ذہنی دباؤ اور پریشانی سے نجات ممکن ہے لیکن کیسے
جب انسان پریشانی کی حالت میں ہوتا ہے تو اس کی طبیعت غذا سے متنفر ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں جسم میں خشکی پیدا ہوتی ہے۔
سکول کے بچوں سے لے کر ضعیف العمر افراد تک تقریباً ہر شخص پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بغور مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر بچے کو بچپن ہی سے دھیان کے ساتھ اس کی چاہت کے مطابق ماحول مل جائے تو وہ احساسِ کمتری کا شکار ہونے سے بچ جاتا ہے۔
احساسِ کمتری ایک ایسا دماغی خیال ہے جس کے تحت انسان اپنے متعلق منفی سوچ میں مبتلا ہوکر خودکشی سے بھی دریغ نہیں کرتا، اس میں انسان سکون کے فقدان کی وجہ سے مسلسل پریشان کن سوچ بچار میں مبتلا رہتاہے۔ ذہنی تناؤ میں ایسی کیفیت کا سامنا بھی ہوسکتا ہے کہ انسان اپنی ترقی کے بارے میں سوچتا ہے لیکن اسے ترقی ملتی نہیں ہے، نتیجتاً وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔
کیفیات:
جب انسان پریشانی کی حالت میں ہوتا ہے تو اس کی طبیعت غذا سے متنفر ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں جسم میں خشکی پیدا ہوتی ہے۔ یہ خشکی انسان کو مختلف طریقوں سے سکون سے دور کردیتی ہے۔ مثلاً آدمی سوتا ہے تو ہاتھ پاؤں، پنڈلیوں میں کھنچاؤ ہوجاتا ہے تو آدمی بیدار ہوجاتا ہے، گاہے دماغی آفت کا نزول آلات تنقس میں ہوجاتا ہے اور انسان پسینے کی حالت میں یک دم سانس رکنے کی وجہ سے جھٹکے سے بیدار ہوجاتا ہے۔ اگر بروقت توجہ نہ دی جائے تو مزمن(Chronic)امراض مثلاً امراضِ قلب، ذیابیطیس، نگاہ میں خلل و غیرہ جنم لیتے ہیں۔نیز اگر احساس کمتری کا ازالہ نہ کیا جائے تو جنون، دیوانگی، مالیخولیا، نشے کی عادت، حسد، خودکشی کے خیالات جنم لیتے ہیں۔ غرض یہ تمام کیفیات انسان کی دماغی نشونما میں خلل کا باعث ہیں۔
مذکورہ بالا تمام کیفیات میں آرام و نیند کا فقدان ایسا ہوتا ہے کہ نیند میں بھی پریشان کُن خواب آتے ہیں۔ گاہے کسی ذمہ داری کے پورا کرنے کی پریشانی کچھ لوگوں کو لاحق ہوتی ہے۔ جیسے کاروباری اشخاص دن رات، سوتے جاگتے اس تفکر میں رہتے ہیںکہ ان کے کاروبار یا نوکری سے نہ صرف ان کا ذاتی بلکہ خاندان والوں کا مستقبل وابستہ ہے مگر یہ تفکر انہیں دماغ پر اثر کرکے کسی بھی دائمی مرض کا شکار کردیتا ہے۔
ڈپریشن سے جسم میں ہونے والی تبد یلیاں:
غم، غصہ، پریشانی، تجسس، فکر کوعلم طب میں مجموعی طور پر ''انفعالات نفسانیہ''کے عنوانات سے پہچانا جاتا ہے۔ مذکورہ کیفیات کا تعلق دماغ سے ہوتا ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی کیفیت (مثلاً غصہ) وارد ہوتی ہے تو انسان کے دماغ میں چکر آتے ہیں، بعض اوقات اس کی آنکھوں کے آگے تارے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ بعد ازاں سر میںدرد ہوتا ہے۔ ان تمام کیفیات کو محسوس کرنے کی دماغ میں قوت پائی جاتی ہے، اسی لئے کہتے ہیں کہ دماغ قوت نفسانی کا سرچشمہ ہے ۔ دماغ میں ہارمونز کے مراکز ہیں، دماغ ان کے مختلف مواقع پر افرازکے ذریعے اپنی چُستی یا پَستی کا اظہار کرتا ہے مگر قدرت نے اسی دماغ میں اسے بحال رکھنے والے ہارمونز کا انتظام بھی فرمایا ہے۔
انفعلاتِ نفسانی کا شوگر اور بِلڈ پریشر سے تعلق:
انفعلاتِ نفسانی کے نتیجے میں مشارکی نظامِ اعصاب متحرک ہو جاتا ہے ، یہ 'انسولین' کی مقدار کم کر کے خون میں شکر کی مقدار بڑھاتا ہے او ر 'ایڈرینلین' کی مقدار بڑھا کر خون کی نالیوں کی چوڑائی کم کر دیتا ہے جس سے بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے، تا کہ جسم میں توانائی بڑھے ۔ اس نظامِ اعصاب کے متحرک ہونے کی نشانی یہ ہے کہ دل دھڑکنے کی رفتار بڑھ جاتی ہے ۔ اس کیفیت میں گردن کے پچھلے حصے کی روغنِ کاہو سے مالش بہت مفید ہے۔
انفعالات اور ان کے جسم پر اثرات:
(1)تجسس : یہ وہ کیفیت ہے جس میںسکون کی حالت میں دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے، پیاس لگتی ہے اور سونے کو دل نہیں چاہتا، بستر پر لیٹ بھی جائیں تو بعض اوقات نیند آنے میں بہت دیر ہوجاتی ہے، ظاہر ہے کہ جب اگلی صبح وقتِ مقررہ پر جاگنا پڑے تو دماغ کو اذیت پہنچتی ہے۔ بچپن کی عمر میں دماغ کی بڑھوتری ہورہی ہوتی ہے، ایسے میں نیند کی کمی دماغی اور جسمانی نشوونما پر بُرا اثر ڈالتی ہے مگر سنگین کیفیت ظاہر نہیں ہونے دیتی۔ جوانی میں نیند کی کمی جسم پر ایسا اثر کرتی ہے کہ انسان بوڑھا محسوس ہوتا ہے، معدے کے عوارض لاحق ہوتے ہیں۔ جب معدہ کھانا ٹھیک سے ہضم نہیں کرتا تو مختلف اعضاء میں لاغری لاحق ہوجاتی ہے۔ اگربوڑھے نیند کی کمی کا شکار ہوتے ہیں، طویل عرصہ تک ایسا ہونے کے نتیجے میں فالج ہوجاتا ہے یا دل کا دورہ پڑ جاتا ہے۔
(2) غم و غصہ:طبیعت کے مخالف کام یا کیفیات کے دیکھنے یا سُننے پر پیدا ہونے والے دماغی تاثر کو غم و غصہ کہتے ہیں مگر دونوں میں ایک بہت باریک فرق بھی ہے۔ اگر انسان کسی مخالف حالت کا رد عمل دکھا سکے تو اس کیفیت کو غصہ کہتے ہیں۔ مگر اگر ایسی کیفیت یا گفتگو ہو کہ انسان بے بس ہوجائے ، جیسے کسی عزیز کے بچھڑنے کے وقت یا طعنہ سنتے وقت، ایسے موقع پر دماغی تاثر کو غم کہتے ہیں ۔ اس کا منفی اثر خاص قسم کے عضلات پر پڑتا ہے جو صرف دل میں پائے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے اگر دل کے امراض والے وہ حضرات جنہیں کوئی اور پیچیدگی نہ ہو جیسے جگر یا لبلبے کی خرابی وغیرہ، غصے یا غم کے مارے ہوئے ہوتے ہیں۔
(3)ذہنی دبا ؤ: ترقی حاصل کرنے کی جستجو ، امتحانات کی تیاری کی فکر، اور اس کا حل نکالنے کی تدابیر وغیرہ سے متعلق سوچنے کی کیفیت کو 'ذہنی دباؤ' کہا جاتا ہے۔غرض اس میں انسان اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش میں ہوتا ہے۔ اگر حل نکالنے سے قاصر رہ جائے تو مایوسی جنم لیتی ہے جس کی کیفیت غم سے مشابہ ہے۔ ذہنی دبا ؤ کے نتیجے میں دماغ ایک افراز 'گیسٹرین ' کے افراز میں کمی بیشی کرتا ہے۔
اس افراز کا تعلق معدے کی رطوبتِ ہاضمہ سے ہے۔ اگر یہ افراز زیادہ ہوجائے تو تبخیرِ معدہ جنم لیتی ہے جس سے تیزابی بدہضمی ہوجاتی ہے اور غذا ہضم نہیں ہوپاتی۔ اگر افراز کم ہوجائے تو رطوبتِ ہاضمہ کی کمی کے باعث غذا معدے میں پڑی رہتی ہے ۔ اس کیفیت کو تخمہ کہتے ہیں۔ اس صورت میں بھی معدہ غذا ہضم کرنے سے قاصر رہتا ہے نتیجتاً دماغی خشکی پیدا ہوتی ہے جو نیورو ٹرانس مٹر 'ڈوپامین ' کی کمی کی نشاندہی کرتا ہے ۔ اس کیفیت میں سوتے میں جھٹکے پڑتے ہیں اور کبھی ہاتھ پاؤں میں تناؤ آجاتا ہے۔
احساس کمتری: یہ بچپن سے یا ایک طویل عرصہ سے بے سکونی، طعنہ زنی ، قید و بند ، مالی تنگ دستی سے جنم لینے والا احساس ہے۔ اس کیفیت میں مبتلا شخص اپنے آپ کو دوسروں سے کمتر سمجھتا ہے اور دوسروں کو دیکھ کر یا حسد کا شکار ہوجاتا ہے یا پھر اس کے رنگ میں ڈھلنے لگتا ہے ۔
ڈپریشن کی علامات:
1۔ پیشانی پر بل پڑتے ہیں۔
2۔کمر کندھوں کی جانب سے آگے کو ہلکی جھکی ہوتی ہے۔
3۔ نگاہ کسی ایک چیز پر مرکوز رہتی ہے اور آنکھ کی پتلی کی حرکت سست ہوتی ہے۔
4۔ سوتے میں کبھی بولتے ہیں اور ہاتھ یا پاؤں ہلکے حرکت کرتے ہیں۔
5۔ سر کے بال بے رونق اور گھنگریالے ہوتے ہیں۔
6۔ ایسے لوگ چھوٹی چھوٹی بات پر جھگڑتے ہیں۔
7۔ احساسِ کمتری کے شکار حضرات کی آنکھیں باہر نکلی ہوئی اور گول ہوتی ہیں۔
ڈپریشن سے کیسے بچاجائے ؟
(1)غذا میں پھل کا زیادہ استعمال کریں تاکہ خشکی پیدا نہ ہو۔ اونٹنی کا دودھ ہفتے میں ایک بار ضرور پئیں۔
(2) روزانہ تین سے سات عدد بادام نہار منہ کھائیں کیونکہ یہ وٹامن ای کا منبع ہے۔ خون میں شکر کی مقدار اور بلڈ پریشر کر کم کرتا ہے۔
(3)نیند نہ آنے کی صورت میں کنپٹی میں مالش کریں، نیند آجائے گی۔
(4)احساس کمتری کی صورت میں موجودہ نعمتوں پر شکر ادا کریں اور اپنی شخصیت میں نکھار پیدا کرنے کی کوشش کریں ۔ اپنے میں جو کمی محسوس کرتے ہیں اسے بہتر بنانے کی کوشش کریں ۔
ڈپریشن کی مختلف کیفیات کا علاج :
تجسس:بچوں میں ہوتو انھیں میٹھا دودھ پلائیں۔ جوانوں کو ہوتو کنپٹی کی مالش کریں۔ بڑھاپے میں ہوتو سہانجنہ کے پتوں کا سفوف 5گرام استعمال کریں۔ دل کے مسلسل تیز دھڑکنے سے جل کے عضلات کمزور ہو جاتے ہیں اور سہانجنہ کے پتے خون میں شکر کی مقدار کم کرتے ہیں ۔ دل کے عضلات کو مضبوط کرتے ہیں کیونکہ ان میں میگنیشیم ہے۔
غم و غصہ: غم کے وقت مقوی دماغ ادویہ مثلاً گوٹو کولا 3گرام سفوف استعمال کریں اور غصے کے وقت نیم گرم پانی کے ساتھ سفوف اسگندھ4گرام استعمال کریں۔ بہتر ہے کہ وضو کریں ۔
احساس کمتری ذ ہنی دباؤ: اس کے شکار حضرات ایک دانہ تخم کونچ چھلکا اتار کر سفوف کریں اور دوگرام کھائیں۔ اس میں ڈوپامین کی وافر مقدار ہے، جو 'موڈ' کو بہتر کرتی ہے۔
جو حضرات نیند پوری نہ کرسکتے ہوں وہ درج ذیل نسخہ تیار کریں اور سوتے وقت ایک چھوٹا چمچ لیں: سفوف برہمی بوٹی 20گرام ، تخم کو نچ بغیر چھلکا 10گرام ، گوکھر و خورد 10گرام ، سفوف الائچی خورد 15گرام، سفوف بالچھڑ 2گرام ، سونف 15گرام ، اسطو خودوس 10گرام ، بہمن سرخ2گرام۔
یہ نسخہ دماغ، دل اور آنکھوں کو مضبوط کرتا ہے ۔ استحالہ میں اضافہ کر کے خون میں شکر کی مقدار کم کرتا ہے پر سکون ، نیند لاتا ہے ۔ دماغ میں نشو نما کی رفتار بڑھاتا ہے۔ ہارمونز کا تناسب برقرار رکھتا ہے۔
احساسِ کمتری ایک ایسا دماغی خیال ہے جس کے تحت انسان اپنے متعلق منفی سوچ میں مبتلا ہوکر خودکشی سے بھی دریغ نہیں کرتا، اس میں انسان سکون کے فقدان کی وجہ سے مسلسل پریشان کن سوچ بچار میں مبتلا رہتاہے۔ ذہنی تناؤ میں ایسی کیفیت کا سامنا بھی ہوسکتا ہے کہ انسان اپنی ترقی کے بارے میں سوچتا ہے لیکن اسے ترقی ملتی نہیں ہے، نتیجتاً وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔
کیفیات:
جب انسان پریشانی کی حالت میں ہوتا ہے تو اس کی طبیعت غذا سے متنفر ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں جسم میں خشکی پیدا ہوتی ہے۔ یہ خشکی انسان کو مختلف طریقوں سے سکون سے دور کردیتی ہے۔ مثلاً آدمی سوتا ہے تو ہاتھ پاؤں، پنڈلیوں میں کھنچاؤ ہوجاتا ہے تو آدمی بیدار ہوجاتا ہے، گاہے دماغی آفت کا نزول آلات تنقس میں ہوجاتا ہے اور انسان پسینے کی حالت میں یک دم سانس رکنے کی وجہ سے جھٹکے سے بیدار ہوجاتا ہے۔ اگر بروقت توجہ نہ دی جائے تو مزمن(Chronic)امراض مثلاً امراضِ قلب، ذیابیطیس، نگاہ میں خلل و غیرہ جنم لیتے ہیں۔نیز اگر احساس کمتری کا ازالہ نہ کیا جائے تو جنون، دیوانگی، مالیخولیا، نشے کی عادت، حسد، خودکشی کے خیالات جنم لیتے ہیں۔ غرض یہ تمام کیفیات انسان کی دماغی نشونما میں خلل کا باعث ہیں۔
مذکورہ بالا تمام کیفیات میں آرام و نیند کا فقدان ایسا ہوتا ہے کہ نیند میں بھی پریشان کُن خواب آتے ہیں۔ گاہے کسی ذمہ داری کے پورا کرنے کی پریشانی کچھ لوگوں کو لاحق ہوتی ہے۔ جیسے کاروباری اشخاص دن رات، سوتے جاگتے اس تفکر میں رہتے ہیںکہ ان کے کاروبار یا نوکری سے نہ صرف ان کا ذاتی بلکہ خاندان والوں کا مستقبل وابستہ ہے مگر یہ تفکر انہیں دماغ پر اثر کرکے کسی بھی دائمی مرض کا شکار کردیتا ہے۔
ڈپریشن سے جسم میں ہونے والی تبد یلیاں:
غم، غصہ، پریشانی، تجسس، فکر کوعلم طب میں مجموعی طور پر ''انفعالات نفسانیہ''کے عنوانات سے پہچانا جاتا ہے۔ مذکورہ کیفیات کا تعلق دماغ سے ہوتا ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی کیفیت (مثلاً غصہ) وارد ہوتی ہے تو انسان کے دماغ میں چکر آتے ہیں، بعض اوقات اس کی آنکھوں کے آگے تارے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ بعد ازاں سر میںدرد ہوتا ہے۔ ان تمام کیفیات کو محسوس کرنے کی دماغ میں قوت پائی جاتی ہے، اسی لئے کہتے ہیں کہ دماغ قوت نفسانی کا سرچشمہ ہے ۔ دماغ میں ہارمونز کے مراکز ہیں، دماغ ان کے مختلف مواقع پر افرازکے ذریعے اپنی چُستی یا پَستی کا اظہار کرتا ہے مگر قدرت نے اسی دماغ میں اسے بحال رکھنے والے ہارمونز کا انتظام بھی فرمایا ہے۔
انفعلاتِ نفسانی کا شوگر اور بِلڈ پریشر سے تعلق:
انفعلاتِ نفسانی کے نتیجے میں مشارکی نظامِ اعصاب متحرک ہو جاتا ہے ، یہ 'انسولین' کی مقدار کم کر کے خون میں شکر کی مقدار بڑھاتا ہے او ر 'ایڈرینلین' کی مقدار بڑھا کر خون کی نالیوں کی چوڑائی کم کر دیتا ہے جس سے بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے، تا کہ جسم میں توانائی بڑھے ۔ اس نظامِ اعصاب کے متحرک ہونے کی نشانی یہ ہے کہ دل دھڑکنے کی رفتار بڑھ جاتی ہے ۔ اس کیفیت میں گردن کے پچھلے حصے کی روغنِ کاہو سے مالش بہت مفید ہے۔
انفعالات اور ان کے جسم پر اثرات:
(1)تجسس : یہ وہ کیفیت ہے جس میںسکون کی حالت میں دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے، پیاس لگتی ہے اور سونے کو دل نہیں چاہتا، بستر پر لیٹ بھی جائیں تو بعض اوقات نیند آنے میں بہت دیر ہوجاتی ہے، ظاہر ہے کہ جب اگلی صبح وقتِ مقررہ پر جاگنا پڑے تو دماغ کو اذیت پہنچتی ہے۔ بچپن کی عمر میں دماغ کی بڑھوتری ہورہی ہوتی ہے، ایسے میں نیند کی کمی دماغی اور جسمانی نشوونما پر بُرا اثر ڈالتی ہے مگر سنگین کیفیت ظاہر نہیں ہونے دیتی۔ جوانی میں نیند کی کمی جسم پر ایسا اثر کرتی ہے کہ انسان بوڑھا محسوس ہوتا ہے، معدے کے عوارض لاحق ہوتے ہیں۔ جب معدہ کھانا ٹھیک سے ہضم نہیں کرتا تو مختلف اعضاء میں لاغری لاحق ہوجاتی ہے۔ اگربوڑھے نیند کی کمی کا شکار ہوتے ہیں، طویل عرصہ تک ایسا ہونے کے نتیجے میں فالج ہوجاتا ہے یا دل کا دورہ پڑ جاتا ہے۔
(2) غم و غصہ:طبیعت کے مخالف کام یا کیفیات کے دیکھنے یا سُننے پر پیدا ہونے والے دماغی تاثر کو غم و غصہ کہتے ہیں مگر دونوں میں ایک بہت باریک فرق بھی ہے۔ اگر انسان کسی مخالف حالت کا رد عمل دکھا سکے تو اس کیفیت کو غصہ کہتے ہیں۔ مگر اگر ایسی کیفیت یا گفتگو ہو کہ انسان بے بس ہوجائے ، جیسے کسی عزیز کے بچھڑنے کے وقت یا طعنہ سنتے وقت، ایسے موقع پر دماغی تاثر کو غم کہتے ہیں ۔ اس کا منفی اثر خاص قسم کے عضلات پر پڑتا ہے جو صرف دل میں پائے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے اگر دل کے امراض والے وہ حضرات جنہیں کوئی اور پیچیدگی نہ ہو جیسے جگر یا لبلبے کی خرابی وغیرہ، غصے یا غم کے مارے ہوئے ہوتے ہیں۔
(3)ذہنی دبا ؤ: ترقی حاصل کرنے کی جستجو ، امتحانات کی تیاری کی فکر، اور اس کا حل نکالنے کی تدابیر وغیرہ سے متعلق سوچنے کی کیفیت کو 'ذہنی دباؤ' کہا جاتا ہے۔غرض اس میں انسان اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش میں ہوتا ہے۔ اگر حل نکالنے سے قاصر رہ جائے تو مایوسی جنم لیتی ہے جس کی کیفیت غم سے مشابہ ہے۔ ذہنی دبا ؤ کے نتیجے میں دماغ ایک افراز 'گیسٹرین ' کے افراز میں کمی بیشی کرتا ہے۔
اس افراز کا تعلق معدے کی رطوبتِ ہاضمہ سے ہے۔ اگر یہ افراز زیادہ ہوجائے تو تبخیرِ معدہ جنم لیتی ہے جس سے تیزابی بدہضمی ہوجاتی ہے اور غذا ہضم نہیں ہوپاتی۔ اگر افراز کم ہوجائے تو رطوبتِ ہاضمہ کی کمی کے باعث غذا معدے میں پڑی رہتی ہے ۔ اس کیفیت کو تخمہ کہتے ہیں۔ اس صورت میں بھی معدہ غذا ہضم کرنے سے قاصر رہتا ہے نتیجتاً دماغی خشکی پیدا ہوتی ہے جو نیورو ٹرانس مٹر 'ڈوپامین ' کی کمی کی نشاندہی کرتا ہے ۔ اس کیفیت میں سوتے میں جھٹکے پڑتے ہیں اور کبھی ہاتھ پاؤں میں تناؤ آجاتا ہے۔
احساس کمتری: یہ بچپن سے یا ایک طویل عرصہ سے بے سکونی، طعنہ زنی ، قید و بند ، مالی تنگ دستی سے جنم لینے والا احساس ہے۔ اس کیفیت میں مبتلا شخص اپنے آپ کو دوسروں سے کمتر سمجھتا ہے اور دوسروں کو دیکھ کر یا حسد کا شکار ہوجاتا ہے یا پھر اس کے رنگ میں ڈھلنے لگتا ہے ۔
ڈپریشن کی علامات:
1۔ پیشانی پر بل پڑتے ہیں۔
2۔کمر کندھوں کی جانب سے آگے کو ہلکی جھکی ہوتی ہے۔
3۔ نگاہ کسی ایک چیز پر مرکوز رہتی ہے اور آنکھ کی پتلی کی حرکت سست ہوتی ہے۔
4۔ سوتے میں کبھی بولتے ہیں اور ہاتھ یا پاؤں ہلکے حرکت کرتے ہیں۔
5۔ سر کے بال بے رونق اور گھنگریالے ہوتے ہیں۔
6۔ ایسے لوگ چھوٹی چھوٹی بات پر جھگڑتے ہیں۔
7۔ احساسِ کمتری کے شکار حضرات کی آنکھیں باہر نکلی ہوئی اور گول ہوتی ہیں۔
ڈپریشن سے کیسے بچاجائے ؟
(1)غذا میں پھل کا زیادہ استعمال کریں تاکہ خشکی پیدا نہ ہو۔ اونٹنی کا دودھ ہفتے میں ایک بار ضرور پئیں۔
(2) روزانہ تین سے سات عدد بادام نہار منہ کھائیں کیونکہ یہ وٹامن ای کا منبع ہے۔ خون میں شکر کی مقدار اور بلڈ پریشر کر کم کرتا ہے۔
(3)نیند نہ آنے کی صورت میں کنپٹی میں مالش کریں، نیند آجائے گی۔
(4)احساس کمتری کی صورت میں موجودہ نعمتوں پر شکر ادا کریں اور اپنی شخصیت میں نکھار پیدا کرنے کی کوشش کریں ۔ اپنے میں جو کمی محسوس کرتے ہیں اسے بہتر بنانے کی کوشش کریں ۔
ڈپریشن کی مختلف کیفیات کا علاج :
تجسس:بچوں میں ہوتو انھیں میٹھا دودھ پلائیں۔ جوانوں کو ہوتو کنپٹی کی مالش کریں۔ بڑھاپے میں ہوتو سہانجنہ کے پتوں کا سفوف 5گرام استعمال کریں۔ دل کے مسلسل تیز دھڑکنے سے جل کے عضلات کمزور ہو جاتے ہیں اور سہانجنہ کے پتے خون میں شکر کی مقدار کم کرتے ہیں ۔ دل کے عضلات کو مضبوط کرتے ہیں کیونکہ ان میں میگنیشیم ہے۔
غم و غصہ: غم کے وقت مقوی دماغ ادویہ مثلاً گوٹو کولا 3گرام سفوف استعمال کریں اور غصے کے وقت نیم گرم پانی کے ساتھ سفوف اسگندھ4گرام استعمال کریں۔ بہتر ہے کہ وضو کریں ۔
احساس کمتری ذ ہنی دباؤ: اس کے شکار حضرات ایک دانہ تخم کونچ چھلکا اتار کر سفوف کریں اور دوگرام کھائیں۔ اس میں ڈوپامین کی وافر مقدار ہے، جو 'موڈ' کو بہتر کرتی ہے۔
جو حضرات نیند پوری نہ کرسکتے ہوں وہ درج ذیل نسخہ تیار کریں اور سوتے وقت ایک چھوٹا چمچ لیں: سفوف برہمی بوٹی 20گرام ، تخم کو نچ بغیر چھلکا 10گرام ، گوکھر و خورد 10گرام ، سفوف الائچی خورد 15گرام، سفوف بالچھڑ 2گرام ، سونف 15گرام ، اسطو خودوس 10گرام ، بہمن سرخ2گرام۔
یہ نسخہ دماغ، دل اور آنکھوں کو مضبوط کرتا ہے ۔ استحالہ میں اضافہ کر کے خون میں شکر کی مقدار کم کرتا ہے پر سکون ، نیند لاتا ہے ۔ دماغ میں نشو نما کی رفتار بڑھاتا ہے۔ ہارمونز کا تناسب برقرار رکھتا ہے۔