وہی خدا ہے

کیا اب بھی جنونیوں، وحشیوں سے مذاکرات کیے جائیں گے کیا اب بھی ان سے امن کی بھیک...

لاہور:
کیا اب بھی جنونیوں، وحشیوں سے مذاکرات کیے جائیں گے کیا اب بھی ان سے امن کی بھیک مانگی جائے گی ، کیا اب بھی ان سے التجا کی جائے گی کہ آپ مسجدوں،گرجوں،امام بارگاہوں،مزاروں، جنازوں کو بخش دو ،بچوں بزرگوں،خواتین پر رحم کرو ایک طرف تو ملک میں بھتہ خوروں کو گولی مار نے کا حکم دیا جارہا ہے اور دوسری طرف جو لوگ ملک کی بنیادیں ہلارہے ہیں جو روز خون کی ہولی کھیل رہے ہیں ان سے مذاکرات کیے جارہے ہیں ۔ جو لوگ آئین اور قانون کو مانتے ہی نہ ہوں جو امن پر یقین نہ رکھتے ہوں ان سے مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں ،مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھنے کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب فریقین کے درمیان تنازعات انتہا سے زیادہ بڑھ جائیں اس کے لیے سب سے زیادہ ضروری فریقین کا مذاکرات کے لیے راضی ہونا ہوتا ہے ماضی میں طالبان سے جب بھی مذاکرات کے گئے انھوں نے مذاکرات کے دوران ملنے والے وقفے میں اپنے آپ کو اور زیادہ منظم کیا اور وقفے میں وہ نئے حملوںکی تیاری کرلیتے ہیں۔

اس وقت گھرگھر میں آہ و بکا کی صدائیں بلند ہورہی ہیں ، گھر گھر قیامت بر پا ہے ۔ایک ایرانی دانشور جس نے ایک عمر علوم دینیہ اور حکمت الہی کے حصول میں صرف کی تھی دین اور مذہب سے متعلق بہت سی کتابوں کادقیق مطالعہ بھی کیاتھا اور اس مسئلے پر کہ کو نسا دین یامذہب سچاہے بہت زیادہ تحقیق بھی کی تھی ، غور وفکر بھی کیا تھا اس تلاش و جستجو اور غور و فکر میں ایسا محو ہوا کہ ہو ش و حواس ہی گنوا بیٹھا ۔ دیوانگی اور جنون نے اس پر اس قدر غلبہ پالیا کہ حق کی ذات ہی کا منکر ہوگیا۔ و ہ جنوں میں بک بک کرتا تھا کہ نعوذ باللہ خدا نہیں ، خدا نے انسان کو تخلیق نہیں کیا وہ کہاکرتا تھا مجھے لوگوں نے اپنے وطن ایران سے نکال دیا ، ہندوستان کے شہر احمد آباد میں دھکے کھا رہاہوں ۔ اگر خدا ہوتا تو کیا میری مدد نہ کرتا ۔

یہ پاگل دانشور ایک روز احمد آباد شہر کے ایک قہوہ خانے میں گیا۔ دانشور صاحب قہو ہ خانے میں ایک کرسی پر بیٹھ گئے ۔ نوکر بھی پاس ہی نیچے زمین پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد قہوہ آگیا۔ دانشور صاحب نے قہوہ کی چسکی لگائی ، ساتھ ہی ایک نشہ والے سگریٹ کا کش لگایا۔ ذرا سرور آیا دماغ آسمان پر پہنچ گیا ۔ اسی پینک میں اس دیوانے دانشور نے اپنے نوکر سے کہا '' ابے او بد بخت و بیوقوف ذرا مجھے یہ بتا کیا تیر ے خیال میں خالق موجود ہے ''۔ نو کر نے کہا ''ہاں کیوں نہیں جناب '' فوراً اپنی جیب سے اس نے لکڑی کی چھوٹی سے گڑیا نکالی اور کہا ''یہ دیکھو خدا ہے جو مجھے روزی دیتا ہے ،میری حفاظت کرتا ہے'' قہوہ خانے میںموجود دوسرے لوگوں نے دیوانے دانشور کے نوکر کی یہ بات سنی تو انہیں سخت غصہ آیا۔ان میں سے ایک ہندو برہمن بھی تھا ، اس نے پہلے تو غیظ و غضب کی نظروں سے نوکر کوگھورا پھر یوں گویاہوا ، او پاگل ، مہاوت تو ایسا کھوٹا پنتھ (غلط عقیدہ ) رکھتا ہے کہ پر ماتما (خدا ) کو جیب میں رکھا جاسکتا ہے ، ہائے رام تو کیسا پاپی ہے ۔

ارے مورکھ (بیوقوف) یاد رکھ پر ماتما تو ہمارے مندروں میں رہتا ہے ، ہم اسے وہاں سجا کر رکھتے ہیں ،سارے سنسار (عالم ) میں گوت (قوم ) ایک ہے وہ ہندو جاتی ہے پر ماتما ہندو جاتی ہی کاپالن ہار (رب ) پر میشر (اللہ تعالیٰ) ہے وہی برہما ہے وہی وشنو ہے ، وہی شیو ہے ، وہی رام ہے ، وہی کرشن ہے ۔ ہندو جاتی کے علاوہ باقی سب لوگ ملیچھ ہیں ، اچھوت ہیں ، نرک (دوزخ ) میں جائیں گے۔ ہوٹل میں ایک یہودی بھی تھا۔ برہمن کی باتیں سن کر اس سے بولا کہ برہمن جی تم کیا واہیات باتیں کررہے ہو ۔ یاد رکھو سارے جہاں میں صرف ایک خداہے اور وہ ہے خدائے ابراہیم ؑ و موسی ؑجو یہواہ ہے اور ملت بھی ایک ہے اور وہ ہے ملت بنی اسرائیل ۔ خدا کا معبد بھی ساری دنیا میں صرف ایک ہے اور وہ یروشلم یعنی بیت المقدس میں ہے ۔اللہ میاں برہمنوں کا محافظ نہیں بلکہ یہودیوں کا محافظ ہے کہ صرف یہودی اسے پیارے اورعزیز ہیں ۔ قہو ہ خانے میں ایک کیتھو لک عیسائی بھی تھا۔ اس نے جب یہودی کی بات سنی تو غضبناک ہو کر یہودی سے کہا کہ تم بالکل جھوٹے ہو۔ تم نے جو کہا ہے کہ خداصرف یہودیوں کو دوست رکھتا ہے،بالکل غلط ہے ۔


تم نے تو یہ بات کہہ کر نعوذ باللہ خداوند تعالیٰ کو بے انصاف بنادیا ہے ۔ یاد رکھو خدا تو سارے انسانوں کا پرور دگار ہے ۔ کسی ایک قوم کا نہیں یہودی خود کو خدا کی پسندیدہ قوم کہتے ہیں حالانکہ ہزاروں سال سے اللہ میاں کے وہ معتو ب ، مقہور ومغضوب ہیں اور عذاب رسوائی اور ذلت میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ خدا صرف ایک ہے اور وہ خدائے یسو ع مسیح ہے جو ہمارے کلیسا میں ہے نہ برہمنوں کے بت خانے میں اور نہ یہودیوں کے ہیکل میں ۔ جب یہ کیتھو لک عیسائی باتیں کررہا تھا تو اتفاق سے وہاں ایک پروٹسٹنٹ عیسائی بھی تھا جو قہوہ پی رہا تھا اور قہر سے کیتھولک فرقے کے عیسائی کو دیکھ رہاتھا ۔ آخر اس سے نہ رہا گیا اور وہ چلایا خا موش ہوجائو ، میری سنو تم یہ کیسے کہتے ہو کہ ہدایت آسمانی اور دوزخ کے عذاب سے رہائی فقط کیتھولک مذہب اختیار کرکے ہی مل سکتی ہے ۔ تم لوگ تو خود بت پرست ہو ہدایت و رہنمائی صرف اور صرف انہیں مل سکتی ہے جو پروٹسٹنٹ مذہب کے مطابق انجیل مقدس کے احکامات پر عمل کرتے ہیں ۔

ایک ترکی مسلمان جو کسٹم میں ملازم تھا اور سگریٹ خریدنے آیا تھا عیسائی حضرات کی یہ باتیں سن کر سخت برا فروختہ ہوا۔ اس نے عیسائیوں سے کہا کہ تم کیسے کہتے ہو کہ نجات اخروی فقط عیسائی مذہب اختیار کرنے میں ہے۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ حضرت عیسیؑ کی بشارت کے مطابق حضرت محمد بن عبداللہ علیہ الصلوۃ والسلام ظہور فرماچکے ہیں جن کے دین کے آنے کے بعد تمہارا دین منسوخ ہو چکا ہے ۔ بلکہ تمام ادیان منسو خ ہوچکے ہیں ۔ دین اسلام سارے عالم میں پھیل گیا ہے ۔ خدا کی بخشش کے حق دار صرف مسلمان ہیں ۔ خداوند تعالیٰ نے قوم یہود کو مردود ،مخذول اورمغضوب اور عیسائیوں کو گمراہ فرمایا ہے ۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ ہمارے پیغمبر ﷺ جو رحمتہ للعالمین ہیں ان کے دین کو اختیار کرکے بنی نو ع انسان کے لیے باعث رحمت بنو اور دین و دنیا کی سعادت و ہدایت حاصل کرو وہاں البتہ حضرت رسول اکرم ﷺ کے ماننے والوں میں سے بھی صرف وہی لوگ جنت میں جائیں گے جو حنفی فقہ کی پیروی کرتے ہیں اور باقی تمام فرقے سچے مسلمان نہیں اس لیے جنت کے حق دار بھی نہیں ۔

ایک اور ملک کا عالم بھی وہاں تھا اور قہوہ پی رہا تھا وہ ترکی مسلمان کی باتیں سن کر سخت قہر آلو د نظروں سے اسے گھورنے لگا ۔ ابھی وہ ترکی مسلمان کو جواب دینا چاہتا ہی تھاکہ ہوٹل میں موجود عیسائی ، یہودی ، ہندو ، بدھ پر ست، ، زرتشتی ایک دوسرے کے خلاف بولنے لگے یوں ایک اچھا خاصہ ہنگامہ برپا ہوگیا۔

قہوہ خانے کے ایک کونے میں ایک صوفی بیٹھے یہ ہنگامہ دیکھ رہے تھے شور و غو غا سن رہے تھے اور خا موشی سے چائے پی رہے تھے ۔ ترکی کے مسلمان نے ان صوفی صاحب سے کہا آپ فیصلہ کریں کہ ہم میں سے کس کا عقید ہ صحیح ہے ۔ دوسرے مذاہب والے بھی ان صوفی صاحب کے پاس آگئے اور استدعا کرنے لگے کہ آپ درویش ہیں ، خدا دوست ہیں ، آپ بتائیں کس کامذہب و مسلک سچا ہے ۔ صوفی صاحب کچھ دیر سوچ میں غرق رہے پھر یوں گو یا ہوئے کہ ''بھائیو ! حق ایک ہے جو وحد ہ لا شریک ہے رحمن و رحیم ہے اپنے تمام بندوں پر مہربان ہے سب کا پالن ہار ہے ۔ اب خواہ تم اسے یہواہ کہو God کہو ، پر ماتما کہو ، یزدان کہو ، رام کہو،یا رحیم کہو وہ وہی ہے جو وہ ہے ، وہ اپنی ذات میں بے مثل ہے، الصمد ہے ، لفظوں سے وہ بدل نہیں سکتا ۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری کائنات خدا وند قدوس کی عبادت گاہ ہے ستارے ، سیارے ، پہاڑ ، دریا ، چرند ، پرند، درند ، غر ض زمین و آسمان کی ہر چیز ہر وقت اپنے اپنے رنگ میں اس کی تسبیح میں مصروف ہے ۔ انسانوں کے لیے سب سے بڑی عبادت خدمت خلق ہے ۔ سب سے بڑی نیکی انسان دوستی ہے ، سب سے بڑی قربانی نفس کی قربانی ہے ، دوسروں کے لیے باعث رحمت بننا تمام عبادات کی روح ہے ۔ خدا صرف ہمارا ہی نہیں بلکہ وہ سارے انسانوں کا خدا ہے۔''
Load Next Story