الٹی ہوگئیں سب تدبیریں

تاریخ عالم بڑے نازک دور سے گزر رہی ہے۔ بڑی بڑی جمہوریتیں، بڑی بڑی عالمی طاقتیں، دہشت گردی، بے روزگاری اور...

تاریخ عالم بڑے نازک دور سے گزر رہی ہے۔ بڑی بڑی جمہوریتیں، بڑی بڑی عالمی طاقتیں، دہشت گردی، بے روزگاری اور وسائل میں کمی جیسے مسائل سے دوچار ہیں۔ پاکستان نے تو خیر کبھی خود کوشش بھی نہیں کہ کسی مسئلے کو حل کرنے کی۔ یہاں کا سب سے اہم اور بڑا مسئلہ جو تمام مسائل کی جڑ ہے وہ ہے تمام تر وسائل پر ایک مخصوص طبقے کا قبضہ یا اجارہ داری، باقی تمام مسائل اسی مسئلے کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ وطن عزیز معاشی بدحالی کا نہ صرف شکار ہے بلکہ پورا معاشی ڈھانچہ قرض پر کھڑا ہے۔ کشکول توڑنے کے دعوے ہوتے رہے، کشکول کا سائز بڑھتا گیا، قرض اتارنے کے لیے بھی مزید قرض لینا پڑا۔ غرض ہمارا ملک مقروض اور پسماندہ ممالک کی صف میں شامل رہا۔ جہاں دہشت گردی کے عفریت نے یوں پنجے گاڑے ہیں کہ ملک کو اس سے چھڑانے کے لیے کتنی ہی جانوں کی قربانی، کتنے ارب ڈالرز کا نقصان اور کتنی ہی صنعتوں کا پہیہ جام ہوچکا ہے۔ ملک کا کوئی تعمیری ادارہ اس کی دست برد سے بچا ہوا نہیں ہے، اہم سرکاری و نجی ادارے آئے دن دہشت گردی کی زد پر ہوتے ہیں۔

پاکستان میں آج یہ عالم ہے کہ یہاں کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ تک دہشت گردوں نے حاصل کرلیے ہیں۔ غیر ملکی دہشت گرد ان کے سہارے دنیا بھر میں کارنامے انجام دیتے پھررہے ہیں اور بدنامی پاکستان کی ہورہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہوا؟ تو اس کا بے حد سادہ جواب ہے کہ خود ہماری غفلت، لاپرواہی، حب الوطنی کے بجائے حب جاہ و مال میں جب ساری قوم وطن کو لوٹنے کے ساتھ ساتھ دولت پرستی کا شکار ہو تو چند روپوں کے لییوطن کو نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کرتی۔ ملک بدنام ہورہا ہے تو یہ بدنامی بھی کسی ایسے ہی جذبے کے تحت لگتی ہے کہ ''بدنام نہ ہوںگے تو کیا نام نہ ہوگا''۔ کسی اور شعبہ زندگی میں نہ سہی بطور دہشت گرد ہی دنیا ہمیں جانتی پہچانتی تو ہے۔

پاکستان کی بندرگاہیں، ہوائی اڈے ان دہشت گردوں کی بحفاظت آمد و رفت میں کسی قسم کی رکاوٹ ثابت نہیں ہورہے۔ پاکستان میں غیر ممالک سے آنے والوں کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ موجود نہیں، جو ایک بار آگیا وہ باآسانی یہاں کا باضابطہ شہری بن گیا۔ چند روپوں کے عوض وہ شناختی کارڈ اور پھر پاسپورٹ تک حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے، کراچی کا تو نام بدنام ہے ہی پورے ملک میں امن و امان کی صورت حال دگرگوں ہے، حتیٰ کہ دارالحکومت بھی محفوظ نہیں۔ کچھ برسوں پیچھے چلے جائیے کیا امن و امان کی صورتحال یہ تھی؟ یہی شہر کراچی ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کے لیے مشہور تھا۔ شہر قائد کے عالمی مشاعرے پورے شہر بلکہ ملک میں یادگار تقریب کا درجہ رکھتے تھے۔ مگر کراچی میں امن کی بگڑی صورتحال کا بغور تجزیہ کیا جائے تو اس کو برباد کرنے کا آغاز کرنے میں ایک منتخب وزیراعظم کو تختہ دار تک پہنچانے والے بزعم خود امیرالمومنین کہلانے والے ڈاکٹر کے علاوہ کیا وہ سیاستدان بھی شامل نہیں جنہوں نے 77 کے انتخابات کو شروع ہونے سے قبل ہی ہائی جیک کرلیا تھا اور کوئی جمہوری حل اس مسئلے کا نکالنے کو کسی صورت تیار نہ تھے۔

ملکی امن و امان کی صورتحال کو اس قدر ابتر کردیا گیا تھا کہ لوگ گھروں میں مقید ہوکر رہ گئے، نجی و سرکاری املاک کا نقصان بھی ناقابل بیان حد تک کیا گیا۔ مگر وہ تحریک جو نظام مصطفیٰ کے نفاذ کے نام پر چلائی گئی تھی بالآخر مارشل لاء پر منتج ہوئی، جب مارشل لاء لگ گیا تو سب بڑے آرام سے اپنی اپنی خواب گاہوں میں سکون کی نیند سوگئے، گویا ان کی ساری جدوجہد کا مقصد ملک میں انارکی پھیلانا، بھٹو کی کوئی بات تسلیم نہ کرکے مارشل لاء لگوانا ہی تھا۔ اس مارشل لاء کے طفیل ملک میں ان عناصر کا غلبہ ہوتا گیا جنہوںنے ملک کو مکمل بدامنی کی طرف دھکیل دیا۔ آج ہم جمہوریت کی ایک میعاد پوری کرکے دوسری کا آغاز کرچکے ہیں مگر جو فصلیں بوئی جاچکی تھیں اب ان کو کاٹنے کا وقت بھی تو آگیا ہے۔


بے چاری جمہوریت جادو گری تو ہے نہیں کہ اپنے گہرے اور پرانے زخموں کو جادوئی چھڑی گھما کر بھردے۔ دوسری جانب یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ملک کا دانشور طبقہ اور با شعور عوام اس صورتحال سے پہلے ہی واقف تھے کہ یہ مسائل چٹکی بجاتے حل ہونے والے نہیں ہیں، پھر آخر ہماری سیاسی جماعتوں کو اس کا کیوں اندازہ نہ ہوسکا کہ وہ مصیبت زدہ قوم کو سنہری خواب دکھاتی رہیں۔ حالانکہ اس مقصد کا حصول ناممکن بھی نہ تھا جو یہ جماعتیں انتخابات سے قبل بطور منشور پیش کرتی رہی تھیں۔ اقوام عالم میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ برے سے برے حالات سے نکل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو گئیں، اس کے لیے جانفشانی اور خلوص نیت کا ہونا ضروری ہے۔

انتقال اقتدار ہی میں کیا ملکی ترقی کا راز مضمر ہے؟ یا درحقیقت نیت، خلوص، لگن اور جذبہ پھر سب سے بڑھ کر قومی غیرت و حمیت کے ذریعے تمام مسائل حل کرنا۔ جہاں قوم کو سرکاری سطح پر بھکاری اور مقروض بنایا جارہا ہو۔ جہاں تمام وسائل پر چند لوگ قابض ہوں۔ جہاں مزدور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے قبل تو کیا مرنے کے بعد بھی نہ ملتی ہو، جہاں آدمی کی حیثیت جانوروں سے بھی بد تر ہو، وہاں جمہوریت یا ڈکٹیٹر شپ سے کیا فرق پڑتا ہے؟ فرق تو اس وقت پڑتاہے جب ملکی مسائل تیزی سے حل ہوتے نظر آئیں۔

آج ملک کے حالات کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ امن کے لیے کیے جانے والے تمام اقدام کا اثر الٹا پڑتا جارہا ہے۔ کراچی کے ٹارگٹڈ آپریشن کے آغاز سے قبل ہی اتنے ڈھول بجائے گئے کہ صاف اندازہ ہوتا تھا کہ مجرموں کے لیے اعلان ہورہا ہے کہ ''ہوشیار ہم کچھ کرنے والے ہیں، فوراً روپوش ہوجائو یا ملک سے بھاگ جائو'' ہم پہلے ہی لکھ چکے ہیں کہ ملک سے فرار ہونا ہمارے یہاں کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں کیونکہ اس سلسلے میں کبھی ٹھوس اقدام کیے ہی نہیں گئے۔ لہٰذا جو ملک سے جاسکتے تھے چلے گئے، جو نہیں جاسکتے تھے وہ لاہور، مری اور ملک کے دوسرے علاقوں میں روپوش ہوگئے۔ مطلب یہ کہ سانپ نکل گیا لکیر پیٹی جارہی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جو کراچی میں جمع تھے وہ پورے ملک میں پھیل گئے اور اب جگہ جگہ سے گرفتار بھی ہورہے ہیں۔ مگر ایک اطلاع کے مطابق تیس یا تینتیس ہزار مجرم فرار ہوچکے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت کے اراکین خود بڑی ڈھٹائی سے فرمارہے ہیں کہ مجرم فرار ہوگئے۔

کے پی کے میں چرچ کے سانحے نے تو پاکستان کی چولیں ہلاکر رکھ دیں۔ ایک اسلامی ملک میں جہاں قتل و غارت گری بم دھماکوں کے ذریعے نظام اسلام کے نفاذ کے کوشش روز بروز تیز ہوتی جارہی ہے، وہاں اقلیتوں کے جان و مال تو کیا عبادت گاہوں تک کو تحفظ حاصل نہیں۔ مدینہ جیسی فلاحی ریاست کے قیام کے دعویدار ذرا تاریخ اسلام سے کوئی ایسی مثال پیش کریں کہ مدینہ میں کسی یہودی یا نصرانی کے گھر کو آگ لگائی گئی ہو یا بلاجواز کسی کو قتل کیا گیا ہو، یہ فلاحی ریاست تو غیر مسلموں سے امن معاہدوں کے ذریعے قائم کی گئی تھی اور پھر معاہدہ توڑنے پر بھی ان کو قتل کیا گیا نہ لوٹا گیا بلکہ مدینہ بدر کردیا گیا تھا۔ مگر آج ہمارے اسلامی قلعے میں غیر مسلم تو کیا خود مسلمان بھی پرسکون زندگی سے محروم کردیے گئے ہیں۔

اسلام کے نام پر دہشت گردی اسلام کی خدمت تو کیا بلکہ اسلام دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ضرور ہے۔ پھر بھی حکومت ان دشمنان اسلام اور ملک عناصر سے پورے خلوص کے ساتھ بات چیت پر آمادگی ظاہر کررہی ہے وہ سیاسی جماعتیں جو ملک دشمن طاقتوں سے مذاکرات کی مخالف تھیں انھوں نے بھی قومی مفاد کے جذبے کے تحت ان سے مذاکرات کی حمایت کردی۔ مگر خیر سگالی کے ہر عمل کو سبوتاژ کیا گیا اور صورت حال یہ ہے کہ ''الٹی ہوگئیں سب تدبیریں'' غرض کوئی تدبیر کارگر ثابت نہ ہوسکی۔ جیل توڑ کر اپنے ساتھی مجرموں کو رہا کرانے سے لے کر ملا برادر کی رہائی تک کسی بھی بات کا مثبت اثر سامنے نہ آسکا بلکہ ساری کاوش کا انجام یہ ہے کہ ملک کی بدنامی کا ایک نیا باب رقم ہورہا ہے اور پاکستان کا مستقبل مزید اندھیرے میں گم ہوتا جارہا ہے۔ کیا اس صورتحال میں طالبان سے مذاکرات ممکن ہیں اور ہیں بھی تو کیا نتیجہ خیز ثابت ہوں گے؟
Load Next Story