مسئلہ کشمیر پر بھی نا اتفاقی

حکومت نے کشمیر جیسے اہم مسائل پر اپوزیشن کو اعتماد میں لینا ضروری نہیں سمجھا۔

وزیر اعظم عمران خان کی اپیل پر جمعہ کو ''کشمیر آور'' جوش وخروش سے سرکاری طور پر منایا گیا اور دوپہر بارہ بجے سے ساڑھے بارہ بجے تک ملک بھر میں مختلف تقریبات منعقد کی گئیں جن میں اپوزیشن کی کوئی جماعت دور دور تک نظر نہیں آئی اور تو اور حکومت اور اپوزیشن سے دور رہنے والی جماعت اسلامی بھی اس موقع پر سرکاری کشمیر آور میں نظر نہیں آئی اور اس نے اپنی انفرادی حیثیت میں ہی اپنے پروگراموں کا سلسلہ جاری رکھا۔

اپوزیشن اور بعض حلقوں نے اس جمعہ کو اور آیندہ ہونے والے جمعہ کو سرکاری اجتماعات کو سرکاری شو قرار دیا اورکہا کہ یہ سب جمعہ کی نماز کے بعد ہونا چاہیے تھا کیونکہ اس وقت سرکاری دفاتر کے ملازمین اور تعلیمی اداروں کے طلبا اورطالبات ہی دستیاب ہوتے ہیں۔کاروباری لوگ اور دیگر شہری جمعہ کی تیاری میں مصروف ہوتے ہیں اور نماز جمعہ کے بعد ہی ایسے اجتماعات میں شریک ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے سیاسی و مذہبی جماعتیں جمعہ کی نماز کے بعد ہی اپنے پروگرام رکھتی ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظالمانہ جارحیت جو پانچ اگست سے شروع ہوئی تھی اس پر تمام پاکستانی دکھی اور افسردہ ہیں اور میڈیا کے ذریعے مظلوم کشمیریوں پر بھارتی فوج کے مظالم کے ساتھ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ مسلسل کرفیو، شیلنگ ، پیلٹ گنوں کے اندھا دھند استعمال، فائرنگ اور گرفتاریوں کے باوجود مظلوم مگر دلیر کشمیری سڑکوں پر نکل کر احتجاج سے باز نہیں آئے اور بھارت کے خلاف کشمیر کی آزادی کے نعرے لگا کر شہید اور زخمی ہو رہے ہیں، گرفتاریاں کشمیریوں کو گھروں میں قید رکھنے میں ناکام ہوچکی ہیں۔ وہ کون سے مظالم ہیں جو بھارت نے نہتے کشمیریوں پر نہیں کیے مگر ان میں جذبہ آزادی کم ہونے میں نہیں آرہا بلکہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔

بھارتی فوج کے نزدیک کشمیرکے بزرگوں، خواتین اور بچوں کا امتیاز ختم ہوچکا ہے کشمیری نوجوانوں پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں وہ اب ہی نہیں بلکہ عشروں سے عالمی میڈیا پر دکھائے جاتے رہے ہیں۔ معصوم بچوں اور معذوروں کو بھی نہیں بخشا گیا مگر عالمی ضمیر ہی نہیں بلکہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کا ضمیر بھی نہیں جاگا اور وزیر اعظم عمران خان کا یہ کہنا درست ہے کہ کشمیریوں کے ساتھ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ اگر کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت نہ ہوتی تو اقوام متحدہ اپنی ہی منظور کی گئی قراردادوں کی پامالی پر 70 سال سے خاموش نہ ہوتی بلکہ بھارت کے خلاف کچھ توکرکے دکھاتی۔

مسلمان ممالک کے اتحاد کے لیے پچاس سال قبل بنائی جانے والی او آئی سی جو مسلم ملکوں کی آرگنائزیشن ہے کو شاید اب تک پتا نہیں چلا کہ 5 اگست کو بھارت نے کشمیر پر اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کرکے مکمل قبضہ کرلیا ہے اور کشمیر میں طویل ترین کرفیو کے نفاذ کا نیا عالمی ریکارڈ قائم کردیا ہے۔

بھارتی گجرات میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل کر دنیا میں مسلمانوں کا دشمن ازلی خود کو ثابت کرنے والے قاتل مودی نے ترقی کرکے وزیر اعظم دوبارہ منتخب ہونے کے 70 ویں روز میں وہ کچھ کر دکھایا ہے جو بھارتی حکمران 70 سالوں میں کرنے کی جرأت نہ کرسکے تھے ۔ مودی اس پر فخر بھی کر رہا ہے۔ او آئی سی کو 26 روز بعد کشمیر کی سنگین صورتحال کا خیال تو آیا مگر ان کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں کہ بھارت ایسے پھس پھسے بیان اور مطالبے کو کوئی اہمیت دے گا۔


سرکاری حلقوں نے جمعہ کو کشمیر آور کو اس لیے بہت کامیاب قرار دیا ہے کہ آدھا گھنٹہ کشمیریوں کی حمایت میں ملک بھر میں جو ریلیاں اور احتجاجی اجتماعات ہوئے ان کی عالمی میڈیا میں بھرپور کوریج ہوئی اور دنیا بھر میں مسئلہ کشمیر اجاگر ہوا۔

بھارت نے کشمیریوں پر مظالم کی انتہا کر رکھی ہے اور ایل او سی پر فائرنگ کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے جس سے پاکستان کی شہری آبادی کا کافی جانی نقصان ہوچکا ہے جس کا جواب پاکستان نے محدود پیمانے پر دیا ہے جس سے عوام اور سیاسی جماعتیں مطمئن نہیں ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ بھارت کو اسی کی زبان میں جواب دیا جائے کیونکہ ہماری پالیسی سے بھارت کا فوجی نقصان تو ہوا مگر وہاں کی شہری آبادیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اور وہ بالکل محفوظ ہیں جب کہ ایل او سی پر پاکستان کی شہری آبادی ہمیشہ سے غیر محفوظ چلی آرہی ہے اور اب بھی وہاں ہماری شہری آبادی تقریباً روزانہ ہی بھارتی فائرنگ کا نشانہ بن رہی ہے اور جن کے پاس اس کا متبادل یا وسائل ہیں وہ تو محفوظ مقامات پر نقل مکانی کر لیتے ہیں جن کے پاس کچھ نہیں وہ بھارتی فائرنگ سے مسلسل جانی و مالی نقصان برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔

عوام یہ بھی چاہتے ہیں کہ بھارت کی مسلسل جارحیت اور آئے دن شہری آبادیوں پر فائرنگ کے جواب میں پاکستان کو بھی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے تاکہ ایل او سی کے دوسری طرف آباد بھارتی شہری آبادیوں میں خوف و ہراس پھیل سکے اور وہ بھی خود کو غیر محفوظ سمجھ کر اپنی حکومت کو اس کی جارحیت روکنے کا مطالبہ کرسکیں۔

بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد پاکستان میں پارلیمنٹ کا جو مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا تھا، اس میں اپوزیشن اور حکومت کی طرف سے کیا جانے والا تماشا پوری قوم نے دیکھا۔ وفاقی وزیر مراد سعید نمبر بڑھانے کے لیے جذبات میں آکر جو تنقید کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں جب انھوں نے کشمیر پر بولنے کی بجائے اپوزیشن پر برسنا شروع کیا تو اسپیکر کو بھی مجبوراً کہنا پڑا کہ وہ ایجنڈے پر بات کریں جس کے بعد مراد سعید کی ٹون تبدیل ہوئی۔

کشمیر پر سیمینار ہو مگر شیخ رشید کی تان مسلم لیگ (ن) کے ٹوٹنے کی خبروں پر ٹوٹتی ہے۔ حکومت نے کشمیر جیسے اہم مسائل پر اپوزیشن کو اعتماد میں لینا ضروری نہیں سمجھا بلکہ قومی اسمبلی اور باہر بھی حکومتی حلقے کشمیر سے زیادہ سابق حکمرانوں کی مبینہ کرپشن پر بولنے کو ترجیح دے رہے ہیں اور قومی سطح پر کہیں ایسا اتفاق نظر نہیں آیا جہاں حکومت اور اپوزیشن کشمیر پر ایک نظر آتی۔

سابق حکمرانوں کی مبینہ کرپشن سے نمٹنے میں نیب نے صرف اپوزیشن سے جواب طلبی شروع کر رکھی ہے تو حکومت کو اپنی توجہ کشمیر کے لیے مرکوز رکھنے کے لیے سفارتی سطح پر متحرک ہوکر ملک سے باہر اپنے وزیر بھیج کر عالمی سطح پر دنیا کو جاکر بتانا چاہیے کہ کشمیر زمین کے ٹکڑے کا تنازعہ نہیں بلکہ پاکستان کی شہ رگ کا اہم ترین دو طرفہ تنازعہ ہے جہاں صرف مسلمان ہونے پر بھارت ہی نہیں دنیا بھی انھیں سزا دے رہی ہے۔
Load Next Story