سمندر میں بھی بلیک ہولز دریافت
اس دریافت کے بعد سائنس دانوں کو کئی الجھے ہوئے معاملات کے سلجھنے کی امید ہے۔
بلیک ہولز ایک ایسا معمّا ہیں جسے حل کرنے سے سائنس داں ابھی تک قاصر ہیں۔ ان پراسرار مظاہر کے بارے میں وہ محض اتنا جان پائے کہ یہ زماں ومکاں کے پردے میں ایسے شگاف ہیں جوقریب آنے والی ہر شے کو اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔
ان کے شکنجے سے کوئی بھی شے نہیں بچ سکتی، یہاں تک کہ روشنی بھی نہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے بالکل یہی خصوصیات زمین پر، جنوبی بحر اوقیانوس میں بھی دریافت کرلی ہیں۔
زیورخ، جرمنی میں واقع ای ٹی ایچ یونی ورسٹی اور امریکا کی میامی یونی ورسٹی کے محققین کے مطابق سمندر کے اس حصے میں آنے والے بڑے بھنور حسابی طور پر خلا میں موجود پراسرار بلیک ہولز کے مساوی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ بھنور پانی کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو بلیک ہولز روشنی کے ساتھ روا رکھتے ہیںِ۔ سمندر میں آنے والے یہ بھنور اطراف گردش کرتے پانی سے اس انداز سے گھرے ہوتے ہیں کہ بھنور میں آنے والی کوئی بھی شے بچ کر نہیں نکل سکتی۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ سمندری بھنور گرم آب و ہوا کی وجہ سے پگھلتی ہوئی برف کے منفی اثر کو محدود کرسکتے ہیں ، تاہم فی الحال وہ اس اثر کی شدت کو ناپنے سے قاصر ہیں کیوں کہ بھنور کے گرد گھومتے پانی کی حدود ابھی تک ان کے لیے معما بنی ہوئی تھیں، مگر اب میامی یونی ورسٹی میں اوشینو گرافی کے پروفیسر فرانسسکوبیرن اور ای ٹی ایچ یونی ورسٹی میں غیرخطی حرکیات کے پروفیسر جارج ہیلر کو یقین ہے کہ وہ معما حل کرنے میں کام یاب ہوگئے ہیں۔ ریاضیاتی نمونوں کی مدد سے انھوں نے مصنوعی سیارے کے ذریعے کیے گئے مشاہدات کے سلسلے میں سے ان بھنوروں کی تصاویر اور دیگر ڈیٹا کو علیٰحدہ کیا۔ بعدازاں دوران تحقیق جب یہ بھنور بلیک ہولز کے حسابی مترادف نکلے تو وہ حیران رہ گئے۔ ان میں تمام خصوصیات وہی پائی گئیں جو بلیک ہولز میں موجود ہوتی ہیں۔
سائنس دانوں کی حالیہ دریافت سے موسمی تغیرات سے جڑے سوالوں سے لے کر ماحولیاتی آلودگی کے پھیلاؤ کے طریقوں تک کئی الجھے ہوئے معاملات کے سلجھنے کی امید پیدا ہوگئی ہے۔
ان کے شکنجے سے کوئی بھی شے نہیں بچ سکتی، یہاں تک کہ روشنی بھی نہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے بالکل یہی خصوصیات زمین پر، جنوبی بحر اوقیانوس میں بھی دریافت کرلی ہیں۔
زیورخ، جرمنی میں واقع ای ٹی ایچ یونی ورسٹی اور امریکا کی میامی یونی ورسٹی کے محققین کے مطابق سمندر کے اس حصے میں آنے والے بڑے بھنور حسابی طور پر خلا میں موجود پراسرار بلیک ہولز کے مساوی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ بھنور پانی کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو بلیک ہولز روشنی کے ساتھ روا رکھتے ہیںِ۔ سمندر میں آنے والے یہ بھنور اطراف گردش کرتے پانی سے اس انداز سے گھرے ہوتے ہیں کہ بھنور میں آنے والی کوئی بھی شے بچ کر نہیں نکل سکتی۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ سمندری بھنور گرم آب و ہوا کی وجہ سے پگھلتی ہوئی برف کے منفی اثر کو محدود کرسکتے ہیں ، تاہم فی الحال وہ اس اثر کی شدت کو ناپنے سے قاصر ہیں کیوں کہ بھنور کے گرد گھومتے پانی کی حدود ابھی تک ان کے لیے معما بنی ہوئی تھیں، مگر اب میامی یونی ورسٹی میں اوشینو گرافی کے پروفیسر فرانسسکوبیرن اور ای ٹی ایچ یونی ورسٹی میں غیرخطی حرکیات کے پروفیسر جارج ہیلر کو یقین ہے کہ وہ معما حل کرنے میں کام یاب ہوگئے ہیں۔ ریاضیاتی نمونوں کی مدد سے انھوں نے مصنوعی سیارے کے ذریعے کیے گئے مشاہدات کے سلسلے میں سے ان بھنوروں کی تصاویر اور دیگر ڈیٹا کو علیٰحدہ کیا۔ بعدازاں دوران تحقیق جب یہ بھنور بلیک ہولز کے حسابی مترادف نکلے تو وہ حیران رہ گئے۔ ان میں تمام خصوصیات وہی پائی گئیں جو بلیک ہولز میں موجود ہوتی ہیں۔
سائنس دانوں کی حالیہ دریافت سے موسمی تغیرات سے جڑے سوالوں سے لے کر ماحولیاتی آلودگی کے پھیلاؤ کے طریقوں تک کئی الجھے ہوئے معاملات کے سلجھنے کی امید پیدا ہوگئی ہے۔