جہاں گشت
میں نے سوچا ایسے کام نہیں چلے گا، کچھ تو کرنا ہی پڑے گا تو میں نے اپنے تئیں ذہانت کا مظاہرہ کرنے کی ٹھانی۔
قسط نمبر60
جب وہ دیہاتی قریب پہنچا تو فقیر نے اسے سلام کے بعد راستے کا معلوم کیا، وہ مجھے دیکھ کر پہلے تو حیران ہوا، مُسکرایا اور پھر اشاروں سے مجھے بتایا کہ وہ بول سُن نہیں سکتا۔ میں نے اسے اشاروں سے سمجھانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا، تھوڑی دیر تو ہم دونوں خاموش کھڑے رہے پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور دوسری سمت چلنے لگا، کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ایک مال بردار گاڑی نظر آئی، اس نے اسے ہاتھ کے اشارے سے رکنے کا کہا، گاڑی ہمارے قریب آکر رک گئی۔
اس میں دو لوگ سوار تھے، ڈرائیور اسے دیکھتے ہی باہر نکلا اور بہت احترام سے اس سے اشاروں سے بات کرنے لگا، اس نے میری جانب اشارہ کیا تو وہ مجھ سے مخاطب ہوا: بیٹا کیا ہوا، کہاں جاؤ گے تم! میں نے اسے بتایا کہ مجھے ٹیکسلا جانا ہے تو اس نے مجھے تسلی دی کہ ہم بھی وہیں جارہے ہیں، اس دیہاتی نے اسے اشاروں میں کچھ سمجھایا تو ڈرائیور نے بھی اسے مطمئن کیا اور ہم روانہ ہوگئے۔
راستے میں ڈرائیور نے پوچھا: ٹیکسلا ہی جانا ہے تمہیں یا وہاں سے کہیں اور جاؤگے۔ نہیں جی مجھے ٹیکسلا جانا ہے، اس نے پھر کوئی بات نہیں کی۔ صبح کا وقت تھا اور گاڑیاں بھی کم تھیں، وہ دونوں آپس میں باتیں کرنے میں مگن تھے اور میں آس پاس کے منظر میں کھوئے رہنے کے ساتھ آگے پیش آنے والے واقعات کا سوچنے لگا اور پھر ٹیکسلا آگیا۔ ڈرائیور نے مجھے اسٹاپ پر اتارتے ہوئے پوچھا تھا: کچھ پیسے چاہییں تو بتاؤ، میں نے انکار کرتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا اور اپنے کارخانے کی سمت روانہ ہوا۔
دُور سے ہی مجھے بابا کی سائیکل نظر آگئی تھی، اور پھر میں بابا کے رُو بہ رُو تھا۔ میں نے بابا کو سلام کیا، میں احمق تو یہ سمجھا تھا کہ بابا مجھے دیکھتے ہی دوڑتے ہوئے آئیں گے اور میری خیریت پوچھنے کے بعد مجھے داد بھی دیں گے لیکن حیرت ہوئی کہ انہوں نے مجھے گُھورتے ہوئے سلام کا جواب دیا۔
میں نے ان سے پوچھا: حنیف بھائی کہاں ہیں؟ تو انہوں نے بہت تلخ لہجے میں کہا: یہ تو تم مجھے بتاؤ کہ حنیف کہاں ہے؟ میں نے ابھی زبان کھولی ہی تھی کہ ان کی غضب ناک آواز سنائی دی: اب مجھے رات کی تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں ہے، تمہاری آنکھیں کان اب تک نہیں کُھلے، کل جب تم روانہ ہورہے تھے تو کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ سائیکل آہستہ چلانا اور درست راستے کا انتخاب کرنا۔ میں نے وضاحت کرنا چاہی کہ وہ تو آپ نے حنیف کو کہا تھا تو وہ اور بھی غضب ناک ہوئے: خاموش رہو، اپنی صفائی مت پیش کرو، جب وہ تیز رفتاری سے غلط راستے پر نکل رہا تھا تو تم نے اسے کیوں نہیں روکا، اور اگر وہ رک نہیں رہا تھا تو تم اس کی سائیکل سے اتر کیوں نہیں گئے تھے۔
تم اگر اتر جاتے تو وہ تمہیں چھوڑ کر ہرگز نہیں جاتا اور اگر پھر غلط جگہ پہنچ ہی گئے تھے تو اس نے تمہیں یہی کہا تھا ناں کہ اب جیسا تم کہو گے میں ویسا ہی کروں گا، تو تم نے اس وقت وہ طریقہ اختیار کیوں نہیں کیا جو بتایا گیا ہے اور صبح تم نے اسی طریقے پر عمل کیا اور اب تم یہاں ہو، تو رات کو اس پر عمل کیوں نہیں کیا؟ عمل تو چھوڑو تم حنیف کو تنہا چھوڑ کر اس اجنبی کے پیچھے دوڑتے رہے، پھر اگر تم سے یہ حماقت ہو ہی گئی تھی تو تم نے رجوع کیوں نہیں کیا، حنیف کو اس کے حال پر چھوڑ کر تم وہیں قیام کرگئے، جب کہ میں تمہیں بتا چکا تھا کہ وہ ابھی اپنے ہوش و حواس میں نہیں آیا، کسی وقت بھی وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔
اسے سنبھالنا پڑتا ہے بالکل معصوم بچوں کی طرح۔ اس کا خیال رکھنا تمہاری ذمے داری ہے اور تم نے میری نصیحت پر یہ عمل کیا، حماقت درحماقت کی تم نے، اب جاؤ تلاش کرو اسے۔ میں واپس جانے کے لیے مڑا تو ان کی ڈانٹ نے میرے قدم وہیں جما دیے: اب بیٹھ جاؤ یہیں، خود کو تو تلاش کر نہیں سکے اور اسے تلاش کرنے جارہے ہو۔
میں مجسم ندامت سر جھکائے کھڑا خود کو کوس رہا تھا، مجھے ایسا ہی کرنا چاہیے تھا جیسے بابا فرما رہے تھے اور بہ جائے پریشان ہونے کے اس کا حل نکالنا چاہیے تھا، لیکن ۔۔۔۔۔۔ اب تو میں یہ غلطی کر ہی بیٹھا تھا، درست کہہ رہے تھے بابا، انہوں نے تو مجھے دُور بیٹھنے کا کہا تھا لیکن میں دھوپ میں آکر بیٹھ گیا۔
میری آنکھیں اشکوں سے بھری ہوئی تھیں لیکن میں نے انہیں برسنے سے روکے رکھا اور بس سوچتا چلا گیا، مجھے خود پر افسوس نہیں شدید غصہ آرہا تھا کہ میں وقت پر کیوں نہیں درست فیصلہ کرتا، اور سنیے وہ تو میں اب بھی نہیں کرتا غبی جو ٹھہرا۔ دانش مندوں نے کیا کمال کی بات کی ہے ناں کہ دانا کرنے اور بولنے سے پہلے سوچتا ہے اور ہزار بار سوچتا ہے اور مجھ جیسا غبی، احمق اور نادان کرنے اور بولنے کے بعد سوچتا اور پھر اس پر پچھتاتا ہے، لیکن پھر تو وقت بدل جاتا ہے اور سمے کا کیا ہے وہ تو کسی کے روکے نہیں رک سکتا، کبھی نہیں، سمے کو تو بس اس کا خالق ہی روک سکتا ہے ناں جی جیسے اس نے معراج میں روک لیا تھا۔
ہمارے ایک بابا جی اکثر فرمایا کرتے تھے: ''گَل ویلے دی تے پھل موسم دا'' بات بروقت اور پھل موسم کے ہی اچھے ہوتے ہیں۔ بابا نے مجھے بالکل ہی نظر انداز کردیا تھا، انہوں نے تو مجھ سے ناشتے کا بھی نہیں پوچھا تھا، ناشتے کا کیا ذکر پانی کا بھی نہیں۔ مجھ جیسے نادان سمجھتے ہیں کہ مار پیٹ ہی سزا ہوتی ہے۔
اب مار پیٹ سے دیکھیے کیا یاد آگیا۔ فقیر اس وقت جماعت چہارم میں تھا اور ہمارے استاد گرامی قدر تھے ذوالفقار احمد، کیا شان دار نام نامی ہے ناں یہ، انتہائی دانا، بینا، زیرک، مخلص و بااخلاق و باکردار ذوالفقار احمد۔ دکھائی تو انتہائی فولاد دکھائی دیتے تھے لیکن اندر سے بالکل ریشم کی طرح نرم، ہمیشہ کہا کرتے تھے کچھ سمجھ میں نہ آئے تو کوئی بات نہیں، لاکھ مرتبہ پوچھو میں لاکھ مرتبہ تمہیں سمجھاؤں گا، اور وہ کرتے بھی تھے ایسا۔ ایک دن انہوں نے ہمیں گھڑی میں وقت جاننے کا طریقہ سمجھانا شروع کیا، مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے وہ دن، لکڑی سے بنی ہوئی ایک گھڑی لے کر وہ کھڑے تھے۔
پھر انہوں نے ہمیں بتایا کہ دیکھو یہ چھوٹی سوئی گھنٹوں کو ظاہر کرتی ہے اور یہ بڑی والی منٹوں کو، ایک منٹ میں ساٹھ سیکنڈ اور ایک گھنٹے میں ساٹھ منٹ ہوتے ہیں، اور یہ جو درمیان میں نشانات ہیں یہ پانچ منٹ کو ظاہر کرتے ہیں تو اگر گھنٹے کی سوئی کسی ہندسے پر ہو تو اسے ذہن میں رکھتے ہوئے اور منٹ والی سوئی کسی نشان پر ہو تو ان نشانات کو گن کر اسے پانچ سے ضرب دیں تو صحیح وقت سمجھ اور بتا سکیں گے۔
انہوں نے کئی مرتبہ ہمیں سمجھایا، میرے ہم جماعت سب تو ذہین تھے، سمجھ گئے اور میں الجھ گیا، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا، پھر انہوں نے صرف مجھ پر توجہ مرکوز کی اور ایسی کی کہ واہ، ان کا پریڈ ختم ہوگیا تھا اور احسان صاحب تاریخ کا سبق پڑھانے آپہنچے تھے لیکن ذوالفقار صاحب نے ان سے وہ پریڈ بھی خود لے لیا تھا اور مجھے سمجھانے میں جتے ہوئے تھے، لیکن اس دن میں نہ جانے کہاں کھویا ہوا تھا، کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، اور پھر ایسا ہوا کہ آدھی چھٹی کا وقت ہونے والا تھا اور وہ صرف مجھے سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔
میں نے سوچا ایسے کام نہیں چلے گا، کچھ تو کرنا ہی پڑے گا تو میں نے اپنے تئیں ذہانت کا مظاہرہ کرنے کی ٹھانی، میں نے سوچا تھوڑی دیر دیر آدھی چھٹی ہوجائے گی اور ذوالفقار صاحب چلے جائیں گے تو میں اس پر خود غور کروں گا تو میں نے ان سے کہہ دیا جی سر مجھے سمجھ میں آگیا ہے۔
انہوں نے مجھے غور سے دیکھا اور کہا: سچ بتاؤ کیا تم واقعی سمجھ گئے ہو ؟ تو میں نے پورے اعتماد سے کہا: جی سر! لیکن جناب وہ استاد ہی کیا جو اپنے شاگرد کو اندر تک نہ جانے، نہیں وہ استاد ہی نہیں ہوتا، انہوں نے گھڑی کی سوئیاں مختلف سمت میں گھمائیں اور پھر مجھ سے پوچھا: بتاؤ کیا وقت ہوا ہے؟ ظاہر ہے مجھے تو کچھ سمجھ میں نہیں آیا تھا، میں تو ان سے جان چُھڑانے کے لیے جھوٹ بول رہا تھا، میں نے غلط بتایا، انہوں نے تین مرتبہ ایسا کیا اور میں ہر مرتبہ غلط تھا۔ پھر کیا تھا، ان کہ غضب ناک آواز گونجی: اچھا تو تم مجھے گم راہ کر رہے تھے، تم جُھوٹ بول رہے تھے کہ تم سمجھ گئے ہو، تم نے ایسا کیوں کیا اور پھر ان کا زوردار تھپڑ میرے گال پر نازل ہوا، اور ایسا نازل ہوا کہ فقیر کے واقعی چودہ طبق ایک دم روشن ہوگئے اور پھر ایسا ہوا کہ مجھے سب کچھ سمجھ میں آگیا تھا۔ انہوں نے کئی مرتبہ مجھ سے سوئیاں گھما کر پوچھا اور میں نے درست بتایا، اور پھر وہ ہاں اب تم سمجھ گئے ہو، کہتے ہوئے کلاس سے باہر چلے گئے تھے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی میری آنکھوں میں سیلاب آگیا اور ایسا کہ مت پوچھیے، میری ہچکیاں بندھی ہوئی تھیں، میرے ہم جماعت آزردہ تھے،وہ میری دل جوئی میں لگے ہوئے تھے اور پھر کسی نے ہمارے پرنسپل وحیدالرحمٰن صاحب کو اس واقعے سے آگاہ کردیا، وہ ہماری کلاس میں آئے اور مجھے دلاسا دیا لیکن میں سنبھل ہی نہیں رہا تھا، اسکول میں ایک ڈاکٹر صاحب بھی فوری طبی امداد کے لیے موجود ہوتے تھے، مجھے ان کے کلینک لے جایا گیا، میں بخار میں تپ رہا تھا، گھر والوں کو اطلاع دی گئی تو ابّا جی تشریف لے آئے اور پورا واقعہ سننے کے بعد ذوالفقار صاحب کو انہوں نے کہا: آپ نے بالکل صحیح کیا، میں آپ کا مشکور ہوں۔ اس واقعے کے بعد ایک ہفتے تک مجھے اسپتال میں رہنا پڑا تب کہیں جاکر میں سنبھلا تھا۔ مجھے وہ دن بھی بہت اچھی طرح یاد ہے جب صبح اسمبلی میں ذوالفقار صاحب نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر سب کو مخاطب کیا: '' سب غور سے میری بات سنیے، میرا یہ شاگرد ایسا شاگرد ہے جس سے میں بہت کچھ سیکھا ہے۔
یہ میرا شاگرد ہی نہیں اس اسکول کا فخر ہے، سب اساتذہ اس کے گواہ ہیں کہ جو سوال کبھی اُن کے ذہن میں پیدا ہی نہیں ہوا اس نے وہ سوال اُن کے سامنے لاکھڑا کیا، انسان غلطی کرتا ہے لیکن اس سے سیکھنا چاہیے، اس دن مجھ سے بھی غلطی ہوئی مجھے اسے وقت دینا چاہیے تھا۔'' اس طرح کی کئی باتیں، ظاہر ہے وہ جیسا کہہ رہے تھے میں ایسا ہوں ہی نہیں لیکن انہوں نے میری دل جوئی کی خاطر ایسا کہا۔ فقیر اعتراف کرتا ہے اور برملا کہ مجھ میں سوال کرنے اور جب تک پوری طرح سے سمجھ میں نہ آجائے، انکار کردینے کی جرأت ذوالفقار احمد صاحب کی دین ہے، رب تعالی بہشت میں ان کے درجات کو بلند کرتا چلا جائے۔
ہاں تو ہم مار پیٹ پر بات کر رہے تھے لیکن سُنو سجنو! یہ مار پیٹ تو بس ویسے ہی ہے، یہ کیا سزا ہوئی بھلا، ہاں اسے سزا کہہ سکتے ہیں بس لیکن اصل سزا تو نظر انداز کر دینا ہے، انتہائی کرب ناک، بَلا کی تکلیف دہ سزا ہوتی ہے نظر انداز کردینا، آپ ککھ بھی نہیں رہتے، بالکل کُوڑا ہوجاتے ہیں، کچھ نہیں رہتا آپ کے پاس، آپ کا وجود ہی اپنا جواز کھو بیٹھتا ہے، اور جب آپ کا وجود ہی نہ رہے تو باقی کیا رہ جاتا ہے، ہاں یہ بالکل یک سر الگ بات ہے کہ رب کرم کردے اور آپ اس منزل پر پہنچ جائیں کہ جہاں آپ کا ظاہری وجود ہی فنا ہوجائے اور رہ جائے بس اﷲ ہی اﷲ۔
بابا نے بھی مجھے بس نظر انداز کردیا تھا اور میں دھوپ میں بیٹھا خود کو کوس رہا تھا، اس کے ساتھ ہی میں اندر سے سلگ رہا تھا گیلی لکڑی کی طرح جو جلتی نہیں صرف سلگتی اور دُھواں دیتی رہتی ہے، یا اس گیلے کاغذ کی طرح جس پر لکھا جاسکے اور نہ جلایا جاسکے، بس ایسا ہی۔ میں سوچ رہا تھا کہ بابا مجھے مار پیٹ لیتے لیکن نظر انداز تو نہ کرتے۔ لیکن ہر جرم کی ایک سزا ہوتی ہے ناں تو پھر وہ آخر اور کیا کرتے۔ دوپہر ہوچکی تھی میں خود کو کوسنے کے ساتھ حنیف بھائی کو سوچ رہا تھا کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہوں گے۔ پھر دُور سے حنیف بھائی اپنی سائیکل پر آتے نظر آئے، انہوں نے مجھے دیکھتے ہی اپنی سائیکل وہیں پھینکی اور میری جانب دوڑتے ہوئے آئے: تُم کہاں چلے گئے تھے میرے بھائی! تُو کہاں تھا، کب آیا ہے تُو اور یہ دھوپ میں کیوں بیٹھا ہوا ہے، بتا مجھے، وہ مجھے خود سے لپٹائے ہوئے بہت غصے میں تھے۔
مجھے خاموش اور روتا دیکھ کر وہ اچانک بابا کی جانب مڑے اور پھر تو قیامت ہی آگئی، کیا ہوا ہے اسے، بابا بولو کیا ہوا ہے، یہ کیوں دھوپ میں بیٹھا ہوا تھا، آپ نے اسے سزا دی ہے، کیوں دی ہے، کیا سمجھتے ہیں آپ خود کو۔ اور اس وقت تو میرے پیروں تلے زمین ہی نکل گئی جب اس نے بابا سے کہا: اتنے بڑے ہوگئے ہیں، بوڑھے ہوگئے ہیں، ذرا سی بھی عقل نہیں ہے آپ میں۔ اور میں مجسم حیرت بنا ہوا دیکھ رہا تھا کہ بابا اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے معاف کردو، معاف کردو کی گردان کر رہے تھے، پھر اس کی آواز گونجی: کب سدھریں گے آپ، حد سے باہر نکل گئے ہیں آپ تو، مجھے آپ کا اب کوئی علاج کرنا ہی ہوگا۔ بابا اسی طرح کھڑے تھے اور پھر اس نے جگ سے پانی لے کر میرا منہ دھلانا شروع کیا، میں ان سے کہے جارہا تھا کہ حنیف بھائی آپ بابا کو کچھ مت کہیں غلطی تو میں نے کی ہے لیکن وہ کوئی اور بات سننے کو تیار ہی نہ تھے اور بابا کو کوس رہے تھے۔
پھر میں سمجھ پایا کہ وہ واقعی اپنے حواس میں نہیں ہیں ورنہ بابا حضور کو کبھی بھی اس طرح کہنے کی جسارت نہ کرتے۔ ہماری دنیا میں تو ادب ہی بہشت ہے اور گستاخی جہنّم۔ بابا نے بس مجھ سے اتنا کہا تھا: دیکھا وہ اپنے حواس میں بھی نہیں لیکن تم سے بے خبر بھی نہیں ہے، اسے کہتے ہیں تعلق۔ ہاں بابا بالکل درست کہہ رہے تھے۔
پھر حنیف بھائی نے مجھے ناشتہ کرایا، میں نے ان سے رات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بس اتنا بتایا کہ میرے اوجھل ہونے کے بعد بابا اسے لینے آگئے تھے، اور انہوں نے میرے متعلق کہا تو بابا نے کہا تم فکر نہ کرو وہ بھی آجائے گا۔ عجب دنیا ہے یہ ناں۔ بابا نے حنیف بھائی کے ساتھ اپنے تعلق کو بیان کرتے ہوئے مجھے بتایا تھا کہ ایسا لگتا ہے جیسے میں نے ہی اسے جنم دیا ہے اور میں ہی اس کی ماں ہوں، اور بعد کے حالات و واقعات نے فقیر پر یہ منکشف کیا کہ بابا واقعی صادق تھے، وہ حنیف سے بے حد پیار کرتے تھے، بالکل ایک ماں کی طرح، حنیف ضد کرتا تو وہ موم کی طرح پگھل جاتے تھے، وہ غصہ کرتا تو اسے مناتے تھے، کبھی تو وہ انتہائی گستاخ ہوجاتے اور بابا ان کے سامنے سر جھکائے کھڑے رہتے، عجیب تعلق تھا بابا اور حنیف میں، بابا اس کے سامنے بچھے رہتے اور کبھی آزردہ نہ ہوتے،
اسی کو کہتے ہیں شاید تعلقِ خاطر
سفر میں تم ہو، بدن چُور چُور میرا ہے
کیا بات کریں اس تعلق پر لیکن کریں گے، رب تعالٰی کی توفیقات شامل حال رہیں تو چلیے اب رخصت! آپ یہ دیکھیے ذرا!
یہ درد تُونے دیا ہے تو کوئی بات نہیں
یہی وفا کا صلہ ہے تو کوئی بات نہیں
کسے مجال کہ کوئی کہے دیوانہ مجھے
یہ اگر تُونے کہا ہے تو کوئی بات نہیں
یہی بہت ہے کہ تم دیکھتے ہو ساحل سے
سفینہ ڈوب رہا ہے تو کوئی بات نہیں
یہی تو فکر ہے تم ساتھ نہ چھوڑ چلو
جہاں نے چھوڑ دیا ہے تو کوئی بات نہیں
جب وہ دیہاتی قریب پہنچا تو فقیر نے اسے سلام کے بعد راستے کا معلوم کیا، وہ مجھے دیکھ کر پہلے تو حیران ہوا، مُسکرایا اور پھر اشاروں سے مجھے بتایا کہ وہ بول سُن نہیں سکتا۔ میں نے اسے اشاروں سے سمجھانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا، تھوڑی دیر تو ہم دونوں خاموش کھڑے رہے پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور دوسری سمت چلنے لگا، کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ایک مال بردار گاڑی نظر آئی، اس نے اسے ہاتھ کے اشارے سے رکنے کا کہا، گاڑی ہمارے قریب آکر رک گئی۔
اس میں دو لوگ سوار تھے، ڈرائیور اسے دیکھتے ہی باہر نکلا اور بہت احترام سے اس سے اشاروں سے بات کرنے لگا، اس نے میری جانب اشارہ کیا تو وہ مجھ سے مخاطب ہوا: بیٹا کیا ہوا، کہاں جاؤ گے تم! میں نے اسے بتایا کہ مجھے ٹیکسلا جانا ہے تو اس نے مجھے تسلی دی کہ ہم بھی وہیں جارہے ہیں، اس دیہاتی نے اسے اشاروں میں کچھ سمجھایا تو ڈرائیور نے بھی اسے مطمئن کیا اور ہم روانہ ہوگئے۔
راستے میں ڈرائیور نے پوچھا: ٹیکسلا ہی جانا ہے تمہیں یا وہاں سے کہیں اور جاؤگے۔ نہیں جی مجھے ٹیکسلا جانا ہے، اس نے پھر کوئی بات نہیں کی۔ صبح کا وقت تھا اور گاڑیاں بھی کم تھیں، وہ دونوں آپس میں باتیں کرنے میں مگن تھے اور میں آس پاس کے منظر میں کھوئے رہنے کے ساتھ آگے پیش آنے والے واقعات کا سوچنے لگا اور پھر ٹیکسلا آگیا۔ ڈرائیور نے مجھے اسٹاپ پر اتارتے ہوئے پوچھا تھا: کچھ پیسے چاہییں تو بتاؤ، میں نے انکار کرتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا اور اپنے کارخانے کی سمت روانہ ہوا۔
دُور سے ہی مجھے بابا کی سائیکل نظر آگئی تھی، اور پھر میں بابا کے رُو بہ رُو تھا۔ میں نے بابا کو سلام کیا، میں احمق تو یہ سمجھا تھا کہ بابا مجھے دیکھتے ہی دوڑتے ہوئے آئیں گے اور میری خیریت پوچھنے کے بعد مجھے داد بھی دیں گے لیکن حیرت ہوئی کہ انہوں نے مجھے گُھورتے ہوئے سلام کا جواب دیا۔
میں نے ان سے پوچھا: حنیف بھائی کہاں ہیں؟ تو انہوں نے بہت تلخ لہجے میں کہا: یہ تو تم مجھے بتاؤ کہ حنیف کہاں ہے؟ میں نے ابھی زبان کھولی ہی تھی کہ ان کی غضب ناک آواز سنائی دی: اب مجھے رات کی تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں ہے، تمہاری آنکھیں کان اب تک نہیں کُھلے، کل جب تم روانہ ہورہے تھے تو کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ سائیکل آہستہ چلانا اور درست راستے کا انتخاب کرنا۔ میں نے وضاحت کرنا چاہی کہ وہ تو آپ نے حنیف کو کہا تھا تو وہ اور بھی غضب ناک ہوئے: خاموش رہو، اپنی صفائی مت پیش کرو، جب وہ تیز رفتاری سے غلط راستے پر نکل رہا تھا تو تم نے اسے کیوں نہیں روکا، اور اگر وہ رک نہیں رہا تھا تو تم اس کی سائیکل سے اتر کیوں نہیں گئے تھے۔
تم اگر اتر جاتے تو وہ تمہیں چھوڑ کر ہرگز نہیں جاتا اور اگر پھر غلط جگہ پہنچ ہی گئے تھے تو اس نے تمہیں یہی کہا تھا ناں کہ اب جیسا تم کہو گے میں ویسا ہی کروں گا، تو تم نے اس وقت وہ طریقہ اختیار کیوں نہیں کیا جو بتایا گیا ہے اور صبح تم نے اسی طریقے پر عمل کیا اور اب تم یہاں ہو، تو رات کو اس پر عمل کیوں نہیں کیا؟ عمل تو چھوڑو تم حنیف کو تنہا چھوڑ کر اس اجنبی کے پیچھے دوڑتے رہے، پھر اگر تم سے یہ حماقت ہو ہی گئی تھی تو تم نے رجوع کیوں نہیں کیا، حنیف کو اس کے حال پر چھوڑ کر تم وہیں قیام کرگئے، جب کہ میں تمہیں بتا چکا تھا کہ وہ ابھی اپنے ہوش و حواس میں نہیں آیا، کسی وقت بھی وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔
اسے سنبھالنا پڑتا ہے بالکل معصوم بچوں کی طرح۔ اس کا خیال رکھنا تمہاری ذمے داری ہے اور تم نے میری نصیحت پر یہ عمل کیا، حماقت درحماقت کی تم نے، اب جاؤ تلاش کرو اسے۔ میں واپس جانے کے لیے مڑا تو ان کی ڈانٹ نے میرے قدم وہیں جما دیے: اب بیٹھ جاؤ یہیں، خود کو تو تلاش کر نہیں سکے اور اسے تلاش کرنے جارہے ہو۔
میں مجسم ندامت سر جھکائے کھڑا خود کو کوس رہا تھا، مجھے ایسا ہی کرنا چاہیے تھا جیسے بابا فرما رہے تھے اور بہ جائے پریشان ہونے کے اس کا حل نکالنا چاہیے تھا، لیکن ۔۔۔۔۔۔ اب تو میں یہ غلطی کر ہی بیٹھا تھا، درست کہہ رہے تھے بابا، انہوں نے تو مجھے دُور بیٹھنے کا کہا تھا لیکن میں دھوپ میں آکر بیٹھ گیا۔
میری آنکھیں اشکوں سے بھری ہوئی تھیں لیکن میں نے انہیں برسنے سے روکے رکھا اور بس سوچتا چلا گیا، مجھے خود پر افسوس نہیں شدید غصہ آرہا تھا کہ میں وقت پر کیوں نہیں درست فیصلہ کرتا، اور سنیے وہ تو میں اب بھی نہیں کرتا غبی جو ٹھہرا۔ دانش مندوں نے کیا کمال کی بات کی ہے ناں کہ دانا کرنے اور بولنے سے پہلے سوچتا ہے اور ہزار بار سوچتا ہے اور مجھ جیسا غبی، احمق اور نادان کرنے اور بولنے کے بعد سوچتا اور پھر اس پر پچھتاتا ہے، لیکن پھر تو وقت بدل جاتا ہے اور سمے کا کیا ہے وہ تو کسی کے روکے نہیں رک سکتا، کبھی نہیں، سمے کو تو بس اس کا خالق ہی روک سکتا ہے ناں جی جیسے اس نے معراج میں روک لیا تھا۔
ہمارے ایک بابا جی اکثر فرمایا کرتے تھے: ''گَل ویلے دی تے پھل موسم دا'' بات بروقت اور پھل موسم کے ہی اچھے ہوتے ہیں۔ بابا نے مجھے بالکل ہی نظر انداز کردیا تھا، انہوں نے تو مجھ سے ناشتے کا بھی نہیں پوچھا تھا، ناشتے کا کیا ذکر پانی کا بھی نہیں۔ مجھ جیسے نادان سمجھتے ہیں کہ مار پیٹ ہی سزا ہوتی ہے۔
اب مار پیٹ سے دیکھیے کیا یاد آگیا۔ فقیر اس وقت جماعت چہارم میں تھا اور ہمارے استاد گرامی قدر تھے ذوالفقار احمد، کیا شان دار نام نامی ہے ناں یہ، انتہائی دانا، بینا، زیرک، مخلص و بااخلاق و باکردار ذوالفقار احمد۔ دکھائی تو انتہائی فولاد دکھائی دیتے تھے لیکن اندر سے بالکل ریشم کی طرح نرم، ہمیشہ کہا کرتے تھے کچھ سمجھ میں نہ آئے تو کوئی بات نہیں، لاکھ مرتبہ پوچھو میں لاکھ مرتبہ تمہیں سمجھاؤں گا، اور وہ کرتے بھی تھے ایسا۔ ایک دن انہوں نے ہمیں گھڑی میں وقت جاننے کا طریقہ سمجھانا شروع کیا، مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے وہ دن، لکڑی سے بنی ہوئی ایک گھڑی لے کر وہ کھڑے تھے۔
پھر انہوں نے ہمیں بتایا کہ دیکھو یہ چھوٹی سوئی گھنٹوں کو ظاہر کرتی ہے اور یہ بڑی والی منٹوں کو، ایک منٹ میں ساٹھ سیکنڈ اور ایک گھنٹے میں ساٹھ منٹ ہوتے ہیں، اور یہ جو درمیان میں نشانات ہیں یہ پانچ منٹ کو ظاہر کرتے ہیں تو اگر گھنٹے کی سوئی کسی ہندسے پر ہو تو اسے ذہن میں رکھتے ہوئے اور منٹ والی سوئی کسی نشان پر ہو تو ان نشانات کو گن کر اسے پانچ سے ضرب دیں تو صحیح وقت سمجھ اور بتا سکیں گے۔
انہوں نے کئی مرتبہ ہمیں سمجھایا، میرے ہم جماعت سب تو ذہین تھے، سمجھ گئے اور میں الجھ گیا، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا، پھر انہوں نے صرف مجھ پر توجہ مرکوز کی اور ایسی کی کہ واہ، ان کا پریڈ ختم ہوگیا تھا اور احسان صاحب تاریخ کا سبق پڑھانے آپہنچے تھے لیکن ذوالفقار صاحب نے ان سے وہ پریڈ بھی خود لے لیا تھا اور مجھے سمجھانے میں جتے ہوئے تھے، لیکن اس دن میں نہ جانے کہاں کھویا ہوا تھا، کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، اور پھر ایسا ہوا کہ آدھی چھٹی کا وقت ہونے والا تھا اور وہ صرف مجھے سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔
میں نے سوچا ایسے کام نہیں چلے گا، کچھ تو کرنا ہی پڑے گا تو میں نے اپنے تئیں ذہانت کا مظاہرہ کرنے کی ٹھانی، میں نے سوچا تھوڑی دیر دیر آدھی چھٹی ہوجائے گی اور ذوالفقار صاحب چلے جائیں گے تو میں اس پر خود غور کروں گا تو میں نے ان سے کہہ دیا جی سر مجھے سمجھ میں آگیا ہے۔
انہوں نے مجھے غور سے دیکھا اور کہا: سچ بتاؤ کیا تم واقعی سمجھ گئے ہو ؟ تو میں نے پورے اعتماد سے کہا: جی سر! لیکن جناب وہ استاد ہی کیا جو اپنے شاگرد کو اندر تک نہ جانے، نہیں وہ استاد ہی نہیں ہوتا، انہوں نے گھڑی کی سوئیاں مختلف سمت میں گھمائیں اور پھر مجھ سے پوچھا: بتاؤ کیا وقت ہوا ہے؟ ظاہر ہے مجھے تو کچھ سمجھ میں نہیں آیا تھا، میں تو ان سے جان چُھڑانے کے لیے جھوٹ بول رہا تھا، میں نے غلط بتایا، انہوں نے تین مرتبہ ایسا کیا اور میں ہر مرتبہ غلط تھا۔ پھر کیا تھا، ان کہ غضب ناک آواز گونجی: اچھا تو تم مجھے گم راہ کر رہے تھے، تم جُھوٹ بول رہے تھے کہ تم سمجھ گئے ہو، تم نے ایسا کیوں کیا اور پھر ان کا زوردار تھپڑ میرے گال پر نازل ہوا، اور ایسا نازل ہوا کہ فقیر کے واقعی چودہ طبق ایک دم روشن ہوگئے اور پھر ایسا ہوا کہ مجھے سب کچھ سمجھ میں آگیا تھا۔ انہوں نے کئی مرتبہ مجھ سے سوئیاں گھما کر پوچھا اور میں نے درست بتایا، اور پھر وہ ہاں اب تم سمجھ گئے ہو، کہتے ہوئے کلاس سے باہر چلے گئے تھے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی میری آنکھوں میں سیلاب آگیا اور ایسا کہ مت پوچھیے، میری ہچکیاں بندھی ہوئی تھیں، میرے ہم جماعت آزردہ تھے،وہ میری دل جوئی میں لگے ہوئے تھے اور پھر کسی نے ہمارے پرنسپل وحیدالرحمٰن صاحب کو اس واقعے سے آگاہ کردیا، وہ ہماری کلاس میں آئے اور مجھے دلاسا دیا لیکن میں سنبھل ہی نہیں رہا تھا، اسکول میں ایک ڈاکٹر صاحب بھی فوری طبی امداد کے لیے موجود ہوتے تھے، مجھے ان کے کلینک لے جایا گیا، میں بخار میں تپ رہا تھا، گھر والوں کو اطلاع دی گئی تو ابّا جی تشریف لے آئے اور پورا واقعہ سننے کے بعد ذوالفقار صاحب کو انہوں نے کہا: آپ نے بالکل صحیح کیا، میں آپ کا مشکور ہوں۔ اس واقعے کے بعد ایک ہفتے تک مجھے اسپتال میں رہنا پڑا تب کہیں جاکر میں سنبھلا تھا۔ مجھے وہ دن بھی بہت اچھی طرح یاد ہے جب صبح اسمبلی میں ذوالفقار صاحب نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر سب کو مخاطب کیا: '' سب غور سے میری بات سنیے، میرا یہ شاگرد ایسا شاگرد ہے جس سے میں بہت کچھ سیکھا ہے۔
یہ میرا شاگرد ہی نہیں اس اسکول کا فخر ہے، سب اساتذہ اس کے گواہ ہیں کہ جو سوال کبھی اُن کے ذہن میں پیدا ہی نہیں ہوا اس نے وہ سوال اُن کے سامنے لاکھڑا کیا، انسان غلطی کرتا ہے لیکن اس سے سیکھنا چاہیے، اس دن مجھ سے بھی غلطی ہوئی مجھے اسے وقت دینا چاہیے تھا۔'' اس طرح کی کئی باتیں، ظاہر ہے وہ جیسا کہہ رہے تھے میں ایسا ہوں ہی نہیں لیکن انہوں نے میری دل جوئی کی خاطر ایسا کہا۔ فقیر اعتراف کرتا ہے اور برملا کہ مجھ میں سوال کرنے اور جب تک پوری طرح سے سمجھ میں نہ آجائے، انکار کردینے کی جرأت ذوالفقار احمد صاحب کی دین ہے، رب تعالی بہشت میں ان کے درجات کو بلند کرتا چلا جائے۔
ہاں تو ہم مار پیٹ پر بات کر رہے تھے لیکن سُنو سجنو! یہ مار پیٹ تو بس ویسے ہی ہے، یہ کیا سزا ہوئی بھلا، ہاں اسے سزا کہہ سکتے ہیں بس لیکن اصل سزا تو نظر انداز کر دینا ہے، انتہائی کرب ناک، بَلا کی تکلیف دہ سزا ہوتی ہے نظر انداز کردینا، آپ ککھ بھی نہیں رہتے، بالکل کُوڑا ہوجاتے ہیں، کچھ نہیں رہتا آپ کے پاس، آپ کا وجود ہی اپنا جواز کھو بیٹھتا ہے، اور جب آپ کا وجود ہی نہ رہے تو باقی کیا رہ جاتا ہے، ہاں یہ بالکل یک سر الگ بات ہے کہ رب کرم کردے اور آپ اس منزل پر پہنچ جائیں کہ جہاں آپ کا ظاہری وجود ہی فنا ہوجائے اور رہ جائے بس اﷲ ہی اﷲ۔
بابا نے بھی مجھے بس نظر انداز کردیا تھا اور میں دھوپ میں بیٹھا خود کو کوس رہا تھا، اس کے ساتھ ہی میں اندر سے سلگ رہا تھا گیلی لکڑی کی طرح جو جلتی نہیں صرف سلگتی اور دُھواں دیتی رہتی ہے، یا اس گیلے کاغذ کی طرح جس پر لکھا جاسکے اور نہ جلایا جاسکے، بس ایسا ہی۔ میں سوچ رہا تھا کہ بابا مجھے مار پیٹ لیتے لیکن نظر انداز تو نہ کرتے۔ لیکن ہر جرم کی ایک سزا ہوتی ہے ناں تو پھر وہ آخر اور کیا کرتے۔ دوپہر ہوچکی تھی میں خود کو کوسنے کے ساتھ حنیف بھائی کو سوچ رہا تھا کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہوں گے۔ پھر دُور سے حنیف بھائی اپنی سائیکل پر آتے نظر آئے، انہوں نے مجھے دیکھتے ہی اپنی سائیکل وہیں پھینکی اور میری جانب دوڑتے ہوئے آئے: تُم کہاں چلے گئے تھے میرے بھائی! تُو کہاں تھا، کب آیا ہے تُو اور یہ دھوپ میں کیوں بیٹھا ہوا ہے، بتا مجھے، وہ مجھے خود سے لپٹائے ہوئے بہت غصے میں تھے۔
مجھے خاموش اور روتا دیکھ کر وہ اچانک بابا کی جانب مڑے اور پھر تو قیامت ہی آگئی، کیا ہوا ہے اسے، بابا بولو کیا ہوا ہے، یہ کیوں دھوپ میں بیٹھا ہوا تھا، آپ نے اسے سزا دی ہے، کیوں دی ہے، کیا سمجھتے ہیں آپ خود کو۔ اور اس وقت تو میرے پیروں تلے زمین ہی نکل گئی جب اس نے بابا سے کہا: اتنے بڑے ہوگئے ہیں، بوڑھے ہوگئے ہیں، ذرا سی بھی عقل نہیں ہے آپ میں۔ اور میں مجسم حیرت بنا ہوا دیکھ رہا تھا کہ بابا اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے معاف کردو، معاف کردو کی گردان کر رہے تھے، پھر اس کی آواز گونجی: کب سدھریں گے آپ، حد سے باہر نکل گئے ہیں آپ تو، مجھے آپ کا اب کوئی علاج کرنا ہی ہوگا۔ بابا اسی طرح کھڑے تھے اور پھر اس نے جگ سے پانی لے کر میرا منہ دھلانا شروع کیا، میں ان سے کہے جارہا تھا کہ حنیف بھائی آپ بابا کو کچھ مت کہیں غلطی تو میں نے کی ہے لیکن وہ کوئی اور بات سننے کو تیار ہی نہ تھے اور بابا کو کوس رہے تھے۔
پھر میں سمجھ پایا کہ وہ واقعی اپنے حواس میں نہیں ہیں ورنہ بابا حضور کو کبھی بھی اس طرح کہنے کی جسارت نہ کرتے۔ ہماری دنیا میں تو ادب ہی بہشت ہے اور گستاخی جہنّم۔ بابا نے بس مجھ سے اتنا کہا تھا: دیکھا وہ اپنے حواس میں بھی نہیں لیکن تم سے بے خبر بھی نہیں ہے، اسے کہتے ہیں تعلق۔ ہاں بابا بالکل درست کہہ رہے تھے۔
پھر حنیف بھائی نے مجھے ناشتہ کرایا، میں نے ان سے رات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بس اتنا بتایا کہ میرے اوجھل ہونے کے بعد بابا اسے لینے آگئے تھے، اور انہوں نے میرے متعلق کہا تو بابا نے کہا تم فکر نہ کرو وہ بھی آجائے گا۔ عجب دنیا ہے یہ ناں۔ بابا نے حنیف بھائی کے ساتھ اپنے تعلق کو بیان کرتے ہوئے مجھے بتایا تھا کہ ایسا لگتا ہے جیسے میں نے ہی اسے جنم دیا ہے اور میں ہی اس کی ماں ہوں، اور بعد کے حالات و واقعات نے فقیر پر یہ منکشف کیا کہ بابا واقعی صادق تھے، وہ حنیف سے بے حد پیار کرتے تھے، بالکل ایک ماں کی طرح، حنیف ضد کرتا تو وہ موم کی طرح پگھل جاتے تھے، وہ غصہ کرتا تو اسے مناتے تھے، کبھی تو وہ انتہائی گستاخ ہوجاتے اور بابا ان کے سامنے سر جھکائے کھڑے رہتے، عجیب تعلق تھا بابا اور حنیف میں، بابا اس کے سامنے بچھے رہتے اور کبھی آزردہ نہ ہوتے،
اسی کو کہتے ہیں شاید تعلقِ خاطر
سفر میں تم ہو، بدن چُور چُور میرا ہے
کیا بات کریں اس تعلق پر لیکن کریں گے، رب تعالٰی کی توفیقات شامل حال رہیں تو چلیے اب رخصت! آپ یہ دیکھیے ذرا!
یہ درد تُونے دیا ہے تو کوئی بات نہیں
یہی وفا کا صلہ ہے تو کوئی بات نہیں
کسے مجال کہ کوئی کہے دیوانہ مجھے
یہ اگر تُونے کہا ہے تو کوئی بات نہیں
یہی بہت ہے کہ تم دیکھتے ہو ساحل سے
سفینہ ڈوب رہا ہے تو کوئی بات نہیں
یہی تو فکر ہے تم ساتھ نہ چھوڑ چلو
جہاں نے چھوڑ دیا ہے تو کوئی بات نہیں