اردو ہے نام جس کا۔۔۔
ترقی یافتہ ممالک کی خوشحالی کا راز ہی مقامی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانا ہے
بھارت کی وزارتِ تعلیم اپنے ملک کے نو نہالوں اور نوجوانوں کے لئے ''پچیس سالہ ''مربوط اور انتہائی جاندار تعلیمی پروگرام وضع کرتی ہے۔
یہ پروگرام کسی بھی قسم کی اغلاط یا سیاسی بغض وکینہ سے پاک ہوتا ہے۔ نصابی کتب اور سلیبس کی خوب جانچ پڑتال کے بعد پورے ملک میں ایک ہی طرز کا نظامِ تعلیم بغیر کسی دبائو کے 25سال تک رائج رہتا ہے۔ اس کے بعد انڈین پلاننگ کمیشن نئے سرے سے تعلیمی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ اس طرح نصاب کی تبدیلی بھی پچیس سال بعد ہی ممکن ہوتی ہے۔ یہاں سیاستدانوں کی خواہش پر ہر دو تین سال بعد نصاب تبدیل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ دنیا کا ہر الٹا کام ہمارے ملک پاکستان میں ہی وقوع پذیر ہوتا ہے۔ ارض ِ وطن میں آئے روز نصابی کتب کی تبدیلی ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ ملک میں اس وقت مجموعی طور پر 26 اقسام کے نظامِ تعلیم رائج ہیں لیکن اس کے باوجود کہیں نظام نظر آتا ہے نہ تعلیم۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب تعلیمی میدان میں انقلاب برپا کرنے کے لیے کوشاں ہیں لیکن جہاں سمت کا تعین ہی غلط ہو، وہا ں منزل پر پہنچنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ 2008ء میں وزارتِ اعلیٰ کا قلمدان سنبھالتے ہی وزیر اعلیٰ نے پنجاب میں یکساں نظام ِ تعلیم کی کوششیں شروع کر دی تھیں۔ تعلیم کاصوبائی بجٹ دوگنا کرنے کا اعلان کیا تھا۔ نہ صرف پنجاب بلکہ ملک بھر سے نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کو سرکاری خرچ پر بیرون ممالک کی معروف یونیورسٹیوں کا دورہ کروایا گیا۔ غریب اور ذہین طلبا ء طالبات کے لئے دانش سکولوں کا قیام اور اچھی کارکردگی دکھانے والے سٹوڈنٹس کو لیپ ٹاپ فراہم کرنا،یقیناً اس طرح کے اقدامات تعلیمی ترقی لئے بہتر معاون ثابت ہوسکتے ہیں ۔لیکن جب ہماری تعلیمی بنیاد ہی کمزور ہوگی تو پھر تعلیمی انقلاب کے خواب کی تعبیر کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے صوبے میں یکساں نظام ِ تعلیم کا جو منصوبہ بنایا تھا، وہ شاید ''بازی گر '' قسم کے مشیروں کی بھینٹ چڑھ گیا ورنہ آج پورے صوبے میں ایک جیسا نظام ِ تعلیم انقلاب کی بنیاد رکھ چکا ہوتا۔ پورے پنجاب میں تمام سکولوں کے اندر اردو میں ایک جیسا نصاب ہماری قومی امنگوں کا ترجمان بھی ہوتا اور ہماری خوبصورت روایات کا پاسبان بھی، لیکن چونکہ پاکستانی اشرافیہ کے اپنے بچے بڑے اور اعلیٰ طرز کے مہنگے انگلش میڈیم سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں،لہٰذا ایسے منصوبوں میں قومی کے بجائے ذاتی مفاد مقدم رکھا جاتا ہے۔کوئی ایک سیاستدان ،بیو رو کریٹ، وزیر ،مشیر یا اعلیٰ افسر ایسا نہیں، جس کے بچے سرکاری سکولوں میں پڑھتے ہوں۔ بلکہ بعض لوگوں کو تو پاکستان کے نجی تعلیمی ادارے بھی پسند نہیں، چنانچہ ایسے لوگوں کے بچے اپنی تعلیم بیرون ممالک میں حاصل کرتے ہیں۔ یہ بات بھی ِ تشویشناک ہے کہ ہمیں بطور پاکستانی تعلیم کیلئے مجموعی قومی پیداوار کا صرف 2 فیصد بجٹ مختص کرتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی۔
موجودہ حالات یہ ہیں کہ سرکاری اسکولوں میں جبراً انگلش کو ذریعہ تعلیم بنایا جا رہا ہے، اکثر نصابی کتب انگلش میں پڑھائی جا رہی ہیں۔ گویا پاکستان کی اگلی نسل ''کالے یا گندمی انگریزوں '' پر مشتمل ہوگی۔ ہمارے ملک کے برادر اسلامی ملک ترکی سے نہایت اچھے تعلقات ہیں، لیکن کیا اچھا ہوتا کہ ہم نے ترکی سے ہی کچھ سیکھ لیا ہوتا ،جس نے انگلش کے بجائے اپنی ہی زبان کو ذریعہ تعلیم بنا کر خوب ترقی کی ہے ، کاش کہ کوئی ہمارے حکمرانوں کو سمجھائے کہ ترقی کی منزل کا راستہ انگریزی زبان کے نفاذ میں پوشیدہ نہیں۔ انگلش زبان کے عالمگیر زبان ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں، کوئی بھی ذی شعور آدمی اس کا منکر نہیں ہوسکتا، لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ناروے، سویڈن، جرمنی، کوریا، روس، فرانس، جاپان اور چین جیسے ملکوں نے اپنی قومی زبانوں میں ہی ترقی کی، اور ساری دنیا کے سامنے اپنی ہی زبان کا پرچار کیا ہے۔ لیکن ادھر پاکستان اور بھارت میں اپنی قومی زبانوں سے ہٹ کر انگلش کو اپنایا گیا، بھارت تو اس معاملے میں سرخرو ٹھہرا جبکہ پاکستان ''کوّا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا '' کے مصداق منجدھار میں پھنس کے رہ گیا۔ تعلیم کے شعبے میں یہاں ایک کھچڑی سی پکی ہوئی ہے۔
ہم میں اور بھارت میں فرق بڑا واضح ہے وہاں انگلش کو بطورزبان سکھایا جاتا ہے جبکہ ذریعہ تعلیم ہندی میڈیم ہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھارتی دانشوروں نے انگلش کے منفی اثرات پرواویلا کرنا شروع کر دیا ہے جبکہ پاکستان میں پہلے تو صرف انگلش کو بطور مضمون (subject) پڑھایا جاتا تھا اور انگلش میں بڑے بڑے اسباق کوبمع ترجمہ بچوں کو طوطے کی طرح رٹّایا جاتا تھا،برائے نام سی گرائمر کروا دی جاتی ، بچے کو اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کیا چیز پڑ ھ رہا ہے، لیکن اب تو ظلم کی حد ہوگئی ہے کہ انگلش زبان سے نابلد بچوں کے لئے ذریعہ تعلیم ہی انگلش زبان کو بنا دیا گیا جبکہ اردو میں کوئی چیز یاد کرتے ہوئے بچے کو کچھ نہ کچھ توسمجھ آہی جاتی ہے، اب انگلش کے نفاذ سے رٹّے کو خوب پذیرائی ملے گی ، لیکن جہاں بنیاد ہی رٹاسسٹم پر استوار ہو وہاں سیکھنے،سکھانے اور عملی نشوونما کے تمام راستے مسدود ہوجایا کرتے ہیں۔ انگریزی زبان کے حامیوں کو یہ بات ضرور نوٹ کرنی چاہیے کہ طالب علم اگر ایم اے انگلش بھی کرلے تو بھی وہ اس رٹا سسٹم سے انگلش زبان پر مکمل عبور حاصل نہیں کرپائے گا۔
بڑے بڑے انگلش میڈیم پرائیویٹ سکولوں کو ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت چلایا جاتا ہے۔ اس طرح کے سکولوں میں عام طور پر مستحکم مالی پوزیشن والے بچے ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔یہاں اسی بات کو مد ِ نظر رکھ کر مطلوبہ انفراسٹرکچر بھی مہیا کیا جاتا ہے لیکن ادھر بنیادی سہولیات سے محروم سرکاری سکولوں کو صرف انگلش کے نفاذ سے ہی ان بڑے سکولوں کے مقابل نہیں لایا جاسکتا بلکہ غریب اور متوسط بچوں پر اچانک سے انگلش زبان کی افتاد مسلط کرنے سے بچوں کی ایک بڑی تعداد اجنبی زبان کے خوف سے تعلیم سے باغی ہورہی ہے۔ سالانہ ہزاروں طلبہ انگریزی کی وجہ سے تعلیم کو خیر باد کہہ رہے ہیں۔
ہر نصابی مضمون کو انگلش میں پڑھانے کے بجائے بچوں کو ایک علیحدہ پروگرام کے تحت انگلش زبان سکھانے کا اہتمام کیا جاسکتا تھا تاکہ مستقبل میں عملی صلاحیتوں سے محروم ''رٹو طوطوں'' کی ایک بڑی کھیپ وصول نہ کرنی پڑے۔ کا ش کہ اس منصوبے پر عمل پیرا ہونے سے پہلے تمام پہلوئوں سے اس کو جانچ لیا جاتا ۔ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ تمام بچوں کا ذہن ایک جیسا نہیں ہوتا۔ جو بچے اردو میں بڑی مشکل سے پڑھنے کے قابل ہوتے ہیں، ان پر انگلش کا اضافی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ انگریزی ذریعہ تعلیم کے اس شوق میں ہزاروں اساتذہ کو ''ان پڑھ '' بنا دیا گیا۔ خاص طور پر پرائیویٹ سیکٹر کے اساتذہ، جن میں اکثرکی تعلیم پہلے ہی واجبی سی ہوتی ہے۔ جنوبی پنجاب میں ایک ٹیچرز یونین کے رہنما نے انگلش کے ''جبراََ '' نفاذ کو بچوں پر ''ذ ہنی تشدد'' سے تعبیر کیا ہے۔
یہ بات تاحال تعین کی منتظر ہے کہ ملک کی نصف آبادی والے صوبے میں ذریعہ تعلیم کو مکمل طور پر انگلش زبان میں ڈھالنے سے اردو لائبریریوں کا مستقبل کیا ہو گا؟ اردو کتب اور رسائل واخبارات کا مطالعہ کون کرے گا؟ دم توڑتی اردو کا کیا بنے گا ؟ کیا کبھی اردو کو اس کا صحیح مقام مل سکے گا ؟ کیا یہ میٹھی اور پیاری زبان کبھی سرکاری زبان کا درجہ بھی پاسکے گی یا ہمارے ملک کی بے رحم سیاست کی نذر ہوجائے گی؟ ان سوالات کا جواب ہمارے ہر سیاستدان پر فرض ہے۔ یورپ اور امریکہ کے بچوں کی تعلیم، نوجوان طالب علموں کے عملی تجربات اور پھر اس سسٹم سے جنم لیتی ایجادات کی مثال تو خوب دی جاتی ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہاں کے طالب علم پر اجنبی زبان میں تحقیق کا اضافی بوجھ نہیں ہوتا۔
اگر ہم اپنے معصوم بچوں کو مکمل طور پر ایک اجنبی زبان کے حوالے کرکے ان کورٹّا لگانے پر مجبور کریںاور پھر ان سے مستقبل میں مغربی سٹوڈنٹس جیسی کارکردگی کی توقع رکھیں تو یہ سراسر نا انصافی ہوگی ۔ مختلف نظام ِ تعلیم، ذاتی پسند اور ناپسند، ہر سال بدلتے ہوئے نصاب اور نصابی کتب میں موجود انتہا کی غلطیاں اور اوپر سے انگلش ذریعہ تعلیم۔۔۔آخر یہ بچے کدھر جائیں؟ کہاں سے اپنا مستقبل تلاش کریں ؟ ہم ان لوگوں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس قوم کے مستقبل اور اردو کی بقاء کا بیڑہ اٹھایا ہے، ورنہ ہمارے سیاسی رہنما تو اپنے مخصوص مقاصد کی ترویج کے لئے بڑی دھوم دھام سے اردو کا جنازہ نکالنے کا تہیہ کیے بیٹھے ہیں۔
یہ پروگرام کسی بھی قسم کی اغلاط یا سیاسی بغض وکینہ سے پاک ہوتا ہے۔ نصابی کتب اور سلیبس کی خوب جانچ پڑتال کے بعد پورے ملک میں ایک ہی طرز کا نظامِ تعلیم بغیر کسی دبائو کے 25سال تک رائج رہتا ہے۔ اس کے بعد انڈین پلاننگ کمیشن نئے سرے سے تعلیمی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ اس طرح نصاب کی تبدیلی بھی پچیس سال بعد ہی ممکن ہوتی ہے۔ یہاں سیاستدانوں کی خواہش پر ہر دو تین سال بعد نصاب تبدیل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ دنیا کا ہر الٹا کام ہمارے ملک پاکستان میں ہی وقوع پذیر ہوتا ہے۔ ارض ِ وطن میں آئے روز نصابی کتب کی تبدیلی ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ ملک میں اس وقت مجموعی طور پر 26 اقسام کے نظامِ تعلیم رائج ہیں لیکن اس کے باوجود کہیں نظام نظر آتا ہے نہ تعلیم۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب تعلیمی میدان میں انقلاب برپا کرنے کے لیے کوشاں ہیں لیکن جہاں سمت کا تعین ہی غلط ہو، وہا ں منزل پر پہنچنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ 2008ء میں وزارتِ اعلیٰ کا قلمدان سنبھالتے ہی وزیر اعلیٰ نے پنجاب میں یکساں نظام ِ تعلیم کی کوششیں شروع کر دی تھیں۔ تعلیم کاصوبائی بجٹ دوگنا کرنے کا اعلان کیا تھا۔ نہ صرف پنجاب بلکہ ملک بھر سے نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کو سرکاری خرچ پر بیرون ممالک کی معروف یونیورسٹیوں کا دورہ کروایا گیا۔ غریب اور ذہین طلبا ء طالبات کے لئے دانش سکولوں کا قیام اور اچھی کارکردگی دکھانے والے سٹوڈنٹس کو لیپ ٹاپ فراہم کرنا،یقیناً اس طرح کے اقدامات تعلیمی ترقی لئے بہتر معاون ثابت ہوسکتے ہیں ۔لیکن جب ہماری تعلیمی بنیاد ہی کمزور ہوگی تو پھر تعلیمی انقلاب کے خواب کی تعبیر کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے صوبے میں یکساں نظام ِ تعلیم کا جو منصوبہ بنایا تھا، وہ شاید ''بازی گر '' قسم کے مشیروں کی بھینٹ چڑھ گیا ورنہ آج پورے صوبے میں ایک جیسا نظام ِ تعلیم انقلاب کی بنیاد رکھ چکا ہوتا۔ پورے پنجاب میں تمام سکولوں کے اندر اردو میں ایک جیسا نصاب ہماری قومی امنگوں کا ترجمان بھی ہوتا اور ہماری خوبصورت روایات کا پاسبان بھی، لیکن چونکہ پاکستانی اشرافیہ کے اپنے بچے بڑے اور اعلیٰ طرز کے مہنگے انگلش میڈیم سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں،لہٰذا ایسے منصوبوں میں قومی کے بجائے ذاتی مفاد مقدم رکھا جاتا ہے۔کوئی ایک سیاستدان ،بیو رو کریٹ، وزیر ،مشیر یا اعلیٰ افسر ایسا نہیں، جس کے بچے سرکاری سکولوں میں پڑھتے ہوں۔ بلکہ بعض لوگوں کو تو پاکستان کے نجی تعلیمی ادارے بھی پسند نہیں، چنانچہ ایسے لوگوں کے بچے اپنی تعلیم بیرون ممالک میں حاصل کرتے ہیں۔ یہ بات بھی ِ تشویشناک ہے کہ ہمیں بطور پاکستانی تعلیم کیلئے مجموعی قومی پیداوار کا صرف 2 فیصد بجٹ مختص کرتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی۔
موجودہ حالات یہ ہیں کہ سرکاری اسکولوں میں جبراً انگلش کو ذریعہ تعلیم بنایا جا رہا ہے، اکثر نصابی کتب انگلش میں پڑھائی جا رہی ہیں۔ گویا پاکستان کی اگلی نسل ''کالے یا گندمی انگریزوں '' پر مشتمل ہوگی۔ ہمارے ملک کے برادر اسلامی ملک ترکی سے نہایت اچھے تعلقات ہیں، لیکن کیا اچھا ہوتا کہ ہم نے ترکی سے ہی کچھ سیکھ لیا ہوتا ،جس نے انگلش کے بجائے اپنی ہی زبان کو ذریعہ تعلیم بنا کر خوب ترقی کی ہے ، کاش کہ کوئی ہمارے حکمرانوں کو سمجھائے کہ ترقی کی منزل کا راستہ انگریزی زبان کے نفاذ میں پوشیدہ نہیں۔ انگلش زبان کے عالمگیر زبان ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں، کوئی بھی ذی شعور آدمی اس کا منکر نہیں ہوسکتا، لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ناروے، سویڈن، جرمنی، کوریا، روس، فرانس، جاپان اور چین جیسے ملکوں نے اپنی قومی زبانوں میں ہی ترقی کی، اور ساری دنیا کے سامنے اپنی ہی زبان کا پرچار کیا ہے۔ لیکن ادھر پاکستان اور بھارت میں اپنی قومی زبانوں سے ہٹ کر انگلش کو اپنایا گیا، بھارت تو اس معاملے میں سرخرو ٹھہرا جبکہ پاکستان ''کوّا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا '' کے مصداق منجدھار میں پھنس کے رہ گیا۔ تعلیم کے شعبے میں یہاں ایک کھچڑی سی پکی ہوئی ہے۔
ہم میں اور بھارت میں فرق بڑا واضح ہے وہاں انگلش کو بطورزبان سکھایا جاتا ہے جبکہ ذریعہ تعلیم ہندی میڈیم ہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھارتی دانشوروں نے انگلش کے منفی اثرات پرواویلا کرنا شروع کر دیا ہے جبکہ پاکستان میں پہلے تو صرف انگلش کو بطور مضمون (subject) پڑھایا جاتا تھا اور انگلش میں بڑے بڑے اسباق کوبمع ترجمہ بچوں کو طوطے کی طرح رٹّایا جاتا تھا،برائے نام سی گرائمر کروا دی جاتی ، بچے کو اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کیا چیز پڑ ھ رہا ہے، لیکن اب تو ظلم کی حد ہوگئی ہے کہ انگلش زبان سے نابلد بچوں کے لئے ذریعہ تعلیم ہی انگلش زبان کو بنا دیا گیا جبکہ اردو میں کوئی چیز یاد کرتے ہوئے بچے کو کچھ نہ کچھ توسمجھ آہی جاتی ہے، اب انگلش کے نفاذ سے رٹّے کو خوب پذیرائی ملے گی ، لیکن جہاں بنیاد ہی رٹاسسٹم پر استوار ہو وہاں سیکھنے،سکھانے اور عملی نشوونما کے تمام راستے مسدود ہوجایا کرتے ہیں۔ انگریزی زبان کے حامیوں کو یہ بات ضرور نوٹ کرنی چاہیے کہ طالب علم اگر ایم اے انگلش بھی کرلے تو بھی وہ اس رٹا سسٹم سے انگلش زبان پر مکمل عبور حاصل نہیں کرپائے گا۔
بڑے بڑے انگلش میڈیم پرائیویٹ سکولوں کو ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت چلایا جاتا ہے۔ اس طرح کے سکولوں میں عام طور پر مستحکم مالی پوزیشن والے بچے ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔یہاں اسی بات کو مد ِ نظر رکھ کر مطلوبہ انفراسٹرکچر بھی مہیا کیا جاتا ہے لیکن ادھر بنیادی سہولیات سے محروم سرکاری سکولوں کو صرف انگلش کے نفاذ سے ہی ان بڑے سکولوں کے مقابل نہیں لایا جاسکتا بلکہ غریب اور متوسط بچوں پر اچانک سے انگلش زبان کی افتاد مسلط کرنے سے بچوں کی ایک بڑی تعداد اجنبی زبان کے خوف سے تعلیم سے باغی ہورہی ہے۔ سالانہ ہزاروں طلبہ انگریزی کی وجہ سے تعلیم کو خیر باد کہہ رہے ہیں۔
ہر نصابی مضمون کو انگلش میں پڑھانے کے بجائے بچوں کو ایک علیحدہ پروگرام کے تحت انگلش زبان سکھانے کا اہتمام کیا جاسکتا تھا تاکہ مستقبل میں عملی صلاحیتوں سے محروم ''رٹو طوطوں'' کی ایک بڑی کھیپ وصول نہ کرنی پڑے۔ کا ش کہ اس منصوبے پر عمل پیرا ہونے سے پہلے تمام پہلوئوں سے اس کو جانچ لیا جاتا ۔ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ تمام بچوں کا ذہن ایک جیسا نہیں ہوتا۔ جو بچے اردو میں بڑی مشکل سے پڑھنے کے قابل ہوتے ہیں، ان پر انگلش کا اضافی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ انگریزی ذریعہ تعلیم کے اس شوق میں ہزاروں اساتذہ کو ''ان پڑھ '' بنا دیا گیا۔ خاص طور پر پرائیویٹ سیکٹر کے اساتذہ، جن میں اکثرکی تعلیم پہلے ہی واجبی سی ہوتی ہے۔ جنوبی پنجاب میں ایک ٹیچرز یونین کے رہنما نے انگلش کے ''جبراََ '' نفاذ کو بچوں پر ''ذ ہنی تشدد'' سے تعبیر کیا ہے۔
یہ بات تاحال تعین کی منتظر ہے کہ ملک کی نصف آبادی والے صوبے میں ذریعہ تعلیم کو مکمل طور پر انگلش زبان میں ڈھالنے سے اردو لائبریریوں کا مستقبل کیا ہو گا؟ اردو کتب اور رسائل واخبارات کا مطالعہ کون کرے گا؟ دم توڑتی اردو کا کیا بنے گا ؟ کیا کبھی اردو کو اس کا صحیح مقام مل سکے گا ؟ کیا یہ میٹھی اور پیاری زبان کبھی سرکاری زبان کا درجہ بھی پاسکے گی یا ہمارے ملک کی بے رحم سیاست کی نذر ہوجائے گی؟ ان سوالات کا جواب ہمارے ہر سیاستدان پر فرض ہے۔ یورپ اور امریکہ کے بچوں کی تعلیم، نوجوان طالب علموں کے عملی تجربات اور پھر اس سسٹم سے جنم لیتی ایجادات کی مثال تو خوب دی جاتی ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہاں کے طالب علم پر اجنبی زبان میں تحقیق کا اضافی بوجھ نہیں ہوتا۔
اگر ہم اپنے معصوم بچوں کو مکمل طور پر ایک اجنبی زبان کے حوالے کرکے ان کورٹّا لگانے پر مجبور کریںاور پھر ان سے مستقبل میں مغربی سٹوڈنٹس جیسی کارکردگی کی توقع رکھیں تو یہ سراسر نا انصافی ہوگی ۔ مختلف نظام ِ تعلیم، ذاتی پسند اور ناپسند، ہر سال بدلتے ہوئے نصاب اور نصابی کتب میں موجود انتہا کی غلطیاں اور اوپر سے انگلش ذریعہ تعلیم۔۔۔آخر یہ بچے کدھر جائیں؟ کہاں سے اپنا مستقبل تلاش کریں ؟ ہم ان لوگوں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس قوم کے مستقبل اور اردو کی بقاء کا بیڑہ اٹھایا ہے، ورنہ ہمارے سیاسی رہنما تو اپنے مخصوص مقاصد کی ترویج کے لئے بڑی دھوم دھام سے اردو کا جنازہ نکالنے کا تہیہ کیے بیٹھے ہیں۔