باتیں کچھ ادبی‘کچھ بے ادبی کی
شاید ہی کوئی اور شاعر ہو جو شدت احساس میں اس کا ہم پلہ ہو
MOSCOW:
''باتیں کچھ ادبی'کچھ بے ادبی کی'' جمیل یوسف کے لکھے تنقیدی مضامین اور شخصی خاکوں کا مجموعہ ہے۔وہ فرماتے ہیں اگر کوئی یہ سوال کرے کہ میں کیوں لکھتا ہوں تو میرا جواب ہوگا، میں اس لیے لکھتا ہوں کہ مجھے خود اپنی معرفت حاصل ہو۔ جتنی دیر میں لکھنے کے عمل میں مصروف رہتا ہوں اتنی دیر میری ملاقات خود اپنے آپ سے رہتی ہے۔ اپنی ذات کی معرفت کے حصول کا یہ عمل اپنے اندرکچھ ایسی لذت رکھتا ہے کہ ایک سچا ادیب اور شاعر بار بار تخلیقی عمل کے تجربے سے گزرنا چاہتا ہے۔ اسی سے ملتا جلتا بلکہ اس سے گہرا تعلق رکھنے والا یہ سوال کہ میں کیا لکھتا ہوں تو اس کا جواب یہ ہے کہ میں وہی لکھتا ہوں جو کچھ مجھ پر گزرتی ہے اور میرے وجود کے باہر واقعات وحادثات اور اس کے رد عمل کے طور پر جنم لینے والے میرے اندرکے احساسات و جذبات۔
اپنے مضمون ''شعرکیا ہے؟'' میں جمیل یوسف لکھتے ہیں'' اگرچہ شعورکا لفظ شعر سے نکلا ہے مگر یہ حقیقت شعر وادب کا ذوق رکھنے والے سب لوگوں پر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ شاعری کسی سوچی سمجھی شعوری کوشش سے وجود میں نہیں آسکتی۔ تخلیق شعرکا عمل اختیاری ہے ہی نہیں۔ یہ تو ایک اضطراری عمل ہے۔''جمیل یوسف لکھتے ہیں ''شعر وہ ہے جو کسی چیز یا صورتحال کو صرف بیان ہی نہ کرتا ہو بلکہ اس کے انداز بیان سے لطف و نشاط کی کیفیت بھی پیدا ہو۔ اصل خوبی بیان نہیں ، انداز بیان یا لطف بیان ہے۔''
عمر خیام کے بارے میں جمیل یوسف لکھتے ہیں کہ ان کی جو کتابیں اب تک محفوظ ہیں وہ بجا طور پر ان کی علمی یادگاریں ہیں لیکن جس کتاب کی دنیا بھر میں دھوم مچی ہے وہ ان کی آخری کتاب ''رباعیاتِ عمرِ خیام'' ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ خیام کے اسلوب کی جدت اور اس کے پیرایہ اظہارکی ندرت ہے۔ اس نے زیادہ تر دنیا کی بے ثباتی، زندگی کی ناپائیداری اور بے اعتباری کے مضامین باندھے ہیں۔
''غالب کی شوخیاں'' کے عنوان سے جمیل یوسف لکھتے ہیں کہ جہاں غالب کی فکرکی بلندی اور خیال کی پیچیدگی کا کوئی جواب نہیں وہاں ان کے انداز بیان کی شوخی بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ان کی شوخی میں بظاہر کہیں طنز اور کہیں مزاح کا رنگ جھلکتا ہے مگر بنیادی طور پر یہ شوخی طنز و مزاح سے الگ اور منفرد ہے۔''سرسید اور اردو ادب'' کے عنوان سے ایک مضمون میں جمیل یوسف لکھتے ہیں ''بڑے ادب پارے کی ایک خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ قاری کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ اس کے مطالعے کے بعد وہ، وہ نہیں رہتے جو اس کے مطالعے سے پہلے تھے۔ سرسید کی تحریروں میں یہ خصوصیت موجود ہے کہ وہ آپ کی شخصیت کو بدل کر رکھ دیتی ہیں۔ آپ کے فکر و عمل میں انقلاب برپا کردیتی ہیں۔''
اپنے ایک مضمون میں جمیل یوسف نے اس سوال کا جواب دیا ہے کہ فکر اقبال کا ماخذ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ''اقبال کا مطالعہ کرنیوالوں نے کہیں نتشے کو، کہیں برگساں کو ان کی فکر کا ماخذ قرار دیا ہے اور کہیں ہیگل اورکہیں کانٹ کو۔ ان لوگوں نے اقبال کو کارل مارکس کا خوشہ چیں بھی بتایا ہے جب کہ اقبال نے علی الاعلان اس حقیقت کا اظہار خود اپنے کلام میں کر دیا ہے کہ اھ کے قلم سے جو کچھ نکلا ہے وہ قرآنی علم و حکمت کے سوا اور کچھ نہیں۔حفیظ جالندھری پر ایک طویل مضمون ہے جس میں جمیل یوسف نے ان کی شاعری اور شخصیت پر اظہار خیال کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں 1951-52 میں جب مجھے شعر و شاعری کا چسکا لاحق ہوا تو وطن عزیز کی شعری فضاؤں میں حفیظ جالندھری کا نام گونج رہا تھا۔ شاہنامۂ اسلام اشاعت پذیر ہوچکا تھا، اس کے مترنم اشعار جلسوں اور مشاعروں میں اپنا جادو جگا چکے تھے۔ حفیظ کی اولین نظموں کا مجموعہ ''نغمہ زار'' بھی شایع ہوچکا تھا جس کی ایک نظم ''ابھی تو میں جوان ہوں'' مرغوب عام ٹھہری تھی۔ جمیل یوسف لکھتے ہیں ''اردو میں شاہنامۂ اسلام جیسی مثنوی کوئی اور ہے ہی نہیں۔ یہ مثنوی دس ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ سارے تاریخی واقعات بڑی صحت اور لطف بیان سے رقم کیے گئے ہیں۔ جہاں جہاں نعتیہ اشعار آئے ہیں ان کا جواب نہیں۔ حفیظ نے ہم عصر غزل میں بھی اپنا رنگ جمایا۔ ان کی غزلوں کے کئی اشعار اہل ذوق کی زبانوں پر چڑھ گئے:
ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات' یاد نہ تم کو آسکے
تم نے ہمیں بھلا دیا' ہم نہ تمہیں بھلا سکے
جمیل یوسف اختر شیرانی کے بارے میں لکھتے ہیں ''جب سلمیٰ سے اختر شیرانی کا عشق کامیاب نہ ہوسکا تو عشق اور سلمیٰ دونوں اس کی شعری دنیا میں محبت، مسرت، انسان دوستی اور امن و آشتی کا استعارہ بن گئے۔ اس استعارے سے اختر شیرانی نے ایک ایسی مثالی دنیا تخلیق کی ہے جس میں داخل ہوتے ہی ہم دنیا کی مصیبتوں اور زندگی کی تلخیوں سے نجات حاصل کرلیتے ہیں۔ اختر خواب و خیال کی جس وادی میں اپنی سلمیٰ کا انتظار کرتا ہے وہ اسی سرزمین عشق کی وادی ہے جو اس کی اپنی تخلیق کردہ ہے۔''
سنا ہے میری سلمیٰ رات کو آئے گی وادی میں
جمیل یوسف مجید امجد پر اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ان کے بارے میں دو باتیں بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ساری اردو شاعری میں کوئی ایسا شاعر نہیں جس کا کینوس اتنا وسیع ہو اور دوسری بات یہ کہ شاید ہی کوئی اور شاعر ہو جو شدت احساس میں اس کا ہم پلہ ہو۔
عبدالحمید عدم کے بارے میں جمیل یوسف کہتے ہیں ''شاید ہی کوئی ایسا ہوگا جو شعرکا ذوق رکھتا ہو اور اسے عدم کا کوئی شعر یاد نہ ہو۔ عدم کی بے پناہ مقبولیت کا راز صرف اس کے کمال فن میں مضمر ہے۔ جس طرح کی سادگی اور بے ساختگی اس کے کلام میں پائی جاتی ہے وہ اس کی فنی پختگی کا ثمر ہے جو فن کی معراج پر ہی نصیب ہوتی ہے۔''
آپ سے اور کیا سوال کریں
آپ نے مسکرا کے دیکھ لیا
جمیل یوسف نے سید ضمیر جعفری کا خاکہ بھی لکھا ہے۔ لکھتے ہیں کہ وہ کسی کی دل آزاری کے کبھی مرتکب نہ ہوئے، تحریر نہ تقریر سے۔ وہ کوئی بات ایسی کبھی نہ کرتے جس سے کسی کو کوئی دکھ پہنچے۔ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب ان کے بیٹے جنرل احتشام ضمیر کالج میں پڑھتے تھے تو ان کو سگریٹ نوشی کی لت پڑ گئی۔ گھر میں سگریٹ سلگانے کا تو خیر سوال ہی نہ تھا مگر ضمیر جعفری کو کسی طرح پتا چل گیا۔ ایک صبح کالج جانے کے لیے جب احتشام گھر سے نکلنے لگے تو جعفری صاحب نے گولڈ لیف کی ایک ڈبیا جو وہ غالباً ایوان صدر سے لائے ہوں گے کہ اس پر پریزیڈنٹ ہاؤس لکھا ہوا تھا، ان کی طرف بڑھا دی کہ یہ لو۔ صاحبزادے نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ابو! سگریٹ کی ڈبیا کا میں کیا کروں گا؟ ضمیر جعفری صاحب مسکراتے ہوئے کہنے لگے، پرنسپل کو دے دینا۔'' جمیل یوسف کہتے ہیں ضمیر جعفری کے فکر و فن کے جائزے کے لیے پوری ایک کتاب درکار ہے۔
جمیل یوسف نے پروفیسر خورشید رضوی، رشید قیصرانی، اقبال اختر اور پروین شاکر کی شاعری پر اظہار خیال کیاہے۔ احمد ندیم قاسمی اور ڈاکٹر وزیر آغا کا تذکرہ بھی ان کی اس کتاب میں ہے۔ ایک مضمون مولانا ظفر علی خان پر اور ایک ''احمد فراز کی شہرت اور مقبولیت کے راز'' پر بھی ہے۔
جمیل یوسف لکھتے ہیں ''شاعروں میں جو شہرت، عزت اور دولت احمد فراز نے کمائی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ کسی اور شاعر کو زندگی میں وہ بے پناہ محبت اور والہانہ عقیدت نہیں ملی جو احمد فرازکے حصے میں آئی۔ اقبال اور فیض کی بات الگ ہے۔ وہ بلاشبہ احمد فراز کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑے شاعر تھے، ان کی زندگی میں بھی ان کی شہرت اور مقبولیت کچھ کم نہ تھی مگر ان کی پذیرائی اور ان کی اہمیت کی سطح کچھ مختلف نوعیت کی تھی۔ پھر ان کی شہرت اور مقبولیت کا دائرہ اتنا وسیع اور بے کراں نہیں تھا۔ مثلاً فراز کی زندگی میں ان کے شعری مجموعے جس کثیر تعداد میں فروخت ہوئے اس کی کوئی مثال اردو شاعری کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ پھر جتنی محفلوں اور مشاعروں میں احمد فراز کو سنا گیا اس کی بھی کوئی نظیر اردو شاعری کی تاریخ میں موجود نہیں۔
جمیل یوسف لکھتے ہیں ایک مشاعرے کے دوران ظفر اقبال نے احمد فراز سے کہا کہ '' فراز! جس طرح کی شاعری تم کرتے ہو، کیا تمہارا خیال ہے کہ تمہارے مرنے کے بعد یہ زندہ رہے گی؟'' احمد فراز نے جواب دیا ''ظفر اقبال! جتنی عزت، لوگوں کی محبت اور شہرت مجھے مل گئی ہے وہ میرے لیے کافی ہے۔ مجھے اس سے غرض نہیں کہ میری شاعری میرے مرنے کے بعد بھی زندہ رہتی ہے یا نہیں۔''
''باتیں کچھ ادبی'کچھ بے ادبی کی'' جمیل یوسف کے لکھے تنقیدی مضامین اور شخصی خاکوں کا مجموعہ ہے۔وہ فرماتے ہیں اگر کوئی یہ سوال کرے کہ میں کیوں لکھتا ہوں تو میرا جواب ہوگا، میں اس لیے لکھتا ہوں کہ مجھے خود اپنی معرفت حاصل ہو۔ جتنی دیر میں لکھنے کے عمل میں مصروف رہتا ہوں اتنی دیر میری ملاقات خود اپنے آپ سے رہتی ہے۔ اپنی ذات کی معرفت کے حصول کا یہ عمل اپنے اندرکچھ ایسی لذت رکھتا ہے کہ ایک سچا ادیب اور شاعر بار بار تخلیقی عمل کے تجربے سے گزرنا چاہتا ہے۔ اسی سے ملتا جلتا بلکہ اس سے گہرا تعلق رکھنے والا یہ سوال کہ میں کیا لکھتا ہوں تو اس کا جواب یہ ہے کہ میں وہی لکھتا ہوں جو کچھ مجھ پر گزرتی ہے اور میرے وجود کے باہر واقعات وحادثات اور اس کے رد عمل کے طور پر جنم لینے والے میرے اندرکے احساسات و جذبات۔
اپنے مضمون ''شعرکیا ہے؟'' میں جمیل یوسف لکھتے ہیں'' اگرچہ شعورکا لفظ شعر سے نکلا ہے مگر یہ حقیقت شعر وادب کا ذوق رکھنے والے سب لوگوں پر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ شاعری کسی سوچی سمجھی شعوری کوشش سے وجود میں نہیں آسکتی۔ تخلیق شعرکا عمل اختیاری ہے ہی نہیں۔ یہ تو ایک اضطراری عمل ہے۔''جمیل یوسف لکھتے ہیں ''شعر وہ ہے جو کسی چیز یا صورتحال کو صرف بیان ہی نہ کرتا ہو بلکہ اس کے انداز بیان سے لطف و نشاط کی کیفیت بھی پیدا ہو۔ اصل خوبی بیان نہیں ، انداز بیان یا لطف بیان ہے۔''
عمر خیام کے بارے میں جمیل یوسف لکھتے ہیں کہ ان کی جو کتابیں اب تک محفوظ ہیں وہ بجا طور پر ان کی علمی یادگاریں ہیں لیکن جس کتاب کی دنیا بھر میں دھوم مچی ہے وہ ان کی آخری کتاب ''رباعیاتِ عمرِ خیام'' ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ خیام کے اسلوب کی جدت اور اس کے پیرایہ اظہارکی ندرت ہے۔ اس نے زیادہ تر دنیا کی بے ثباتی، زندگی کی ناپائیداری اور بے اعتباری کے مضامین باندھے ہیں۔
''غالب کی شوخیاں'' کے عنوان سے جمیل یوسف لکھتے ہیں کہ جہاں غالب کی فکرکی بلندی اور خیال کی پیچیدگی کا کوئی جواب نہیں وہاں ان کے انداز بیان کی شوخی بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ان کی شوخی میں بظاہر کہیں طنز اور کہیں مزاح کا رنگ جھلکتا ہے مگر بنیادی طور پر یہ شوخی طنز و مزاح سے الگ اور منفرد ہے۔''سرسید اور اردو ادب'' کے عنوان سے ایک مضمون میں جمیل یوسف لکھتے ہیں ''بڑے ادب پارے کی ایک خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ قاری کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ اس کے مطالعے کے بعد وہ، وہ نہیں رہتے جو اس کے مطالعے سے پہلے تھے۔ سرسید کی تحریروں میں یہ خصوصیت موجود ہے کہ وہ آپ کی شخصیت کو بدل کر رکھ دیتی ہیں۔ آپ کے فکر و عمل میں انقلاب برپا کردیتی ہیں۔''
اپنے ایک مضمون میں جمیل یوسف نے اس سوال کا جواب دیا ہے کہ فکر اقبال کا ماخذ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ''اقبال کا مطالعہ کرنیوالوں نے کہیں نتشے کو، کہیں برگساں کو ان کی فکر کا ماخذ قرار دیا ہے اور کہیں ہیگل اورکہیں کانٹ کو۔ ان لوگوں نے اقبال کو کارل مارکس کا خوشہ چیں بھی بتایا ہے جب کہ اقبال نے علی الاعلان اس حقیقت کا اظہار خود اپنے کلام میں کر دیا ہے کہ اھ کے قلم سے جو کچھ نکلا ہے وہ قرآنی علم و حکمت کے سوا اور کچھ نہیں۔حفیظ جالندھری پر ایک طویل مضمون ہے جس میں جمیل یوسف نے ان کی شاعری اور شخصیت پر اظہار خیال کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں 1951-52 میں جب مجھے شعر و شاعری کا چسکا لاحق ہوا تو وطن عزیز کی شعری فضاؤں میں حفیظ جالندھری کا نام گونج رہا تھا۔ شاہنامۂ اسلام اشاعت پذیر ہوچکا تھا، اس کے مترنم اشعار جلسوں اور مشاعروں میں اپنا جادو جگا چکے تھے۔ حفیظ کی اولین نظموں کا مجموعہ ''نغمہ زار'' بھی شایع ہوچکا تھا جس کی ایک نظم ''ابھی تو میں جوان ہوں'' مرغوب عام ٹھہری تھی۔ جمیل یوسف لکھتے ہیں ''اردو میں شاہنامۂ اسلام جیسی مثنوی کوئی اور ہے ہی نہیں۔ یہ مثنوی دس ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ سارے تاریخی واقعات بڑی صحت اور لطف بیان سے رقم کیے گئے ہیں۔ جہاں جہاں نعتیہ اشعار آئے ہیں ان کا جواب نہیں۔ حفیظ نے ہم عصر غزل میں بھی اپنا رنگ جمایا۔ ان کی غزلوں کے کئی اشعار اہل ذوق کی زبانوں پر چڑھ گئے:
ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات' یاد نہ تم کو آسکے
تم نے ہمیں بھلا دیا' ہم نہ تمہیں بھلا سکے
جمیل یوسف اختر شیرانی کے بارے میں لکھتے ہیں ''جب سلمیٰ سے اختر شیرانی کا عشق کامیاب نہ ہوسکا تو عشق اور سلمیٰ دونوں اس کی شعری دنیا میں محبت، مسرت، انسان دوستی اور امن و آشتی کا استعارہ بن گئے۔ اس استعارے سے اختر شیرانی نے ایک ایسی مثالی دنیا تخلیق کی ہے جس میں داخل ہوتے ہی ہم دنیا کی مصیبتوں اور زندگی کی تلخیوں سے نجات حاصل کرلیتے ہیں۔ اختر خواب و خیال کی جس وادی میں اپنی سلمیٰ کا انتظار کرتا ہے وہ اسی سرزمین عشق کی وادی ہے جو اس کی اپنی تخلیق کردہ ہے۔''
سنا ہے میری سلمیٰ رات کو آئے گی وادی میں
جمیل یوسف مجید امجد پر اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ان کے بارے میں دو باتیں بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ساری اردو شاعری میں کوئی ایسا شاعر نہیں جس کا کینوس اتنا وسیع ہو اور دوسری بات یہ کہ شاید ہی کوئی اور شاعر ہو جو شدت احساس میں اس کا ہم پلہ ہو۔
عبدالحمید عدم کے بارے میں جمیل یوسف کہتے ہیں ''شاید ہی کوئی ایسا ہوگا جو شعرکا ذوق رکھتا ہو اور اسے عدم کا کوئی شعر یاد نہ ہو۔ عدم کی بے پناہ مقبولیت کا راز صرف اس کے کمال فن میں مضمر ہے۔ جس طرح کی سادگی اور بے ساختگی اس کے کلام میں پائی جاتی ہے وہ اس کی فنی پختگی کا ثمر ہے جو فن کی معراج پر ہی نصیب ہوتی ہے۔''
آپ سے اور کیا سوال کریں
آپ نے مسکرا کے دیکھ لیا
جمیل یوسف نے سید ضمیر جعفری کا خاکہ بھی لکھا ہے۔ لکھتے ہیں کہ وہ کسی کی دل آزاری کے کبھی مرتکب نہ ہوئے، تحریر نہ تقریر سے۔ وہ کوئی بات ایسی کبھی نہ کرتے جس سے کسی کو کوئی دکھ پہنچے۔ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب ان کے بیٹے جنرل احتشام ضمیر کالج میں پڑھتے تھے تو ان کو سگریٹ نوشی کی لت پڑ گئی۔ گھر میں سگریٹ سلگانے کا تو خیر سوال ہی نہ تھا مگر ضمیر جعفری کو کسی طرح پتا چل گیا۔ ایک صبح کالج جانے کے لیے جب احتشام گھر سے نکلنے لگے تو جعفری صاحب نے گولڈ لیف کی ایک ڈبیا جو وہ غالباً ایوان صدر سے لائے ہوں گے کہ اس پر پریزیڈنٹ ہاؤس لکھا ہوا تھا، ان کی طرف بڑھا دی کہ یہ لو۔ صاحبزادے نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ابو! سگریٹ کی ڈبیا کا میں کیا کروں گا؟ ضمیر جعفری صاحب مسکراتے ہوئے کہنے لگے، پرنسپل کو دے دینا۔'' جمیل یوسف کہتے ہیں ضمیر جعفری کے فکر و فن کے جائزے کے لیے پوری ایک کتاب درکار ہے۔
جمیل یوسف نے پروفیسر خورشید رضوی، رشید قیصرانی، اقبال اختر اور پروین شاکر کی شاعری پر اظہار خیال کیاہے۔ احمد ندیم قاسمی اور ڈاکٹر وزیر آغا کا تذکرہ بھی ان کی اس کتاب میں ہے۔ ایک مضمون مولانا ظفر علی خان پر اور ایک ''احمد فراز کی شہرت اور مقبولیت کے راز'' پر بھی ہے۔
جمیل یوسف لکھتے ہیں ''شاعروں میں جو شہرت، عزت اور دولت احمد فراز نے کمائی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ کسی اور شاعر کو زندگی میں وہ بے پناہ محبت اور والہانہ عقیدت نہیں ملی جو احمد فرازکے حصے میں آئی۔ اقبال اور فیض کی بات الگ ہے۔ وہ بلاشبہ احمد فراز کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑے شاعر تھے، ان کی زندگی میں بھی ان کی شہرت اور مقبولیت کچھ کم نہ تھی مگر ان کی پذیرائی اور ان کی اہمیت کی سطح کچھ مختلف نوعیت کی تھی۔ پھر ان کی شہرت اور مقبولیت کا دائرہ اتنا وسیع اور بے کراں نہیں تھا۔ مثلاً فراز کی زندگی میں ان کے شعری مجموعے جس کثیر تعداد میں فروخت ہوئے اس کی کوئی مثال اردو شاعری کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ پھر جتنی محفلوں اور مشاعروں میں احمد فراز کو سنا گیا اس کی بھی کوئی نظیر اردو شاعری کی تاریخ میں موجود نہیں۔
جمیل یوسف لکھتے ہیں ایک مشاعرے کے دوران ظفر اقبال نے احمد فراز سے کہا کہ '' فراز! جس طرح کی شاعری تم کرتے ہو، کیا تمہارا خیال ہے کہ تمہارے مرنے کے بعد یہ زندہ رہے گی؟'' احمد فراز نے جواب دیا ''ظفر اقبال! جتنی عزت، لوگوں کی محبت اور شہرت مجھے مل گئی ہے وہ میرے لیے کافی ہے۔ مجھے اس سے غرض نہیں کہ میری شاعری میرے مرنے کے بعد بھی زندہ رہتی ہے یا نہیں۔''