کوچنگ کا انداز تبدیل نہیں کر سکتا ڈیوواٹمور
مصباح الحق سے شاہد آفریدی کی طرح بیٹنگ کی توقع نہیں کرنی چاہیے، واٹمور
کرکٹ کی دنیا میں ڈیو واٹمور اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں، 15سال کے قریب انٹرنیشنل تجربہ رکھنے والے سابق آسٹریلوی کرکٹر کو زیادہ شہرت اس وقت حاصل ہوئی جب ان کی رہنمائی میں سری لنکن ٹیم نے غیر روایتی کھیل پیش کرتے ہوئے ورلڈ کپ 1996ء جیت کر دنیا کو حیران کردیا۔
آئی لینڈرز کو نئی سوچ اور اپروچ دینے والے ڈیو واٹمور کی خدمات حاصل کرنے والوں کی ایک وقت میں لائن لگی ہوئی تھی، سری لنکا کے ساتھ معاہدہ ختم ہونے کے بعد انہوں نے مختلف ٹیموں کی کوچنگ کے فرائض سرانجام دیئے، سابق چیئرمین پی سی بی ذکاء اشرف نے ڈیرھ سال قبل غیر ملکی کوچ کو ہی قومی ٹیم کے لیے بہترین انتخاب خیال کیا تو ان کی نظریں ڈیو واٹمور پر آکر ٹھہر گئیں، ان کے انتخاب کے بعد بھی پاکستان کرکٹ ٹیم کی کبھی بہترین تو کبھی بدترین کھیل پیش کرنے کی عادت برقرار رہی،ان کی افادیت اور مستقبل کے بارے میں کئی سوال شائقین کے ذہنوں میں مچلتے ہیں، ایکسپریس نے ڈیو واٹمور کے ساتھ ایک تفصیلی نشست میں ان کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جو نذر قارئین ہے۔
ایکسپریس: آپ کے دور میں قومی کرکٹ ٹیم کی ٹیسٹ میچز میں کارکردگی اچھی نہیں رہی، اس کی کیا وجوہات ہیں؟
ڈیوڈ واٹمور: مختلف سیریز میں بہتر کھیل کے باوجود نتائج ہمارے حق میں نہیں رہے، کئی بار جیتنے کی پوزیشن میں ہونے کے بعد ایک دو غلطیوں یا بدقسمتی سے ہار جاتے رہے، اس صورتحال کا آغاز دورہ جنوبی افریقہ میں ہوا، ہم ون ڈے اور ٹوئنٹی 20 میں بھارت کے خلاف اسی کی سرزمین پر عمدہ کھیل کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہوئے، 10 روز بعد ہی ہمیں ایک مختلف فارمیٹ میں مضبوط ترین حریف جنوبی افریقہ کا سامنا کرنا پڑا۔
انگلینڈ، آسٹریلیا کو ہوم گراؤنڈ پر شکست دینے والی عالمی نمبر ون ٹیم نے چند روز قبل ہی مہمان نیوزی لینڈ کو بھی نیچا دکھایا تھا، اس کے باوجود ہماری طرف سے بھرپور مزاحمت ہوئی، پروٹیز کے خلاف پہلے ٹیسٹ کے دوسرے روز ہمیں انتہائی کم روشنی میں کھیلنا پڑا، امپائرز نے غیر موزوں کنڈیشنز میں بھی کھیل جاری رکھنے پر اصرار کیا، ہم کچھ نہیں کرسکتے تھے۔
ان حالات کی وجہ سے ایک بار خسارے میں جانے کے بعد دیگر مقابلوں میں بھی ہم جیتنے کی پوزیشن میں آئے لیکن بدقسمتی سے بھر پور مزاحمت کے باوجود نتائج ہمارے حق میں نہ ہوسکے، اس کے بعد ہم دو ٹیسٹ سیریز ہارے لیکن سب سے بڑی شکست زمبابوے کے ہاتھوں تھی۔ پروٹیز اور سری لنکا کے مقابل نتائج کی ہر کوئی توقع کرسکتا تھا لیکن ہرارے میں ہار کسی طور پر قابل قبول نہیں کہی جاسکتی، وہاں کی کنڈیشنز جیسی بھی تھیں ہمیں جیتنا چاہیے تھا۔
جنوبی افریقہ نمبرون اورہم رینکنگ میں چوتھے نمبر پر تھے، کھیل کے معیار میں فرق کی وجہ سے انہوں نے اہم مواقع سے فائدہ اٹھایا، ہم ایسا نہ کرسکے، تاہم آخری درجے کی ٹیم زمبابوے سے شکست پر میرے لئے بھی قابل قبول نہیں، ناکامی کے جواز تلاش نہیں کررہا لیکن ہمیں کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے عوامل کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔
ایکسپریس: زمبابوے کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں ٹیم کی کیا مشکلات رہیں؟
ڈیوڈواٹمور: مجموعی طور پر ہم نے کئی مواقع پر کمزور کھیل کا مظاہرہ کیا، پہلے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں بیٹنگ اور بولنگ توقعات کے مطابق نہ رہی، دوسرے میچ میں بھی ایسی ہی صورتحال رہی، پہلے مقابلے میں یونس خان نے چیلنج قبول کرتے ہوئے کھیل کا پانسہ پلٹ دیا، ایسی ہی کسی کوشش کی دوسرے ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں بھی ضرورت تھی لیکن ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے ہماری چند کمزوریوں کا حریف نے بھر پور فائدہ اٹھایا، پہلی اننگز میں میزبان ٹیم 300 کے قریب سکور کرلئے جبکہ ہمارے 6 بیٹسمینوں نے صرف 19 پر 6 وکٹیں گنوا دیں، یہ ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا طریقہ نہیں، پاکستان کی نمائندگی کرنے والوں میں ایسا نیم دلانہ جذبہ نظر آنا درست نہیں تھا، ملک کے لیے پرفارم کرنے کی سوچ کے ساتھ میدان میں اترنے والوں کی طرف سے ایسی غفلت کا مظاہرہ سامنے نہیں آنا چاہیے۔
ایکسپریس: آپ کے خیال میں بیٹنگ کوچ کی تقرری مسائل کا حل ہوسکتی ہے؟
ڈیوڈ واٹمور: کوچنگ کسی بھی شعبے کی ہو کوئی وقتی فارمولا کامیاب نہیں ہوتا، کھلاڑیوں کے مزاج اور ان کے مسائل کو سمجھنے کے لیے مسلسل ہوم ورک کرنا پڑتا ہے، پھر ہی بہتری کے راستے نکلتے ہیں، ہر بیٹسمین کے کچھ انفرادی مسائل ہیں، جن پر قابو پانے کے لیے کام کیا جارہا ہے،وہ خود بھی بڑی محنت کررہے ہیں، امید ہے کہ بتدریج مسائل میں کمی ہوتی جائے گی۔
ایکسپریس: ایک عرصہ سے ہمارے بیٹسمین نئی گیند کا سامنا کرنے میں مشکلات کا شکار رہے ہیں، ڈیل اسٹین کا سامنا کیسے کریں گے؟
ڈیوڈ واٹمور: بیٹنگ کا سب سے بڑا مسئلہ یہی رہا ہے، میں نے دورہ زمبابوے کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بھی یہی لکھا ہے کہ نئی گیند پر مسلسل وکٹیں گنوانے سے ہی ہماری مہم کمزور ہوتی رہی ہے، ہمیں اس صورتحال سے نکلنے کا چیلنج درپیش ہے جہاں تک ڈیل اسٹین اور دیگر پروٹیز پیسرز کا تعلق ہے تو ہمیں فکرمندی میں مبتلا ہونے کی بجائے مثبت سوچ کے ساتھ ان کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا، ہم جنوبی افریقہ میں ان پیسرز کے مقابل کھیل چکے، یو اے ای کی وکٹوں اور کنڈیشنز میں بہتر انداز میں مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے،صرف مربوط پلاننگ کے ساتھ 5 روز ٹیسٹ کرکٹ کی ضرورت اور مزاج کے مطابق کھیلنے کی ضرورت ہوگی۔
ایکسپریس: اچھے اوپنرز کی غیر موجودگی میں نئی گیند کا سامنا کرنے کے لیے کیسے تیاری کی جاسکتی ہے؟
ڈیوڈ واٹمور: ملک میں اچھے اوپنرز کی کمی کے تصور سے میں اتفاق نہیں کرتا، ہمارے پاس اچھے کرکٹر موجود ہیں، سخت محنت بھی کررہے ہیں تاہم بدقسمتی سے ان کی کارکردگی میں تسلسل نہیں آرہا، اکثر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پر اعتماد بیٹنگ کرتے ہوئے سنچری سکور ڈالیں گے، لیکن کوئی گیند ایسی ملتی یا غلطی ہوجاتی ہے کہ ان کی اننگز آگے نہیں بڑھ پاتی، مجھے ان کی صلاحیتوں پر شک نہیں لیکن کارکردگی میں تسلسل آنے کا انتظار ضرور ہے۔
ایکسپریس: محمد حفیظ کو ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا مزید موقع ملنا چاہیے؟
ڈیوواٹمور:آل راؤنڈر کو ٹیم میںشامل رکھنا کیریئر کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوسکتا ہے، وہ خود بھی پرفارم اور رنز بنانے کے لیے بیتاب ہیں، ماضی میں انہوں نے کئی بار صلاحیتوں کا بھر پور اظہار کرتے ہوئے اپنی اہمیت ثابت کی لیکن چند ماہ سے بڑا سکور کرنے میں کامیاب نہیں ہورہے، مزید مواقع دینے سے ان کا عزم مزید پختہ ہوگا، ایک آدھ اچھی اننگز سے یقین کی طاقت مل گئی تو یہی سیریز ان کے کیریئر کا سنگ میل بھی ثابت ہوسکتی ہے، ایسے موڑ ہر کھلاڑی کی زندگی میں آتے ہیں، ایسی صورتحال سے ابھر کر سامنے آنے والے ہی بڑے پلیئرز کی فہرست میں شامل ہوتے ہیں۔
ایکسپریس:اسد شفیق کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟
ڈیو واٹمور: نوجوان بیٹسمین بے پناہ ٹیلنٹ ہونے کے باوجود رنز نہیں کرپارہے، کئی خوبیاں ہونے کے ساتھ وہ گیند کی لائن کو مس کرنے کی خامی کے سبب وکٹ گنوا رہے ہیں، فٹ ورک میں تھوڑا مسئلہ ہونے کی وجہ سے گھومتی ہوئی گیندیں ان کے بیٹ کا کنارہ چھو کر گزرتی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی کرکٹ ہی ختم ہوگئی، میں ان کا مستقبل تابناک دیکھتا ہوں۔ بیٹنگ کوچ نہ بھی ہو تو میں اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں، ہر کھلاڑی کا انفرادی مسئلہ سامنے رکھتے ہوئے اس پر کام کرتا ہوں، اسد شفیق کی فارم بھی بحال ہوگی۔
ایکسپریس: کیا پاکستان کرکٹ میں اتنی صلاحیت نہیں کہ مصباح الحق اور یونس خان کے متبادل تلاش کئے جاسکیں؟
ڈیوڈ واٹمور: پاکستان کرکٹ کے کسی شعبے میں ٹیلنٹ کی کمی کے حوالے سے کی جانے والی کوئی بات درست نہیں ہوگی، ملک میں کرکٹ کا جو بھی سسٹم ہے باصلاحیت کرکٹرز مسلسل سامنے آرہے ہیں، پروٹیز کے خلاف سیریز سے قبل 3 روزہ میچ میں نوجوان کھلاڑیوں کو صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کا بھر پور موقع ملے گا۔
جنوبی افریقہ ہو یا انگلینڈ ان کے نئے ٹیلنٹ کو فارمیٹ کی کرکٹ میں مختلف حریفوں کیساتھ کھیلنے کا مواقع ملتے ہیں، قومی ٹیمیں بھی اپنی قوت کے مطابق وکٹوں اور کنڈیشنز میں مہمانوں کا شکار کرتے اپنے ریکارڈ بہتر بناتی ہیں۔ پاکستان میں تو نوجوانوں کے ساتھ سینئر ٹیم کے کھلاڑیوں کو بھی ہوم گراؤنڈ پر ایک میچ بھی کھیلنے کو نہیں ملتا، ان حالات میں بھی چند پلیئرز ایسے ضرور ابھرتے ہیں جو مناسب تربیت سے خود کو انٹرنیشنل کرکٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے قابل ہوتے ہیں، اے ٹیموں کو زیادہ سے زیادہ کھیلنے کے مواقع فراہم کرکے مستقبل کے لیے باصلاحیت پلیئرز کی کھیپ تیار کی جاسکتی ہے۔
ایکسپریس: آپ چند کرکٹرز کے نام بتانا چاہیں گے، جن سے مستقبل کی امیدیں وابستہ کی جاسکیں؟
ڈیوواٹمور: ایسے باصلاحیت کھلاڑیوں کی بڑی تعداد موجود ہے لیکن میں ان کا نام لے کر توقعات کا بوجھ نہیں بڑھانا چاہتا، وقت گزرنے کے ساتھ نیا ٹیلنٹ سامنے آتا جائے گا۔
ایکسپریس: جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں جیت کے کیا امکانات دیکھتے ہیں؟
ڈیوڈ واٹمور: پروٹیز اپنے ملک میں پیس اور باؤنس پر انحصار کرتے ہیں، ان کے مہلک ہتھیار یو اے ای کی کنڈیشنز میں اتنے مؤثر نہیں ہوں گے، تاہم ایک مضبوط حریف کو کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ہم بھر پور تیاری کے ساتھ میدان میں اتریں گے، پاکستان میں کھیلنے کے مواقع نہ ہونے سے ہمیں ہوم گراؤنڈ کا اس انداز میں فائدہ نہیں ہوگا جیسے دوسری ٹیموں کو ہوتا ہے، تاہم پریکٹس میچ تیاری کیلئے خاصا مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
نئی سیریز کے لیے پلاننگ بھی نئے سرے سے کرنا ہوگا، حالات اور حریف مختلف ہوں گے، پروٹیز کی خوبیوں اور خامیوں کو نظر میں رکھتے ہوئے حال ہی میں ہماری ٹیم کو درپیش آنے والے مسائل سے نکل کر پرفارم کرنا ہوگا، 5 روزہ کھیل میں ہر سیشن کے لیے الگ الگ حکمت عملی تیار کرنا پڑتی ہے، ہماری پوری کوشش ہوگی کہ جو بھی پلان ہو اس میں ہر کھلاڑی اپنی ذمہ داری سے انصاف کرے۔
ایکسپریس: پاکستان کی پیس بیٹری میں پہلے جیسا دم خم نظر نہیں آرہا، اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
ڈیوڈ واٹمور: پاکستان کا فاسٹ بولنگ میں مستقبل تاریک نہیں، بہتری کی امید رکھنا چاہیے، ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر نئے فاسٹ بولر میں وسیم اکرم، وقار یونس اور شعیب اختر ڈھونڈھنے لگتے ہیں۔ موجود بولرز بھی سپراسٹارز بننے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں لیکن انہیں وقت دینا ہوگا، ان کا ابھی سے عظیم کرکٹرز کے ساتھ موازنہ ایک خطرناک رجحان ہے، جنید خان کی رفتار اور صلاحیتیں چند مرتبہ ثابت ہوچکیں، راحت علی بہترین بولنگ ایکشن کے ساتھ گیند کو موو کرتے ہیں تو بیٹسمین کے لیے پریشانی پیدا ہوجاتی ہے مگر انہوں نے ابھی ٹیسٹ کرکٹ کھیلی ہی کتنی ہے کہ بلند توقعات وابستہ کرنی شروع کردی جائیں۔
پیسرز ہر نئے میچ کے ساتھ مزید سیکھ کر بولنگ میں نکھار لاتے جارہے ہیں، ان کی صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوئے آگے بڑھیں تو ابھی جو خلا محسوس ہوتاہے، ایک دن پرہوجائے گا۔ پاکستانی فاسٹ بولرز لاہور، کراچی کے علاوہ دور دراز کے شہروں سے آگے آرہے ہیں، ان کی شخصیت میں اعتماد لانا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کھیل میں خامیاں درست کرنا، پیسرز ٹیم میں اپنی جگہ پکی کرنے تک عمل سے گزر رہے ہیں، بتدریج اس منزل کو بھی پالیں گے جس کی پاکستانی شائقین توقع کرتے ہیں۔
ایکسپریس: کیا فٹنس مسائل پیسر محمد عرفان کے ٹیسٹ کھیلنے میں حائل ہے؟
ڈیوڈ واٹمور: طویل طرز کی کرکٹ میں پورے 5 دن کے کھیل میں کسی وقت بھی بولنگ کا لمبا سیشن کرنے کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے، اگر کوئی بولر پہلے روز ہی کسی انجری کا شکار ہوجائے تو کپتان کا سارا میچ پلان ہی خراب ہوجائے گا، 50 اوورز کے کھیل میں بھی ایک بولر کسی وجہ سے ایکشن میں نہ آسکے تو اس کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے، ٹیسٹ میچ میں ایک دن میںٹیم کو 90 اوورز کروانا پڑتے ہیں، اس دوران ایک بولر کا بوجھ دوسروں کو اٹھانا پڑے تو ان کا بھی ردھم خراب ہو جاتاہے، محمد عرفان پاکستان کرکٹ کا اثاثہ ہیں ، ہم انہیں ٹیسٹ ٹیم میں شامل کر کے فٹنس مسائل کا رسک نہیں لے سکتے، ان فٹ ہونے کی صورت میں ایک روزہ اور ٹوئنٹی20 ٹیم پر اثر پڑے گا تاہم پیسر بتدریج اس معیار کی فٹنس کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں سلیکٹرز اور کپتان طویل فارمیٹ کی کرکٹ میں بھی ان پر بھروسہ کرسکیںگے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے،7 فٹ سے زائد قد اور منفرد ٹیلنٹ ہونے کے باوجود انہیں 6 سال قبل ہی موقع کیوں نہیں فراہم کردیا گیا۔
ایکسپریس: ذوالفقار بار کا ٹیلنٹ جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں کس حد تک کام آسکتا ہے؟
ڈیو واٹمور: سپنر ایک وکٹ ٹیکر ہیں جنہوں نے ہمیشہ سخت محنت سے پرفارم کرکے سلیکٹرز کی بھرپور توجہ حاصل کی ہے، انہیں نظر انداز کرنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں تاہم بدقسمتی ہے کہ وہ سعید اجمل اور عبدالرحمان کے دور میں منظر عام پر آئے ہیں، انہیں اب تک جتنا بھی موقع ملا، اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھر پور تاثر چھوڑنے میں کامیاب رہے ہیں، تیسرے آپشن کے طور پر انہیں زیر غور لایا جاسکتاہے، کسی انجری یا فٹنس مسائل کی صورت میں انہیں موقع دیئے جانے کا امکان باقی رکھا جاسکتا ہے۔
تاخیر سے انٹرنیشنل کرکٹ شروع آنے کی بے شمار مثالیں ہیں، آسٹریلوی سکواڈ میں کئی باصلاحیت کرکٹرز کی موجودگی میں مائیک ہسی جیسا اسٹار کھلاڑی بھی انتظار کی سولی پر لٹکا رہا، کبھی کبھی آپ کو بھرپور پرفارم کرنے اور سلیکٹرز کی توجہ حاصل کرنے کے باوجود بھی موقع کا منتظر رہنا پڑتا ہے، یہی پروفیشنل کرکٹر کا کام ہے، ذوالفقار بابر کی بھی ایسی ہی صورتحال ہے، ٹیسٹ سکواڈ میں شامل کئے گئے تو کھیلنے کا موقع بھی ملے گا۔
ایکسپریس: آپ کے مستقبل کے حوالے سے چہ مگوئیاں تو کافی جاری ہیں، اپنے معاہدے میں توسیع کے حوالے سے کیا سوچتے ہیں؟
ڈیوواٹمور: میری کوچنگ کی میعاد میں توسیع ہوتی ہے یا نہیں یہ کہنا قبل ازوقت ہے، ابھی تو کنٹریکٹ کی مدت میں 5 ماہ باقی ہیں، میری کوشش ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کے آخری دن بھی اپنے کردار سے انصاف کرتا نظر آؤں، کیرئیر میں جتنا بھی تجربہ حاصل کیا، اس کے مطابق کام کرنے کا میرا اپنا ایک اسٹائل ہے، خلوص نیت سے اپنے فرائض انجام دینے کی کوشش کرتا ہوں، اسی انداز میں کام کرنا پسند کیا اور عالمی سطح پر کامیابیاں بھی سمیٹیں، تنقید کرنے والوں کی اپنی رائے ہے، اس پر کوئی پہرے نہیں بٹھا سکتا، میرے خیال میں سابق ٹیسٹ کرکٹرز اور صحافیوں سے کوئی گلہ شکوہ نہیں، سب اچھے لوگ ہیں تاہم اپنی ذات کے حوالے سے اس بات کی تسلی ہے کہ میں نے اپنی صلاحیتوں کے مطابق کوشش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، شیشے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنا چہرہ دیکھتے ہوئے کسی شرمندگی کا احساس نہیں ہوتا۔
ٹیم ہارتی ہے تو مجھے بھی افسوس اور پریشانی ہوتی ہے، مثبت نتائج حاصل کرنے کیلئے فکر مند بھی ہوتا ہوں لیکن کام کرنے کا انداز نہیں بدل سکتا، آپ مصباح الحق سے آفریدی کی طرح بیٹنگ کی توقع نہیں کرسکتے۔
آئی لینڈرز کو نئی سوچ اور اپروچ دینے والے ڈیو واٹمور کی خدمات حاصل کرنے والوں کی ایک وقت میں لائن لگی ہوئی تھی، سری لنکا کے ساتھ معاہدہ ختم ہونے کے بعد انہوں نے مختلف ٹیموں کی کوچنگ کے فرائض سرانجام دیئے، سابق چیئرمین پی سی بی ذکاء اشرف نے ڈیرھ سال قبل غیر ملکی کوچ کو ہی قومی ٹیم کے لیے بہترین انتخاب خیال کیا تو ان کی نظریں ڈیو واٹمور پر آکر ٹھہر گئیں، ان کے انتخاب کے بعد بھی پاکستان کرکٹ ٹیم کی کبھی بہترین تو کبھی بدترین کھیل پیش کرنے کی عادت برقرار رہی،ان کی افادیت اور مستقبل کے بارے میں کئی سوال شائقین کے ذہنوں میں مچلتے ہیں، ایکسپریس نے ڈیو واٹمور کے ساتھ ایک تفصیلی نشست میں ان کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جو نذر قارئین ہے۔
ایکسپریس: آپ کے دور میں قومی کرکٹ ٹیم کی ٹیسٹ میچز میں کارکردگی اچھی نہیں رہی، اس کی کیا وجوہات ہیں؟
ڈیوڈ واٹمور: مختلف سیریز میں بہتر کھیل کے باوجود نتائج ہمارے حق میں نہیں رہے، کئی بار جیتنے کی پوزیشن میں ہونے کے بعد ایک دو غلطیوں یا بدقسمتی سے ہار جاتے رہے، اس صورتحال کا آغاز دورہ جنوبی افریقہ میں ہوا، ہم ون ڈے اور ٹوئنٹی 20 میں بھارت کے خلاف اسی کی سرزمین پر عمدہ کھیل کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہوئے، 10 روز بعد ہی ہمیں ایک مختلف فارمیٹ میں مضبوط ترین حریف جنوبی افریقہ کا سامنا کرنا پڑا۔
انگلینڈ، آسٹریلیا کو ہوم گراؤنڈ پر شکست دینے والی عالمی نمبر ون ٹیم نے چند روز قبل ہی مہمان نیوزی لینڈ کو بھی نیچا دکھایا تھا، اس کے باوجود ہماری طرف سے بھرپور مزاحمت ہوئی، پروٹیز کے خلاف پہلے ٹیسٹ کے دوسرے روز ہمیں انتہائی کم روشنی میں کھیلنا پڑا، امپائرز نے غیر موزوں کنڈیشنز میں بھی کھیل جاری رکھنے پر اصرار کیا، ہم کچھ نہیں کرسکتے تھے۔
ان حالات کی وجہ سے ایک بار خسارے میں جانے کے بعد دیگر مقابلوں میں بھی ہم جیتنے کی پوزیشن میں آئے لیکن بدقسمتی سے بھر پور مزاحمت کے باوجود نتائج ہمارے حق میں نہ ہوسکے، اس کے بعد ہم دو ٹیسٹ سیریز ہارے لیکن سب سے بڑی شکست زمبابوے کے ہاتھوں تھی۔ پروٹیز اور سری لنکا کے مقابل نتائج کی ہر کوئی توقع کرسکتا تھا لیکن ہرارے میں ہار کسی طور پر قابل قبول نہیں کہی جاسکتی، وہاں کی کنڈیشنز جیسی بھی تھیں ہمیں جیتنا چاہیے تھا۔
جنوبی افریقہ نمبرون اورہم رینکنگ میں چوتھے نمبر پر تھے، کھیل کے معیار میں فرق کی وجہ سے انہوں نے اہم مواقع سے فائدہ اٹھایا، ہم ایسا نہ کرسکے، تاہم آخری درجے کی ٹیم زمبابوے سے شکست پر میرے لئے بھی قابل قبول نہیں، ناکامی کے جواز تلاش نہیں کررہا لیکن ہمیں کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے عوامل کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔
ایکسپریس: زمبابوے کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں ٹیم کی کیا مشکلات رہیں؟
ڈیوڈواٹمور: مجموعی طور پر ہم نے کئی مواقع پر کمزور کھیل کا مظاہرہ کیا، پہلے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں بیٹنگ اور بولنگ توقعات کے مطابق نہ رہی، دوسرے میچ میں بھی ایسی ہی صورتحال رہی، پہلے مقابلے میں یونس خان نے چیلنج قبول کرتے ہوئے کھیل کا پانسہ پلٹ دیا، ایسی ہی کسی کوشش کی دوسرے ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں بھی ضرورت تھی لیکن ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے ہماری چند کمزوریوں کا حریف نے بھر پور فائدہ اٹھایا، پہلی اننگز میں میزبان ٹیم 300 کے قریب سکور کرلئے جبکہ ہمارے 6 بیٹسمینوں نے صرف 19 پر 6 وکٹیں گنوا دیں، یہ ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا طریقہ نہیں، پاکستان کی نمائندگی کرنے والوں میں ایسا نیم دلانہ جذبہ نظر آنا درست نہیں تھا، ملک کے لیے پرفارم کرنے کی سوچ کے ساتھ میدان میں اترنے والوں کی طرف سے ایسی غفلت کا مظاہرہ سامنے نہیں آنا چاہیے۔
ایکسپریس: آپ کے خیال میں بیٹنگ کوچ کی تقرری مسائل کا حل ہوسکتی ہے؟
ڈیوڈ واٹمور: کوچنگ کسی بھی شعبے کی ہو کوئی وقتی فارمولا کامیاب نہیں ہوتا، کھلاڑیوں کے مزاج اور ان کے مسائل کو سمجھنے کے لیے مسلسل ہوم ورک کرنا پڑتا ہے، پھر ہی بہتری کے راستے نکلتے ہیں، ہر بیٹسمین کے کچھ انفرادی مسائل ہیں، جن پر قابو پانے کے لیے کام کیا جارہا ہے،وہ خود بھی بڑی محنت کررہے ہیں، امید ہے کہ بتدریج مسائل میں کمی ہوتی جائے گی۔
ایکسپریس: ایک عرصہ سے ہمارے بیٹسمین نئی گیند کا سامنا کرنے میں مشکلات کا شکار رہے ہیں، ڈیل اسٹین کا سامنا کیسے کریں گے؟
ڈیوڈ واٹمور: بیٹنگ کا سب سے بڑا مسئلہ یہی رہا ہے، میں نے دورہ زمبابوے کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بھی یہی لکھا ہے کہ نئی گیند پر مسلسل وکٹیں گنوانے سے ہی ہماری مہم کمزور ہوتی رہی ہے، ہمیں اس صورتحال سے نکلنے کا چیلنج درپیش ہے جہاں تک ڈیل اسٹین اور دیگر پروٹیز پیسرز کا تعلق ہے تو ہمیں فکرمندی میں مبتلا ہونے کی بجائے مثبت سوچ کے ساتھ ان کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا، ہم جنوبی افریقہ میں ان پیسرز کے مقابل کھیل چکے، یو اے ای کی وکٹوں اور کنڈیشنز میں بہتر انداز میں مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے،صرف مربوط پلاننگ کے ساتھ 5 روز ٹیسٹ کرکٹ کی ضرورت اور مزاج کے مطابق کھیلنے کی ضرورت ہوگی۔
ایکسپریس: اچھے اوپنرز کی غیر موجودگی میں نئی گیند کا سامنا کرنے کے لیے کیسے تیاری کی جاسکتی ہے؟
ڈیوڈ واٹمور: ملک میں اچھے اوپنرز کی کمی کے تصور سے میں اتفاق نہیں کرتا، ہمارے پاس اچھے کرکٹر موجود ہیں، سخت محنت بھی کررہے ہیں تاہم بدقسمتی سے ان کی کارکردگی میں تسلسل نہیں آرہا، اکثر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پر اعتماد بیٹنگ کرتے ہوئے سنچری سکور ڈالیں گے، لیکن کوئی گیند ایسی ملتی یا غلطی ہوجاتی ہے کہ ان کی اننگز آگے نہیں بڑھ پاتی، مجھے ان کی صلاحیتوں پر شک نہیں لیکن کارکردگی میں تسلسل آنے کا انتظار ضرور ہے۔
ایکسپریس: محمد حفیظ کو ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا مزید موقع ملنا چاہیے؟
ڈیوواٹمور:آل راؤنڈر کو ٹیم میںشامل رکھنا کیریئر کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوسکتا ہے، وہ خود بھی پرفارم اور رنز بنانے کے لیے بیتاب ہیں، ماضی میں انہوں نے کئی بار صلاحیتوں کا بھر پور اظہار کرتے ہوئے اپنی اہمیت ثابت کی لیکن چند ماہ سے بڑا سکور کرنے میں کامیاب نہیں ہورہے، مزید مواقع دینے سے ان کا عزم مزید پختہ ہوگا، ایک آدھ اچھی اننگز سے یقین کی طاقت مل گئی تو یہی سیریز ان کے کیریئر کا سنگ میل بھی ثابت ہوسکتی ہے، ایسے موڑ ہر کھلاڑی کی زندگی میں آتے ہیں، ایسی صورتحال سے ابھر کر سامنے آنے والے ہی بڑے پلیئرز کی فہرست میں شامل ہوتے ہیں۔
ایکسپریس:اسد شفیق کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟
ڈیو واٹمور: نوجوان بیٹسمین بے پناہ ٹیلنٹ ہونے کے باوجود رنز نہیں کرپارہے، کئی خوبیاں ہونے کے ساتھ وہ گیند کی لائن کو مس کرنے کی خامی کے سبب وکٹ گنوا رہے ہیں، فٹ ورک میں تھوڑا مسئلہ ہونے کی وجہ سے گھومتی ہوئی گیندیں ان کے بیٹ کا کنارہ چھو کر گزرتی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی کرکٹ ہی ختم ہوگئی، میں ان کا مستقبل تابناک دیکھتا ہوں۔ بیٹنگ کوچ نہ بھی ہو تو میں اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں، ہر کھلاڑی کا انفرادی مسئلہ سامنے رکھتے ہوئے اس پر کام کرتا ہوں، اسد شفیق کی فارم بھی بحال ہوگی۔
ایکسپریس: کیا پاکستان کرکٹ میں اتنی صلاحیت نہیں کہ مصباح الحق اور یونس خان کے متبادل تلاش کئے جاسکیں؟
ڈیوڈ واٹمور: پاکستان کرکٹ کے کسی شعبے میں ٹیلنٹ کی کمی کے حوالے سے کی جانے والی کوئی بات درست نہیں ہوگی، ملک میں کرکٹ کا جو بھی سسٹم ہے باصلاحیت کرکٹرز مسلسل سامنے آرہے ہیں، پروٹیز کے خلاف سیریز سے قبل 3 روزہ میچ میں نوجوان کھلاڑیوں کو صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کا بھر پور موقع ملے گا۔
جنوبی افریقہ ہو یا انگلینڈ ان کے نئے ٹیلنٹ کو فارمیٹ کی کرکٹ میں مختلف حریفوں کیساتھ کھیلنے کا مواقع ملتے ہیں، قومی ٹیمیں بھی اپنی قوت کے مطابق وکٹوں اور کنڈیشنز میں مہمانوں کا شکار کرتے اپنے ریکارڈ بہتر بناتی ہیں۔ پاکستان میں تو نوجوانوں کے ساتھ سینئر ٹیم کے کھلاڑیوں کو بھی ہوم گراؤنڈ پر ایک میچ بھی کھیلنے کو نہیں ملتا، ان حالات میں بھی چند پلیئرز ایسے ضرور ابھرتے ہیں جو مناسب تربیت سے خود کو انٹرنیشنل کرکٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے قابل ہوتے ہیں، اے ٹیموں کو زیادہ سے زیادہ کھیلنے کے مواقع فراہم کرکے مستقبل کے لیے باصلاحیت پلیئرز کی کھیپ تیار کی جاسکتی ہے۔
ایکسپریس: آپ چند کرکٹرز کے نام بتانا چاہیں گے، جن سے مستقبل کی امیدیں وابستہ کی جاسکیں؟
ڈیوواٹمور: ایسے باصلاحیت کھلاڑیوں کی بڑی تعداد موجود ہے لیکن میں ان کا نام لے کر توقعات کا بوجھ نہیں بڑھانا چاہتا، وقت گزرنے کے ساتھ نیا ٹیلنٹ سامنے آتا جائے گا۔
ایکسپریس: جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں جیت کے کیا امکانات دیکھتے ہیں؟
ڈیوڈ واٹمور: پروٹیز اپنے ملک میں پیس اور باؤنس پر انحصار کرتے ہیں، ان کے مہلک ہتھیار یو اے ای کی کنڈیشنز میں اتنے مؤثر نہیں ہوں گے، تاہم ایک مضبوط حریف کو کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ہم بھر پور تیاری کے ساتھ میدان میں اتریں گے، پاکستان میں کھیلنے کے مواقع نہ ہونے سے ہمیں ہوم گراؤنڈ کا اس انداز میں فائدہ نہیں ہوگا جیسے دوسری ٹیموں کو ہوتا ہے، تاہم پریکٹس میچ تیاری کیلئے خاصا مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
نئی سیریز کے لیے پلاننگ بھی نئے سرے سے کرنا ہوگا، حالات اور حریف مختلف ہوں گے، پروٹیز کی خوبیوں اور خامیوں کو نظر میں رکھتے ہوئے حال ہی میں ہماری ٹیم کو درپیش آنے والے مسائل سے نکل کر پرفارم کرنا ہوگا، 5 روزہ کھیل میں ہر سیشن کے لیے الگ الگ حکمت عملی تیار کرنا پڑتی ہے، ہماری پوری کوشش ہوگی کہ جو بھی پلان ہو اس میں ہر کھلاڑی اپنی ذمہ داری سے انصاف کرے۔
ایکسپریس: پاکستان کی پیس بیٹری میں پہلے جیسا دم خم نظر نہیں آرہا، اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
ڈیوڈ واٹمور: پاکستان کا فاسٹ بولنگ میں مستقبل تاریک نہیں، بہتری کی امید رکھنا چاہیے، ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر نئے فاسٹ بولر میں وسیم اکرم، وقار یونس اور شعیب اختر ڈھونڈھنے لگتے ہیں۔ موجود بولرز بھی سپراسٹارز بننے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں لیکن انہیں وقت دینا ہوگا، ان کا ابھی سے عظیم کرکٹرز کے ساتھ موازنہ ایک خطرناک رجحان ہے، جنید خان کی رفتار اور صلاحیتیں چند مرتبہ ثابت ہوچکیں، راحت علی بہترین بولنگ ایکشن کے ساتھ گیند کو موو کرتے ہیں تو بیٹسمین کے لیے پریشانی پیدا ہوجاتی ہے مگر انہوں نے ابھی ٹیسٹ کرکٹ کھیلی ہی کتنی ہے کہ بلند توقعات وابستہ کرنی شروع کردی جائیں۔
پیسرز ہر نئے میچ کے ساتھ مزید سیکھ کر بولنگ میں نکھار لاتے جارہے ہیں، ان کی صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوئے آگے بڑھیں تو ابھی جو خلا محسوس ہوتاہے، ایک دن پرہوجائے گا۔ پاکستانی فاسٹ بولرز لاہور، کراچی کے علاوہ دور دراز کے شہروں سے آگے آرہے ہیں، ان کی شخصیت میں اعتماد لانا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کھیل میں خامیاں درست کرنا، پیسرز ٹیم میں اپنی جگہ پکی کرنے تک عمل سے گزر رہے ہیں، بتدریج اس منزل کو بھی پالیں گے جس کی پاکستانی شائقین توقع کرتے ہیں۔
ایکسپریس: کیا فٹنس مسائل پیسر محمد عرفان کے ٹیسٹ کھیلنے میں حائل ہے؟
ڈیوڈ واٹمور: طویل طرز کی کرکٹ میں پورے 5 دن کے کھیل میں کسی وقت بھی بولنگ کا لمبا سیشن کرنے کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے، اگر کوئی بولر پہلے روز ہی کسی انجری کا شکار ہوجائے تو کپتان کا سارا میچ پلان ہی خراب ہوجائے گا، 50 اوورز کے کھیل میں بھی ایک بولر کسی وجہ سے ایکشن میں نہ آسکے تو اس کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے، ٹیسٹ میچ میں ایک دن میںٹیم کو 90 اوورز کروانا پڑتے ہیں، اس دوران ایک بولر کا بوجھ دوسروں کو اٹھانا پڑے تو ان کا بھی ردھم خراب ہو جاتاہے، محمد عرفان پاکستان کرکٹ کا اثاثہ ہیں ، ہم انہیں ٹیسٹ ٹیم میں شامل کر کے فٹنس مسائل کا رسک نہیں لے سکتے، ان فٹ ہونے کی صورت میں ایک روزہ اور ٹوئنٹی20 ٹیم پر اثر پڑے گا تاہم پیسر بتدریج اس معیار کی فٹنس کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں سلیکٹرز اور کپتان طویل فارمیٹ کی کرکٹ میں بھی ان پر بھروسہ کرسکیںگے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے،7 فٹ سے زائد قد اور منفرد ٹیلنٹ ہونے کے باوجود انہیں 6 سال قبل ہی موقع کیوں نہیں فراہم کردیا گیا۔
ایکسپریس: ذوالفقار بار کا ٹیلنٹ جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں کس حد تک کام آسکتا ہے؟
ڈیو واٹمور: سپنر ایک وکٹ ٹیکر ہیں جنہوں نے ہمیشہ سخت محنت سے پرفارم کرکے سلیکٹرز کی بھرپور توجہ حاصل کی ہے، انہیں نظر انداز کرنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں تاہم بدقسمتی ہے کہ وہ سعید اجمل اور عبدالرحمان کے دور میں منظر عام پر آئے ہیں، انہیں اب تک جتنا بھی موقع ملا، اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھر پور تاثر چھوڑنے میں کامیاب رہے ہیں، تیسرے آپشن کے طور پر انہیں زیر غور لایا جاسکتاہے، کسی انجری یا فٹنس مسائل کی صورت میں انہیں موقع دیئے جانے کا امکان باقی رکھا جاسکتا ہے۔
تاخیر سے انٹرنیشنل کرکٹ شروع آنے کی بے شمار مثالیں ہیں، آسٹریلوی سکواڈ میں کئی باصلاحیت کرکٹرز کی موجودگی میں مائیک ہسی جیسا اسٹار کھلاڑی بھی انتظار کی سولی پر لٹکا رہا، کبھی کبھی آپ کو بھرپور پرفارم کرنے اور سلیکٹرز کی توجہ حاصل کرنے کے باوجود بھی موقع کا منتظر رہنا پڑتا ہے، یہی پروفیشنل کرکٹر کا کام ہے، ذوالفقار بابر کی بھی ایسی ہی صورتحال ہے، ٹیسٹ سکواڈ میں شامل کئے گئے تو کھیلنے کا موقع بھی ملے گا۔
ایکسپریس: آپ کے مستقبل کے حوالے سے چہ مگوئیاں تو کافی جاری ہیں، اپنے معاہدے میں توسیع کے حوالے سے کیا سوچتے ہیں؟
ڈیوواٹمور: میری کوچنگ کی میعاد میں توسیع ہوتی ہے یا نہیں یہ کہنا قبل ازوقت ہے، ابھی تو کنٹریکٹ کی مدت میں 5 ماہ باقی ہیں، میری کوشش ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کے آخری دن بھی اپنے کردار سے انصاف کرتا نظر آؤں، کیرئیر میں جتنا بھی تجربہ حاصل کیا، اس کے مطابق کام کرنے کا میرا اپنا ایک اسٹائل ہے، خلوص نیت سے اپنے فرائض انجام دینے کی کوشش کرتا ہوں، اسی انداز میں کام کرنا پسند کیا اور عالمی سطح پر کامیابیاں بھی سمیٹیں، تنقید کرنے والوں کی اپنی رائے ہے، اس پر کوئی پہرے نہیں بٹھا سکتا، میرے خیال میں سابق ٹیسٹ کرکٹرز اور صحافیوں سے کوئی گلہ شکوہ نہیں، سب اچھے لوگ ہیں تاہم اپنی ذات کے حوالے سے اس بات کی تسلی ہے کہ میں نے اپنی صلاحیتوں کے مطابق کوشش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، شیشے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنا چہرہ دیکھتے ہوئے کسی شرمندگی کا احساس نہیں ہوتا۔
ٹیم ہارتی ہے تو مجھے بھی افسوس اور پریشانی ہوتی ہے، مثبت نتائج حاصل کرنے کیلئے فکر مند بھی ہوتا ہوں لیکن کام کرنے کا انداز نہیں بدل سکتا، آپ مصباح الحق سے آفریدی کی طرح بیٹنگ کی توقع نہیں کرسکتے۔