وقت ہے سنبھلنے کا
منگل کی سہ پہر کو آنے والے شدید زلزلے سے بلوچستان میں آواران ،بیلہ ،خاران اوراتھل کے علاقوں میں وسیع پیمانے...
منگل کی سہ پہر کو آنے والے شدید زلزلے سے بلوچستان میں آواران ،بیلہ ،خاران اوراتھل کے علاقوں میں وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی ہے ۔اس زلزلے سے ہونے والے نقصان کا فی الحال حتمی تخمینہ لگانا بہت مشکل ہے لیکن بظاہر وہاں سے جوخبریں آ رہی ہیں ان سے لگتا ہے کہ اس میں ہونے والی تباہی کا اندازہ ہماری سوچ سے بھی زیادہ ہے ۔اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس قدرتی آفت سے 400 سے زائد لوگ اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں ۔ ہزاروں لوگ زخمی ہیں ۔آواران کا علاقہ 95 فی صد تباہ ہو چکا ہے ۔ لوگ بے گھر، بے آسرا آسمان کے نیچے بیٹھے ہیں ۔پاکستان میں پچھلے کچھ عرصے سے جو حالات جا رہے ہیں وہ کوئی معمولی نہیں ہیں بلکہ آئے روزکے دھماکے، قدرتی آفات زلزلے ہوں یا سیلاب ، دیگر حادثات میں اب تک ہزاروں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ہر طرف ایک بے یقینی کا عالم ہے ۔ایک ان دیکھے خوف نے ہمیں اس طرح سے جکڑ رکھا ہے کہ جانے کب کون سا لمحہ ہم سے ہماری زندگی کی خوشیاں چھین کر لے جائے ۔
ہم ان قدرتی آفات ،حادثات کے آگے بے بس ہیں ، مگر یہ حالات ہمیں ایک نئی سوچ کی دعوت دے رہے ہیں کہ کیا ہمارے اعمال ہمیں موسمی تغیرات کی صورت میں بھیانک انجام کی جانب دھکیل رہے ہیں ؟ کیا یہ زلزلے ہمیں اس بات کا احساس نہیں دلا رہے ہیں کہ ہم انسان اﷲ تعالی کی نافرمانیوں میں اس حد تک آگے جا چکے ہیں کہ ہمارے اپنے پیدا کردہ حالات تو ہماری دسترس سے باہر ہوتے ہی جا رہے ہیں لیکن قدرت بھی ہمیں مسلسل جھنجھوڑ رہی ہے کہ ابھی بھی وقت ہے سنبھل جائو۔
ایسا ملک جہاں پر چھوٹی چھوٹی بچیوں کو شیطانیت اپنی ہوس کے بھینٹ چڑھا دے۔ جہاں ماں باپ اور استادوں کے رشتوں کا احترام ختم ہو جائے ، جہاں بہن بیٹی کی عصمتیں محفوظ نہ رہیں۔ جہاں مسجدیں ، مندر ،گرجے محفوظ نہ رہیں ، جہاں نامعلوم لوگ نہ جانے کب کس بے گناہ کو موت کی نیند سلا دیں ۔جہاں عریانیت اور فحاشی اس قدر عام ہوجائے کہ شرافت اور پاکیزگی اپنا منہ چھپاتی پھرے ۔ جہاں قانون کے رکھوالے لٹیرے بن جائیں ، کرپشن ، رشوت اس قدر عام ہو جائے کہ جائز کام بھی ناجائز طریقوں سے ہونے لگیں، تو وہاں قدرتی آفات زلزلے، سیلاب اسی طرح لوگوں کو تباہی کی طرف لے جاتے ہیں ۔
اﷲ تعالی کو ماننے والے تقریباً تمام مذاہب کے لوگ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ جب کوئی قوم نافرمانیوں میں اپنی حد سے آگے بڑھ جاتی ہے تو اﷲ کا غضب اس پوری قوم کو فنا کی جانب دھکیل دیتا ہے بڑی بڑی قومیں اپنی سرکشی کے باعث عذاب الٰہی سے دوچار ہو کے آنے والی نسلوں کے لیے نشانہ عبرت بن گئیں ۔ قرآن پاک میں بہت سی قوموں کی تباہی و بربادی کی نشاندہی کی گئی ہے، جن میں قوم نوح جس کے بارے میں قرآن شریف کے ارشادات اور بائبل کی تصریحات سے یہ بات متحقق ہو جاتی ہے کہ ان کا تعلق جس سرزمین سے تھا اس کو ہم آج عراق کے نام سے جانتے ہیں بابل کے آثار قدیمہ میں بائبل سے بھی قدیم جو کتابیں ملی ہیں وہ بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہیں قوم نوح جس کی گمراہی کی اصل وجہ شرک تھی جس نے قوم میں اس حد تک بگاڑ پیدا کر دیا کہ آخرکار اﷲتعالی کے غضب سے دوچار ہوئی ، پوری قوم کو ایک طوفان نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہمیشہ کے لیے فنا ہو گئی ۔ اس طر ح قوم عاد جو کہ عرب کی قدیم ترین قوم تھی اور قوم نوح کی تباہی کے بعد دنیا میں جس قوم کو عروج عطا کیا گیا وہ یہی تھی اور اس کے بعد قوم ثمود کا ذکر ملتا ہے یہ اقوام بھی اپنی سرکشی کے باعث بالآخر ہمیشہ کے لیے نشانہ عبرت بنا دی گئیں اور اﷲ کے غضب کے آگے ہار گئیں اسی طرح قوم سبا ، قوم لوط ، قوم یونس ، اور قوم بنی اسرائیل جو کہ اپنے اندر بڑی بڑی تہذیبیں رکھتی تھیں اپنی نافرمانیوں کے باعث عذاب الہی سے ہمکنار ہوئیں اور ہمیشہ کے لیے گزرے وقتوں کا قصہ بن گئیں ۔
آج اگر ہم اپنے ارد گرد نگاہ دوڑا کر دیکھیں تو یہ حال ہے کہ ہر کوئی گدھ کی طرح اس ملک کو نوچ رہا ہے ۔ ہر طرف احکام خداوندی کی کھلی خلاف ورزی کی جا رہی ہے ۔ اگر کوئی ا صلاح کی ، نیکی کی ، ہدایت کی بات کرتا ہے تو اس کو شعبدہ باز کہا جاتا ہے ۔ کوئی اﷲ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے ا حکامات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتا ہے تو شدت پسند کہہ کر دھتکار دیا جاتا ہے ۔ ہم رشتوں کا تقدس اور احترام ہی کھو بیٹھے ہیں ۔طاقتور اپنی طاقت کے زور پر ہر کمزور کو اپنے زیر کرنے کی خواہش رکھتا ہے ۔ سماجی برائیاں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ زندگی ، دولت اور عزت کچھ بھی تو محفوظ نہیں ہے ۔ ہر رشتے سے اعتبار ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ناانصافی ، ظلم اور زیادتی کی ایسی ایسی داستانیں جنم لے رہی ہیں کہ شیطانیت بھی شرمانے لگی ہے ۔الغرض ہر شعبہ ہائے زندگی انتشار کی علامت بنتا جا رہا ہے ۔ یہ سب حالات ہمارے معاشرے کو تباہی کی جانب لے جا رہے ہیں ۔ اﷲ تعالی کے احکامات کی نافرمانیاں کہیں ہماری قوم کو کسی بہت بڑے عذاب سے ہمکنار نہ کر دیں۔ ابھی بھی موقع ہے کہ ہم سنبھل جائیں یہ قدرتی آفات ہمیں تنبیہہ کر رہی ہیں کہ سدھر جائو ابھی وقت دسترس میں ہے ۔
ہم ان قدرتی آفات ،حادثات کے آگے بے بس ہیں ، مگر یہ حالات ہمیں ایک نئی سوچ کی دعوت دے رہے ہیں کہ کیا ہمارے اعمال ہمیں موسمی تغیرات کی صورت میں بھیانک انجام کی جانب دھکیل رہے ہیں ؟ کیا یہ زلزلے ہمیں اس بات کا احساس نہیں دلا رہے ہیں کہ ہم انسان اﷲ تعالی کی نافرمانیوں میں اس حد تک آگے جا چکے ہیں کہ ہمارے اپنے پیدا کردہ حالات تو ہماری دسترس سے باہر ہوتے ہی جا رہے ہیں لیکن قدرت بھی ہمیں مسلسل جھنجھوڑ رہی ہے کہ ابھی بھی وقت ہے سنبھل جائو۔
ایسا ملک جہاں پر چھوٹی چھوٹی بچیوں کو شیطانیت اپنی ہوس کے بھینٹ چڑھا دے۔ جہاں ماں باپ اور استادوں کے رشتوں کا احترام ختم ہو جائے ، جہاں بہن بیٹی کی عصمتیں محفوظ نہ رہیں۔ جہاں مسجدیں ، مندر ،گرجے محفوظ نہ رہیں ، جہاں نامعلوم لوگ نہ جانے کب کس بے گناہ کو موت کی نیند سلا دیں ۔جہاں عریانیت اور فحاشی اس قدر عام ہوجائے کہ شرافت اور پاکیزگی اپنا منہ چھپاتی پھرے ۔ جہاں قانون کے رکھوالے لٹیرے بن جائیں ، کرپشن ، رشوت اس قدر عام ہو جائے کہ جائز کام بھی ناجائز طریقوں سے ہونے لگیں، تو وہاں قدرتی آفات زلزلے، سیلاب اسی طرح لوگوں کو تباہی کی طرف لے جاتے ہیں ۔
اﷲ تعالی کو ماننے والے تقریباً تمام مذاہب کے لوگ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ جب کوئی قوم نافرمانیوں میں اپنی حد سے آگے بڑھ جاتی ہے تو اﷲ کا غضب اس پوری قوم کو فنا کی جانب دھکیل دیتا ہے بڑی بڑی قومیں اپنی سرکشی کے باعث عذاب الٰہی سے دوچار ہو کے آنے والی نسلوں کے لیے نشانہ عبرت بن گئیں ۔ قرآن پاک میں بہت سی قوموں کی تباہی و بربادی کی نشاندہی کی گئی ہے، جن میں قوم نوح جس کے بارے میں قرآن شریف کے ارشادات اور بائبل کی تصریحات سے یہ بات متحقق ہو جاتی ہے کہ ان کا تعلق جس سرزمین سے تھا اس کو ہم آج عراق کے نام سے جانتے ہیں بابل کے آثار قدیمہ میں بائبل سے بھی قدیم جو کتابیں ملی ہیں وہ بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہیں قوم نوح جس کی گمراہی کی اصل وجہ شرک تھی جس نے قوم میں اس حد تک بگاڑ پیدا کر دیا کہ آخرکار اﷲتعالی کے غضب سے دوچار ہوئی ، پوری قوم کو ایک طوفان نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہمیشہ کے لیے فنا ہو گئی ۔ اس طر ح قوم عاد جو کہ عرب کی قدیم ترین قوم تھی اور قوم نوح کی تباہی کے بعد دنیا میں جس قوم کو عروج عطا کیا گیا وہ یہی تھی اور اس کے بعد قوم ثمود کا ذکر ملتا ہے یہ اقوام بھی اپنی سرکشی کے باعث بالآخر ہمیشہ کے لیے نشانہ عبرت بنا دی گئیں اور اﷲ کے غضب کے آگے ہار گئیں اسی طرح قوم سبا ، قوم لوط ، قوم یونس ، اور قوم بنی اسرائیل جو کہ اپنے اندر بڑی بڑی تہذیبیں رکھتی تھیں اپنی نافرمانیوں کے باعث عذاب الہی سے ہمکنار ہوئیں اور ہمیشہ کے لیے گزرے وقتوں کا قصہ بن گئیں ۔
آج اگر ہم اپنے ارد گرد نگاہ دوڑا کر دیکھیں تو یہ حال ہے کہ ہر کوئی گدھ کی طرح اس ملک کو نوچ رہا ہے ۔ ہر طرف احکام خداوندی کی کھلی خلاف ورزی کی جا رہی ہے ۔ اگر کوئی ا صلاح کی ، نیکی کی ، ہدایت کی بات کرتا ہے تو اس کو شعبدہ باز کہا جاتا ہے ۔ کوئی اﷲ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے ا حکامات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتا ہے تو شدت پسند کہہ کر دھتکار دیا جاتا ہے ۔ ہم رشتوں کا تقدس اور احترام ہی کھو بیٹھے ہیں ۔طاقتور اپنی طاقت کے زور پر ہر کمزور کو اپنے زیر کرنے کی خواہش رکھتا ہے ۔ سماجی برائیاں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ زندگی ، دولت اور عزت کچھ بھی تو محفوظ نہیں ہے ۔ ہر رشتے سے اعتبار ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ناانصافی ، ظلم اور زیادتی کی ایسی ایسی داستانیں جنم لے رہی ہیں کہ شیطانیت بھی شرمانے لگی ہے ۔الغرض ہر شعبہ ہائے زندگی انتشار کی علامت بنتا جا رہا ہے ۔ یہ سب حالات ہمارے معاشرے کو تباہی کی جانب لے جا رہے ہیں ۔ اﷲ تعالی کے احکامات کی نافرمانیاں کہیں ہماری قوم کو کسی بہت بڑے عذاب سے ہمکنار نہ کر دیں۔ ابھی بھی موقع ہے کہ ہم سنبھل جائیں یہ قدرتی آفات ہمیں تنبیہہ کر رہی ہیں کہ سدھر جائو ابھی وقت دسترس میں ہے ۔