زندہ اور مہذب معاشرے کی پہچان
ابھی تو معصوم کی بدنصیبی کا ماتم جاری تھا کہ ایک اور عذاب پشاور میں ہمارے عیسائی بہن بھائیوں پہ نازل ہوا...
ابھی تو معصوم کی بدنصیبی کا ماتم جاری تھا کہ ایک اور عذاب پشاور میں ہمارے عیسائی بہن بھائیوں پہ نازل ہوا۔ اس سانحے اور اس جیسے ہونے والے دیگر سانحوں پر (جو بعض قوتوں کے کلیجوں میں ٹھنڈک ڈالتے ہیں) میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ نہ یہاں ہندو محفوظ ہیں نہ عیسائی نہ ہی دوسرے مذاہب کے ماننے والے کیونکہ موت کے سوداگروں نے غیرمسلموں پہ زندگی اجیرن کر دی ہے۔ یہ بھیڑیے کبھی مزاروں کو نشانہ بناتے ہیں، کبھی مسجدوں کو اور کبھی گرجوں اور مندروں کو۔ افسوسناک وقت جو پاکستان پہ گزر رہا ہے۔ آج جہادی، انتہاپسند اور دہشت گردوں کے سرپرستوں کو میڈیا پر اس طرح دکھایا جاتا ہے جیسے وہی امت مسلمہ کے پالن ہار ہوں۔ جو لوگ مدرسوں میں دہشت گردوں کی کھیپ تیار کر رہے ہیں۔ ان کا ماہانہ خرچہ خود ان کے بیان کے مطابق 25 سے 30 لاکھ ہے جب کہ آمدنی کے ذرائع بظاہر کچھ نہیں۔ ''دوست مدد کرتے ہیں''۔ ہم سب جانتے ہیں یہ ''دوست'' کون ہیں اور یہ دوست ممالک جو ہر ماہ کروڑوں کی رقوم ان مدرسوں اور دیگر اداروں کو دے رہے ہیں اس کے پیچھے دراصل ان کے مقاصد کیا ہیں۔
خیر سے یہ تباہ کن سوچ بھی ضیاء الحق کی دین ہے اور وہ سوچ یہ ہے کہ ''مسلمان سب سے افضل ہیں اور جو ایک خدا اور ایک رسول پہ یقین نہیں رکھتا وہ کافر ہے''۔ بعض تنگ نظر اور متعصب مذہبی علماء اس حد تک آگے چلے گئے کہ انھوں نے غیر مسلموں کے ساتھ کھانا پینا بھی حرام قرار دے دیا۔ ضیاء الحق سے پہلے عام تعلیمی نصاب میں اسکولوں کی سطح پر چاروں پیغمبروں کے بارے میں باقاعدہ مضامین ہوتے تھے۔ زبور، انجیل اور توریت کن کن پر نازل ہوئی۔ ان کو ماننے والی قومیں کیا کہلاتی ہیں۔ من و سلویٰ کس قوم پر اترا تھا؟ کون سے پیغمبر ابن مریم کہلاتے تھے، مردوں کو زندہ اور نابیناؤں کو بصارت عطا کرتے تھے، انھیں زمین سے آسمان پر کیوں اٹھا لیا گیا تھا۔ حضرت موسیٰ کی گمشدہ بھیڑیں کون ہیں۔ کلیم اللہ کون سے پیغمبر کہلاتے ہیںلیکن آہستہ آہستہ ایک مذہبی دہشت گرد مافیا نے سب کچھ ایک ایجنڈے کے تحت غائب کروا دیا۔ ہم جب اسکول میں تھے تو اچھی طرح یاد ہے کہ اسلامیات کی کتابوں میں ان چاروں پیغمبروں کے علاوہ جن پر الہامی کتب نازل ہوئیں۔ دیگر کا ذکر بھی تفصیل سے ملتا تھا۔
اس کے علاوہ معاشرتی علوم، اردو اور تاریخ کی کتابوں میں پوری دنیا کی ہسٹری ملتی تھی۔ جہاں تک برصغیر پاک و ہند کا تعلق تھا تو وہ صرف مسلم فرمانرواؤں تک محدود نہیں تھی۔ ہم نے اشوک دی گریٹ، چندرگپت موریہ، رانا سانگا اور راجپوت راجاؤں کی تاریخ اور کارنامے بھی پڑھے ہیں۔ ہمارے نامور مورخین نے انھیں ہمیشہ اچھے لفظوں میں یاد کیا ہے لیکن 1980ء کے بعد باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت من پسند تاریخ لکھوائی گئی جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اور تو اور تاریخ کے اسباق اور ادب سے 1971ء کی جنگ کا باب خارج کر دیا گیا کیونکہ وہ بدنامی کا باعث تھا۔ آج نئی نسل اس تاریخ اور 1971ء کی جنگ سے قطعی لاعلم ہے۔ بیشتر طالب علم یہ جانتے ہی نہیں کہ بنگلہ دیش سابقہ مشرقی پاکستان تھا۔ کیونکہ ہماری قوم اور نام نہاد قومی سلامتی کے ادارے اور سرحدوں کے محافظ جو اب ایک باقاعدہ کاروباری گروپ بن چکے ہیں، شکست کی کہانیاں بھلا دینا چاہتے ہیں۔
جب 14 اگست کو پاکستان کی 66 سالہ سالگرہ ''جوش و خروش'' سے منائی جا رہی تھی وہ تو 1971ء میں ختم ہو گیا۔ لہٰذا باقی ماندہ پاکستان جو ''ادھر تم ادھر ہم'' کا نتیجہ ہے اس کی تو 42 ویں سالگرہ ہونی چاہیے تھی کیونکہ یہی حقیقت ہے۔ زندہ اور مہذب معاشرے ہر ایک کو زندہ رہنے کا حق دیتے ہیں۔ وہ کسی سے نفرت نہیں کرتے۔ نفرت وہ لوگ کرتے ہیں جنھوں نے نفرتوں میں پرورش پائی ہو یا پھر ان کی تربیت میں کوئی نقص ہو۔ ہمارے کان جن آوازوں سے آشنا ہوئے اس میں اولین بات امن اور محبت کی تھی۔ ہم نے اپنے گھر اپنے اسکول اور کالج میں یہی ماحول دیکھا اور سنا کہ دنیا کے تمام مذاہب قابل احترام ہیں۔ پانی کو کسی بھی برتن میں جمالو، رہے گا وہ پانی ہی۔ میں نے کئی بار اس حقیقت کا اعتراف اپنے کالموں، سفرناموں، افسانوں اور ناولٹ میں کیا ہے کہ میرے والدین کا کہنا تھا کہ ہم سب کی زندگیاں اﷲ کے بعد الٰہ آباد کے ایک ہندو بنگالی باسو بابو اور ان کے خاندان کی مرہون منت ہیں۔
امن و آشتی کے پروردہ لوگ ہی دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کی عزت کرتے ہیں۔ اسلام تو خود تمام پیغمبران دین کا احترام کرتا ہے۔ لیکن جو لوگ گرجا گھروں اور مندروں کو نشانہ بناتے ہیں اور بنا رہے ہیں وہ دراصل بچھو ہیں جو صرف ڈنک مارنا ہی جانتا ہے۔ کیونکہ ڈنک مارنا اس کی جبلت اور فطرت میں شامل ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان بچھوؤں کی پرورش کہاں اور کن اداروں میں ہوتی ہے؟ جب بچھوؤں اور زہریلے سانپوں کو دوسروں سے ڈسوانے کے لیے آپ خود پالیں گے تو یہ مت بھولیے کہ کسی نہ کسی وقت وہ آپ کو بھی ڈسیں گے۔ جو خطرناک اور جان لیوا رویہ پاکستان میں غیر مسلموں خصوصاً ہندوؤں اور عیسائیوں کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے اگر اس کے جواب میں بھارت، امریکا اور کینیڈا مسلمانوں کے ساتھ وہی رویہ اختیار کریں تو کیا ہو گا؟
ہمارے سیاستدانوں کو، کرائے پر بلوائے گئے نام نہاد جنگجوئوں کو جب میڈیا پہ بٹھا کر کہلوایا جاتا ہے کہ ان کے کانوں میں کشمیری مسلمانوں کی چیخیں گونجتی ہیں۔ بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کی کسمپرسی انھیں خون کے آنسو رلاتی ہے۔ چیچنیا اور بوسنیا کے مسلمانوں کی زبوں حالی پہ وہ بلکتے ہیں۔ تو میں سوچتی ہوں کہ کشمیری مسلمانوں کی چیخوں کے ساتھ ساتھ انھیں ان کشمیری پنڈتوں کی چیخیں کیوں نہ سنائی دیں، ان کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو کیوں نہ دکھائی دیے۔ جو صدیوں سے وہاں آباد چین سے رہ رہے تھے۔ جنھیں دہشت گردی اور نفرتوں کے ذریعے اپنے پرکھوں کی سرزمین چھوڑنے پہ مجبور کیا گیا؟ جب بابری مسجد کا انہدام ہوا اور اس کے نتیجے میں پاکستان کے مختلف شہروں ہندوؤں کے مندر جلائے گئے۔ بے گناہ ہندوؤں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تو ان کی آنکھوں سے آنسو کیوں نہ نکلے۔ انھوں نے انسانیت کے نام پر ان بے گناہ ہندو بچوں کو کیوں نہ بچایا جنھیں دہشت گردوں نے قتل کر دیا تھا۔ مساجد تو امن و شانتی کا گھر ہیں اور دین اسلام کے پیروکار جانتے ہیں کہ ''انسان زیادہ اہم ہے'' کیونکہ یہ براہ راست خالق کائنات کی تخلیق ہے۔ مسجد دوبارہ تعمیر ہو سکتی ہے لیکن انسان دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتا۔
ہمارے سر مسلسل شرم سے جھکتے چلے جا رہے ہیں۔ ہم غیر مسلموں کو ''اقلیت'' کہتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ وہ بھی برابر کے پاکستانی ہیں۔ مجھے تو اس سے بھی اختلاف ہے کہ غیر مسلم نمائندے صرف اپنے ہم مذہبوں کے ووٹوں کے حقدار ہوں گے۔ انھیں کیوں نہیں قومی دھارے میں شامل کیا جاتا۔ بھارت میں نائب صدر اور وزیر خارجہ مسلمان ہیں۔ لیکن کیا پاکستان میں ایسا ہے؟ برسوں پہلے ایک وزیر ہوا کرتے تھے کامنی کمار دتہ۔ لیکن اس کے بعد خانہ خالی ہے۔ جس طرح انتہا پسندوں، دہشت گردوں اور بچھوؤں کی نسل کی آبیاری افغان جہاد کے بعد کی گئی ہے۔ اور جو کچھ اس کے نتائج سامنے آ رہے ہیں کیا وہ کسی مہذب ملک کا عکس ہو سکتے ہیں؟ جہاں یہ جاہلانہ سوچ پروان چڑھ رہی ہو کہ ہم سب سے افضل ہیں، کیونکہ ہمارے پاس ایمان کی دولت ہے۔
وہاں کا منظرنامہ صرف ہلاکتیں دکھاتا ہے۔ دواؤں میں ملاوٹ، دودھ، دہی میں ملاوٹ، گی تیل میں ملاوٹ، ننھی ننھی بچیوں کے ساتھ گینگ ریپ ، اور حکمراں آنکھوں پہ پٹی باندھے میوزیکل چیئر اور فرینڈلی اپوزیشن کے مزے لیتے رہیں۔ بادشاہ گر طاغوتی قوتوں کو اپنے استحکام کے لیے استعمال کرتے رہیں اور نام نہاد حکمراں منہ میں اقتدار کا لالی پاپ لیے پانچ سال تک چوستے رہیں۔ دھماکے ہوتے رہیں، لوگ مرتے رہیں، پاکستان ہندوؤں اور عیسائیوں کے لیے جہنم بن چکا ہے اور جہنم کے ٹھیکیدار جنت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
خیر سے یہ تباہ کن سوچ بھی ضیاء الحق کی دین ہے اور وہ سوچ یہ ہے کہ ''مسلمان سب سے افضل ہیں اور جو ایک خدا اور ایک رسول پہ یقین نہیں رکھتا وہ کافر ہے''۔ بعض تنگ نظر اور متعصب مذہبی علماء اس حد تک آگے چلے گئے کہ انھوں نے غیر مسلموں کے ساتھ کھانا پینا بھی حرام قرار دے دیا۔ ضیاء الحق سے پہلے عام تعلیمی نصاب میں اسکولوں کی سطح پر چاروں پیغمبروں کے بارے میں باقاعدہ مضامین ہوتے تھے۔ زبور، انجیل اور توریت کن کن پر نازل ہوئی۔ ان کو ماننے والی قومیں کیا کہلاتی ہیں۔ من و سلویٰ کس قوم پر اترا تھا؟ کون سے پیغمبر ابن مریم کہلاتے تھے، مردوں کو زندہ اور نابیناؤں کو بصارت عطا کرتے تھے، انھیں زمین سے آسمان پر کیوں اٹھا لیا گیا تھا۔ حضرت موسیٰ کی گمشدہ بھیڑیں کون ہیں۔ کلیم اللہ کون سے پیغمبر کہلاتے ہیںلیکن آہستہ آہستہ ایک مذہبی دہشت گرد مافیا نے سب کچھ ایک ایجنڈے کے تحت غائب کروا دیا۔ ہم جب اسکول میں تھے تو اچھی طرح یاد ہے کہ اسلامیات کی کتابوں میں ان چاروں پیغمبروں کے علاوہ جن پر الہامی کتب نازل ہوئیں۔ دیگر کا ذکر بھی تفصیل سے ملتا تھا۔
اس کے علاوہ معاشرتی علوم، اردو اور تاریخ کی کتابوں میں پوری دنیا کی ہسٹری ملتی تھی۔ جہاں تک برصغیر پاک و ہند کا تعلق تھا تو وہ صرف مسلم فرمانرواؤں تک محدود نہیں تھی۔ ہم نے اشوک دی گریٹ، چندرگپت موریہ، رانا سانگا اور راجپوت راجاؤں کی تاریخ اور کارنامے بھی پڑھے ہیں۔ ہمارے نامور مورخین نے انھیں ہمیشہ اچھے لفظوں میں یاد کیا ہے لیکن 1980ء کے بعد باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت من پسند تاریخ لکھوائی گئی جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اور تو اور تاریخ کے اسباق اور ادب سے 1971ء کی جنگ کا باب خارج کر دیا گیا کیونکہ وہ بدنامی کا باعث تھا۔ آج نئی نسل اس تاریخ اور 1971ء کی جنگ سے قطعی لاعلم ہے۔ بیشتر طالب علم یہ جانتے ہی نہیں کہ بنگلہ دیش سابقہ مشرقی پاکستان تھا۔ کیونکہ ہماری قوم اور نام نہاد قومی سلامتی کے ادارے اور سرحدوں کے محافظ جو اب ایک باقاعدہ کاروباری گروپ بن چکے ہیں، شکست کی کہانیاں بھلا دینا چاہتے ہیں۔
جب 14 اگست کو پاکستان کی 66 سالہ سالگرہ ''جوش و خروش'' سے منائی جا رہی تھی وہ تو 1971ء میں ختم ہو گیا۔ لہٰذا باقی ماندہ پاکستان جو ''ادھر تم ادھر ہم'' کا نتیجہ ہے اس کی تو 42 ویں سالگرہ ہونی چاہیے تھی کیونکہ یہی حقیقت ہے۔ زندہ اور مہذب معاشرے ہر ایک کو زندہ رہنے کا حق دیتے ہیں۔ وہ کسی سے نفرت نہیں کرتے۔ نفرت وہ لوگ کرتے ہیں جنھوں نے نفرتوں میں پرورش پائی ہو یا پھر ان کی تربیت میں کوئی نقص ہو۔ ہمارے کان جن آوازوں سے آشنا ہوئے اس میں اولین بات امن اور محبت کی تھی۔ ہم نے اپنے گھر اپنے اسکول اور کالج میں یہی ماحول دیکھا اور سنا کہ دنیا کے تمام مذاہب قابل احترام ہیں۔ پانی کو کسی بھی برتن میں جمالو، رہے گا وہ پانی ہی۔ میں نے کئی بار اس حقیقت کا اعتراف اپنے کالموں، سفرناموں، افسانوں اور ناولٹ میں کیا ہے کہ میرے والدین کا کہنا تھا کہ ہم سب کی زندگیاں اﷲ کے بعد الٰہ آباد کے ایک ہندو بنگالی باسو بابو اور ان کے خاندان کی مرہون منت ہیں۔
امن و آشتی کے پروردہ لوگ ہی دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کی عزت کرتے ہیں۔ اسلام تو خود تمام پیغمبران دین کا احترام کرتا ہے۔ لیکن جو لوگ گرجا گھروں اور مندروں کو نشانہ بناتے ہیں اور بنا رہے ہیں وہ دراصل بچھو ہیں جو صرف ڈنک مارنا ہی جانتا ہے۔ کیونکہ ڈنک مارنا اس کی جبلت اور فطرت میں شامل ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان بچھوؤں کی پرورش کہاں اور کن اداروں میں ہوتی ہے؟ جب بچھوؤں اور زہریلے سانپوں کو دوسروں سے ڈسوانے کے لیے آپ خود پالیں گے تو یہ مت بھولیے کہ کسی نہ کسی وقت وہ آپ کو بھی ڈسیں گے۔ جو خطرناک اور جان لیوا رویہ پاکستان میں غیر مسلموں خصوصاً ہندوؤں اور عیسائیوں کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے اگر اس کے جواب میں بھارت، امریکا اور کینیڈا مسلمانوں کے ساتھ وہی رویہ اختیار کریں تو کیا ہو گا؟
ہمارے سیاستدانوں کو، کرائے پر بلوائے گئے نام نہاد جنگجوئوں کو جب میڈیا پہ بٹھا کر کہلوایا جاتا ہے کہ ان کے کانوں میں کشمیری مسلمانوں کی چیخیں گونجتی ہیں۔ بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کی کسمپرسی انھیں خون کے آنسو رلاتی ہے۔ چیچنیا اور بوسنیا کے مسلمانوں کی زبوں حالی پہ وہ بلکتے ہیں۔ تو میں سوچتی ہوں کہ کشمیری مسلمانوں کی چیخوں کے ساتھ ساتھ انھیں ان کشمیری پنڈتوں کی چیخیں کیوں نہ سنائی دیں، ان کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو کیوں نہ دکھائی دیے۔ جو صدیوں سے وہاں آباد چین سے رہ رہے تھے۔ جنھیں دہشت گردی اور نفرتوں کے ذریعے اپنے پرکھوں کی سرزمین چھوڑنے پہ مجبور کیا گیا؟ جب بابری مسجد کا انہدام ہوا اور اس کے نتیجے میں پاکستان کے مختلف شہروں ہندوؤں کے مندر جلائے گئے۔ بے گناہ ہندوؤں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تو ان کی آنکھوں سے آنسو کیوں نہ نکلے۔ انھوں نے انسانیت کے نام پر ان بے گناہ ہندو بچوں کو کیوں نہ بچایا جنھیں دہشت گردوں نے قتل کر دیا تھا۔ مساجد تو امن و شانتی کا گھر ہیں اور دین اسلام کے پیروکار جانتے ہیں کہ ''انسان زیادہ اہم ہے'' کیونکہ یہ براہ راست خالق کائنات کی تخلیق ہے۔ مسجد دوبارہ تعمیر ہو سکتی ہے لیکن انسان دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتا۔
ہمارے سر مسلسل شرم سے جھکتے چلے جا رہے ہیں۔ ہم غیر مسلموں کو ''اقلیت'' کہتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ وہ بھی برابر کے پاکستانی ہیں۔ مجھے تو اس سے بھی اختلاف ہے کہ غیر مسلم نمائندے صرف اپنے ہم مذہبوں کے ووٹوں کے حقدار ہوں گے۔ انھیں کیوں نہیں قومی دھارے میں شامل کیا جاتا۔ بھارت میں نائب صدر اور وزیر خارجہ مسلمان ہیں۔ لیکن کیا پاکستان میں ایسا ہے؟ برسوں پہلے ایک وزیر ہوا کرتے تھے کامنی کمار دتہ۔ لیکن اس کے بعد خانہ خالی ہے۔ جس طرح انتہا پسندوں، دہشت گردوں اور بچھوؤں کی نسل کی آبیاری افغان جہاد کے بعد کی گئی ہے۔ اور جو کچھ اس کے نتائج سامنے آ رہے ہیں کیا وہ کسی مہذب ملک کا عکس ہو سکتے ہیں؟ جہاں یہ جاہلانہ سوچ پروان چڑھ رہی ہو کہ ہم سب سے افضل ہیں، کیونکہ ہمارے پاس ایمان کی دولت ہے۔
وہاں کا منظرنامہ صرف ہلاکتیں دکھاتا ہے۔ دواؤں میں ملاوٹ، دودھ، دہی میں ملاوٹ، گی تیل میں ملاوٹ، ننھی ننھی بچیوں کے ساتھ گینگ ریپ ، اور حکمراں آنکھوں پہ پٹی باندھے میوزیکل چیئر اور فرینڈلی اپوزیشن کے مزے لیتے رہیں۔ بادشاہ گر طاغوتی قوتوں کو اپنے استحکام کے لیے استعمال کرتے رہیں اور نام نہاد حکمراں منہ میں اقتدار کا لالی پاپ لیے پانچ سال تک چوستے رہیں۔ دھماکے ہوتے رہیں، لوگ مرتے رہیں، پاکستان ہندوؤں اور عیسائیوں کے لیے جہنم بن چکا ہے اور جہنم کے ٹھیکیدار جنت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔