آواران میں متاثرین زلزلہ کھلے آسمان تلے امداد کے منتظر
متاثرہ علاقوں میں خوراک اور پینے کے پانی کی شدید قلت ہے جبکہ لوگوں کے پاس سر چھپانے کے لئے جگہ بھی موجود نہیں ہے۔
شدید زلزلے سے متاثرہ بلوچستان کے انتہائی پسماندہ ضلع آواران میں لاکھوں متاثرین تاحال امداد کی فراہمی کے منتظر ہیں، متاثرین شدید گرمی میں کھلے آسمان تلے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔
متاثرہ علاقوں میں خوراک اور پینے کے پانی کی شدید قلت ہے جبکہ لوگوں کے پاس شدید گرمی میں سر چھپانے کیلیے جگہ بھی موجود نہیں ہے۔ ڈپٹی کمشنر آواران کے مطابق زلزلے سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ امدادی کاموں میں مصروف فلاحی اداروں کے مطابق یہ ڈسٹرکٹ انتظامیہ تاحال شدید متاثرہ علاقوں تک رسائی ہی حاصل نہیں کرسکی ہے۔ آواران کے سب سے زیادہ متاثرہ تحصیل مشکے گذشتہ کئی سالوں سے علیحدگی پسند بلوچ قوم پرست جماعتوں کا گڑھ سمجھی جاتی ہے، دشوار گذار اور ناہموار راستے کی وجہ سے صرف مخصوص طاقتور انجن اور چاروں پہیوں سے چلنے والی جیپیں ہی ان علاقوں تک پہنچا سکتی ہیں جبکہ ڈسٹرکٹ انتظامیہ کے پاس ایسی گاڑیاں موجود نہیں۔ پاک فوج سمیت مختلف سیاسی و فلاحی اداروں کی جانب سے بھیجی جانے والی امداد ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر آواران میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر تک پہنچائی جارہی ہے۔
تاہم ڈسٹرکٹ انتظامیہ اس امداد کو اپنے گوداموں میں ذخیرہ کررہی ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے شدید متاثرہ علاقوں میں سرکاری ملازمین اور سیکیورٹی فورسز کا جانا انتہائی خطرناک تصور کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ڈسٹرکٹ انتظامیہ کے اہلکار ان علاقوں میں جانے کیلیے تیار نہیں ۔آواران ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گاؤں ڈل بیدی کے رہائشیوں نے بتایا کہ انھیں 4دن گذرنے کے بعد بھی امداد میں ایک سوئی بھی نہیں ملی۔ گاؤں میں واقع 350 گھر مکمل طور پر گرچکے ہیں اور لوگوں کے پاس سائے میں بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں ہے۔ رات میں مچھر اور دن میں شدید دھوپ میں وقت گذارنے پر مجبور ہیں۔بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عبدالمنان نے وہاں پہنچنے والے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی بھی صورت فوج، ایف سی، پولیس یا لیویز کو امداد کے نام پر مشکے میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ اگر ملکی اور غیرملکی فلاحی ادارے امدادی سرگرمیوں کیلیے آزادانہ طور پر انھیں وہ اور دیگر بلوچ قوم پرست جماعتیں کسی قسم کی رکاوٹ کھڑی نہیں کریں گے۔
متاثرہ علاقوں میں خوراک اور پینے کے پانی کی شدید قلت ہے جبکہ لوگوں کے پاس شدید گرمی میں سر چھپانے کیلیے جگہ بھی موجود نہیں ہے۔ ڈپٹی کمشنر آواران کے مطابق زلزلے سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ امدادی کاموں میں مصروف فلاحی اداروں کے مطابق یہ ڈسٹرکٹ انتظامیہ تاحال شدید متاثرہ علاقوں تک رسائی ہی حاصل نہیں کرسکی ہے۔ آواران کے سب سے زیادہ متاثرہ تحصیل مشکے گذشتہ کئی سالوں سے علیحدگی پسند بلوچ قوم پرست جماعتوں کا گڑھ سمجھی جاتی ہے، دشوار گذار اور ناہموار راستے کی وجہ سے صرف مخصوص طاقتور انجن اور چاروں پہیوں سے چلنے والی جیپیں ہی ان علاقوں تک پہنچا سکتی ہیں جبکہ ڈسٹرکٹ انتظامیہ کے پاس ایسی گاڑیاں موجود نہیں۔ پاک فوج سمیت مختلف سیاسی و فلاحی اداروں کی جانب سے بھیجی جانے والی امداد ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر آواران میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر تک پہنچائی جارہی ہے۔
تاہم ڈسٹرکٹ انتظامیہ اس امداد کو اپنے گوداموں میں ذخیرہ کررہی ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے شدید متاثرہ علاقوں میں سرکاری ملازمین اور سیکیورٹی فورسز کا جانا انتہائی خطرناک تصور کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ڈسٹرکٹ انتظامیہ کے اہلکار ان علاقوں میں جانے کیلیے تیار نہیں ۔آواران ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گاؤں ڈل بیدی کے رہائشیوں نے بتایا کہ انھیں 4دن گذرنے کے بعد بھی امداد میں ایک سوئی بھی نہیں ملی۔ گاؤں میں واقع 350 گھر مکمل طور پر گرچکے ہیں اور لوگوں کے پاس سائے میں بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں ہے۔ رات میں مچھر اور دن میں شدید دھوپ میں وقت گذارنے پر مجبور ہیں۔بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عبدالمنان نے وہاں پہنچنے والے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی بھی صورت فوج، ایف سی، پولیس یا لیویز کو امداد کے نام پر مشکے میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ اگر ملکی اور غیرملکی فلاحی ادارے امدادی سرگرمیوں کیلیے آزادانہ طور پر انھیں وہ اور دیگر بلوچ قوم پرست جماعتیں کسی قسم کی رکاوٹ کھڑی نہیں کریں گے۔