' کے بحران کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور ہم بطور قوم کردارکے بحران میں ہی مبتلا ہیں۔ 72 سال کے اس قومی سفر میں ہمارے ارباب اختیار یا ارباب اقتدارکسی بھی شعبہ حیات کے نظام اور اس کی تربیت درست طریقے پر نہ کرسکے۔
تعلیم کے سب سے اہم جز تربیت پر بھی کبھی کسی نے توجہ مبذول نہیں کی۔ جب ہمارا خاندانی نظام مضبوط و مربوط تھا تو تربیت کا فریضہ خاندان سر انجام دے رہا تھا ، بچے گھروں میں موجود رول ماڈلز سے سیکھتے، ہر تعلیمی ادارے میں کوئی نہ کوئی ایسا استاد ضرور موجود ہوتا تھا جو اپنے کرداروعمل کی روشنی سے بچوں کے دل و دماغ کو منورکرتا تھا مگرگزشتہ چار دہائیوں سے تربیت کا بنیادی ادارہ خاندان بھی زوال کا شکار چلا آرہا ہے۔
جب سے میڈیا نے خواہشوں کو ضرورت بنا دیا تب سے قناعت معاشرے سے رخصت ہی ہوگئی اور معیار زندگی مقصد حیات بن گیا اور اب ہرکوئی اس دوڑ میں شامل ہوگیا ہے اور سچائی، فرض، امانت، دیانت، عدل وانصاف سب کے سبھی رخصت ہوگئے۔ اسی لیے لوگ امیر سے امیر ہو رہے ہیں جب کہ ملک کی غربت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور عالم اب یہ ہے کہ پاکستان ایشیا میں دوسرا اور دنیا میں سولہواں مہنگا ترین ملک بن گیا ہے۔
کون نہیں جانتا کہ شہریوں کے لیے زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی ریاست کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔امن وامان کے قیام ، قانون وانصاف کی بالادستی ، روزگار ، رہائش اور تعلیم کے علاوہ علاج معالجہ بھی ان بنیادی امور میں شامل ہے۔ ایک صحت مند قوم ہی ملک کی ترقی کی ضامن ہوسکتی ہے اور اس ہدف کا حصول عوام کو معیاری طبی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن یہ آج تک کسی سربراہ نے اپنے کرداروعمل سے نہ ثابت کیا اور نہ ایسا کچھ کرکے دکھایا۔
بھٹو نے 40 برسوں میں کچھ نہ کیا، 38 برسوں میں نوازشریف بھی اپنے کردار و عمل سے عوام اور ملک کو کچھ نہ دے سکے۔ بے نظیر سے شادی سے پہلے کچھ نہ ہونے سے سبھی کچھ ہوجانے والے زرداری نے اپنی تین حکومتیں گزاریں اور ان کی پارٹی 11 سال سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے۔ بھٹوکے قبر میں جانے اور زرداری کے اندر ہوجانے کے باوجود بھٹو والوں اور ان کی پیپلز پارٹی نے کچھ نہیں سیکھا۔ سندھ حکومت کی کرپشن اور بد عنوانیوں کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ محکمہ صحت میں 37 لوگوں کی ضرورت تھی لیکن 307 لوگوںکو نوکری بیچی گئی اور اس کا انکشاف جسٹس گلزار نے کیا۔ پچھلے اگلے سبھی حکمرانوں نے ملک اپنی خالہ ، اپنے باپ کی جاگیر سمجھ کر خوب خوب اس کے خزانے کو صاف کیا۔
مڈل کلاس ''مظلوموں کے ساتھی'' کی بنائی ہوئی جماعت اربوں کھربوں ٹھکانے لگا گئی۔ 30 سال اسی تحریک اسی جماعت نے کراچی پر راج کیا، ان کی نسلیں سنورگئیں، ویٹر ہوٹلوں بلکہ امریکا (شکاگو) کے مالک بن گئے، چپڑاسی، معمولی کلرک، مزدور بزنس ٹائیکون ہو گئے، جنکے پاس گھر نہ گھاٹ وہ بنگلوں اور محلوں کے مکین ہوگئے، لیکن اہل کراچی کوکراچی کے بھائیوں نے خون میں نہلا کر یتیم و بے آسرا کرکے اس شہرکو تباہ کردیا، رہی سہی کسر عوام کی بہتری کے نام لیواؤں نے پوری کردی۔
نئے پاکستان اور وطن عزیز میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ فوری انصاف کے دعوے دار ہمارے وزیر اعظم عمران خان کی نئی حکومت کو بھی ایک سال ہوگیا۔ اس ایک سال میں '' تحریک انصاف '' کی حکمرانی یا حکومت نے کیا کارکردگی دکھائی اور وہ کہاں کھڑی ہے اور عوام کہاں سے کہاں پہنچ گئے اس کردار سازی اس حکمت عملی کو تنقیدی نظروں سے جانچا گیا یا نہیں یہ بھی ہمیں نہیں معلوم۔ ہاں یہ پتا ضرور ہے کہ قوم کی تقدیر بدلنے کے لیے چار سال ان کے پاس ہیں، لیکن کیا ہمارے وزیر اعظم بتا سکتے ہیں کہ ان چار سالوں میں ایک عام آدمی بجلی،گیس کا بل دینے کے قابل ہوگا ، پینے کے پانی کے بغیرکیا وہ اتنے برس زندہ رہ سکے گا، کم تنخواہ یا بے روزگاری میں وہ اتنے سال کیسے گزارے گا؟
اگر ہماری نئی حکومت کو 30 ہزار ارب کا قرضہ اتارنا ہے تو اس کی وصولی ''عام آدمی'' سے کیوں کی جا رہی ہے؟ اس نے تو عمران خان کو مینڈیٹ دیا تھا، دوسروں (چوروں اور ڈاکوؤں) سے وصول کرنے کا لیکن قومی خزانہ لوٹنے کھانے اور اسے دوسرے ملکوں میں محفوظ کرنے والوں کو نمائشی سزا (اندرکرنے والی) دی جا رہی ہے، انھیں ان کے خاندانوں کو ساری سہولتیں ساری نعمتیں اسی طرح میسر ہیں۔ سارے مشکل اور سخت فیصلے اور اقدامات عوام کے لیے ہی کیوں کیے جا رہے ہیں؟ ہمارے وزیر اعظم ذرا اپنے گھر اور اپنے وزارت عظمیٰ کے پر شکوہ آفس سے باہر جھانکیں، دواؤں، روٹی، پیٹرول، گیس، بجلی اور عام کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں ہی معلوم کرلیں۔
ریاست مدینہ کی باتیں کرتے نہ تھکتے ہمارے وزیر اعظم کبھی خاموشی سے کسی مضافاتی علاقے میں جائیں اور دیکھیں کہ کتنے گھروں کے چولہے جل رہے ہیں اورکس طرح ایک عام یا بے نوا پاکستانی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اپنے اخراجات کو پورا کرتا ہے، ان کی جماعت کے صدر، وزیر قانون، وزیر داخلہ ، وزرائے اعلیٰ، وزیر خزانہ اور سب سے بڑھ کر معیشت کی بجٹ سازی کے ذمے داروں سے کہیں کہ وہ کم سے کم تنخواہ پانے والے کا بجٹ بھی بنا دیں، کیونکہ اب مہنگائی کے سونامی کے آگے عام آدمی کے پاس سستا اور آسان ترین علاج موت ہی رہ گیا ہے۔
عمران خان کی حکومت نے صرف ایک سال میں حد درجہ مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھرمارکرکے عوام کا بھرکس نکال دیا، ڈالر آسمانوں پر اور کاروباری طبقہ زمین بوس ہوچکا ہے۔ تمام دعوے، وعدے اور نعرے خواب و خیال ہوگئے۔ اگر ان کی ٹیم صائب ہوتی ، جزا، سزا کا نظام ہوتا ،گدھے گھوڑے میں تمیز ہوتی ، سب سے بڑھ کر زبانوں کا کام دماغوں سے لیا جاتا تو صورتحال بہت بہتر ہوتی ، لیکن چونکہ یہ نہ ہوا، لہٰذا وہ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔
سبھی کو علم ہے کہ اچھا کپتان اکیلا میچ نہیں جیت سکتا ، اسے اچھے بلے باز ، اچھی گیندیں کرانے والے، اچھے وکٹ کیپر اور اچھے فیلڈر دستیاب نہ ہوں تو بات نہیں بنتی۔ لہٰذا پہلے اچھا منیجر تلاش کیا جائے اسے ٹیم بنانے کا ٹاسک دیا جائے تبھی کپتان میچ جیت سکے گا۔
1996ء میں جب عمران خان سیاست میں آئے تو انھیں '' بارہواں کھلاڑی '' تصورکیا جاتا تھا، آج وہ اس ملک کے کپتان منتخب کیے جاچکے ہیں اور اپنے تمام تر مخالفین کو جیل میں ڈال کر خود ہی کھیل رہے ہیں، لہٰذا اب ان کے پاس نہ وقت ہے اور نہ غلطی کی گنجائش۔ انھیں یہ بات بھی مد نظر رکھنی ہوگی کہ زندگی کبھی کبھی ایسے موڑ پر لا کھڑا کرتی ہے جہاں سے واپسی کا راستہ نہیں ملتا بلکہ ہر راستہ ایک نئی منزل کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس صورت میں نئے راستے کا انتخاب اور ثابت قدمی کا فیصلہ بڑا کٹھن ہوتا ہے۔
تعلیم کے سب سے اہم جز تربیت پر بھی کبھی کسی نے توجہ مبذول نہیں کی۔ جب ہمارا خاندانی نظام مضبوط و مربوط تھا تو تربیت کا فریضہ خاندان سر انجام دے رہا تھا ، بچے گھروں میں موجود رول ماڈلز سے سیکھتے، ہر تعلیمی ادارے میں کوئی نہ کوئی ایسا استاد ضرور موجود ہوتا تھا جو اپنے کرداروعمل کی روشنی سے بچوں کے دل و دماغ کو منورکرتا تھا مگرگزشتہ چار دہائیوں سے تربیت کا بنیادی ادارہ خاندان بھی زوال کا شکار چلا آرہا ہے۔
جب سے میڈیا نے خواہشوں کو ضرورت بنا دیا تب سے قناعت معاشرے سے رخصت ہی ہوگئی اور معیار زندگی مقصد حیات بن گیا اور اب ہرکوئی اس دوڑ میں شامل ہوگیا ہے اور سچائی، فرض، امانت، دیانت، عدل وانصاف سب کے سبھی رخصت ہوگئے۔ اسی لیے لوگ امیر سے امیر ہو رہے ہیں جب کہ ملک کی غربت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور عالم اب یہ ہے کہ پاکستان ایشیا میں دوسرا اور دنیا میں سولہواں مہنگا ترین ملک بن گیا ہے۔
کون نہیں جانتا کہ شہریوں کے لیے زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی ریاست کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔امن وامان کے قیام ، قانون وانصاف کی بالادستی ، روزگار ، رہائش اور تعلیم کے علاوہ علاج معالجہ بھی ان بنیادی امور میں شامل ہے۔ ایک صحت مند قوم ہی ملک کی ترقی کی ضامن ہوسکتی ہے اور اس ہدف کا حصول عوام کو معیاری طبی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن یہ آج تک کسی سربراہ نے اپنے کرداروعمل سے نہ ثابت کیا اور نہ ایسا کچھ کرکے دکھایا۔
بھٹو نے 40 برسوں میں کچھ نہ کیا، 38 برسوں میں نوازشریف بھی اپنے کردار و عمل سے عوام اور ملک کو کچھ نہ دے سکے۔ بے نظیر سے شادی سے پہلے کچھ نہ ہونے سے سبھی کچھ ہوجانے والے زرداری نے اپنی تین حکومتیں گزاریں اور ان کی پارٹی 11 سال سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے۔ بھٹوکے قبر میں جانے اور زرداری کے اندر ہوجانے کے باوجود بھٹو والوں اور ان کی پیپلز پارٹی نے کچھ نہیں سیکھا۔ سندھ حکومت کی کرپشن اور بد عنوانیوں کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ محکمہ صحت میں 37 لوگوں کی ضرورت تھی لیکن 307 لوگوںکو نوکری بیچی گئی اور اس کا انکشاف جسٹس گلزار نے کیا۔ پچھلے اگلے سبھی حکمرانوں نے ملک اپنی خالہ ، اپنے باپ کی جاگیر سمجھ کر خوب خوب اس کے خزانے کو صاف کیا۔
مڈل کلاس ''مظلوموں کے ساتھی'' کی بنائی ہوئی جماعت اربوں کھربوں ٹھکانے لگا گئی۔ 30 سال اسی تحریک اسی جماعت نے کراچی پر راج کیا، ان کی نسلیں سنورگئیں، ویٹر ہوٹلوں بلکہ امریکا (شکاگو) کے مالک بن گئے، چپڑاسی، معمولی کلرک، مزدور بزنس ٹائیکون ہو گئے، جنکے پاس گھر نہ گھاٹ وہ بنگلوں اور محلوں کے مکین ہوگئے، لیکن اہل کراچی کوکراچی کے بھائیوں نے خون میں نہلا کر یتیم و بے آسرا کرکے اس شہرکو تباہ کردیا، رہی سہی کسر عوام کی بہتری کے نام لیواؤں نے پوری کردی۔
نئے پاکستان اور وطن عزیز میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ فوری انصاف کے دعوے دار ہمارے وزیر اعظم عمران خان کی نئی حکومت کو بھی ایک سال ہوگیا۔ اس ایک سال میں '' تحریک انصاف '' کی حکمرانی یا حکومت نے کیا کارکردگی دکھائی اور وہ کہاں کھڑی ہے اور عوام کہاں سے کہاں پہنچ گئے اس کردار سازی اس حکمت عملی کو تنقیدی نظروں سے جانچا گیا یا نہیں یہ بھی ہمیں نہیں معلوم۔ ہاں یہ پتا ضرور ہے کہ قوم کی تقدیر بدلنے کے لیے چار سال ان کے پاس ہیں، لیکن کیا ہمارے وزیر اعظم بتا سکتے ہیں کہ ان چار سالوں میں ایک عام آدمی بجلی،گیس کا بل دینے کے قابل ہوگا ، پینے کے پانی کے بغیرکیا وہ اتنے برس زندہ رہ سکے گا، کم تنخواہ یا بے روزگاری میں وہ اتنے سال کیسے گزارے گا؟
اگر ہماری نئی حکومت کو 30 ہزار ارب کا قرضہ اتارنا ہے تو اس کی وصولی ''عام آدمی'' سے کیوں کی جا رہی ہے؟ اس نے تو عمران خان کو مینڈیٹ دیا تھا، دوسروں (چوروں اور ڈاکوؤں) سے وصول کرنے کا لیکن قومی خزانہ لوٹنے کھانے اور اسے دوسرے ملکوں میں محفوظ کرنے والوں کو نمائشی سزا (اندرکرنے والی) دی جا رہی ہے، انھیں ان کے خاندانوں کو ساری سہولتیں ساری نعمتیں اسی طرح میسر ہیں۔ سارے مشکل اور سخت فیصلے اور اقدامات عوام کے لیے ہی کیوں کیے جا رہے ہیں؟ ہمارے وزیر اعظم ذرا اپنے گھر اور اپنے وزارت عظمیٰ کے پر شکوہ آفس سے باہر جھانکیں، دواؤں، روٹی، پیٹرول، گیس، بجلی اور عام کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں ہی معلوم کرلیں۔
ریاست مدینہ کی باتیں کرتے نہ تھکتے ہمارے وزیر اعظم کبھی خاموشی سے کسی مضافاتی علاقے میں جائیں اور دیکھیں کہ کتنے گھروں کے چولہے جل رہے ہیں اورکس طرح ایک عام یا بے نوا پاکستانی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اپنے اخراجات کو پورا کرتا ہے، ان کی جماعت کے صدر، وزیر قانون، وزیر داخلہ ، وزرائے اعلیٰ، وزیر خزانہ اور سب سے بڑھ کر معیشت کی بجٹ سازی کے ذمے داروں سے کہیں کہ وہ کم سے کم تنخواہ پانے والے کا بجٹ بھی بنا دیں، کیونکہ اب مہنگائی کے سونامی کے آگے عام آدمی کے پاس سستا اور آسان ترین علاج موت ہی رہ گیا ہے۔
عمران خان کی حکومت نے صرف ایک سال میں حد درجہ مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھرمارکرکے عوام کا بھرکس نکال دیا، ڈالر آسمانوں پر اور کاروباری طبقہ زمین بوس ہوچکا ہے۔ تمام دعوے، وعدے اور نعرے خواب و خیال ہوگئے۔ اگر ان کی ٹیم صائب ہوتی ، جزا، سزا کا نظام ہوتا ،گدھے گھوڑے میں تمیز ہوتی ، سب سے بڑھ کر زبانوں کا کام دماغوں سے لیا جاتا تو صورتحال بہت بہتر ہوتی ، لیکن چونکہ یہ نہ ہوا، لہٰذا وہ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔
سبھی کو علم ہے کہ اچھا کپتان اکیلا میچ نہیں جیت سکتا ، اسے اچھے بلے باز ، اچھی گیندیں کرانے والے، اچھے وکٹ کیپر اور اچھے فیلڈر دستیاب نہ ہوں تو بات نہیں بنتی۔ لہٰذا پہلے اچھا منیجر تلاش کیا جائے اسے ٹیم بنانے کا ٹاسک دیا جائے تبھی کپتان میچ جیت سکے گا۔
1996ء میں جب عمران خان سیاست میں آئے تو انھیں '' بارہواں کھلاڑی '' تصورکیا جاتا تھا، آج وہ اس ملک کے کپتان منتخب کیے جاچکے ہیں اور اپنے تمام تر مخالفین کو جیل میں ڈال کر خود ہی کھیل رہے ہیں، لہٰذا اب ان کے پاس نہ وقت ہے اور نہ غلطی کی گنجائش۔ انھیں یہ بات بھی مد نظر رکھنی ہوگی کہ زندگی کبھی کبھی ایسے موڑ پر لا کھڑا کرتی ہے جہاں سے واپسی کا راستہ نہیں ملتا بلکہ ہر راستہ ایک نئی منزل کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس صورت میں نئے راستے کا انتخاب اور ثابت قدمی کا فیصلہ بڑا کٹھن ہوتا ہے۔