دو سو روپے کی زبیدہ
میں آج ہی ایک ہفتہ کوئٹہ اور پشاور میں گزار کر واپس لاہور پہنچا ہوں۔ دونوں شہروں کو دیکھ کر روح بہت بوجھل ہو چکی ہے۔
میں آج ہی ایک ہفتہ کوئٹہ اور پشاور میں گزار کر واپس لاہور پہنچا ہوں۔ دونوں شہروں کو دیکھ کر روح بہت بوجھل ہو چکی ہے۔ لوگ وہاں ایک مستقل عذاب میں رہ رہے ہیں۔ مر مر کر جی رہے ہیں اور مجھے کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ صرف اور صرف سانس لے رہے ہیں۔کوئٹہ ایک جنت نظیر شہر تھا۔ چھوٹا مگر زندگی سے بھرپور۔ پہاڑوں سے گھرا ہوا مگر جھیل کے پانی کی طرح صاف۔آپ کسی طرف بھی نکل جائیں، آپ کو زندگی کا بھر پور احساس ہوتا تھا۔ مگر اب کیا ہے، سب کچھ بالکل اسی طرح ہے۔ مگر حقیقت میں کچھ بھی اُس طرح نہیں ہے۔ ایئرپورٹ سے شہر تک وہی سڑک ہے بلکہ پورے شہر میں تمام رستے بھی وہی ہیں۔ سڑکوں کے اردگرد درخت بھی بالکل وہی ہیں۔ چوراہے اور گھروں کی قطاریں بھی نہیں بدلیں۔
شہر کی فضا میں خوف بسا ہوا ہے۔ سرخ اشارے پر رکیں تو ہر شخص فوری طور پر اردگرد دیکھنا شروع کر دیتا ہے کہ کہیں سے فرشتہ اجل خودکش جیکٹ پہن کر ایک دم بغیر بتائے ہوئے گرفت میں نہ لے لے۔ چہروں پر خوف بلکہ وحشت کے سائے ہیں۔ کسی شخص اور کسی بچے کے چہرے پر مجھے مسکراہٹ کی لکیر نظر نہیں آئی۔ مگر اس تمام صورت حال میں ہمیں اپنے دشمن کا بخوبی علم ہے۔
مگر آج میں ایک ایسے دشمن کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو ہمارے معاشرہ میں ہر جگہ سانس لے رہا ہے۔ اور اب تک ہمیں طالبان اور فرقہ پرست دہشت گردوں سے ہزاروں گنا زیادہ نقصان پہنچا چکا ہے۔ ہم اس معزز دشمن کی وجہ سے 63 سالوں میں ایک محتاط انداز ے کے مطابق نوے لاکھ سے ڈیڑھ کروڑ تک جانیں کھو چکے ہیں۔ مجھے علم ہے کہ آپ میری بات پر قطعاً یقین نہیں کریں گے۔
پاکستان میں دوائیوں کی سالانہ مارکیٹ 210 ارب روپے کی ہے۔ اُس میں 20 سے 40 فیصد تک دوایاں بالکل جعلی ہیں۔ ایک امریکی ادارے کی تحقیق کے مطابق ان دوائیوں میں چوہے مار پائوڈر، اینٹوں کا پسا ہوا سفوف اور دروازوں پر کرنے والا رنگ ڈالا جاتا ہے۔ اس مملکت خداداد میں چار ہزار رجسٹرڈ میڈیکل اسٹور ہیں مگر ڈیڑھ سے دو لاکھ اسٹور غیر قانونی طور پر چل رہے ہیں۔ اِن کے مالکان مقامی ڈرگ انسپکٹرز اور محکمہ کے دیگر افراد کو ہمیشہ خوش رکھتے ہیں۔
آپ دوائیاں بنانے کی مقامی فیکٹریوں کا تجزیہ کریں تو حیران ہو جائیں گے کہ اکثر فیکٹریوں کے مالکان محکمہ صحت کے وہ اہلکار ہیں جو میڈیکل اسٹورز کو چیک کرنے پر مامور ہیں۔ بات صرف یہاں نہیں رکتی۔ یہ موت کے سوداگر کئی ڈاکٹروں کو بھی اپنا ہمنوا بنا چکے ہیں۔
ایک تجزیے کے مطابق پاکستان دنیا کے ان پہلے دس ملکوں میں آتا ہے جہاں جعلی دوائیاں وافر تعداد میں بنتی ہیں۔ اور جہاں ان کی کھلے عام خرید و فروخت ہوتی ہے۔ اگر آپ انٹرنیٹ کے ذریعے دوائی خریدتے ہیں تو یہ عظیم ملک جعلی دوائیاں بنانے میں چوتھے نمبر ہے۔ یہ نیٹ ورک ہیروئین اور انسانوں کی خرید و فروخت کے بعد دُنیا کا سب سے بڑا کاروبار ہے۔
صدیق تھرپارکر کے صحرا میں مِٹھی کے نزدیک ایک معمولی سی گھوٹھ/گائوںمیں رہتاتھا۔ وہ مکمل ان پڑھ تھا۔ چوبیس سال کی عمر میں صدیق کے پاس 28 بکریاں، دو بیل اور ایک گائے تھی۔ صدیق اپنے آپ کو ایک امیر آدمی گردانتا تھا۔ ایک دن وہ کچھ چیزیں خریدنے مِٹھی گیا تو اس کو ایک دوست نے بتایا کہ کچھ سرکاری نوکریاں نکلی ہیں۔ وہ ان کے لیے ضرور درخواست دے۔ صدیق نے درخواست نہیں دی۔ اس کے دوست مشہود نے اپنا انگوٹھا لگا کر اس کی درخواست ایک سرکاری دفتر کے بابو کو جمع کرا دی۔ یہ نوکریاں صرف تھر کے مقامی لوگوں کے لیے مختص تھیں۔ حادثاتی طور پر صدیق کو یہ نوکری مل گئی۔ صدیق بہت اہم ہو گیا۔ اس کے قبیلے میں کئی صدیوں سے کسی کو اتنی بڑی سرکاری نوکری نہیں ملی تھی۔ صدیق ایک سرکاری دفتر میں چپڑاسی لگ چکا تھا۔ صدیق اکلوتا تھا۔ اُس کی چار بہنیں تھیں۔ وہ تمام اپنے اپنے گھروں میں جا چکی تھیں۔
ایک دن دوپہر کو وہ کام کے بعد گھر آیا تو اس نے دیکھا کہ صحن میں اس کی ماں بے ہوش پڑی ہے۔ اور اس کی ناک سے خون بہہ رہا ہے۔ وہ گھبرا گیا۔ اُسے اپنی ماں سے شدید محبت تھی۔ گدھا گاڑی پر سوار وہ ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت کے بعد مقامی اسپتال پہنچا۔ وہاں ڈاکٹر چھٹی کر چکا تھا۔ مگر چھوٹا ڈاکٹر یعنی ڈسپنسر موجود تھا۔ اُس ڈسپنسر نے صدیق کی والدہ کو پانچ چھ ٹیکے لگائے اور کہا کہ بڑا ڈاکٹر دو ہفتے کے لیے کراچی گیا ہوا ہے۔ لہٰذا وہ اپنی والدہ کو کسی بڑے اسپتال میں لے جائے۔ صدیق نے اپنے صاحب کو فون کیا۔ جس کی وجہ سے اُسے اور اس کی والدہ کو کراچی کے ایک بہت بڑے اسپتال میں منتقل کر دیا گیا۔ یہ سرکاری اسپتال دل کے شعبہ میں شہر کا سب سے بڑا اسپتال تھا۔ اُس کی ماں بڑی تیزی سے ٹھیک ہونے لگی۔ ڈاکٹر نے بتایا ماں کو دل کا دورہ پڑا ہے اور اس کے علاوہ اس کا خون جمنا شروع ہو گیا تھا۔ اُس کے خون کو جمنے سے روکنے کے لیے مخصوص ٹیکے کی ہر تین دن کے بعد ضرورت پڑے گی۔
صدیق اب مطمئن تھا۔ ڈاکٹر نے اُسے بتایا کہ اب وہ اپنی ماں کو واپس لے جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر نے اُسے مشورہ دیا کہ وہ بازار سے چار پانچ ٹیکے خرید لے جو اس کی ماں کے خون کو جمنے نہ دیں۔ وہ خوشی خوشی اسپتال کے نزدیک میڈیکل اسٹور پر گیا۔ وہاں اسٹور کے مالک نے اسے بتایا کہ اُس کے پاس یہ انجکشن موجود ہے۔ اور وہ آٹھ سو روپے کا ہے۔ صدیق نے پانچ انجکشن خریدے۔ اسپتال پہنچ کر ڈاکٹر نے ایک انجکشن ماں کو لگایا تا کہ بیس گھنٹے کا سفر خیریت سے گزرے۔ جیسے ہی وہ ٹیکہ شریان میں لگا۔ ماں کی ناک اور منہ سے خون نکلنے لگا۔ ڈاکٹر پریشان ہو گیا۔ اُس نے صدیق سے دوسرا انجکشن لیا۔ اور ا ُس کو بھی فوری طور پر لگا دیا۔ ماں نے خون کی الٹیاں کرنی شروع کر دیں۔ دس سے پندرہ منٹ میں وہ مر گئی۔ ڈاکٹر نے کہا کہ اللہ کی مرضی ہے۔ صدیق ٹوٹ سا گیا۔ اُس نے ڈاکٹر کو سب بتایا کہ اُس نے انجکشن فلاں دکان سے لیے تھے۔ تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ اس کے خریدے ہوئے سارے انجکشن جعلی تھے۔ صدیق نے اپنی ماں کو کراچی میں ہی دفن کیا ۔ وہ اُس میڈیکل اسٹور پر واپس گیا۔ اسٹور کا مالک عمرہ کرنے کے لیے سعودی عرب جا چکا تھا۔
صدیق نے اسپتال کے دالان میں رہنا شروع کیا۔ اُ س نے ایک راہ گیر سے درخواست لکھوائی کہ اُس کی ماں کو جعلی انجکشن دیا گیا تھا جس کی وجہ سے وہ مر گئی۔ اُس نے محکمہ صحت کے ایک بڑے افسر کے کمرے کے سامنے جا کر اپنے اوپر پٹرول چھڑکا اور کہا کہ اگر اس کی ماں کے مرنے کی انکوائری نہ ہوئی تو وہ خودکشی کر لے گا۔ انکوائری ہوئی۔ اور رونگھٹے کھڑے کر دینے والے حقائق سامنے آئے۔ یہ انجکشن فرانس کی ایک غیر ملکی کمپنی بناتی تھی۔ اسپتال کے تین اہل کار اس کی خالی بوتلیں اکٹھی کر لیتے تھے۔ یہ شام کو ان خالی بوتلوں میں ایک سفوف ڈال کر پانی ملاتے تھے اور اس کو پیک کر کے اسپتال کے نزدیک میڈیکل اسٹوروں پر دو سو روپے میں بیچ دیتے تھے۔ میڈیکل اسٹور والے اِس کو واپس آٹھ سو میں مریضوں میں بلا خوف فروخت کر دیتے تھے۔ اسپتال میں لوگ روز ان جعلی ادویات سے مرتے تھے لیکن کیونکہ یہ اللہ کی مرضی تھی اس لیے سب خاموش رہتے تھے۔ انکوائری ہوئی۔ تمام اہل کار برطرف ہو گئے۔ لیکن دو ماہ بعد سیاسی سفارش کر وا کر کے وہ بحال ہو گئے۔ اور اسی اسپتال میں واپس آ گئے۔ جس افسر نے انکوائری کرانے کی جسارت کی تھی اُس کو حکومت نے کھڈے لائن لگا دیا۔ وہ دو سال O.S.D رہ کر ریٹائر ہو گیا۔
صدیق کی والدہ کا نام زبیدہ تھا اور جس جعلی ٹیکے کی وجہ سے وہ اس دنیا سے رخصت ہوئی اس کو صرف دو سو روپے میں میڈیکل اسٹور کو بیچا گیا تھا۔ زبیدہ کی زندگی کی قیمت صرف دو سو روپیہ مقرر ہوئی تھی۔ صدیق پاگل ہو گیا، وہ ہر وقت انجکشن کی خالی بوتلیں لے کر کراچی صدر میں پھرتا ہے۔ اور سو سو روپے کے دو نقلی نوٹ دکھا کر راہگیروں کو دوائی بیچتا ہے۔
مجھے بتائیے کہ یہ موت فروش جو ہمارے ملک کی گلی گلی، محلہ محلہ، قصبہ قصبہ میں نہایت عزت سے جعلی دوائیوں کا کاروبار کر رہے ہیں۔ ان کو کون روکے گا؟ کون ان کو ذلت کی خاک میں دفن کرے گا؟ کون ان موت کے فرشتوں سے ہمیں نجات دلائے گا؟ کوئی ہے جو زبیدہ کی آخری ہچکی سنے اور کچھ کر سکے؟ کوئی ہے جو ہمیں اور ہمارے پیاروں کو موت کی جعلی دہلیز سے واپس لا سکے؟ کوئی ہے جو اجل کے ان سوداگروں کو پوری دنیا کے لیے نشان عبرت بنانے کی جرات کر سکے؟ شائد اس کوشش سے ہمارا کوئی اپنا صدیق پاگل ہونے سے بچ جائے اور شائد کوئی ہماری اپنی زبیدہ دو سو روپے کے جعلی ٹیکے کی وجہ سے زندگی کی بازی نہ ہار سکے ۔
شہر کی فضا میں خوف بسا ہوا ہے۔ سرخ اشارے پر رکیں تو ہر شخص فوری طور پر اردگرد دیکھنا شروع کر دیتا ہے کہ کہیں سے فرشتہ اجل خودکش جیکٹ پہن کر ایک دم بغیر بتائے ہوئے گرفت میں نہ لے لے۔ چہروں پر خوف بلکہ وحشت کے سائے ہیں۔ کسی شخص اور کسی بچے کے چہرے پر مجھے مسکراہٹ کی لکیر نظر نہیں آئی۔ مگر اس تمام صورت حال میں ہمیں اپنے دشمن کا بخوبی علم ہے۔
مگر آج میں ایک ایسے دشمن کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو ہمارے معاشرہ میں ہر جگہ سانس لے رہا ہے۔ اور اب تک ہمیں طالبان اور فرقہ پرست دہشت گردوں سے ہزاروں گنا زیادہ نقصان پہنچا چکا ہے۔ ہم اس معزز دشمن کی وجہ سے 63 سالوں میں ایک محتاط انداز ے کے مطابق نوے لاکھ سے ڈیڑھ کروڑ تک جانیں کھو چکے ہیں۔ مجھے علم ہے کہ آپ میری بات پر قطعاً یقین نہیں کریں گے۔
پاکستان میں دوائیوں کی سالانہ مارکیٹ 210 ارب روپے کی ہے۔ اُس میں 20 سے 40 فیصد تک دوایاں بالکل جعلی ہیں۔ ایک امریکی ادارے کی تحقیق کے مطابق ان دوائیوں میں چوہے مار پائوڈر، اینٹوں کا پسا ہوا سفوف اور دروازوں پر کرنے والا رنگ ڈالا جاتا ہے۔ اس مملکت خداداد میں چار ہزار رجسٹرڈ میڈیکل اسٹور ہیں مگر ڈیڑھ سے دو لاکھ اسٹور غیر قانونی طور پر چل رہے ہیں۔ اِن کے مالکان مقامی ڈرگ انسپکٹرز اور محکمہ کے دیگر افراد کو ہمیشہ خوش رکھتے ہیں۔
آپ دوائیاں بنانے کی مقامی فیکٹریوں کا تجزیہ کریں تو حیران ہو جائیں گے کہ اکثر فیکٹریوں کے مالکان محکمہ صحت کے وہ اہلکار ہیں جو میڈیکل اسٹورز کو چیک کرنے پر مامور ہیں۔ بات صرف یہاں نہیں رکتی۔ یہ موت کے سوداگر کئی ڈاکٹروں کو بھی اپنا ہمنوا بنا چکے ہیں۔
ایک تجزیے کے مطابق پاکستان دنیا کے ان پہلے دس ملکوں میں آتا ہے جہاں جعلی دوائیاں وافر تعداد میں بنتی ہیں۔ اور جہاں ان کی کھلے عام خرید و فروخت ہوتی ہے۔ اگر آپ انٹرنیٹ کے ذریعے دوائی خریدتے ہیں تو یہ عظیم ملک جعلی دوائیاں بنانے میں چوتھے نمبر ہے۔ یہ نیٹ ورک ہیروئین اور انسانوں کی خرید و فروخت کے بعد دُنیا کا سب سے بڑا کاروبار ہے۔
صدیق تھرپارکر کے صحرا میں مِٹھی کے نزدیک ایک معمولی سی گھوٹھ/گائوںمیں رہتاتھا۔ وہ مکمل ان پڑھ تھا۔ چوبیس سال کی عمر میں صدیق کے پاس 28 بکریاں، دو بیل اور ایک گائے تھی۔ صدیق اپنے آپ کو ایک امیر آدمی گردانتا تھا۔ ایک دن وہ کچھ چیزیں خریدنے مِٹھی گیا تو اس کو ایک دوست نے بتایا کہ کچھ سرکاری نوکریاں نکلی ہیں۔ وہ ان کے لیے ضرور درخواست دے۔ صدیق نے درخواست نہیں دی۔ اس کے دوست مشہود نے اپنا انگوٹھا لگا کر اس کی درخواست ایک سرکاری دفتر کے بابو کو جمع کرا دی۔ یہ نوکریاں صرف تھر کے مقامی لوگوں کے لیے مختص تھیں۔ حادثاتی طور پر صدیق کو یہ نوکری مل گئی۔ صدیق بہت اہم ہو گیا۔ اس کے قبیلے میں کئی صدیوں سے کسی کو اتنی بڑی سرکاری نوکری نہیں ملی تھی۔ صدیق ایک سرکاری دفتر میں چپڑاسی لگ چکا تھا۔ صدیق اکلوتا تھا۔ اُس کی چار بہنیں تھیں۔ وہ تمام اپنے اپنے گھروں میں جا چکی تھیں۔
ایک دن دوپہر کو وہ کام کے بعد گھر آیا تو اس نے دیکھا کہ صحن میں اس کی ماں بے ہوش پڑی ہے۔ اور اس کی ناک سے خون بہہ رہا ہے۔ وہ گھبرا گیا۔ اُسے اپنی ماں سے شدید محبت تھی۔ گدھا گاڑی پر سوار وہ ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت کے بعد مقامی اسپتال پہنچا۔ وہاں ڈاکٹر چھٹی کر چکا تھا۔ مگر چھوٹا ڈاکٹر یعنی ڈسپنسر موجود تھا۔ اُس ڈسپنسر نے صدیق کی والدہ کو پانچ چھ ٹیکے لگائے اور کہا کہ بڑا ڈاکٹر دو ہفتے کے لیے کراچی گیا ہوا ہے۔ لہٰذا وہ اپنی والدہ کو کسی بڑے اسپتال میں لے جائے۔ صدیق نے اپنے صاحب کو فون کیا۔ جس کی وجہ سے اُسے اور اس کی والدہ کو کراچی کے ایک بہت بڑے اسپتال میں منتقل کر دیا گیا۔ یہ سرکاری اسپتال دل کے شعبہ میں شہر کا سب سے بڑا اسپتال تھا۔ اُس کی ماں بڑی تیزی سے ٹھیک ہونے لگی۔ ڈاکٹر نے بتایا ماں کو دل کا دورہ پڑا ہے اور اس کے علاوہ اس کا خون جمنا شروع ہو گیا تھا۔ اُس کے خون کو جمنے سے روکنے کے لیے مخصوص ٹیکے کی ہر تین دن کے بعد ضرورت پڑے گی۔
صدیق اب مطمئن تھا۔ ڈاکٹر نے اُسے بتایا کہ اب وہ اپنی ماں کو واپس لے جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر نے اُسے مشورہ دیا کہ وہ بازار سے چار پانچ ٹیکے خرید لے جو اس کی ماں کے خون کو جمنے نہ دیں۔ وہ خوشی خوشی اسپتال کے نزدیک میڈیکل اسٹور پر گیا۔ وہاں اسٹور کے مالک نے اسے بتایا کہ اُس کے پاس یہ انجکشن موجود ہے۔ اور وہ آٹھ سو روپے کا ہے۔ صدیق نے پانچ انجکشن خریدے۔ اسپتال پہنچ کر ڈاکٹر نے ایک انجکشن ماں کو لگایا تا کہ بیس گھنٹے کا سفر خیریت سے گزرے۔ جیسے ہی وہ ٹیکہ شریان میں لگا۔ ماں کی ناک اور منہ سے خون نکلنے لگا۔ ڈاکٹر پریشان ہو گیا۔ اُس نے صدیق سے دوسرا انجکشن لیا۔ اور ا ُس کو بھی فوری طور پر لگا دیا۔ ماں نے خون کی الٹیاں کرنی شروع کر دیں۔ دس سے پندرہ منٹ میں وہ مر گئی۔ ڈاکٹر نے کہا کہ اللہ کی مرضی ہے۔ صدیق ٹوٹ سا گیا۔ اُس نے ڈاکٹر کو سب بتایا کہ اُس نے انجکشن فلاں دکان سے لیے تھے۔ تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ اس کے خریدے ہوئے سارے انجکشن جعلی تھے۔ صدیق نے اپنی ماں کو کراچی میں ہی دفن کیا ۔ وہ اُس میڈیکل اسٹور پر واپس گیا۔ اسٹور کا مالک عمرہ کرنے کے لیے سعودی عرب جا چکا تھا۔
صدیق نے اسپتال کے دالان میں رہنا شروع کیا۔ اُ س نے ایک راہ گیر سے درخواست لکھوائی کہ اُس کی ماں کو جعلی انجکشن دیا گیا تھا جس کی وجہ سے وہ مر گئی۔ اُس نے محکمہ صحت کے ایک بڑے افسر کے کمرے کے سامنے جا کر اپنے اوپر پٹرول چھڑکا اور کہا کہ اگر اس کی ماں کے مرنے کی انکوائری نہ ہوئی تو وہ خودکشی کر لے گا۔ انکوائری ہوئی۔ اور رونگھٹے کھڑے کر دینے والے حقائق سامنے آئے۔ یہ انجکشن فرانس کی ایک غیر ملکی کمپنی بناتی تھی۔ اسپتال کے تین اہل کار اس کی خالی بوتلیں اکٹھی کر لیتے تھے۔ یہ شام کو ان خالی بوتلوں میں ایک سفوف ڈال کر پانی ملاتے تھے اور اس کو پیک کر کے اسپتال کے نزدیک میڈیکل اسٹوروں پر دو سو روپے میں بیچ دیتے تھے۔ میڈیکل اسٹور والے اِس کو واپس آٹھ سو میں مریضوں میں بلا خوف فروخت کر دیتے تھے۔ اسپتال میں لوگ روز ان جعلی ادویات سے مرتے تھے لیکن کیونکہ یہ اللہ کی مرضی تھی اس لیے سب خاموش رہتے تھے۔ انکوائری ہوئی۔ تمام اہل کار برطرف ہو گئے۔ لیکن دو ماہ بعد سیاسی سفارش کر وا کر کے وہ بحال ہو گئے۔ اور اسی اسپتال میں واپس آ گئے۔ جس افسر نے انکوائری کرانے کی جسارت کی تھی اُس کو حکومت نے کھڈے لائن لگا دیا۔ وہ دو سال O.S.D رہ کر ریٹائر ہو گیا۔
صدیق کی والدہ کا نام زبیدہ تھا اور جس جعلی ٹیکے کی وجہ سے وہ اس دنیا سے رخصت ہوئی اس کو صرف دو سو روپے میں میڈیکل اسٹور کو بیچا گیا تھا۔ زبیدہ کی زندگی کی قیمت صرف دو سو روپیہ مقرر ہوئی تھی۔ صدیق پاگل ہو گیا، وہ ہر وقت انجکشن کی خالی بوتلیں لے کر کراچی صدر میں پھرتا ہے۔ اور سو سو روپے کے دو نقلی نوٹ دکھا کر راہگیروں کو دوائی بیچتا ہے۔
مجھے بتائیے کہ یہ موت فروش جو ہمارے ملک کی گلی گلی، محلہ محلہ، قصبہ قصبہ میں نہایت عزت سے جعلی دوائیوں کا کاروبار کر رہے ہیں۔ ان کو کون روکے گا؟ کون ان کو ذلت کی خاک میں دفن کرے گا؟ کون ان موت کے فرشتوں سے ہمیں نجات دلائے گا؟ کوئی ہے جو زبیدہ کی آخری ہچکی سنے اور کچھ کر سکے؟ کوئی ہے جو ہمیں اور ہمارے پیاروں کو موت کی جعلی دہلیز سے واپس لا سکے؟ کوئی ہے جو اجل کے ان سوداگروں کو پوری دنیا کے لیے نشان عبرت بنانے کی جرات کر سکے؟ شائد اس کوشش سے ہمارا کوئی اپنا صدیق پاگل ہونے سے بچ جائے اور شائد کوئی ہماری اپنی زبیدہ دو سو روپے کے جعلی ٹیکے کی وجہ سے زندگی کی بازی نہ ہار سکے ۔