ناگہاں

’’ناگہاں‘‘ خالد معین کا تیسرا شعری مجموعہ ہے

ناگہاں۔ فوٹو: فائل

اگر محض الفاظ کو اوزان اور قافیہ وردیف کے خانوں میں بٹھالینے یا ٹھونس دینے کا نام شاعری ہے، تو بے شک ہم شعر اور شعراء کی فروانی کے عہد میں سانس لے رہے ہیں، مگر ادبی صفحات کی سیاہی اور مشاعروں کا شور بڑھاتے اشعار میں سے بیش تر نہ ذہنوں میں محفوظ رہ پاتے ہیں اور نہ انھیں زبان زدعام ہونے کی سند ملتی ہے، کہ حقیقی شاعری تحیر، بے ساختگی، اچھوتے پن اور نزاکت احساس وخیال کے آمیزے سے وجود میں آتی ہے اور ہمارے عہد میں وجود پاتا بیش تر شعری ''سرمایہ'' خیالات کی جُگالی اور دماغی ورزش ہے۔ اس صورت حال میں جن شعراء کا کلام مستقبل کے لیے عصر حاضر کی پہچان قرار پانے کی سکت اور صلاحیت رکھتا ہے ان میں خالد معین بھی شامل ہیں۔

''ناگہاں'' خالد معین کا تیسرا شعری مجموعہ ہے۔ آج جب کئی سینیر اور جونییر شعرا مجموعوں کی قطار لگاچکے ہیں، خالد معین جیسے معتبر شاعر کے صرف تیسرے مجموعے کی اشاعت باعث حیرت نہیں، کہ وہ شعر ''اُگلتے'' نہیں کہتے ہیں، اور ان کا تقریباً ہر سخن پارہ بتاتا ہے کہ وہ اس خیال، اس احساس میں ایک مدت جیے ہیں، تو جا کے شعر کی صورت بنی ہے۔ ان کے ہاں الفاظ خیال کی تصویر نہیں بناتے، بل کہ تجربات اور مشاہدات اپنی تمام تر تلخی، شیفتگی، کرب اور لذت کے ساتھ دل میں اُترتے اور رفتہ رفتہ لفظوں میں ڈھلتے ہیں۔


ان کے کلام میں داخلی وخارجی تجربے کی لکیر کھنینچنا بہت بہت مشکل ہے، کہ وہ بڑی مہارت سے غم دوراں وغم جاناں کو مدغم کرکے نشہ بڑھاتے ہیں۔ اس کتاب میں ''گھٹن اگلتی دیواروں کے بیچ'' کے زیرعنوان شامل ممتاز شاعرو ادیب اور سینیرصحافی احفاظ الرحمٰن کا مضمون خالد معین کے فن کی تفہمیم بڑی عمدگی سے کراتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں،''خالد معین داخلی اور خارجی دنیا کی حکایتیں بیان کرنے کے لیے ایسے اچھوتے پیکر تراشتے ہیں، اپنے تازہ تر استعاروں، تلازموں، اجنبی اور انوکھی ردیفوں اور تراکیب میں حیرانی کے کچھ ایسے جمالیاتی رنگ بھرتے ہیں کہ پڑھنے اور سننے والے سرشاری کی کیفیت میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔''

اس کتاب کا دیدہ زیب اور معنی خیز سرورق ڈیزائنر امجد انیل کی تخلیق ہے۔ ''ناگہاں'' اپنے پڑھنے والوں کو الفاظ کے نئے زاویوں اور احساس وخیال کے اچھوتے پہلوؤں سے متعارف کرانے کے ساتھ سرشاری کی کیفیت میں ڈبونے دینے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔
Load Next Story