ایکسپریس فورم اسکول آف انویسٹی گیشن رواں ماہ کام شروع کر دے گا
پولیس تشددکے خاتمے کیلیے بھرتی کا نظام تبدیل، سائیکالوجسٹ انٹرویو پینل میں شامل ہونگے
تھانوں میں تشدد کلچر کے خاتمے کیلیے پہلا اسٹیٹ آف دی آرٹ'' اسکول آف انویسٹی گیشن '' رواں ماہ کام کا آغاز کردے گا جس میں تفتیشی افسران کو جدید تربیت فراہم کی جائے گی۔
محکمہ پولیس میں بھرتی کا نظام بھی تبدیل کردیا گیا ہے، اب سائیکالوجسٹ بھی امیدواروں کے انٹرویو پینل میں ہوں گے جن کی رائے حتمی ہوگی، سلیکشن کے بعد امیدواروں کو انسانی حقوق و اخلاقیات کی تربیت دی جائے گی، پنجاب حکومت سے منظوری کے بعد آئندہ چند روز میں ہر ضلع میں مصالحتی کونسل قائم کررہے ہیں جو لوگوں کے چھوٹے مسائل حل کرے گی، تشدد اور غیر قانونی حراست ریاست، حکومت یا پولیس کی پالیسی نہیں ہے، چند کالی بھیڑوں کی وجہ سے پورے محکمے کو الزام دینا درست نہیں، پولیس معاشرے کی عکاس ہے لہٰذا ہمیں اپنے مجموعی رویے تبدیل کرنا ہوں گے۔
ان خیالات کا اظہار محکمہ پولیس، اپوزیشن، سائیکاٹرسٹ اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے '' تھانوں میں تشددکا معاملہ اور پولیس ریفارمز '' کے موضوع پر ایکسپریس فورم میں کیا، فورم کی معاونت کے فرائض احسن کامرے نے انجام دیے۔
ایڈیشنل آئی جی آپریشنز پنجاب انعام غنی نے کہاکہ تھانوں میں تشدد ریاست، حکومت اور محکمہ کی پالیسی نہیں، ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں، اس کلچر کے خاتمے کیلیے وزیراعظم کی منظوری سے پہلا اسٹیٹ آف دی آرٹ 'اسکول آف انویسٹی گیشن' قائم کردیا گیا ہے جو رواں ماہ کام کا آغاز کردے گا، حکومت پنجاب کی اجازت کے بعد10روزکے اندر خیبرپختونخوا کی طرز پر ضلعی سطح پر مصالحتی کونسل قائم کی جائیںگی۔
آئی جی شکایات سیل بھی موجود ہے جس کا نمبر 8787ہے، پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں ایس ایچ او کے کمرے، فرنٹ ڈیسک اور لاک اپ میں کیمرے موجود ہیں اور آئی جی آفس میں مانیٹرنگ کی جاتی ہے، کسی بھی صحافی کے تھانے میں داخلے پر پابندی نہیں، پنجاب کے721تھانوں میں سے ابتدائی طور پر 50 تھانوں کو جدید بنارہے ہیں۔ ایک دو افسوس ناک واقعات پر پورے محکمے کو برا نہ کہا جائے۔
چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی برائے انسانی حقوق پنجاب خلیل طاہر سندھو نے کہاکہ پولیس معاشرے کا عکس ہوتی ہے لہٰذا ہمیں اپنے مجموعی رویے تبدیل کرنا ہوں گے، چند لوگوں کی وجہ سے پورے محکمے کی حوصلہ شکنی درست نہیں۔
ایڈیکشن سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر صداقت علی نے کہا کہ پولیس کابنیادی ڈھانچہ انگریز کا بنایا ہوا ہے، اسے یہاں ایسی پولیس کی ضرورت تھی جو اس کی بات منوائے لہٰذا اب یہ ہماری پولیس کی روایت بن گئی ہے۔
ہیومن سیفٹی کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین بیرسٹر محمد علی گیلانی نے کہا کہ آئین پاکستان نے لوگوں کو جو حقوق فراہم کیے ہیں ان کے بارے میں پولیس کو آگاہی دی جائے۔
محکمہ پولیس میں بھرتی کا نظام بھی تبدیل کردیا گیا ہے، اب سائیکالوجسٹ بھی امیدواروں کے انٹرویو پینل میں ہوں گے جن کی رائے حتمی ہوگی، سلیکشن کے بعد امیدواروں کو انسانی حقوق و اخلاقیات کی تربیت دی جائے گی، پنجاب حکومت سے منظوری کے بعد آئندہ چند روز میں ہر ضلع میں مصالحتی کونسل قائم کررہے ہیں جو لوگوں کے چھوٹے مسائل حل کرے گی، تشدد اور غیر قانونی حراست ریاست، حکومت یا پولیس کی پالیسی نہیں ہے، چند کالی بھیڑوں کی وجہ سے پورے محکمے کو الزام دینا درست نہیں، پولیس معاشرے کی عکاس ہے لہٰذا ہمیں اپنے مجموعی رویے تبدیل کرنا ہوں گے۔
ان خیالات کا اظہار محکمہ پولیس، اپوزیشن، سائیکاٹرسٹ اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے '' تھانوں میں تشددکا معاملہ اور پولیس ریفارمز '' کے موضوع پر ایکسپریس فورم میں کیا، فورم کی معاونت کے فرائض احسن کامرے نے انجام دیے۔
ایڈیشنل آئی جی آپریشنز پنجاب انعام غنی نے کہاکہ تھانوں میں تشدد ریاست، حکومت اور محکمہ کی پالیسی نہیں، ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں، اس کلچر کے خاتمے کیلیے وزیراعظم کی منظوری سے پہلا اسٹیٹ آف دی آرٹ 'اسکول آف انویسٹی گیشن' قائم کردیا گیا ہے جو رواں ماہ کام کا آغاز کردے گا، حکومت پنجاب کی اجازت کے بعد10روزکے اندر خیبرپختونخوا کی طرز پر ضلعی سطح پر مصالحتی کونسل قائم کی جائیںگی۔
آئی جی شکایات سیل بھی موجود ہے جس کا نمبر 8787ہے، پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں ایس ایچ او کے کمرے، فرنٹ ڈیسک اور لاک اپ میں کیمرے موجود ہیں اور آئی جی آفس میں مانیٹرنگ کی جاتی ہے، کسی بھی صحافی کے تھانے میں داخلے پر پابندی نہیں، پنجاب کے721تھانوں میں سے ابتدائی طور پر 50 تھانوں کو جدید بنارہے ہیں۔ ایک دو افسوس ناک واقعات پر پورے محکمے کو برا نہ کہا جائے۔
چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی برائے انسانی حقوق پنجاب خلیل طاہر سندھو نے کہاکہ پولیس معاشرے کا عکس ہوتی ہے لہٰذا ہمیں اپنے مجموعی رویے تبدیل کرنا ہوں گے، چند لوگوں کی وجہ سے پورے محکمے کی حوصلہ شکنی درست نہیں۔
ایڈیکشن سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر صداقت علی نے کہا کہ پولیس کابنیادی ڈھانچہ انگریز کا بنایا ہوا ہے، اسے یہاں ایسی پولیس کی ضرورت تھی جو اس کی بات منوائے لہٰذا اب یہ ہماری پولیس کی روایت بن گئی ہے۔
ہیومن سیفٹی کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین بیرسٹر محمد علی گیلانی نے کہا کہ آئین پاکستان نے لوگوں کو جو حقوق فراہم کیے ہیں ان کے بارے میں پولیس کو آگاہی دی جائے۔