مشاہدات
حشام احمد سید کے مشاہدات میں وسعت نظر اور فکر کی گہرائی کے ساتھ فراوانی جذبات بھی ہے کیوں کہ ...
حشام احمد سید کے مشاہدات میں وسعت نظر اور فکر کی گہرائی کے ساتھ فراوانی جذبات بھی ہے کیوں کہ وہ شاعر بھی ہیں۔
اپنی ملازمت کے باعث متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، انگلستان میں قیام رہا ہے اور اب کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ملکوں ملکوں گھومے ہیں۔ محض سیاحت نہیں کی ہے وہاں کے عام ماحول اور سیاسی معاشی حالات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔لکھنے کا شوق ہے، اظہار خیال کے لیے کالم لکھتے ہیں جن کے دو مجموعے چھپ چکے ہیں۔ ان کے طالب علمی کے زمانے کے ایک دوست شاہد حمید جو جاپان میں رہتے ہیں کینیڈا میں ان سے ملنے آئے۔ ان کی جاپانی نژاد بیوی، عائشہ خاتون ان کے ساتھ تھیں۔ وہ حشام سید سے کہنے لگیں آپ لوگ جن کے پاس کچھ پیسہ ہے کس طرح رہتے ہیں۔ جاپان میں تو جہاں دولت مندوں کی کمی نہیں بڑی سادگی سے زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے گھر شان دار فرنیچر، الیکٹرانک سامان اور ڈیکوریشن پیس سے بھرے کہیں نظر نہیں آتے۔ وہ نمود ونمائش سے بے پرواہ تعلیم اور دوسرے مسائل پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور زندگی کو مفید بنانے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں۔
حشام احمد سید کو خیال آیا ہم بھی تو پاکستان میں پہلے ایسے نہیں رہتے تھے۔ سادگی تھی اور زندگی کی قدریں بھی تھیں۔ رشتوں اور تعلقات کا معیار پیسہ نہیں تھا، لوگ خلوص سے ملتے تھے۔ بڑے بڑے افسر بھی سائیکل پر دفتر جاتے تھے اور سائیکل پر سفر کرتے ریٹائر ہوجاتے تھے۔ اب تو ایک معمولی افسر بھی چمکیلی گاڑی لے کر دندناتا پھرتا ہے۔ پچاس سال میں حالات بدل گئے، خیالات بھی بدل گئے۔ زیست کا تصور ہی بدل گیا۔
پاکستان کے معاشرتی حالات میں جو تبدیلی آئی ہے وہ اس کے مقابلے میں تو کچھ بھی نہیں جو خلیجی ریاستوں اور سعودی عرب میں رونما ہوئی ہے۔ حشام احمد سید لکھتے ہیں کہ جس تیزی سے اس علاقے کی شکل و صورت بدلی ہے ایسا پوری انسانی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ یہ سارا کرشمہ تیل کی دولت کا ہے جس نے زندگی کے تصورات اور سوچ کے سارے طور بدل دیے۔ وہ لکھتے ہیں ''مادیت کا رجحان جب شدت اختیار کرجائے تو سارے دینی اور اخلاقی تقاضے اور روحانی اقدار معدوم ہوجاتی ہیں۔ دنیا اول اور آخرت، اگر اس کا کوئی تصور باقی ہے، بعد میں۔ دوبئی اور خلیجی مملکتوں میں یہی نظر آتا ہے۔ محنت کشوں کی کھیپ آتی جاتی رہتی ہے۔ عمارتوں کی توسیع اور بلندی کسی طور پر کم ہونے کا نام نہیں لیتی، دکانیں، ڈپارٹمینٹل اسٹورز اور ہائی اسٹورز میں بدلتی جارہی ہیں، دنیا بھر کی اشیا کی فراوانی ہے، مالی اداروں کے سودی کاروبار میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے''۔
سعودی عرب کا ذکر کرتے ہوئے حشام احمد لکھتے ہیں۔ ''1978 میں پہلی بار میں ابوظہبی سے حج کے لیے سعودی عرب آیا تھا۔ جب اور اب کے سعودی عرب میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مجھے یاد ہے ریاض میں قاعدے کا کوئی ہوٹل دستیاب نہیں تھا۔ اکا دکا جو تھے وہ بھرے رہتے تھے، مشکل سے وہاں کوئی کمرا ملتا تھا۔ اب ریاض ہو یا جدہ، مکہ ہو یا مدینہ یا کوئی مقام، تیل کی دولت کے کرشمے اور یہاں کے حکمرانوں کی دور رس نگاہی کے آثار ہر جگہ نمایاں ہیں۔ دیکھتے دیکھتے گلیاں اور سڑکیں چوڑی اور طویل شاہراہوں میں بدل گئیں، عمارتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ گاڑیوں اور ہوائی جہازوں نے زمین کی طنابیں کھینچ لیں۔ جو چیز بن رہی ہے وہ اگلے پچاس یا سو سال کا سوچ کر بن رہی ہے بلکہ بعض تعمیرات تو پانچ سو سال اور ہزار سال سے بھی آگے کے پلان سے بن رہی ہیں۔ قدرت کی فیاضیاں صاف نظر آتی ہیں۔ حرمین شریفین کی توسیع اور نقش نگاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے۔ ہر سال ہر جگہ ایک نئی تبدیلی، ایک نیا منظر دکھائی دیتا ہے''۔
حشام احمد سید کو خلیجی ریاستوں اور سعودی عرب میں ایک فرق نمایاں نظر آیا جس کا انھوں نے اپنے ایک کالم میں ذکر کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سعودی عرب نہ صرف یہ کہ کھانے پینے کی اشیا میں اب خود کفیل ہے بلکہ اس کی برآمدات بھی بڑھ رہی ہیں۔ تعلیمی ترقی پر توجہ بہت ہے ہر شہر میں جامعات اور کلیات قائم ہوگئی ہیں، دینی تعلیم کے علاوہ سعودی طلبا کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم کی سہولتیں فراہم کردی گئی ہیں۔ اس مادی ترقی کے ساتھ ساتھ اسلامی قوانین کی پابندی ہے اور اس معاملے میں عام طور پر سختی برتی جاتی ہے۔ شورائی نظام کی طرف بھی کچھ قدم اٹھائے گئے ہیں۔
حشام احمد سید لکھتے ہیں کہ ''اکثر یہ بحث یہاں بھی اور باہر بھی ہوتی ہے کہ کیا بادشاہت اسلام میں جائز ہے؟ موجودہ دور میں جائز حکومت صرف وہ سمجھی جاتی ہے جو جمہوری ہو۔ بادشاہت یا شخصی حکومت میں معاشرتی ناانصافیوں کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں لیکن جس قسم کی جمہوریت اس وقت دنیا کے بیشتر ملکوں میں پل رہی ہے جس کے سرخیل امریکا بہادر ہیں تو اس میں یا کسی اور طرز حکومت میں کیا فرق رہ جاتا ہے''۔
دیار وطن سے دور رہنے والے ہر پاکستانی کی طرح حشام احمد سید بھی پاکستان کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں۔ وہاں سے جو خبریں آتی ہیں مایوس کن ہی ہوتی ہیں۔ ان سے ملک کی جو تصویر بنتی ہے وہ کسی طرح بھی دل خوش کن نہیں ہوتی یہ درست ہے کہ میڈیا صورت حال کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، سنسنی خیزی کا رجحان عام ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے حالات دگرگوں ہیں۔ نہ سیاسی استحکام ہے نہ معاشی حالات اچھے ہیں۔ معاشرے میں انتشار اور عوام میں بے چینی اور بے یقینی ہے۔ کہیں دہشت گردی اور کہیں قتل، سرعام لوٹنے کی وارداتوں میں اضافہ ہی ہورہا ہے کمی نہیں۔ حکومت کیا کر رہی ہے کوئی نہیں جانتا۔ گھر سے نکلنے والے کو خوف ہوجاتا ہے کہ وہ صحیح سلامت واپس بھی آئے گا یا نہیں۔ یہ صورت حال اس وقت اور بھی سنگین ہوجاتی ہے جب آپ کا کوئی اپنا کسی مصیبت کا شکار ہو اور آپ دور بیٹھے سوائے پریشان ہونے کے کچھ نہ کرسکیں۔
حشام احمد سید لکھتے ہیں ''مجھ سے لوگ کہتے ہیں آپ ہر چیز پر ناقدانہ نگاہ کیوں ڈالتے ہیں؟ اگر میری آنکھیں کھلی ہیں تو بتائیے میں انھیں کیسے نہ دیکھوں۔ کیا آنکھیں بند کرلوں، قوم کو ڈوبتے دیکھ کر خاموش تماشائی بنا رہوں، ہم کہاں جارہے ہیں؟ کدھر جارہے ہیں اور کیوں جارہے ہیں؟ کیا اس کا ادراک بالکل ختم ہوگیا ہے''۔
حشام احمد سید لکھتے ہیں کہ ہماری بقا اسی میں ہے کہ ہم اپنی جدوجہد سے حالات کو بدلیں۔ رسول اللہؐ نے جو تعلیم دی ہے اس پر عمل کریں۔ ہم اب تک جو کرتے رہے ہیں وہ آپؐ کی تعلیم کے منافی ہے اور اس کے نتائج سب دیکھ رہے ہیں۔
اپنی ملازمت کے باعث متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، انگلستان میں قیام رہا ہے اور اب کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ملکوں ملکوں گھومے ہیں۔ محض سیاحت نہیں کی ہے وہاں کے عام ماحول اور سیاسی معاشی حالات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔لکھنے کا شوق ہے، اظہار خیال کے لیے کالم لکھتے ہیں جن کے دو مجموعے چھپ چکے ہیں۔ ان کے طالب علمی کے زمانے کے ایک دوست شاہد حمید جو جاپان میں رہتے ہیں کینیڈا میں ان سے ملنے آئے۔ ان کی جاپانی نژاد بیوی، عائشہ خاتون ان کے ساتھ تھیں۔ وہ حشام سید سے کہنے لگیں آپ لوگ جن کے پاس کچھ پیسہ ہے کس طرح رہتے ہیں۔ جاپان میں تو جہاں دولت مندوں کی کمی نہیں بڑی سادگی سے زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے گھر شان دار فرنیچر، الیکٹرانک سامان اور ڈیکوریشن پیس سے بھرے کہیں نظر نہیں آتے۔ وہ نمود ونمائش سے بے پرواہ تعلیم اور دوسرے مسائل پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور زندگی کو مفید بنانے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں۔
حشام احمد سید کو خیال آیا ہم بھی تو پاکستان میں پہلے ایسے نہیں رہتے تھے۔ سادگی تھی اور زندگی کی قدریں بھی تھیں۔ رشتوں اور تعلقات کا معیار پیسہ نہیں تھا، لوگ خلوص سے ملتے تھے۔ بڑے بڑے افسر بھی سائیکل پر دفتر جاتے تھے اور سائیکل پر سفر کرتے ریٹائر ہوجاتے تھے۔ اب تو ایک معمولی افسر بھی چمکیلی گاڑی لے کر دندناتا پھرتا ہے۔ پچاس سال میں حالات بدل گئے، خیالات بھی بدل گئے۔ زیست کا تصور ہی بدل گیا۔
پاکستان کے معاشرتی حالات میں جو تبدیلی آئی ہے وہ اس کے مقابلے میں تو کچھ بھی نہیں جو خلیجی ریاستوں اور سعودی عرب میں رونما ہوئی ہے۔ حشام احمد سید لکھتے ہیں کہ جس تیزی سے اس علاقے کی شکل و صورت بدلی ہے ایسا پوری انسانی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ یہ سارا کرشمہ تیل کی دولت کا ہے جس نے زندگی کے تصورات اور سوچ کے سارے طور بدل دیے۔ وہ لکھتے ہیں ''مادیت کا رجحان جب شدت اختیار کرجائے تو سارے دینی اور اخلاقی تقاضے اور روحانی اقدار معدوم ہوجاتی ہیں۔ دنیا اول اور آخرت، اگر اس کا کوئی تصور باقی ہے، بعد میں۔ دوبئی اور خلیجی مملکتوں میں یہی نظر آتا ہے۔ محنت کشوں کی کھیپ آتی جاتی رہتی ہے۔ عمارتوں کی توسیع اور بلندی کسی طور پر کم ہونے کا نام نہیں لیتی، دکانیں، ڈپارٹمینٹل اسٹورز اور ہائی اسٹورز میں بدلتی جارہی ہیں، دنیا بھر کی اشیا کی فراوانی ہے، مالی اداروں کے سودی کاروبار میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے''۔
سعودی عرب کا ذکر کرتے ہوئے حشام احمد لکھتے ہیں۔ ''1978 میں پہلی بار میں ابوظہبی سے حج کے لیے سعودی عرب آیا تھا۔ جب اور اب کے سعودی عرب میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مجھے یاد ہے ریاض میں قاعدے کا کوئی ہوٹل دستیاب نہیں تھا۔ اکا دکا جو تھے وہ بھرے رہتے تھے، مشکل سے وہاں کوئی کمرا ملتا تھا۔ اب ریاض ہو یا جدہ، مکہ ہو یا مدینہ یا کوئی مقام، تیل کی دولت کے کرشمے اور یہاں کے حکمرانوں کی دور رس نگاہی کے آثار ہر جگہ نمایاں ہیں۔ دیکھتے دیکھتے گلیاں اور سڑکیں چوڑی اور طویل شاہراہوں میں بدل گئیں، عمارتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ گاڑیوں اور ہوائی جہازوں نے زمین کی طنابیں کھینچ لیں۔ جو چیز بن رہی ہے وہ اگلے پچاس یا سو سال کا سوچ کر بن رہی ہے بلکہ بعض تعمیرات تو پانچ سو سال اور ہزار سال سے بھی آگے کے پلان سے بن رہی ہیں۔ قدرت کی فیاضیاں صاف نظر آتی ہیں۔ حرمین شریفین کی توسیع اور نقش نگاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے۔ ہر سال ہر جگہ ایک نئی تبدیلی، ایک نیا منظر دکھائی دیتا ہے''۔
حشام احمد سید کو خلیجی ریاستوں اور سعودی عرب میں ایک فرق نمایاں نظر آیا جس کا انھوں نے اپنے ایک کالم میں ذکر کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سعودی عرب نہ صرف یہ کہ کھانے پینے کی اشیا میں اب خود کفیل ہے بلکہ اس کی برآمدات بھی بڑھ رہی ہیں۔ تعلیمی ترقی پر توجہ بہت ہے ہر شہر میں جامعات اور کلیات قائم ہوگئی ہیں، دینی تعلیم کے علاوہ سعودی طلبا کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم کی سہولتیں فراہم کردی گئی ہیں۔ اس مادی ترقی کے ساتھ ساتھ اسلامی قوانین کی پابندی ہے اور اس معاملے میں عام طور پر سختی برتی جاتی ہے۔ شورائی نظام کی طرف بھی کچھ قدم اٹھائے گئے ہیں۔
حشام احمد سید لکھتے ہیں کہ ''اکثر یہ بحث یہاں بھی اور باہر بھی ہوتی ہے کہ کیا بادشاہت اسلام میں جائز ہے؟ موجودہ دور میں جائز حکومت صرف وہ سمجھی جاتی ہے جو جمہوری ہو۔ بادشاہت یا شخصی حکومت میں معاشرتی ناانصافیوں کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں لیکن جس قسم کی جمہوریت اس وقت دنیا کے بیشتر ملکوں میں پل رہی ہے جس کے سرخیل امریکا بہادر ہیں تو اس میں یا کسی اور طرز حکومت میں کیا فرق رہ جاتا ہے''۔
دیار وطن سے دور رہنے والے ہر پاکستانی کی طرح حشام احمد سید بھی پاکستان کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں۔ وہاں سے جو خبریں آتی ہیں مایوس کن ہی ہوتی ہیں۔ ان سے ملک کی جو تصویر بنتی ہے وہ کسی طرح بھی دل خوش کن نہیں ہوتی یہ درست ہے کہ میڈیا صورت حال کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، سنسنی خیزی کا رجحان عام ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے حالات دگرگوں ہیں۔ نہ سیاسی استحکام ہے نہ معاشی حالات اچھے ہیں۔ معاشرے میں انتشار اور عوام میں بے چینی اور بے یقینی ہے۔ کہیں دہشت گردی اور کہیں قتل، سرعام لوٹنے کی وارداتوں میں اضافہ ہی ہورہا ہے کمی نہیں۔ حکومت کیا کر رہی ہے کوئی نہیں جانتا۔ گھر سے نکلنے والے کو خوف ہوجاتا ہے کہ وہ صحیح سلامت واپس بھی آئے گا یا نہیں۔ یہ صورت حال اس وقت اور بھی سنگین ہوجاتی ہے جب آپ کا کوئی اپنا کسی مصیبت کا شکار ہو اور آپ دور بیٹھے سوائے پریشان ہونے کے کچھ نہ کرسکیں۔
حشام احمد سید لکھتے ہیں ''مجھ سے لوگ کہتے ہیں آپ ہر چیز پر ناقدانہ نگاہ کیوں ڈالتے ہیں؟ اگر میری آنکھیں کھلی ہیں تو بتائیے میں انھیں کیسے نہ دیکھوں۔ کیا آنکھیں بند کرلوں، قوم کو ڈوبتے دیکھ کر خاموش تماشائی بنا رہوں، ہم کہاں جارہے ہیں؟ کدھر جارہے ہیں اور کیوں جارہے ہیں؟ کیا اس کا ادراک بالکل ختم ہوگیا ہے''۔
حشام احمد سید لکھتے ہیں کہ ہماری بقا اسی میں ہے کہ ہم اپنی جدوجہد سے حالات کو بدلیں۔ رسول اللہؐ نے جو تعلیم دی ہے اس پر عمل کریں۔ ہم اب تک جو کرتے رہے ہیں وہ آپؐ کی تعلیم کے منافی ہے اور اس کے نتائج سب دیکھ رہے ہیں۔