مہرنامہ کتابی سلسلہ
’مہرنامہ‘‘ ایسی ہی ایک کوشش ہے، جو بلوچستانی ادب کے پیش کار کے طور پر اپنے سفر کا آغاز کر رہا ہے۔
کیا بلوچستان کا ادب، روح ادب کے حقیقی معیار اور جوہر سے آشنا ہے؟ معاصریت کے تقاضے پورے کرتا ہے؟ اشاعتی جواز رکھتا ہے؟ یہی وہ سوالات ہیں، جو زیرتبصرہ جریدے کے مدیر، دانیال طریر کے مطابق بلوچستان کے ادب کے ترجمان ادبی مجلے کا تقاضا کرتے ہیں۔کتابوں سے دُوری کے اِس دور میں، جب ادب گھاٹے کا سودا تصور کیا جانے لگا ہے، کسی ادبی جریدے کا اجرا قابل ستائش عمل ہے۔ ''مہرنامہ'' ایسی ہی ایک کوشش ہے، جو بلوچستانی ادب کے پیش کار کے طور پر اپنے سفر کا آغاز کر رہا ہے۔
شمارے کی، سلسلوں کے نقطۂ نگاہ سے تقسیم قابل توجہ ہے۔ ہر سلسلے کے آغاز میں ادارتی نوٹ موجود ہے، جس سے اغراض و مقاصد کی وضاحت ہوتی ہے۔ ابتدائی حصے میں موجود مضمون ''میرا تخلیقی عمل'' بلوچی کے نام وَر ادیب، اے آر داد کے قلم سے نکلا ہے، جو اُن کے تخلیقی عمل سے متعلق ہے۔ ''گوشۂ خاص'' بلوچستان کی نمایندہ شاعرہ، سائرہ خان کی بابت ہے۔ سلسلے ''مباحث'' میں منیر بادینی سے متعلق ڈاکٹر شاہ محمد مری کا مضمون موجود ہے۔ عابد میر نے ''بلوچستانی شاعرات کا المیہ'' کے عنوان سے مضمون سُپرد قلم کیا ہے۔
جریدے کی اہم ترین خاصیت اِس میں شامل سلسلہ ''دریچہ'' ہے، جو بلوچستان کی علاقائی زبانوں میں تخلیق ہونے والے ادب کے اردو تراجم پر مشتمل ہیں۔ ''بلوچی دریچہ'' غنی پرواز کے افسانوں اور قاضی مبارک کی شاعری کا عکس پیش کرتا ہے۔ ''پشتو دریچہ'' میں پائیدین گران اچکزئی کے افسانوں اور محمد ایاز کی شاعری کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ''براہوی دریچہ'' غم خوار حیات کے تین افسانوں اور افضل مراد کی نظموں پر مشتمل ہے۔ ''ہزارگی دریچہ'' میں منظور پویا کے فکشن اور قادر نائل کی نظموں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ''اردو دریچہ'' فیصل ندیم کے افسانوں، جب کہ محسن چنگیزی، صورت سمیع، ظہیر ظرف اور عمران ثاقب کی شاعری پر مشتمل ہے۔
سلسلے ''دیار غیر'' میں شیخ ایاز کی بابت اسحاق سمیجو کا مضمون شامل ہے۔ آخری حصہ بلوچستان میں شایع ہونے والی کتابوں پر مشتمل ہے۔
مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ''مہرنامہ'' بلوچستانی ادب کا حقیقی چہرہ پیش کرنے، اُسے پاکستان کے مرکزی ادبی دھارے سے جوڑنے کی مثبت کوشش ہے۔ جس طرز پر بلوچستان میں بولی جانے والی زبانوں میں تخلیق ہونے والے ادب کو اردو کے قالب میں ڈھالا گیا ہے، اور جس ڈھنگ سے پیش کیا گیا ہے، وہ قابل ستائش ہے۔ اپنے متعین کردہ مقاصد کے حصول کے لیے اِس پرچے کی بیرون بلوچستان ترسیل و دست یابی ازحد ضروری ہے۔ دیگر صوبوں میں بسنے والے تخلیق کاروں کی نگارشات کے اشاعتی امکانات وسیع کرنے سے بھی مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔
شمارے کی، سلسلوں کے نقطۂ نگاہ سے تقسیم قابل توجہ ہے۔ ہر سلسلے کے آغاز میں ادارتی نوٹ موجود ہے، جس سے اغراض و مقاصد کی وضاحت ہوتی ہے۔ ابتدائی حصے میں موجود مضمون ''میرا تخلیقی عمل'' بلوچی کے نام وَر ادیب، اے آر داد کے قلم سے نکلا ہے، جو اُن کے تخلیقی عمل سے متعلق ہے۔ ''گوشۂ خاص'' بلوچستان کی نمایندہ شاعرہ، سائرہ خان کی بابت ہے۔ سلسلے ''مباحث'' میں منیر بادینی سے متعلق ڈاکٹر شاہ محمد مری کا مضمون موجود ہے۔ عابد میر نے ''بلوچستانی شاعرات کا المیہ'' کے عنوان سے مضمون سُپرد قلم کیا ہے۔
جریدے کی اہم ترین خاصیت اِس میں شامل سلسلہ ''دریچہ'' ہے، جو بلوچستان کی علاقائی زبانوں میں تخلیق ہونے والے ادب کے اردو تراجم پر مشتمل ہیں۔ ''بلوچی دریچہ'' غنی پرواز کے افسانوں اور قاضی مبارک کی شاعری کا عکس پیش کرتا ہے۔ ''پشتو دریچہ'' میں پائیدین گران اچکزئی کے افسانوں اور محمد ایاز کی شاعری کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ''براہوی دریچہ'' غم خوار حیات کے تین افسانوں اور افضل مراد کی نظموں پر مشتمل ہے۔ ''ہزارگی دریچہ'' میں منظور پویا کے فکشن اور قادر نائل کی نظموں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ''اردو دریچہ'' فیصل ندیم کے افسانوں، جب کہ محسن چنگیزی، صورت سمیع، ظہیر ظرف اور عمران ثاقب کی شاعری پر مشتمل ہے۔
سلسلے ''دیار غیر'' میں شیخ ایاز کی بابت اسحاق سمیجو کا مضمون شامل ہے۔ آخری حصہ بلوچستان میں شایع ہونے والی کتابوں پر مشتمل ہے۔
مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ''مہرنامہ'' بلوچستانی ادب کا حقیقی چہرہ پیش کرنے، اُسے پاکستان کے مرکزی ادبی دھارے سے جوڑنے کی مثبت کوشش ہے۔ جس طرز پر بلوچستان میں بولی جانے والی زبانوں میں تخلیق ہونے والے ادب کو اردو کے قالب میں ڈھالا گیا ہے، اور جس ڈھنگ سے پیش کیا گیا ہے، وہ قابل ستائش ہے۔ اپنے متعین کردہ مقاصد کے حصول کے لیے اِس پرچے کی بیرون بلوچستان ترسیل و دست یابی ازحد ضروری ہے۔ دیگر صوبوں میں بسنے والے تخلیق کاروں کی نگارشات کے اشاعتی امکانات وسیع کرنے سے بھی مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔