انتہا پسند ہندو رہنما اگلا بھارتی وزیراعظم

دہشت گرد ہندو تنظیم آر ایس ایس میں لڑکپن، جوانی اور بڑھاپا گزارنے والے نریندرمودی کو کس قدرعوامی حمایت حاصل ہے؟

پاکستان اور چین کو سبق سکھانے کا نعرہ لگانے والا سیاست دان وزارت عظمیٰ سے کتنا نزدیک، کتنا دور؟ مفصل رپورٹ۔ فوٹو: فائل

2002ء میں ہونے والے گجرات فسادات کا احوال بیان کرنا اب بھی اتنا ہی اذیت ناک ہے جتنا گیارہ برس قبل۔

وہی ایک تصویر نہیں دیکھی جاتی جس میں28سالہ قطب الدین انصاری، ایک تنگ برآمدے میں کھڑا ہندودہشت گردوں کے آگے ہاتھ جوڑ کرزندگی کی بھیک مانگ رہاہے۔ اس کی چیک والی شرٹ پر جابجا خون کے دھبے لگے ہوئے ہیں، شرٹ تشدد کی وجہ سے جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی ہے۔ قطب الدین انصاری کی آنکھوں میں خوف انتہا کا ہے۔ یہی تصویر نہیں دیکھی جاتی تو بلقیس بانو کی کہانی کیسے سنی جائے گی جس کے گھر میں مسلح ہندوئوں کا ایک گروہ گھس آیاتھا۔اس ہجوم میں اس کے ہندوپڑوسی بھی شامل تھے اور چھ پولیس اہلکار بھی اور دو ڈاکٹرز بھی ۔ بلقیس اس وقت پانچ ماہ کی حاملہ تھیں، ہجوم نے سارے گھروالوں کے سامنے بلقیس کی اجتماعی عصمت دری کی، اس کے بعد ان کے گھر کے آٹھ افراد کو مسلسل بدترین تشدد کرکے شہید کرڈالا، باقی کے چھ افراد کوساتھ لے گئے، ان کے بارے میں آج تک کسی کو خبر نہیں۔اس ہجوم نے بلقیس کی ساڑھے تین سالہ بیٹی صالحہ کو بھی قتل کردیاتھا۔

گجرات فسادات کو مغربی ذرائع ابلاغ نے بھی1947ء کے بعد سب سے خوفناک فسادات قراردیاتھا۔اس میں قریباً دو ہزار افراد کو شہید کیاگیاتھا۔ بیسیوں بلقیسوں کی عصمت دری ہوئی، سینکڑوں ننھی منی صالحائیں شہید کردی گئیں، سفید بالوں اور کمزور جسموں والے بیماربوڑھوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں تھی، انھیں بھی مارمار کے ماردیاگیا اور یہی معاملہ جوانوں کے ساتھ بھی پیش آیا۔ ریاست کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کے بارے میں واضح شواہد سامنے آئے کہ یہ آگ وخون کا کھیل انہی کے اشارے پر اور انہی کی منصوبہ بندی کے عین مطابق کھیلاگیا۔ دہشت گرد ہندو تنظیم راشٹریہ سوایمسیوک سنگھ (آر ایس ایس) میں اپنا لڑکپن، جوانی اور اب بڑھاپا گزارنے والے نریندرمودی نے مسلم مخالف فسادات کے دوران پولیس کو مداخلت نہ کرنے کی ہدایت دی تھی۔



بعدازاں جب مودی انتظامیہ کے خلاف گواہان عدالتوں میں پہنچے تو مودی انتظامیہ ایک بارپھر حرکت میں آئی اور چن چن کر ہرایسے فرد کو قتل کردیاگیا جس کی وجہ سے مودی سرکار پھنس سکتی تھی۔زیادہ تر پولیس مقابلوں میں شہید کردئیے گئے۔اب اسی نریندر مودی کوبھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی) نے امیدوار برائے وزیراعظم نامزد کردیاہے۔ غالباً یہ بھارتی تاریخ میں پہلا موقع تھا جب کوئی سیاسی جماعت انتخابات سے پہلے ہی کسی فرد کو وزارتِ عظمیٰ کے لیے میدان میں لے آئی ہے۔

اگرچہ بی جے پی ان دنوں نریندرا مودی کے بارے میں تاثر درست کرنے کی کوشش کررہی ہے تاہم 2002ء میں اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی(جن کا تعلق بی جے پی سے تھا) نے بھی فسادات میں مودی کے کردار کااعتراف کیاتھا اور انھیں برطرف کرنے کو تیارہوگئے تھے لیکن مودی کوبی جے پی کے سربراہ ایل کے ایڈوانی کی پشت پناہی حاصل تھی چنانچہ ان کا بال بھی بیکا نہ ہوسکا۔ مغربی دنیا بھی نریندر مودی کو ایک انتہا پسند شخصیت مانتی ہے۔یادرہے کہ گجرات فسادات کے بعد2005ء میں امریکہ نے مودی کو سفارتی ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔امریکہ نے مودی کے سیاحتی اور کاروباری ویزے کو بھی رد کر دیا تھا۔یہ پابندی اب بھی برقرار ہے۔ برطانیہ نے بھی مودی کو ویزا دینے میں انکار کیا تھا تاہم اب برطانیہ نے مودی کو ویزا دینے کے لیے ہامی بھر لی ہے۔

تجزیہ نگاروں اورماہرین کی ایک بڑی تعداد کا خیال ہے کہ 2014ء کے پارلیمانی انتخابات صدارتی شکل اختیارکرچکے ہیں۔ ان میں قوم کو اس سوال کا جواب دیناہے کہ وہ مودی کو وزیراعظم بناناچاہتی ہے یا نہیں؟یہ سوال بی جے پی کے لئے بہت بڑا رسک ہے۔پارلیمانی انتخابات میں ایک طرف مودی ہیں اور دوسری طرف وہ تمام حقیقی اور خود ساختہ سیکولر طاقتیں جو ان کے نظریے کو مذہبی آہنگی اور قومی سالمیت کے لیے خطرہ مانتی ہیں۔ حالیہ تاریخ میں مودی پہلے ایسے رہنما ہیں جن کے لوگ یا تو سخت خلاف ہیں اور یا پھر زبردست حامی اور یہ صورتحال خود ان کی اپنی جماعت کے اندر بھی موجود ہے۔ان کے حامی بھی شدیدجذبات رکھتے ہیں جبکہ مخالفین بھی انھیں ایک لمحہ کے لئے بھی قبول کرنے کو تیارنہیں۔ بی جے پی کی کامیابی اسے اگلے پانچ برس کے لئے ایسا سنہری موقع فراہم کرے گی جس کے نتیجے میں نئے سنہری مواقع پیدا ہوسکتے ہیں لیکن اگر قوم نے مودی کی وجہ سے بی جے پی کو مسترد کردیاتو بی جے پی سیاسی طورپر موت کے گھاٹ اترجائے گی۔ یہ سخت گیر ہندوتوا کے ساتھ ہی ساتھ مودی کی ساکھ کی بھی شکست ہوگی، اس کے بعد بی جے پی کو پھر ایک نئی نظریاتی سمت اور نیا رہنما تلاش کرنا پڑے گا۔



جب ہم اس سوال کا جواب تلاش کریں گے کہ آیا مودی وزیراعظم بن سکیں گے یا نہیں؟ تو آغاز کرنا ہوگا ان کی اپنی جماعت سے، اور جائزہ لینا ہوگا کہ پارٹی کے اندر سے انھیں کس قدر حمایت حاصل ہے؟ بی جے پی کے جس اجلاس میں نریندر مودی کو بطورامیدوار برائے وزارت عظمیٰ نامزد کیاگیا ، اس میں پارٹی کے سینیئر رہنما اور مودی کے سابق سرپرست لال کرشن ایڈوانی نے شرکت نہیں کی تھی۔ یادرہے کہ ایڈوانی بی جے پی کے تین مدتوںکے لئے صدر بھی رہے ہیں۔ ایڈوانی کے ایسے بیانات بھی سامنے آئے ہیں جن سے واضح ہوتاہے کہ وہ مودی کے حق میں نہیں ہیں۔ پارٹی کے سابق سربراہ کااختلاف معمولی معاملہ نہیں ہے۔

سن 1980ء میں قائم ہونے والی بی جے پی کے پہلے سربراہ واجپائی تھے،1986ء میں ایل کے ایڈوانی نے بی جے پی کی قیادت سنبھالی، انھوں نے اس جماعت کوجن سنگھ کی طرز پر بنیادپرست اور متعصب پارٹی بنانا چاہا۔ انھوں نے بابری مسجد کے خلاف مہم چلائی اور1992ء میں بابری مسجدکو شہید کرکے وہاں رام مندر کی بنیاد رکھی۔ وہ دراصل انتہاپسند ہندوئوں کی آنکھ کا تارابن کر ملک پر حکمرانی کا خواب دیکھ رہے تھے۔

ایڈوانی کا خیال تھا کہ مودی جیسے لوگوں کے کندھوں پر چڑھ کر 2004ء کے پارلیمانی انتخابات کے نتیجے میں ان کا دیرینہ خواب پورا ہوگا لیکن اس بارقوم نے بی جے پی کو انتہائی بے رحمی کے ساتھ مسترد کردیا۔ بی جے پی کے ایک بڑے حصے نے اس شکست کا کلی طورپر ذمہ دار ایڈوانی ہی کو قراردیا، ایسے میں جب ایڈوانی نے مودی جیسے لوگوں کو اپنی حمایت میں بولنے کو کہاتو وہ خاموش رہے کیونکہ مودی خود ایڈوانی جیسا خواب دیکھ رہے تھے۔اس مرحلے پر ایڈوانی کی آنکھیں کھلیں کہ بی جے پی کا ایک بڑا حصہ انھیں چھوڑ کر مودی کے گرد جمع ہوچکاہے۔آر ایس ایس بھی اپنے پرانے کارکن (مودی )کا ساتھ دے رہی تھی۔



بی جے پی کے رہنمائوں میں سب سے کم پڑھے لکھے مودی نے''گجرات میں ترقی''کاپراپیگنڈا کرکے بھارت کے بڑے بڑے تاجروں اور صنعت کاروں کو اپنے ساتھ ملالیا۔اس طرح ''بھارتی وزارت ِعظمیٰ کے ایک مضبوط امیدوار'' کی ساکھ بنالی۔انھوں نے ریاست کے اندر اپنی تمام مدمقابل شخصیات اور طبقات کو کچل دی جبکہ بیوروکریسی اور پولیس کو بھی خوفزدہ رکھا۔ تاہم اس سب کچھ کے نتیجے میں ایک مشکل یہ پیدا ہوگئی کہ اب آر ایس ایس میں بھی ایسے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جو ان کے بے رحمانہ شخصی اندازسیاست پر انگلیاں اٹھارہے ہیں۔ مودی میں برداشت نام کو بھی نہیں ہے۔ اوپر عرض کیاجاچکا ہے کہ وہ اپنے مخالفین بالخصوص مسلمانوں کو چن چن کر پولیس مقابلوں میں ہلاک کراتے رہے۔کہاجاتا ہے کہ آر ایس ایس کی قیادت مودی سے مکمل طور پر خوش نہیں۔ سنگھ پریوارکے بعض حلقوں میں یہ محسوس کیا جانے لگا ہے کہ گجرات اور بی جے پی ایک شخص کے اردگرد سمٹ کر رہ گئی ہے اور سنگھ کی اہمیت کو بھی نہیں پہچانا جارہا۔دوسری طرف بی جے پی کے بہت سے لوگ بھی اسی سبب مودی کے خلاف ہیں کہ مودی نے اپنی ذات کو نمایاں جبکہ پارٹی کو پس منظر میں بھیج دیا ہے۔

مودی اپنے آپ کو ایک ایسے ہندوہیرو کے طور پر پیش کررہے ہیں جو ملک کے اندر اور باہر دشمنوں سے نبردآزما ہیں۔ 15ستمبر 2013ء کو (وزارت عظمیٰ کیلئے اپنی نامزدگی کے محض دو دن بعد) انھوں نے ریٹائرد بھارتی فوجیوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا۔ سٹیج پر سابق آرمی چیف ریٹائرڈ جنرل وی کے سنگھ بھی موجود تھے۔ اس موقع پر نریندرمودی نے کہا '' دہلی حکومت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ تمام مسائل کاحل مرکز کے پاس ہی ہوتاہے۔ ہمیںایک مضبوط اور محب وطن حکومت چاہیے تاکہ ملکی سالمیت اور ہماری فوجیوں کی زندگیاں محفوظ بنائی جا سکیں''۔ نریندرمودی واضح طورپر پاکستان کو ذہن میں رکھ کر یہ باتیں کررہے تھے۔

بی جے پی کے موجودہ سربراہ راج ناتھ سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ(مودی کو وزیراعظم کے طورپر سامنے لانے کا) عوامی خواہشات کے احترام میں کیا گیا، اگرچہ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ نریندر مودی کے نام پر تمام اتحادی جماعتوں نے حمایت کا اعلان کیا ہے تاہم حقائق راج ناتھ کے بیان سے مختلف ہیں۔ بی جے پی کی اتحادی جماعتیں بھی ایک ایسے ہارڈ لائنرہندوقوم پرست کو قبول کرنے کو تیارنہیں جو بطوروزیراعلیٰ گجرات اپنی ہی جماعت کے لوگوں کو اپنی حکومت میں شامل کرنے کو تیارنہیں تھا۔ ہر ایک کو انھوں نے اپنے تابع کرنے کی کوشش کی۔ بطوروزیر اعلیٰ ان کی تیرہ سالہ حکمرانی میں بی جے پی کے تقریباً سبھی بڑے رہنما ان کے طریقہ کار سے بدظن ہو کر پارٹی سے الگ ہو گئے یا پھر مودی کے قد آورسیاسی سائے میں ان کا وجود ضم ہو گیا۔یادرہے کہ 2004 ء کے عام انتخابات میں ایڈوانی بھی ہارڈ لائنر کے طورپر سامنے آئے تھے لیکن ایڈوانی کے اس امیج کواین ڈی اے میں شامل جماعتوں نے قبول نہیں کیاتھا۔ مودی کو بطور امیدوار برائے وزارت عظمیٰ مسترد کرنے والوں میںبہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار سرفہرست ہیں۔



اپنی جماعت میں موجود بعض مضبوط حلقوں اور اتحادیوںکی طرف سے مخالفت کے باوجود مودی ایک بڑے رہنما کے طورپر ابھررہے ہیں تو اس میں نہ ان کااپنا کمال ہے نہ ہی بی جے پی کا بلکہ اس میں کانگریسی حکومت کی ناکامی کو عمل دخل حاصل ہے۔جہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ بی جے پی قوم کے سامنے کوئی جامع پروگرام ہی پیش نہیں کرسکی، وہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وزیراعظم من موہن سنگھ کی حکومت پچھلے کئی برسوں سے کوئی کام کاج کرنے کے بجائے بدانتظامی، بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات کا دفاع کرنے میں ہی مصروف رہی۔حکومت اپنی ساکھ اور مقبولیت بہت تیزی سے کھو رہی ہے۔مدتِ اقتدار کے آخری مہینوں میں بھی ملک میں یہ سوال زبانِ زدِعام تھا کہ کیاوزیراعظم من موہن سنگھ مدت پوری کرسکیں گے یانہیں؟

بی جے پی نے مودی کو وزیراعظم نامزد کرکے اپنا پتہ کھیل لیا لیکن کانگریس ابھی تک یکسو ہی نہیں ہوسکی کہ اگلاوزیراعظم کسے بنایا جائے؟ کچھ عرصہ پہلے تک توقع کی جا رہی تھی کہ راہول گاندھی آئندہ پارلیمانی انتخابات میں کانگریس کی قیادت کریں گے لیکن ان کی سیاسی سوجھ بوجھ اور ارتقا سے ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ وہ اس مرحلے پر وزارت عظمیٰ کی امیدواری کے اہل ہیں۔ اب وہ خود بھی اعتراف کرنے لگے ہیں کہ وہ وزیراعظم بننے کی دوڑ میں شامل نہیں ۔ یہ ایک خطرناک بلکہ تباہ کن سیاسی کنفیوژن ہے جس کا کانگریس شکار ہے۔

کانگریس کی کنفیوژن کے باوجود نریندر مودی کا خواب برائے وزارت عظمیٰ پورا ہونا آسان نہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق نریندر مودی اور 7 ریس کورس روڈ(وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ) کے درمیان اب بھی بنیادی طور پر تین بڑی رکاوٹیں موجود ہیں:۔

اوّل: بھارتی ووٹرز کی سوچ قومی نہیں ہے۔ وہ ووٹ ڈالتے ہوئے قومی مسائل کو پیش نظر نہیں رکھتے بلکہ ریاستی اور مقامی مسائل ہی کو سامنے رکھتے ہیں ۔بھارتی انتخابات پر گہری نظررکھنے والے ماہرین کا کہناہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں یہاں ہونے والے عام انتخابات کے کردار میں قومی قرار دی جانے والی چیزیں بہت کم رہ گئی ہیں۔ ایسے میں مودی کے نعرے عوام کے لئے زیادہ پرکشش ثابت نہیں ہوں گے۔

دوم : مودی کی راہ میں دوسری رکاوٹ ووٹوں کو سیٹوں اور جیت میں تبدیل کرنے کے معاملے میں بی جے پی کا خراب ریکارڈ رہا ہے۔بی جے پی نے پارٹی کو ملے ہر ووٹ کے تناسب میں جتنی سیٹیں جیتی تھیں اس میں تسلسل کے ساتھ کمی دیکھی جا رہی ہے۔ سال1999ء میں یہ تناسب سب سے بلند سطح پر تھا۔

سوم: گزشتہ دو عام انتخابات کے نتائج کا رجحان دیکھا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ بھارت میں اب بھی کانگریس کو دہلی پر حکومت کے لیے فطری پارٹی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔مودی کو اس روایت کو بھی توڑنا ہوگا۔برصغیر کے پسماندہ علاقوں کا یہی مسئلہ ہے کہ وہاں روایت کو توڑنا آسان نہیں ہوتا، گہرا تاثر آسانی سے جان نہیں چھوڑتا۔کانگریس کے بارے میں یہی گہرا تاثر اب بھی موجود ہے۔



مودی کی جیت کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ ووٹروں کو قومی سوچ کا حامل بنائیں۔اس کا مودی کو ادراک بھی ہے، اسی لئے وہ ''گجرات کی ترقی'' کا نعرہ لگا کر، اس کا کریڈٹ سمیٹنے کی کوشش کررہے ہیں اور قومی ترقی کا نعرہ لگا رہے ہیں۔گزشتہ دنوں انھوں نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے امریکہ اور کینیڈا کے غیرمقیم بھارتیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے شہریوں کو ہر فیصلے میں بھارت کے مفاد کو ترجیح دینی چاہیے اور سیکولرازم کی بنیاد یہی ہے کہ جو بھی کام کیا جائے وہ بھارت کے لیے ہو'۔


مودی ایک تنگ نظر، متعصب ہندو قوم پرست رہنما کے طورپر ساری دنیا میں بدنام ہیں۔ وزیراعظم بننے کے لئے وہ اپنی شخصیت کو متوازن ثابت کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ تاہم ان کی اصل ساکھ ، نظریات اور اب وزارت عظمیٰ کے لئے دوڑ نے انھیں مشکل میں ڈال دیاہے۔ اب اگر وہ ہندوؤں کے مسائل پر کافی توجہ نہیں دیتے تو انہیں اپنی سیاسی زمین سے محروم ہونے کانقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔دوسری طرف مشکل یہ بھی ہے کہ اگر وہ تنگ نظری کی روش پر قائم رہتے ہیں تو انہیں قومی لیڈر نہیں سمجھا جائے گا۔کانگریس انتخابی مہم کے دوران ووٹروں کو 2002ء کے گجرات فسادات میں مودی کا کردارضرور یاد دلائے گی۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں مودی خود کو مشکلات کا شکارپاتے ہیں۔ مودی کے لئے اس مشکل سے بچ کے گزرناخاصا مشکل ثابت ہوگا۔اسی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے امکانات ظاہر کئے جارہے ہیں کہ عام انتخابات کے آخری مقابلے میں پہنچنے سے پہلے مودی کا زوال بھی ہو سکتا ہے۔

مودی کی وجہ سے بی جے پی کوملک بھر کے مسلمان ووٹوں سے کلی طورپر محروم ہوناپڑے گا۔ یادرہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی تعداد 180 ملین ہے جو کل آبادی کا15فیصد ہیں۔ چھ ریاستوں میں مسلمان ووٹرز کل ووٹرز کا 11فیصد ہیں۔ان میں سیاسی طورپر اہم ترین ریاست اترپردیش بھی ہے۔ یہ ملک کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست ہے اور ملک کی پارلیمان یا ایوان زیریں میں سب سے زیادہ تعداد میں 80 رکن منتخب ہوکر یہاں سے جاتے ہیں۔اترپردیش کے علاوہ کوئی دوسری ریاست بی جے پی کی مجموعی کامیابی میں اہم کردار نہیں ادا کرسکتی۔ تاحال یہاں کی فضا بھی بی جے پی کے بالکل خلاف ہے۔گزشتہ عام انتخابات میں بی جے پی کو محض 10 نشستیں ہی مل پائی تھیں اور پارٹی کے مجموعی ووٹوں کی شرح میں بھی 4.7 فیصد کی کمی واقع ہوئی تھی۔اس کے بعد ہونے والے اسمبلی انتخابات کے نتائج بھی اس پارٹی کے لیے بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھے۔بات پھر وہی ہے کہ مودی کویہاں کی فضا اپنے لئے سازگار کرنی ہے تو ووٹروں کو قائل کرنا ہوگا کہ وہ عام انتخابات میں مقامی مسائل پر قومی مسائل کو ترجیح دیں۔ ریاست کے ایک تجربہ کار رہنما اور سابق پارلیمان افضل انصاری کہتے ہیں ''اتر پردیش میں سیاست آج بھی ذات پات کے اردگرد گھومتی ہے''۔



ایک دوسری انتہاپسند ہندوتنظیم شیوسینا سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی اور پارٹی ترجمان سنجے راوت کاکہناہے کہ این ڈی اے سیاسی طور پر بہت کمزور ہے، مرکزی حکومت قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ این ڈی اے میں مزید پارٹیوں کو شامل کیاجائے۔ بی جے پی صرف اسی صورت میں جیت سکتی ہے اگر مودی اترپردیش، بہار، مغربی بنگال، اور آندھرا پردیش میں غلبہ حاصل کریں۔ یادرہے کہ یہاں مسلمانوں کا ووٹ خاصا ہے۔ سنجے راوت کا کہناہے کہ بی جے پی کا اترپردیش میں کوئی اتحادی نہیں ہے۔بعض تجزیہ نگاروں اور ماہرین کاکہناہے کہ بھارتی سیاست نے ابھی بہت سی قلابازیاں کھانی ہیں، کانگریس نے ابھی باقاعدہ انتخابی مہم کاآغاز ہی نہیں کیا، جب انتخابی میدان خوب گرم ہوگا تو بی جے پی اور اس کے نریندرمودی کے پسینے چھوٹ بھی سکتے ہیں۔

نریندرمودی کون ہیں؟

علم سیاسیات میں ماسٹری ڈگری رکھنے والے نریندر مودی 1950ء میں مہسانا(گجرات) کے واڈنگر علاقے میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی جھکاؤ دہشت گرد ہندو تنظیم آر ایس ایس کی جانب تھا۔ گجرات میں آر ایس ایس کی جڑیں کافی گہری تھیں۔ 17 سال کی عمر میں احمد آباد پہنچے اورآر ایس ایس کے رکن بنے۔ سیاست میںفعال ہونے سے پہلے مودی برسوں تک آر ایس ایس کے پرچارک یا مبلغ رہے۔ 80ء کی دہائی میں مودی بی جے پی کی گجرات شاخ میں شامل ہوئے،1988ء میں گجرات شاخ کے جنرل سیکریٹری بنائے گئے، لال کرشن ایڈوانی کی 1990ء کی سومناتھ سے ایودھیا جانے والی رتھ یاترا کے انعقاد میں اہم کردار ادا کیا ،بعدازاں بی جے پی کی طرف سے کئی ریاستوں کے انچارج بنائے گئے۔1995 میں پارٹی کا مرکزی سیکرٹری اور پانچ ریاستوں کی انتخابی انچارج بنایا گیا۔ 1998ء میں جنرل سیکرٹری ( برائے تنظیمی امور ) بنے۔اس عہدے پر اکتوبر 2001ء تک رہے۔2001 ء میں کیشو بھائی پٹیل کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کے بعد مودی کو ریاست گجرات کی حکمرانی سونپی گئی، تب گجرات میں زلزلہ آیا تھا اور اس کے نتیجے میں20 ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔

مودی کے اقتدار سنبھالنے کے تقریباً پانچ ماہ بعد ہی گودھرا ریل حادثہ ہوا جس میں کئی ہندو کارسیوک ہلاک ہوگئے۔ اس کے فوراً بعد فروری 2002 ء میں گجرات میں مسلمانوں کے خلاف فسادات بھڑک اٹھے۔ان فسادات میں حکومت کے مطابق 1000 سے زیادہ اور برطانوی ہائی کمیشن کی ایک آزاد کمیٹی کے مطابق تقریبا 2000 افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ مودی نے ان فسادات کو روکنا ضروری نہ سمجھا۔اس پر انھیںاس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی ناراضی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔تاہم اس وقت کے نائب وزیر اعظم ایڈوانی نے مودی کی حمایت کرکے انھیں بچالیا۔ 2002 ء کے فسادات کے سبب ہی مودی حکومت میں وزیر کے عہدے پر رہنے والی مایا کوڈنانی 28 سال کی سزا بھگت رہی ہیں۔ یہ بات بھی زبان زدعام ہے کہ فسادات میں کردار کی وجہ سے ہی مودی نے کوڈنانی کو وزیر کے عہدے سے نوازا تھا۔ مودی کے قریبی معتمد اور سابق وزیر داخلہ امت شاہ کو پولیس نے فرضی مقابلوں کے سلسلے میں گرفتار کیا تھا۔وہ اب ضمانت پر رہا ہیں اور انہیں اتر پردیش کا الیکشن انچارج بنایا گیا ہے۔سہراب الدین شیخ کوثر بی، تلسی رام پرجاپتی اور عشرت جہاں کی فرضی مقابلوں میں ہلاکت کے الزام میں ریاست کے کئی سینئر پولیس افسران جیل میں ہیں۔یہ سب مودی کی نظر میں ہندوئوں کے ہیرو ہیں۔

مودی نے کبھی فسادات کے بارے میں کوئی افسوس ظاہر کیا نہ ہی کسی طرح کی معافی مانگی ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ فسادات کے چند مہینوں کے بعد ہی جب دسمبر 2002ء میں ریاستی اسمبلی انتخابات میں مودی نے کامیابی حاصل کی تھی تو انھیں سب سے زیادہ فائدہ انہی علاقوں میں ہوا تھا جہاں سب سے زیادہ فسادات ہوئے تھے۔ اس کے بعد 2007ء کے اسمبلی انتخابات میں انہوں نے گجرات کی ترقی کو ایشو بنایا اور کامیابی حاصل کی۔ پھر 2012ء میں بھی نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی گجرات اسمبلی انتخابات میں فاتح رہی۔ یادرہے کہ بی جے پی نے سن2002ء کے گجرات اسمبلی کے انتخابات میں 127 نشستیں، 2007ء میں 117 نشستیں، 2012ء میں115 نشستیں حاصل کیں۔ ریاست میں ان کی مقبولیت میں کمی آئی، اگرچہ اس کی رفتار کچھ سست ہے۔

اگلاحکمران؟ ...رائے عامہ کا جائزے کیاکہتے ہیں؟

بی جے پی نے این ڈی اے کے نام سے ایک اتحاد قائم کررکھاہے جبکہ کانگریس اور دیگرجماعتوں کے اتحاد کو یو پی اے کہا جاتا ہے۔جنوری سے مارچ2013ء کے دوران Times Now ایک انگریزی ٹی وی چینل نے رائے عامہ کا جائزہ لیا جس کے مطابق اس بار انتخابات میں بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں184نشستیں حاصل کریں گی جبکہ کانگریس اور اس کی اتحادی جماعتوں کو 128سیٹیں ملیں گی۔ اپریل مئی2013ء کے دوران ہونے والے 'ہیڈلائنز ٹوڈے' کے سروے کے مطابق این ڈی اے( بی جے پی والے اتحاد) کو220سیٹیں ملیں گی اگرنریندرمودی کو وزیراعظم بنانے کا وعدہ کیاجائے، ورنہ179۔ سروے رپورٹ کا یہ خاصا دلچسپ پہلو ہے کہ اگرمودی متوقع وزیراعظم کے طور پر سامنے آئیں توکانگریس کو155نشستیں ملیں گی ، مودی نہ ہوں تو 132۔ مئی2013ء میں اے بی پی نیوز نے رائے عامہ کا ایک جائزہ لیا۔ اس کی رپورٹ کے مطابق این ڈی اے کو206جبکہ کانگریس کو136نشستیں ملنے کا امکان ہے۔

جولائی 2013ء میں ایک دوسرے جائزے میں این ڈی اے کو 197 جبکہ یو پی اے کو184نشستیں ملنے کا امکان ظاہرکیاگیا۔ جولائی 2013ء ہی میں '' سی این این آئی بی این'' اور ''دی ہندو'' کے زیراہتمام ہونے والے ایک سروے میں بتایاگیا کہ این ڈی اے کو172سے180تک نشستیں ملیں گی جبکہ کانگریس کو149سے157تک سیٹیں حاصل ہوں گی۔ جولائی 2013ء میں Times Nowنے انڈیاتوڈے کے ساتھ مل کر جائزہ لیا تو ملک کی رائے عامہ حیرت انگیز طورپر منقسم نظر آئی۔ اس بار جاری ہونے والی جائزہ رپورٹ میں این ڈی پی کو156 جن میں بی جے پی کو131نشستیں ملنے کا امکان ہے جبکہ یوپی اے کو مجموعی طورپر134ملیں گی جن میں سے119کانگریس کی ہوں گی۔ ایک تیسرے اتحاد '' تھرڈ فرنٹ'' کو253نشستیں ملیں گی جن میں سماج وادی پارٹی کو33جبکہ اے آئی اے ڈی ایم کے کو 29نشستیں ملیں گی۔یادرہے کہ 2009ء کے انتخابات میں تھرڈ فرنٹ نے184نشستیں حاصل کی تھیں۔ جس میں سے سماج وادی پارٹی کی22 اور اے آئی اے ڈی ایم کے کی 9سیٹیںتھیں۔

نفرت کی سیاست

مودی ہندوتوا کے کٹر نظریے کے علم بردار ہیں، قوم کا وقار سر بلند رکھنے کے لیے وہ پاکستان اور چین کو سبق سکھانا چاہتے ہیں اور کانگریس اور راہل گاندھی کو گھر بٹھانا ان کی اولین ترجیح ہے۔ وہ مسلمانوں کو کتنا پسند کرتے ہیں، یہ تو معلوم نہیں لیکن ایک عوامی جلسے میں انہوں نے ٹوپی پہننے سے ضرور صاف انکار کر دیا تھا۔ایسا پہلے بھی ہوا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ مودی کی سیاست نفرتوں کی بنیادپر قائم ہے۔ یہ نفرت کبھی سیکولر سیاسی نظام کے خلاف نظر آئے گی تو کبھی بھارت کی مذہبی اقلیتوں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف۔ گویا مودی کی سیاست کا محور نفرت ہے جو ان کی ہر تقریر ،ہر بیان میں نظرآتی ہے۔ مسلمانوں سے ان کی نفرت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ ان کی موجودہ کابینہ میں کوئی مسلم وزیر نہیں ہے اور ریاستی انتخابات میں کسی ایک مسلمان کو بھی ٹکٹ نہیں دیا گیا۔اس تناظر میں بھارت میں یہ سوال بھی زیربحث ہے کہ کیا مودی وزیراعظم بننے کے بعد پورے ملک میں ہندوتوا کا نظریہ نافذ کریں گے؟



بذات خود کانگریس مودی کی مذہبی نفرت کی سیاست سے اس قدر خوفزدہ رہی ہے کہ گزشتہ دس برسوں کے دوران سیکولرازم کی علمبردار اس پارٹی نے انتخابات میں اپنے مسلم رہنماؤں کو انتخابی مہم میں بھی نہیں اتارا۔ دیگر سیاسی جماعتیں بھی بڑھتی ہوئی ہندو قوم پرستی اور منفی سیاست کے رحجان سے گھبراہٹ میں مبتلا ہیں۔ کانگریس گجرات میں مودی کی منفی اور نفرت پرمبنی سیاست کا منہ توڑ جواب دینے کے بجائے اسی کے پیرائے میں خود کو پیش کرنے کوشش کرتی رہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا بھارت میں نفرت کی سیاست پنپ سکتی ہے؟اسی کی دہائی کے اواخر میں میں ایک انٹرویو میں ایڈوانی نے کہاتھا کہ بھارت میں ایک نظریاتی جماعت ایک مخصوص اور چھوٹے علاقے میں ہی حکمرانی کرسکتی ہے، وہ پورے بھارت کے عوام کا اعتماد حاصل نہیں کرسکتی ۔ نہ کمیونسٹ پارٹی اور نہ ہی جن سنگھ ۔ جن سنگھ ابتدائی طورپر ایک نظریاتی جماعت کے طورپر ابھری تھی تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اصل سے ہٹتی چلی گئی''۔ ایک عشرہ بعدایڈوانی ہی نے ہندوتوا کے نظریہ کی بنیاد پر مہم چلائی اور بی جے پی کو اقتدار میں لے آئے۔ یہ الگ بات ہے کہ واجپائی حکومت کی صورت میں بی جے پی اپنا اصل ایجنڈا سامنے لانے کی ہمت ہی نہیں کرسکی۔

کارپوریٹ ادارے مودی کے حامی کیوں؟

کچھ عرصہ سے بھارت کے چند صنعت کار، میڈیا کا ایک بڑا حصہ اور بعض تجزیہ کار منظم طریقے سے یہ تاثر عام کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی بہترمنتظم، انتہائی ایماندار اور ایک فیصلہ کن ذہنیت کے سیاسی رہنما ہیں اور یہ چرچا بھی کیا کہ مودی ہی بھارت کا بیڑہ پار کریں گے۔ میڈیا اور قوم پرست تجزیہ کاروں نے ایک ایسا تاثر قائم کر دیا ہے کہ خود نریندر مودی کو اپنی شخصیت کے نئے گوشوں کا اب پتہ چل رہاہے ۔ صنعت کاروں، تجزیہ کاروں اور دانشوروں کا ایک بہت بڑا طبقہ اس وقت غیر محسوس طریقے سے مختلف شکلوں میں مودی کے لیے کام کر رہا ہے۔ بڑے بڑے صنعت کار مودی کو (مودی جیسے کسی رہنما کو) بھارت کی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر دیکھنا چاہتے ہیں۔

مودی صنعتی گروپوں اور بڑی بڑی کمپنیوں کے لیے سب سے مقبول سیاسی رہنما کیوں بن گئے یہ بتانا مشکل ہے۔ یہ بتانا بھی مشکل ہے آخر مودی میں ایسی کون سے انتظامی خوبی ہے جو انہیں دوسرے رہنماؤں سے بہتر ثابت کرتی ہے۔ اگر مختلف ریاستوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو پچھلے پانچ برس میں بہار کی پسماندہ ریاست سمیت کئی ریاستوں نے مودی سے بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔

دراصل بھارت میں اس وقت سیاسی قیادت کا ایک خلاء پیدا ہو گیا ہے۔ حکمران کانگریس اور بی جے پی دونوں کا طرز عمل تنظیمی سطح پر ہمیشہ سے غیر جمہوری اصولوں پرقائم رہا ہے۔ نتیجے میں بی جے پی میں واجپائی اور ایڈوانی کے بعد کوئی موثر رہنما نہ ابھر سکا۔ البتہ کانگریس میں راہول گاندھی تمام کوششوں کے باوجود لوگوں کو اپنی موجودگی تک کا احساس نہ دلا سکے۔

یہی وہ سیاسی خلا ہے جو نریندر مودی پْر کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ جس طرح گجرات کی سطح پر مودی نے آر ایس ایس سمیت ہر طرح کی مخالفت اور متبادل کا خاتمہ کر دیا ہے اسی طرح قومی سطح پر مودی کا کوئی موثر متبادل نہیں ہے۔ اس حقیقت کوسب سے پہلے ملک کے صنعت کاروں نے محسوس کر لیا تھا۔ گجرات پہلے سے ہی بھارت کی سب سے بڑی صنعتی ریاست رہی ہے۔

بی جے پی...مقبولیت اور عدم مقبولیت کا انتخابی سفر

بھارتی عام انتخابات کی گزشتہ 33سالہ تاریخ میں1999ء تک بی جے پی عروج کی طرف گامزن رہی۔ تاہم اس کے بعد زوال کا سفرشروع ہوا۔اپنے قیام کے فوری بعد 1980ء میں لوک سبھا کے انتخابات میں بی جے پی کو کوئی سیٹ حاصل نہ ہوئی، 1984ء میں صرف2نشستیں ملیں،1989ء میں85،1991ء میں120،1996ء میں161،1998ء میں182،1999ء میں بھی182 نشتیں ملیں البتہ گزشتہ انتخابات کی نسبت اس بار اسے ووٹ کم ملے۔1998ء میں بی جے پی کو25.59فیصد ووٹ ملے۔ تاریخ میں یہی اس کا سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا ریکارڈ ہے، اس کے بعد اس کے ووٹوں میں مسلسل کمی ہوئی جو تاحال جاری ہے۔1999ء میں اسے23.75فیصد ووٹ ملے۔ 2004ء کے انتخابات میں گزشتہ انتخابات کی نسبت اسے 44نشستوں کانقصان اٹھانا پڑا۔ 2009ء کے عام انتخابات میں مزید بری شکست ہوئی۔ اس بار سیٹوں کی تعداد 116 تھی۔ اگر اس پارٹی کی اب تک کی پارلیمانی تاریخ کا جائزہ لیاجائے تو بی جے پی جس تیزی سے مقبول ہوئی تھی، اس سے زیادہ تیزی سے زوال کی راہ پر ہے۔ آئندہ انتخابات میں اسے مزید پستی دیکھنے کو ملے گی یا عروج کی طرف واپسی ہوگی، یہی آج کا گرما گرم سوال ہے۔



نریندرمودی کی انتہاپسندانہ مہم جو ئی کو کس قدر پذیرائی ملتی ہے، اس کا اندازہ نومبر میں چار ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان، دہلی اور چھتیس گڑھ میں ہونے والے انتخابات میں ہوجائے گا۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی ہی حکمران ہے جہاں کے وزیراعلیٰ نرم خو شیوراج سنگھ چوہان ہیں۔ ایڈوانی نے کوشش کی تھی کہ انھیں مودی کی جگہ پر بی جے پی میں سامنے لایاجائے۔ ریاستی انتخابات میں جیت کے تمام ترامکانات شیوراج سنگھ کے حق میں ہی ہیں ، سوال صرف یہ ہے کہ انھیں کس قدر اکثریت حاصل ہوتی ہے۔ راجستھان میں کانگریس حکمران ہے۔ بی جے پی یہ ریاست کانگریس سے چھیننے کی کوشش کررہی ہے، مودی یہاں اپنا تمام تر زور صرف کررہے ہیں۔چھتیس گڑھ اس قدراہم ریاست نہیں تاہم دہلی دارالحکومت ہے۔یہاں کی وزیراعلیٰ شیلاڈکشت کو سنگین چیلنج کا سامنا ہے۔ بہرحال چاروں ریاستوں میں ہونے والے انتخابات آٹھ ماہ بعد ہونے والے عام انتخابات کی ایک جھلک ثابت ہوں گے۔
Load Next Story