میر غالب اور اقبال تین صدیوں کی تین آوازیں
اقبال کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر آفتاب احمد فرماتے ہیں کہ اقبال بھی میرکی طرح تصوف کی گود میں پلے تھے۔
''میر، غالب اور اقبال : تین صدیوں کی تین آوازیں'' ڈاکٹر آفتاب احمد کے ایک لیکچرکا عنوان تھا جو بعد میں کتابی شکل میں شایع ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں۔''میر، غالب اور اقبال پر بیک وقت غورکرنے کی یہ وجہ تھی کہ میری دانست میں یہ تینوں شاعر برصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ کی تین صدیوں کے منفرد اور اعلیٰ ترین ثقافتی نشان کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مزید برآں چاہے جس انداز اور جس نقطۂ نظر سے ان پرگفتگو کرنے کی کوشش کی جائے ان میں ایک رشتہ اشتراک بھی ہے اور وہ یہ کہ ان تینوں نے اپنے اپنے طور پر اس مرکزی روایت اور اس کی بدلتی ہوئی صورت کی ترجمانی کی ہے جس کی ابتدا ہمارے ادبی ورثے میں آج سے سات سو سال پہلے ہوئی تھی۔
یہ روایت دراصل ثقافتی سطح پر برصغیر میں مسلمانوں کی سلطنت کے قیام کی داستان کا حصہ ہے۔''ڈاکٹر آفتاب احمد نے جو یہ کہا ہے کہ ان تینوں شاعروں کی اپنی اپنی صدی کی آواز تھی اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا زمانہ اپنے اپنے انداز میں ان کی زبان میں بولا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''میرکا زمانہ یعنی اٹھارہویں صدی برصغیر میں طوائف الملوکی، افراتفری، اضطراب اورکرب کا زمانہ تھا۔ ذرا یہ شعر دیکھیے:
جن بلاؤں کو میر سنتے تھے
ان کو اس روزگار میں دیکھا
غالب کے زمانے یعنی انیسویں صدی میں ابتدا ہی سے حالات اور دگرگوں ہوگئے۔ مغلوں کی سلطنت کی شمع ٹمٹمانے لگی اور وہ حادثہ جو ابھی پردۂ افلاک میں تھا آخر 1857ء میں دہلی اور اس کے آس پاس کے علاقوں کے مکینوں کے لیے ہنگامۂ نشور لایا۔
داغ فراقِ صحبت شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے
صحبت شب کا بکھرجانا اور شمع کا خاموش ہوجانا غالب کے ہاں مغلیہ سلطنت کے زوال اور خاتمے کی علامات ہیں۔
بیسویں صدی یعنی اقبال کی صدی میں کیا نہیں ہوا اورکیا کچھ دیکھنے میں نہیں آیا۔ وقت کی گرم روی میں کیسی کیسی منزلیں گرد کے مانند اڑتی رہی ہیں۔ایک انقلاب مسلسل اس صدی کی سب سے بڑی پہچان ہے۔اقبال کی نگاہ دوربیں نے اس کیفیت کوایک تہائی صدی گزرنے پر ہی دیکھ لیا تھا اور ایک شعر میں یوں قلم بند کردیا تھا۔
دگرگوں ہے جہاں' تاروں کی گردش تیز ہے ساقی
دلِ ہر ذرہ میں غوغائے رستا خیز ہے ساقی
ڈاکٹر آفتاب احمد لکھتے ہیں''میر ، غالب اور اقبال تینوں نے اپنے اپنے عہد کے متعلق کہیں صاف لفظوں میں اور کہیں اشاروں کنایوں میں ایسے اشعارکہے ہیں کہ ان میں گویا ان کے عہدکی دنیا سمٹ آئی ہے۔ ان کے اشعار زیادہ تر خارجی حالات اورکوائف سے متعلق ہیں یا یوں کہیے کہ اس سیاسی اور سماجی فضا سے جس میں یہ شعرا زندگی گزار رہے تھے۔
اپنے اشعار میں انھوں نے ان بصیرتوں کا اظہارکیا ہے جو انھیں اپنے وجدان سے حاصل ہوئیں۔ یہ بصیرتیں ان کے عہد پر تبصرے کی حیثیت رکھتی ہیں اور اس لحاظ سے وقیع اور اہم ہیں کہ یہ اس عہد کے اعلیٰ اور حساس ترین دل و دماغ رکھنے والے چند نابغہ روزگار نفوس کی بصیرتیں ہیں جنھیں قدرت کی طرف سے موثر ترین اظہار کی صلاحیت عطا ہوئی تھی۔
ان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے زمانے کے حالات و واقعات سے بے خبر اپنی دھن میں مست نہیں تھے بلکہ ان پرگہری نظر رکھے ہوئے تھے۔ بات یہ ہے کہ بڑا شاعر اپنے عہد اور معاشرے کے مزاج اور اجتماعی شعورکا رازداں ہوتا ہے اور ترجمان بھی۔ خود اقبال نے کہا ہے:
شاعر اندر سینۂ ملت چوں دل
میر نے جنھیں عام خیال کے مطابق اپنے دل کی رام کہانی اور اپنے دکھوں کی بپتا کہنے سے فرصت نہیں تھی، یہ شعر کہا ہے۔
عجب ہوتے ہیں شاعر بھی میں اس فرقے کا عاشق ہوں
بھری مجلس میں بے دھڑکے یہ سب اسرارکہتے ہیں
حالات زمانہ نے غالب کے اندر جو محشر بپا کیا تھا اس کا اظہار اس طرح ہوا:
آتش کدہ ہے سینہ میرا سوز نہاں سے
اے وائے اگر معرضِ اظہار میں آوے
ہر معاشرے میں فکر وخیال اور فلسفہ ودانش کی حاضر وموجود لہریں اس کی اجتماعی زندگی کی تشکیل کرتی ہیں، اس کے معیاروں اور قدروں کا تعین کرتی ہیں۔ افعال و اعمال کے سانچے وضع کرتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس معاشرے کے شعروادب کی آبیاری کرتی ہیں۔اسے اپنے عہد کا ترجمان اور نمایندہ بناتی ہیں۔ ڈاکٹر آفتاب احمد فرماتے ہیں کہ غورکیا جائے تو جس چیز کو روح عصر کہا جاتا ہے۔
اس کا اندازہ کسی ایک عصر کے فکر وخیال، فلسفہ ودانش اور شعر وادب کے میلانات اوررجحانات ہی سے توکیا جاسکتا ہے۔ سیاسی ہنگامے، ملک گیری کی عسکری مہمات، تیغ وسناں کے کارنامے تاریخ کے صفحات کی زینت تو ضرور بنتے ہیں مگر معاشرے میں بقائے دوام کسی فلسفی کے افکار،کسی صوفی کی ملفوظات، کسی شاعر کے کلام ہی کو نصیب ہوتی ہے کیونکہ یہ ورثہ قوم کے اجتماعی شعورکا حصہ بن جاتا ہے۔
ڈاکٹر آفتاب احمد فرماتے ہیں ''میر کی تربیت انتہائی صوفیانہ ماحول میں ہوئی اور ان کی زندگی کے ابتدائی سال قلندروں اور درویشوں کی صحبت ہی میں گزرے۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ اس صحبت کے نتیجے میں میر خود بھی صوفی ہوگئے تھے، رہے تو وہ شاعر ہی مگر ان کے شعری مزاج کی تشکیل میں تصوف کا عمل دخل بہت رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں صوفیانہ تصورات کا عکس صاف نظر آتا ہے۔
گوش کو ہوش کے ٹک کھول کے سن شورِ جہاں
سب کی آواز کے پردے میں سخن ساز ہے ایک
غالب کا معاملہ میر سے مختلف تھا۔ وہ تصوف کی گود میں پل کر جوان نہیں ہوئے۔ ان کے آبا کا پیشہ تو سپہ گری تھا جو غالب نے اختیار نہیں کیا مگر ان کی تعلیم میں مروجہ علوم کے درس کے ساتھ تصوف سے آگاہی اور واقفیت شامل تھی۔ بیدل سے لگاؤکی بنا پر وہ بیدل کے صوفیانہ رجحان یعنی وحدت الوجود کے عقیدے سے بھی متاثر ہوئے۔ یہ شعر دیکھیے۔
دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
اقبال کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر آفتاب احمد فرماتے ہیں کہ اقبال بھی میرکی طرح تصوف کی گود میں پلے تھے۔ ان کے والد بھی صاحب دل صوفی تھے۔ ذاتی طور پر اقبال کو تمام عمر درویشوں، قلندروں اور صوفیانہ افکار و اشغال سے شغف رہا۔ شروع میں تو وہ وحدت الوجود کے قائل تھے لیکن بعد میں ان کے خیالات میں ایک انقلاب آیا اور انھوں نے اس غیر اسلامی اور عجمی فلسفے سے اپنی وابستگی ترک کردی اور اپنی شاعری کو ملت کی حیات نوکی خاطر عمل اور تگ ودوکا درس دینے کے لیے وقف کردیا۔
ڈاکٹر آفتاب احمد فرماتے ہیں کہ میر کی پوری شخصیت عشق میں منہمک نظر آتی ہے۔ وہ عشق کو زندگی کے مسائل سے بے نیاز ہوکر نہیں دیکھتے۔
مسائل اور تھے پر دل کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہوگیا ہے
غالب نے اپنے آپ کو عشق کے ہاتھوں مکمل طور پر تسخیر نہیں ہونے دیا۔ ان کو اپنی شخصیت پر ناز تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی عشقیہ شاعری میں نہ میرکا سا عجزونیاز ہے اور نہ سپردگی اور سرشاری کا وہ انداز۔
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
میری وحشت تری شہرت ہی سہی
اقبال تک پہنچتے پہنچتے اردو شاعری میں ایسا انقلاب آیا کہ انسانی عشق کی وہ تصویریں جو ہم نے میر اور غالب کے ہاں دیکھی ہیں، اقبال کے ہاں نظر نہیں آتیں اور اگر نظر آتی بھی ہیں تو بس سرسری طور پر۔ ڈاکٹر آفتاب احمد فرماتے ہیں کہ اقبال کا عشق ایک تخلیقی قوت ہے جو خودی کو استحکام بخشتی ہے۔ یہ عشق پیہم اعلیٰ مقاصد کی تخلیق کرتا ہے اور ان کا جُویا رہتا ہے۔ یہ طلب و آرزو کا ایک عمل مسلسل ہے، گویا یہ ایک خلاق اور فعال قوت ہے۔
کبھی تنہائی کوہ ودمن عشق
کبھی سوز و سرورِ انجمن عشق
ڈاکٹر آفتاب احمد لکھتے ہیں ''وہ عشق جس کا ذکر میر، غالب اور اقبال کے سلسلے میں ہو اپنے تمام اختلافات کے باوجود انسان کے بنیادی جذبوں میں سے ہے۔ غم بھی انسان کا ایک بنیادی جذبہ ہے۔ چنانچہ غمِ عشق کا واسطہ انسانوں کے عشقیہ تعلقات سے ہے اور غم روزگار کا واسطہ انسان کے ان دکھوں سے جو اسے اس دنیا میں دوسرے انسانوں کے ساتھ زندگی گزارنے کے دوران پیش آتے ہیں۔
ایک تیسری قسم کا غم وہ ہے جسے غمِ وجود کہا جاسکتا ہے۔ اس کا تعلق اس زمین و آسمان کے درمیان انسان کی ہستی سے ہے۔ یہ غم دو بنیادی حقیقتوں پر مبنی ہے۔ ایک یہ کہ انسان اپنی تمام صلاحیتوں اور کامرانیوں کے باوجود حیات و کائنات کی بے پناہ قوتوں میں ایک کمزور حیثیت رکھتا ہے اور دوسری یہ کہ اس دنیا میں ہر چیز کا آخری انجام بہرحال فنا ہے۔''
مزید برآں چاہے جس انداز اور جس نقطۂ نظر سے ان پرگفتگو کرنے کی کوشش کی جائے ان میں ایک رشتہ اشتراک بھی ہے اور وہ یہ کہ ان تینوں نے اپنے اپنے طور پر اس مرکزی روایت اور اس کی بدلتی ہوئی صورت کی ترجمانی کی ہے جس کی ابتدا ہمارے ادبی ورثے میں آج سے سات سو سال پہلے ہوئی تھی۔
یہ روایت دراصل ثقافتی سطح پر برصغیر میں مسلمانوں کی سلطنت کے قیام کی داستان کا حصہ ہے۔''ڈاکٹر آفتاب احمد نے جو یہ کہا ہے کہ ان تینوں شاعروں کی اپنی اپنی صدی کی آواز تھی اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا زمانہ اپنے اپنے انداز میں ان کی زبان میں بولا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''میرکا زمانہ یعنی اٹھارہویں صدی برصغیر میں طوائف الملوکی، افراتفری، اضطراب اورکرب کا زمانہ تھا۔ ذرا یہ شعر دیکھیے:
جن بلاؤں کو میر سنتے تھے
ان کو اس روزگار میں دیکھا
غالب کے زمانے یعنی انیسویں صدی میں ابتدا ہی سے حالات اور دگرگوں ہوگئے۔ مغلوں کی سلطنت کی شمع ٹمٹمانے لگی اور وہ حادثہ جو ابھی پردۂ افلاک میں تھا آخر 1857ء میں دہلی اور اس کے آس پاس کے علاقوں کے مکینوں کے لیے ہنگامۂ نشور لایا۔
داغ فراقِ صحبت شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے
صحبت شب کا بکھرجانا اور شمع کا خاموش ہوجانا غالب کے ہاں مغلیہ سلطنت کے زوال اور خاتمے کی علامات ہیں۔
بیسویں صدی یعنی اقبال کی صدی میں کیا نہیں ہوا اورکیا کچھ دیکھنے میں نہیں آیا۔ وقت کی گرم روی میں کیسی کیسی منزلیں گرد کے مانند اڑتی رہی ہیں۔ایک انقلاب مسلسل اس صدی کی سب سے بڑی پہچان ہے۔اقبال کی نگاہ دوربیں نے اس کیفیت کوایک تہائی صدی گزرنے پر ہی دیکھ لیا تھا اور ایک شعر میں یوں قلم بند کردیا تھا۔
دگرگوں ہے جہاں' تاروں کی گردش تیز ہے ساقی
دلِ ہر ذرہ میں غوغائے رستا خیز ہے ساقی
ڈاکٹر آفتاب احمد لکھتے ہیں''میر ، غالب اور اقبال تینوں نے اپنے اپنے عہد کے متعلق کہیں صاف لفظوں میں اور کہیں اشاروں کنایوں میں ایسے اشعارکہے ہیں کہ ان میں گویا ان کے عہدکی دنیا سمٹ آئی ہے۔ ان کے اشعار زیادہ تر خارجی حالات اورکوائف سے متعلق ہیں یا یوں کہیے کہ اس سیاسی اور سماجی فضا سے جس میں یہ شعرا زندگی گزار رہے تھے۔
اپنے اشعار میں انھوں نے ان بصیرتوں کا اظہارکیا ہے جو انھیں اپنے وجدان سے حاصل ہوئیں۔ یہ بصیرتیں ان کے عہد پر تبصرے کی حیثیت رکھتی ہیں اور اس لحاظ سے وقیع اور اہم ہیں کہ یہ اس عہد کے اعلیٰ اور حساس ترین دل و دماغ رکھنے والے چند نابغہ روزگار نفوس کی بصیرتیں ہیں جنھیں قدرت کی طرف سے موثر ترین اظہار کی صلاحیت عطا ہوئی تھی۔
ان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے زمانے کے حالات و واقعات سے بے خبر اپنی دھن میں مست نہیں تھے بلکہ ان پرگہری نظر رکھے ہوئے تھے۔ بات یہ ہے کہ بڑا شاعر اپنے عہد اور معاشرے کے مزاج اور اجتماعی شعورکا رازداں ہوتا ہے اور ترجمان بھی۔ خود اقبال نے کہا ہے:
شاعر اندر سینۂ ملت چوں دل
میر نے جنھیں عام خیال کے مطابق اپنے دل کی رام کہانی اور اپنے دکھوں کی بپتا کہنے سے فرصت نہیں تھی، یہ شعر کہا ہے۔
عجب ہوتے ہیں شاعر بھی میں اس فرقے کا عاشق ہوں
بھری مجلس میں بے دھڑکے یہ سب اسرارکہتے ہیں
حالات زمانہ نے غالب کے اندر جو محشر بپا کیا تھا اس کا اظہار اس طرح ہوا:
آتش کدہ ہے سینہ میرا سوز نہاں سے
اے وائے اگر معرضِ اظہار میں آوے
ہر معاشرے میں فکر وخیال اور فلسفہ ودانش کی حاضر وموجود لہریں اس کی اجتماعی زندگی کی تشکیل کرتی ہیں، اس کے معیاروں اور قدروں کا تعین کرتی ہیں۔ افعال و اعمال کے سانچے وضع کرتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس معاشرے کے شعروادب کی آبیاری کرتی ہیں۔اسے اپنے عہد کا ترجمان اور نمایندہ بناتی ہیں۔ ڈاکٹر آفتاب احمد فرماتے ہیں کہ غورکیا جائے تو جس چیز کو روح عصر کہا جاتا ہے۔
اس کا اندازہ کسی ایک عصر کے فکر وخیال، فلسفہ ودانش اور شعر وادب کے میلانات اوررجحانات ہی سے توکیا جاسکتا ہے۔ سیاسی ہنگامے، ملک گیری کی عسکری مہمات، تیغ وسناں کے کارنامے تاریخ کے صفحات کی زینت تو ضرور بنتے ہیں مگر معاشرے میں بقائے دوام کسی فلسفی کے افکار،کسی صوفی کی ملفوظات، کسی شاعر کے کلام ہی کو نصیب ہوتی ہے کیونکہ یہ ورثہ قوم کے اجتماعی شعورکا حصہ بن جاتا ہے۔
ڈاکٹر آفتاب احمد فرماتے ہیں ''میر کی تربیت انتہائی صوفیانہ ماحول میں ہوئی اور ان کی زندگی کے ابتدائی سال قلندروں اور درویشوں کی صحبت ہی میں گزرے۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ اس صحبت کے نتیجے میں میر خود بھی صوفی ہوگئے تھے، رہے تو وہ شاعر ہی مگر ان کے شعری مزاج کی تشکیل میں تصوف کا عمل دخل بہت رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں صوفیانہ تصورات کا عکس صاف نظر آتا ہے۔
گوش کو ہوش کے ٹک کھول کے سن شورِ جہاں
سب کی آواز کے پردے میں سخن ساز ہے ایک
غالب کا معاملہ میر سے مختلف تھا۔ وہ تصوف کی گود میں پل کر جوان نہیں ہوئے۔ ان کے آبا کا پیشہ تو سپہ گری تھا جو غالب نے اختیار نہیں کیا مگر ان کی تعلیم میں مروجہ علوم کے درس کے ساتھ تصوف سے آگاہی اور واقفیت شامل تھی۔ بیدل سے لگاؤکی بنا پر وہ بیدل کے صوفیانہ رجحان یعنی وحدت الوجود کے عقیدے سے بھی متاثر ہوئے۔ یہ شعر دیکھیے۔
دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
اقبال کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر آفتاب احمد فرماتے ہیں کہ اقبال بھی میرکی طرح تصوف کی گود میں پلے تھے۔ ان کے والد بھی صاحب دل صوفی تھے۔ ذاتی طور پر اقبال کو تمام عمر درویشوں، قلندروں اور صوفیانہ افکار و اشغال سے شغف رہا۔ شروع میں تو وہ وحدت الوجود کے قائل تھے لیکن بعد میں ان کے خیالات میں ایک انقلاب آیا اور انھوں نے اس غیر اسلامی اور عجمی فلسفے سے اپنی وابستگی ترک کردی اور اپنی شاعری کو ملت کی حیات نوکی خاطر عمل اور تگ ودوکا درس دینے کے لیے وقف کردیا۔
ڈاکٹر آفتاب احمد فرماتے ہیں کہ میر کی پوری شخصیت عشق میں منہمک نظر آتی ہے۔ وہ عشق کو زندگی کے مسائل سے بے نیاز ہوکر نہیں دیکھتے۔
مسائل اور تھے پر دل کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہوگیا ہے
غالب نے اپنے آپ کو عشق کے ہاتھوں مکمل طور پر تسخیر نہیں ہونے دیا۔ ان کو اپنی شخصیت پر ناز تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی عشقیہ شاعری میں نہ میرکا سا عجزونیاز ہے اور نہ سپردگی اور سرشاری کا وہ انداز۔
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
میری وحشت تری شہرت ہی سہی
اقبال تک پہنچتے پہنچتے اردو شاعری میں ایسا انقلاب آیا کہ انسانی عشق کی وہ تصویریں جو ہم نے میر اور غالب کے ہاں دیکھی ہیں، اقبال کے ہاں نظر نہیں آتیں اور اگر نظر آتی بھی ہیں تو بس سرسری طور پر۔ ڈاکٹر آفتاب احمد فرماتے ہیں کہ اقبال کا عشق ایک تخلیقی قوت ہے جو خودی کو استحکام بخشتی ہے۔ یہ عشق پیہم اعلیٰ مقاصد کی تخلیق کرتا ہے اور ان کا جُویا رہتا ہے۔ یہ طلب و آرزو کا ایک عمل مسلسل ہے، گویا یہ ایک خلاق اور فعال قوت ہے۔
کبھی تنہائی کوہ ودمن عشق
کبھی سوز و سرورِ انجمن عشق
ڈاکٹر آفتاب احمد لکھتے ہیں ''وہ عشق جس کا ذکر میر، غالب اور اقبال کے سلسلے میں ہو اپنے تمام اختلافات کے باوجود انسان کے بنیادی جذبوں میں سے ہے۔ غم بھی انسان کا ایک بنیادی جذبہ ہے۔ چنانچہ غمِ عشق کا واسطہ انسانوں کے عشقیہ تعلقات سے ہے اور غم روزگار کا واسطہ انسان کے ان دکھوں سے جو اسے اس دنیا میں دوسرے انسانوں کے ساتھ زندگی گزارنے کے دوران پیش آتے ہیں۔
ایک تیسری قسم کا غم وہ ہے جسے غمِ وجود کہا جاسکتا ہے۔ اس کا تعلق اس زمین و آسمان کے درمیان انسان کی ہستی سے ہے۔ یہ غم دو بنیادی حقیقتوں پر مبنی ہے۔ ایک یہ کہ انسان اپنی تمام صلاحیتوں اور کامرانیوں کے باوجود حیات و کائنات کی بے پناہ قوتوں میں ایک کمزور حیثیت رکھتا ہے اور دوسری یہ کہ اس دنیا میں ہر چیز کا آخری انجام بہرحال فنا ہے۔''