کنفیوژن
مجھےمسلم لیگ (ن) کی پالیسیوں سے کبھی اتفاق نہیں رہا۔ لیکن میاں نواز شریف کی مختلف قومی امور پر جو سوچ سامنے آئی ہے...
کبھی کبھی یہ محسوس ہوتا ہے جیسے مختلف قومی امور پر حکمران، ریاستی منصوبہ ساز اور سیاسی قیادتیں سبھی کنفیوزڈ ہوں اور ان کی سمجھ میں نہ آ رہا ہو کہ سامنے آنے والے معاملات و مسائل سے کس طرح نمٹا جائے۔ اس کنفیوژن کا ایک سبب فکری رویوں کی فرسودگی ہے، جو مختلف امور کا حقیقت پسندانہ انداز میں جائزہ لینے کی راہ میںسب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ اس وقت چہار سو لگا مسائل کا انبار تیزی سے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔دوسری طرف عالمی سطح پر نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں اور خطے میں بھی تیز رفتار تبدیلیوں کے آثار نمودار ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ مگر پاکستانی حکمران یا منصوبہ ساز ان تمام تبدیلوں سے بے نیاز ماضی پرستی کی زنجیروں میں جکڑے ''بابر با عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست'' کے مصداق کانوں میں روئی ٹھونسے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔
مجھے مسلم لیگ (ن) کی پالیسیوں سے کبھی اتفاق نہیں رہا۔ لیکن میاں نواز شریف کی مختلف قومی امور پر جو سوچ سامنے آئی ہے، جو خاصی حد تک خوش کن ہے۔ خاص طور پر دو باتیں ان کی سوچ اور تجربات کی عکاسی کرتی ہیں، جو ہمارے خیال میں پاکستان کو ایک بہتر سمت دینے کا سبب بن سکتی ہیں۔ اول، وہ جمہوریت کے تسلسل کے حوالے سے خاصا واضح ذہن رکھتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کو سنجیدگی کے ساتھ پارلیمان کے تابع لانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ دوئم، وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو نارمل سطح پر لا کر تمام متنازعہ مسائل کا حل مذاکرات کی میز پر تلاش کرنے کے خواہش مند ہیں۔ تا کہ ملکی معیشت کو بہتر انداز میں سہارا دیا جا سکے۔ ان کے ان عزائم کو دیکھتے ہوئے سرحد کی دونوں جانب وہ حلقے ایک بار پھر سرگرم ہو گئے ہیں، جو 66 برس سے تعلقات میں کشیدگی کو بڑھانے میں مصروف رہے ہیں۔
اقتدار میں آنے سے پہلے اور پھر اقتدار میں آنے کے بعد میاں صاحب نے اپنی اس خواہش کا اعادہ کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان امن مذاکرات کے تسلسل کو 1999 کی سطح سے دوبارہ شروع کرنے کے متمنی ہیں، تو کسی نہ کسی طور صورتحال کو بگاڑنے کی کوششیں بھی شروع ہو گئیں۔ جب میاں صاحب نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو پاکستان آنے کی دعوت دی اور خود دہلی جا کر معاملات سلجھانے کا عندیہ دیا، تو اچانک لائن آف کنٹرول(LoC) پر حالات خراب کر دیے گئے۔ اسی طرح جب اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقعے پر دونوں رہنما ئوں کی اتوار کو ملاقات طے ہوئی، تو جمعرات کو شدت پسندوں نے ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے پولیس اسٹیشن اور فوجی کیمپ پر حملہ کر کے اس ملاقات کو سبوتاژ کرنے کی پوری کوشش کی۔
بھارتی میڈیا اور شدت پسند جماعتوں نے جس انداز میں اس مسئلے پر آسمان کو سر پر اٹھایا، اس سے اتوار کو ہونے والی ملاقات شکوک و شبہات کا شکار ہو گئی تھی۔ لیکن حکمران کانگریس نے اس دبائو کو نظر انداز کرتے ہوئے ملاقات کے شیڈول کو برقرار رکھ کر دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔ اس سلسلے میں واقفانِ حال کا خیال ہے کہ اگلے انتخابات کے بعد کانگریس شاید مرکز میں حکومت نہ بنا سکے۔ مگر اس نے حالیہ دنوں میں ہونے والے واقعات پر جس انداز میں ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ توقع پیدا ہوئی ہے کہ آنے والی بھارتی حکومت مذاکرات کے عمل کو جاری رکھنے پر مجبور ہو گی۔ حالانکہ یہ حقیقت یہ ہے کہ سرحد کے دونوں طرف ایسے شدت پسند (Hawks) عناصر موجود ہیں، جو ہر قیمت پر ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔
معاملہ صرف بھارتی میڈیا تک محدود نہیں ہے، پاکستان میں بھی بعض عناصر باریک کھیل دکھا کر معاملات کو الجھانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک کاریگری پاکستان میں بھی دیکھنے میں آئی۔ ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کے ایک مذاکرے میں ایک ایسے شخص کو مدعو کیا گیا جو پارلیمنٹیرین ہیں نہ ان کی جماعت پارلیمان میں اتنی نشستیں رکھتی ہے کہ اس حوالے سے کوئی کردار ادا کر سکے۔چونکہ بھارت سے آئے پارلیمنٹیرینز کو زچ کرنا مقصود تھا، اس لیے ایک ایسے شخص کو بلایا گیا، جو خود اور اس کی جماعت ان مذاکرات کے حوالے سے منفی رجحان رکھتی ہے۔ یہی وہ رویے ہیں، جو دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
اب دوسری طرف آئیے۔ تحریک انصاف کے عمران خان نے ایک نیا مطالبہ کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ TTP کو اسی طرح پاکستان میں دفتر کھولنے کی اجازت دی جائے، جس طرح امریکی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے لیے دوحہ میں افغان طالبان کا دفتر کھولا گیا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے مرکزی رہنماء بھی بعض امور کی نزاکتوں سے قطعی بے بہرہ ہیں۔ جہاں تک امریکا کا افغان طالبان سے مذاکرات کا تعلق ہے، تو یہ TTP سے مذاکرات سے قطعی مختلف ہیں۔2001ء میں9/11 کے بعد جب امریکا نے القاعدہ کے خلاف افغانستان میں آپریشن شروع کیا تو اس وقت وہاں طالبان کی حکومت تھی۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر موجود ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ امریکا کا افغان حکومت کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں ہے، وہ القاعدہ کو اپنے ملک سے نکال دے تو امریکا انھیں کچھ نہیں کہے گا۔ چونکہ طالبان نے ایسا کرنے سے انکار کیا تھا، اس لیے امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا اور حامد کرزئی کی حکومت قائم کی۔ اب جب کہ امریکا نے افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے حوالے سے مختلف افغان اسٹیک ہولڈرز سے گفت و شنید کا سلسلہ شروع کیا ہے، تو اس سلسلے میں طالبان کے ساتھ بھی مذاکرات کیے جا رہے ہیں، جو افغانستان کی ایک اہم سیاسی قوت ہے۔ اس لیے افغان طالبان سے امریکا کے مذاکرات منطقی جواز رکھتے ہیں۔
اس کے برعکسTTP کسی بھی طور پر پاکستان میں نہ تو کوئی اہم سیاسی قوت ہے اور نہ ہی سماجی اسٹیک ہولڈر ہے۔ اس تنظیم کے بارے میں یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اس کے دو درجن کے قریب دھڑے ہیں، جو ایک دوسرے سے بالکل الگ اور مختلف ہونے کی وجہ سے اپنے طور پر آپریٹ کرتے ہیں اور کسی مرکزی قیادت کے زیر اثر نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ یہ رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں کہ بعض متشدد فرقہ پرست گروہ بھی ان عناصر کے ساتھ رابطہ میں ہیں، جنھیں ان کی سرپرستی حاصل ہے۔ لہٰذا ان عناصر سے مذاکرات مختلف نوعیت کے نئے مسائل پید ا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ اول، آئین و قانون کی بعض نئی الجھنیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ دوئم، مختلف فرقوں اور مسالک سے وابستہ وہ تمام کمیونٹیاں ریاست سے بدظن ہو سکتی ہیں، جنھیں تسلسل کے ساتھ سفاکانہ انداز میں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ چونکہ ان عناصر سے مذاکرات کا کوئی منطقی جواز نہیں ہے، اس لیے انھیں دفتر فراہم کرنے کا مطالبہ دراصل ان کی غیر قانونی حیثیت کو تسلیم کرانا ہے۔ جس کی جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی مخالفت کی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی رہنماء عالمی، علاقائی اور قومی امور کی نزاکتوں اور پیدا ہونے والی آئینی و قانونی موشگافیوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ان امور پر وہ خود بھی کنفیوزڈ ہیں اور پوری قوم کو بھی کنفیوز کر رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہماری حکومت، ریاستی منصوبہ سازوں اور سیاسی جماعتوں کو سرد جنگ کی نفسیات سے باہر نکل کر جدید دنیا کے رجحانات کو سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ انھیں افغانستان میں تزویراتی گہرائی تلاش کرنے اور بھارت کو زچ کرنے کے لیے شدت پسند عناصر کی پشت پناہی سے گریز کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، تا کہ 2014ء کے بعد خطے میں جس قسم کی تبدیلی آنے والی ہے، اس میں ہمارا بھی کردار بن سکے۔ اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ پوری دنیا میں اسلام پھیلانے کا ٹھیکہ ہم نے نہیں لے رکھا۔ دنیا کے دیگر 55 ممالک کو یہ ذمے داری سونپ کر ہم اپنے سیاسی، سماجی اور معاشی معاملات درست کرنے پر توجہ دیں۔ ہمارے سامنے اس وقت سب سے بڑا چیلنج ملک کی معیشت اور امن و امان کی صورتحال کی بہتری ہے، جو سماجی ڈھانچے کے استحکام کے لیے بہت ضروری ہے۔ لہٰذا اب ہر قسم کے کنفیوژن سے باہر نکلنے کی بھی ضرورت ہے۔
مجھے مسلم لیگ (ن) کی پالیسیوں سے کبھی اتفاق نہیں رہا۔ لیکن میاں نواز شریف کی مختلف قومی امور پر جو سوچ سامنے آئی ہے، جو خاصی حد تک خوش کن ہے۔ خاص طور پر دو باتیں ان کی سوچ اور تجربات کی عکاسی کرتی ہیں، جو ہمارے خیال میں پاکستان کو ایک بہتر سمت دینے کا سبب بن سکتی ہیں۔ اول، وہ جمہوریت کے تسلسل کے حوالے سے خاصا واضح ذہن رکھتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کو سنجیدگی کے ساتھ پارلیمان کے تابع لانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ دوئم، وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو نارمل سطح پر لا کر تمام متنازعہ مسائل کا حل مذاکرات کی میز پر تلاش کرنے کے خواہش مند ہیں۔ تا کہ ملکی معیشت کو بہتر انداز میں سہارا دیا جا سکے۔ ان کے ان عزائم کو دیکھتے ہوئے سرحد کی دونوں جانب وہ حلقے ایک بار پھر سرگرم ہو گئے ہیں، جو 66 برس سے تعلقات میں کشیدگی کو بڑھانے میں مصروف رہے ہیں۔
اقتدار میں آنے سے پہلے اور پھر اقتدار میں آنے کے بعد میاں صاحب نے اپنی اس خواہش کا اعادہ کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان امن مذاکرات کے تسلسل کو 1999 کی سطح سے دوبارہ شروع کرنے کے متمنی ہیں، تو کسی نہ کسی طور صورتحال کو بگاڑنے کی کوششیں بھی شروع ہو گئیں۔ جب میاں صاحب نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو پاکستان آنے کی دعوت دی اور خود دہلی جا کر معاملات سلجھانے کا عندیہ دیا، تو اچانک لائن آف کنٹرول(LoC) پر حالات خراب کر دیے گئے۔ اسی طرح جب اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقعے پر دونوں رہنما ئوں کی اتوار کو ملاقات طے ہوئی، تو جمعرات کو شدت پسندوں نے ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے پولیس اسٹیشن اور فوجی کیمپ پر حملہ کر کے اس ملاقات کو سبوتاژ کرنے کی پوری کوشش کی۔
بھارتی میڈیا اور شدت پسند جماعتوں نے جس انداز میں اس مسئلے پر آسمان کو سر پر اٹھایا، اس سے اتوار کو ہونے والی ملاقات شکوک و شبہات کا شکار ہو گئی تھی۔ لیکن حکمران کانگریس نے اس دبائو کو نظر انداز کرتے ہوئے ملاقات کے شیڈول کو برقرار رکھ کر دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔ اس سلسلے میں واقفانِ حال کا خیال ہے کہ اگلے انتخابات کے بعد کانگریس شاید مرکز میں حکومت نہ بنا سکے۔ مگر اس نے حالیہ دنوں میں ہونے والے واقعات پر جس انداز میں ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ توقع پیدا ہوئی ہے کہ آنے والی بھارتی حکومت مذاکرات کے عمل کو جاری رکھنے پر مجبور ہو گی۔ حالانکہ یہ حقیقت یہ ہے کہ سرحد کے دونوں طرف ایسے شدت پسند (Hawks) عناصر موجود ہیں، جو ہر قیمت پر ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔
معاملہ صرف بھارتی میڈیا تک محدود نہیں ہے، پاکستان میں بھی بعض عناصر باریک کھیل دکھا کر معاملات کو الجھانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک کاریگری پاکستان میں بھی دیکھنے میں آئی۔ ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کے ایک مذاکرے میں ایک ایسے شخص کو مدعو کیا گیا جو پارلیمنٹیرین ہیں نہ ان کی جماعت پارلیمان میں اتنی نشستیں رکھتی ہے کہ اس حوالے سے کوئی کردار ادا کر سکے۔چونکہ بھارت سے آئے پارلیمنٹیرینز کو زچ کرنا مقصود تھا، اس لیے ایک ایسے شخص کو بلایا گیا، جو خود اور اس کی جماعت ان مذاکرات کے حوالے سے منفی رجحان رکھتی ہے۔ یہی وہ رویے ہیں، جو دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
اب دوسری طرف آئیے۔ تحریک انصاف کے عمران خان نے ایک نیا مطالبہ کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ TTP کو اسی طرح پاکستان میں دفتر کھولنے کی اجازت دی جائے، جس طرح امریکی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے لیے دوحہ میں افغان طالبان کا دفتر کھولا گیا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے مرکزی رہنماء بھی بعض امور کی نزاکتوں سے قطعی بے بہرہ ہیں۔ جہاں تک امریکا کا افغان طالبان سے مذاکرات کا تعلق ہے، تو یہ TTP سے مذاکرات سے قطعی مختلف ہیں۔2001ء میں9/11 کے بعد جب امریکا نے القاعدہ کے خلاف افغانستان میں آپریشن شروع کیا تو اس وقت وہاں طالبان کی حکومت تھی۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر موجود ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ امریکا کا افغان حکومت کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں ہے، وہ القاعدہ کو اپنے ملک سے نکال دے تو امریکا انھیں کچھ نہیں کہے گا۔ چونکہ طالبان نے ایسا کرنے سے انکار کیا تھا، اس لیے امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا اور حامد کرزئی کی حکومت قائم کی۔ اب جب کہ امریکا نے افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے حوالے سے مختلف افغان اسٹیک ہولڈرز سے گفت و شنید کا سلسلہ شروع کیا ہے، تو اس سلسلے میں طالبان کے ساتھ بھی مذاکرات کیے جا رہے ہیں، جو افغانستان کی ایک اہم سیاسی قوت ہے۔ اس لیے افغان طالبان سے امریکا کے مذاکرات منطقی جواز رکھتے ہیں۔
اس کے برعکسTTP کسی بھی طور پر پاکستان میں نہ تو کوئی اہم سیاسی قوت ہے اور نہ ہی سماجی اسٹیک ہولڈر ہے۔ اس تنظیم کے بارے میں یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اس کے دو درجن کے قریب دھڑے ہیں، جو ایک دوسرے سے بالکل الگ اور مختلف ہونے کی وجہ سے اپنے طور پر آپریٹ کرتے ہیں اور کسی مرکزی قیادت کے زیر اثر نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ یہ رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں کہ بعض متشدد فرقہ پرست گروہ بھی ان عناصر کے ساتھ رابطہ میں ہیں، جنھیں ان کی سرپرستی حاصل ہے۔ لہٰذا ان عناصر سے مذاکرات مختلف نوعیت کے نئے مسائل پید ا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ اول، آئین و قانون کی بعض نئی الجھنیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ دوئم، مختلف فرقوں اور مسالک سے وابستہ وہ تمام کمیونٹیاں ریاست سے بدظن ہو سکتی ہیں، جنھیں تسلسل کے ساتھ سفاکانہ انداز میں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ چونکہ ان عناصر سے مذاکرات کا کوئی منطقی جواز نہیں ہے، اس لیے انھیں دفتر فراہم کرنے کا مطالبہ دراصل ان کی غیر قانونی حیثیت کو تسلیم کرانا ہے۔ جس کی جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی مخالفت کی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی رہنماء عالمی، علاقائی اور قومی امور کی نزاکتوں اور پیدا ہونے والی آئینی و قانونی موشگافیوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ان امور پر وہ خود بھی کنفیوزڈ ہیں اور پوری قوم کو بھی کنفیوز کر رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہماری حکومت، ریاستی منصوبہ سازوں اور سیاسی جماعتوں کو سرد جنگ کی نفسیات سے باہر نکل کر جدید دنیا کے رجحانات کو سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ انھیں افغانستان میں تزویراتی گہرائی تلاش کرنے اور بھارت کو زچ کرنے کے لیے شدت پسند عناصر کی پشت پناہی سے گریز کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، تا کہ 2014ء کے بعد خطے میں جس قسم کی تبدیلی آنے والی ہے، اس میں ہمارا بھی کردار بن سکے۔ اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ پوری دنیا میں اسلام پھیلانے کا ٹھیکہ ہم نے نہیں لے رکھا۔ دنیا کے دیگر 55 ممالک کو یہ ذمے داری سونپ کر ہم اپنے سیاسی، سماجی اور معاشی معاملات درست کرنے پر توجہ دیں۔ ہمارے سامنے اس وقت سب سے بڑا چیلنج ملک کی معیشت اور امن و امان کی صورتحال کی بہتری ہے، جو سماجی ڈھانچے کے استحکام کے لیے بہت ضروری ہے۔ لہٰذا اب ہر قسم کے کنفیوژن سے باہر نکلنے کی بھی ضرورت ہے۔