کراچی کے مسائل کا پس منظر
تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ 1843 میں جب برطانوی فوج نے کراچی کو فتح کیا تو ساحلی شہر...
تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ 1843 میں جب برطانوی فوج نے کراچی کو فتح کیا تو ساحلی شہر کی آبادی صرف 14 ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ تقریباً 98 سال بعد 1941 کی مردم شماری کے مطابق کراچی میں آبادی 3,86,650 تھی۔ 1947 کو برصغیر کی تقسیم کے بعد حکومت پاکستان کی پہلی مردم شماری 1951 میں ہوئی، جس کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی کی آبادی 10,8590 تھی۔ گویا دس سال میں 176 فیصد اضافہ ہوا، جس کی بنیادی وجہ تقسیم کے نتیجے میں ہجرت کرکے آنے والوں کی واضح تعداد ہے۔
1951 سے 1960 تک اور پھر 1970 تک کراچی میں آبادی میں اضافے کی شرح 8 فیصد سالانہ رہی جب کہ ملک کے دیگر حصوں میں شرح 3 فیصد سالانہ رہی (1980کے بعد سے یہ شرح 6 فیصد ہے) اس کی بنیادی وجہ ملک کے بالائی حصوں سے تلاش روزگار کے لیے افراد کی مسلسل آمد تھی۔
1981 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی 52,08132 بتائی گئی تھی، ان اعداد و شمار کو مردم شماری کے اہلکاروں کی بدنیتی قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ 1980-81 کے غیر سرکاری اعداد و شمار 70 لاکھ سے زائد کہے جاتے تھے اور یہ ایک مجرمانہ غلطی ہے کہ بعض عناصر کو محض خوش کرنے کے لیے کراچی کی آبادی کو کم کرکے پیش کیا گیا تھا، جس کے بدترین نتائج یہ نکلے کہ تمام تر منصوبہ بندی 50 لاکھ کی آبادی اور اس کی شرح اضافہ کے مطابق کی گئی، جبکہ حقائق اس کے برعکس تھے۔ آج بھی کراچی کی آبادی دو کروڑ کے قریب ہے۔ کراچی دو سو مربع کلومیٹر پر پھیل چکا ہے، کراچی ڈویژن کا مجموعی رقبہ 3366 مربع کلومیٹر ہے۔
کراچی پاکستان کی واحد تجارتی و صنعتی بندرگاہ ہے اور اب وسط ایشیا کی ریاستوں کی آزادی کے بعد ''گیٹ وے آف سینٹرل ایشیا'' بن چکا ہے، اس بین الاقوامی اہمیت کے حامل شہر کے چیدہ چیدہ مسائل درج ذیل ہیں۔ امن و امان کی بگڑتی صورت حال جہاں پولیس کی رٹ تقریباً ختم ہوچکی ہے، شہریوں کا پولیس پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے، اس کی وجہ محکمہ پولیس سیاست زدہ، کرپشن زدہ ہوچکی ہے، جدید ٹیکنیک کی کمی اور جدید ہتھیار کی عدم دستیابی بھی پولیس کی ناکامی کا ایک سبب ہے۔ پولیس میں سیاست اور کرپشن آنے کی وجہ سے شہر میں کرائم کی شرح نہ صرف اونچی سطح کو چھورہی ہے بلکہ کرائمز نے ملکی معیشت کو بھی ہڑپ کرنا شروع کردیا ہے۔ صنعت کار و تاجر حضرات کراچی میں کاروبار کو الوداع کہہ رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے بے روزگاری میں بھی متواتر اضافہ ہورہا ہے۔
آبادی میں غیر فطری طور پر اضافے نے بیشتر مسائل جنم دیے ہیں۔ کراچی میں غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد 20 لاکھ سے زائد ہے جن میں افغانی، بنگالی، برمی، سری لنکن اور ایرانی شامل ہیں۔ غیر قانونی تارکین وطن کی مسلسل آمد کے ساتھ غیر ملکی دہشت گردوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی پاکستان میں گزشتہ 40،45 برس کے درمیان داخل ہوئی ہے۔ 1977 میں مارشل لاء کے نفاذ نے ہماری سرحدوں کو غیر محفوظ کیا، پھر 1979 میں سابق سوویت یونین نے افغانستان پر فوج کشی کی، چنانچہ افغانستان میں سوویت یونین کی مزاحمت کے لیے پاکستان کی اس وقت کی حکومت نے اپنے اور امریکا کے مفاد کے لیے عملی طور پر باقاعدہ ایک منظم کردار ادا کرنا شروع کیا جو اس وقت کی دنیا کی دوسری سپر پاور کے لیے ناپسندیدہ تھا۔
چنانچہ پاکستان کو اس کی سزا دینے کے لیے پاکستان کے شہروں میں بم دھماکے کرائے گئے، خصوصاً کراچی میں بم دھماکوں کے ساتھ ساتھ ہتھوڑا گروپ کی وارداتوں کے ذریعے خوف اور دہشت کی فضا پیدا کی گئی۔ مذہبی منافرت کے لیے پیسے تقسیم کیے گئے۔ دوسری طرف افغان مہاجرین کی آمد کا ایک طویل سلسلہ جاری تھا، جس کی آڑ میں روسی اور بھارتی تخریب کار غیر محسوس طریقے سے پاکستان کے شہروں میں پھیلتے گئے۔ ہتھیاروں اور منشیات کی آمد، تقسیم اور فروخت کا ایک منظم کاروبار بھی پھیل گیا۔
افغان مہاجرین کی آمد کے لیے سرحدوں پر نرم پالیسی کی وجہ سے دوسرے ممالک کے افراد کی بھی غیر قانونی آمد کا سلسلہ جاری رہا اور ان غیر قانونی تارکین وطن کی منزل کراچی تھا۔ چنانچہ 1980 سے 1988 کے دوران کراچی میں 332 نئی کچی آبادیاں قائم ہوئیں، ان آبادیوں میں رہنے والے تمام شہری سہولتوں سے استفادہ کرتے رہے ہیں لیکن کسی بھی قسم کا شہری بلدیاتی ٹیکس ان پر لاگو نہیں ہوتا یا وہ ادا نہیں کرتے، حتیٰ کہ بجلی اور پانی کے ناجائز کنکشن بھی حاصل کیے جاتے رہے ہیں۔ 1988 سے 1994 دسمبر تک ان کچی آبادیوں میں 118 مزید کچی آبادیوں کا اضافہ ہوا۔ آج بھی کراچی میں تقریباً پانچ سو سے زائد کچی آبادیاں ایسی ہیں کہ جو غیر قانونی اور ناجائز قابضین کے تصرف میں ہیں۔
آبادی کے اس مسلسل دباؤ نے بے روزگاری میں اضافہ کیا۔ غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے والے افراد نے انتہائی قلیل معاوضوں پر روزگار کے ذرائع پر قبضہ کرلیا اور مقامی لوگ بے روزگار ہوئے، جس نے احساس محرومی میں اضافہ کیا۔ سرکاری ملازمتوں میں مراعات کی کشش نے ہر نوجوان کو سرکاری ملازمت کے حصول کی دوڑ میں شامل کردیا۔ دیگر ذرائع روزگار پر ملک کے بالائی علاقوں سے آنے والوں کا منظم کنٹرول تھا اور ہے، نہ صرف کراچی بلکہ پورے سندھ میں ٹرانسپورٹ کا مکمل کاروبار پنجابی اور پختونوں کے ہاتھ میں ہے، کیونکہ کراچی سے پشاور تک ان کا ایک کامیاب نیٹ ورک ہے۔
نجی شعبے میں ملازمتوں کے شاندار مواقع موجود تھے اور ہیں، لیکن بد قسمتی سے اس جانب سرکاری طور پر توجہ دی گئی اور نہ غیر سرکاری تنظیموں نے فراہمی روزگار کے لیے کوئی عملی کام کیا، ماسوائے ایک دو اداروں کے جنہوں نے محدود پیمانے پر کام کیا ہے، جبکہ نجی شعبے میں چھوٹی صنعتوں اور چھوٹے کاروبار کے ذریعے لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کیا جاسکتا تھا اور آج بھی کیا جاسکتا ہے۔ آبادی کے مسلسل دباؤ نے کراچی میں ٹریفک اور ٹرانسپورٹ کے مسئلے کو سنگین تر بنادیا۔ سرکاری بسوں میں آبادی کے لحاظ سے اضافہ نہیں ہوسکا بلکہ رفتہ رفتہ ٹرانسپورٹ کے سرکاری شعبے کو یکسر ختم کردیا گیا۔ نجی شعبے میں بھی بسوں کا اس قدر اضافہ نہ ہوسکا جس کی ضرورت تھی، چنانچہ شہر میں منی بسوں کا اضافہ ہوا۔ منی بسوں نے کراچی کی سڑکوں پر تیز رفتاری کے بین الاقوامی دہشت انگیز ریکارڈ قائم کیے۔
1985میں بشریٰ زیدی کا حادثہ ہوا جس نے کراچی میں لسانی فسادات کا ایک افسوسناک سلسلہ شروع کردیا۔ اسی دوران کراچی میں پائے جانے والے احساس محرومی، شہری سہولتوں کی کمی اور اسلحے کی فراوانی نے مسائل کو پیچیدہ بنادیا۔ مارچ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کا سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ لسانی اور مذہبی منافرت واضح طور پر ملک میں ظاہر ہوگئی اور خصوصاً کراچی میں لسانی تقسیم بالکل واضح طور پر سامنے آگئی تھی۔ جونیجو حکومت نے اکتوبر 1985 میں کراچی انکوائری کمیشن قائم کردیا جس کے سربراہ مسعود الزمان تھے۔
کمیشن نے مارچ 1986 میں رپورٹ پیش کی تھی۔ کمیشن نے انتہائی اہم سفارشات اور تجاویز مرتب کی تھیں اور کراچی شہر کے سماجی، معاشی اور بلدیاتی مسائل کا ٹھوس تجزیہ کیا تھا لیکن بدقسمتی سے اس رپورٹ پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ یہی حشر کراچی کے حالیہ مسئلے پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کی سماعت کا تفصیلی فیصلے نظر آرہا ہے۔ ہر چند کہ کراچی کو امن کا گہوارہ بنانے کی باتیں زیر گردش ہیں ، پولیس وجینجرز کا آپریشن جاری ہے اور اقدامات بھی نظر آرہے ہیں۔
لیکن جہاں اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہو وہاں امن کے لیے صرف دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کے شہر ولادت اور ان کی آخری آرام گاہ رکھنے والے شہر اور اس کے غریب، نادار، مفلس اور مظلوم دو کروڑ شہریوں کو امن و سکون اور چین نصیب ہو۔
1951 سے 1960 تک اور پھر 1970 تک کراچی میں آبادی میں اضافے کی شرح 8 فیصد سالانہ رہی جب کہ ملک کے دیگر حصوں میں شرح 3 فیصد سالانہ رہی (1980کے بعد سے یہ شرح 6 فیصد ہے) اس کی بنیادی وجہ ملک کے بالائی حصوں سے تلاش روزگار کے لیے افراد کی مسلسل آمد تھی۔
1981 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی 52,08132 بتائی گئی تھی، ان اعداد و شمار کو مردم شماری کے اہلکاروں کی بدنیتی قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ 1980-81 کے غیر سرکاری اعداد و شمار 70 لاکھ سے زائد کہے جاتے تھے اور یہ ایک مجرمانہ غلطی ہے کہ بعض عناصر کو محض خوش کرنے کے لیے کراچی کی آبادی کو کم کرکے پیش کیا گیا تھا، جس کے بدترین نتائج یہ نکلے کہ تمام تر منصوبہ بندی 50 لاکھ کی آبادی اور اس کی شرح اضافہ کے مطابق کی گئی، جبکہ حقائق اس کے برعکس تھے۔ آج بھی کراچی کی آبادی دو کروڑ کے قریب ہے۔ کراچی دو سو مربع کلومیٹر پر پھیل چکا ہے، کراچی ڈویژن کا مجموعی رقبہ 3366 مربع کلومیٹر ہے۔
کراچی پاکستان کی واحد تجارتی و صنعتی بندرگاہ ہے اور اب وسط ایشیا کی ریاستوں کی آزادی کے بعد ''گیٹ وے آف سینٹرل ایشیا'' بن چکا ہے، اس بین الاقوامی اہمیت کے حامل شہر کے چیدہ چیدہ مسائل درج ذیل ہیں۔ امن و امان کی بگڑتی صورت حال جہاں پولیس کی رٹ تقریباً ختم ہوچکی ہے، شہریوں کا پولیس پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے، اس کی وجہ محکمہ پولیس سیاست زدہ، کرپشن زدہ ہوچکی ہے، جدید ٹیکنیک کی کمی اور جدید ہتھیار کی عدم دستیابی بھی پولیس کی ناکامی کا ایک سبب ہے۔ پولیس میں سیاست اور کرپشن آنے کی وجہ سے شہر میں کرائم کی شرح نہ صرف اونچی سطح کو چھورہی ہے بلکہ کرائمز نے ملکی معیشت کو بھی ہڑپ کرنا شروع کردیا ہے۔ صنعت کار و تاجر حضرات کراچی میں کاروبار کو الوداع کہہ رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے بے روزگاری میں بھی متواتر اضافہ ہورہا ہے۔
آبادی میں غیر فطری طور پر اضافے نے بیشتر مسائل جنم دیے ہیں۔ کراچی میں غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد 20 لاکھ سے زائد ہے جن میں افغانی، بنگالی، برمی، سری لنکن اور ایرانی شامل ہیں۔ غیر قانونی تارکین وطن کی مسلسل آمد کے ساتھ غیر ملکی دہشت گردوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی پاکستان میں گزشتہ 40،45 برس کے درمیان داخل ہوئی ہے۔ 1977 میں مارشل لاء کے نفاذ نے ہماری سرحدوں کو غیر محفوظ کیا، پھر 1979 میں سابق سوویت یونین نے افغانستان پر فوج کشی کی، چنانچہ افغانستان میں سوویت یونین کی مزاحمت کے لیے پاکستان کی اس وقت کی حکومت نے اپنے اور امریکا کے مفاد کے لیے عملی طور پر باقاعدہ ایک منظم کردار ادا کرنا شروع کیا جو اس وقت کی دنیا کی دوسری سپر پاور کے لیے ناپسندیدہ تھا۔
چنانچہ پاکستان کو اس کی سزا دینے کے لیے پاکستان کے شہروں میں بم دھماکے کرائے گئے، خصوصاً کراچی میں بم دھماکوں کے ساتھ ساتھ ہتھوڑا گروپ کی وارداتوں کے ذریعے خوف اور دہشت کی فضا پیدا کی گئی۔ مذہبی منافرت کے لیے پیسے تقسیم کیے گئے۔ دوسری طرف افغان مہاجرین کی آمد کا ایک طویل سلسلہ جاری تھا، جس کی آڑ میں روسی اور بھارتی تخریب کار غیر محسوس طریقے سے پاکستان کے شہروں میں پھیلتے گئے۔ ہتھیاروں اور منشیات کی آمد، تقسیم اور فروخت کا ایک منظم کاروبار بھی پھیل گیا۔
افغان مہاجرین کی آمد کے لیے سرحدوں پر نرم پالیسی کی وجہ سے دوسرے ممالک کے افراد کی بھی غیر قانونی آمد کا سلسلہ جاری رہا اور ان غیر قانونی تارکین وطن کی منزل کراچی تھا۔ چنانچہ 1980 سے 1988 کے دوران کراچی میں 332 نئی کچی آبادیاں قائم ہوئیں، ان آبادیوں میں رہنے والے تمام شہری سہولتوں سے استفادہ کرتے رہے ہیں لیکن کسی بھی قسم کا شہری بلدیاتی ٹیکس ان پر لاگو نہیں ہوتا یا وہ ادا نہیں کرتے، حتیٰ کہ بجلی اور پانی کے ناجائز کنکشن بھی حاصل کیے جاتے رہے ہیں۔ 1988 سے 1994 دسمبر تک ان کچی آبادیوں میں 118 مزید کچی آبادیوں کا اضافہ ہوا۔ آج بھی کراچی میں تقریباً پانچ سو سے زائد کچی آبادیاں ایسی ہیں کہ جو غیر قانونی اور ناجائز قابضین کے تصرف میں ہیں۔
آبادی کے اس مسلسل دباؤ نے بے روزگاری میں اضافہ کیا۔ غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے والے افراد نے انتہائی قلیل معاوضوں پر روزگار کے ذرائع پر قبضہ کرلیا اور مقامی لوگ بے روزگار ہوئے، جس نے احساس محرومی میں اضافہ کیا۔ سرکاری ملازمتوں میں مراعات کی کشش نے ہر نوجوان کو سرکاری ملازمت کے حصول کی دوڑ میں شامل کردیا۔ دیگر ذرائع روزگار پر ملک کے بالائی علاقوں سے آنے والوں کا منظم کنٹرول تھا اور ہے، نہ صرف کراچی بلکہ پورے سندھ میں ٹرانسپورٹ کا مکمل کاروبار پنجابی اور پختونوں کے ہاتھ میں ہے، کیونکہ کراچی سے پشاور تک ان کا ایک کامیاب نیٹ ورک ہے۔
نجی شعبے میں ملازمتوں کے شاندار مواقع موجود تھے اور ہیں، لیکن بد قسمتی سے اس جانب سرکاری طور پر توجہ دی گئی اور نہ غیر سرکاری تنظیموں نے فراہمی روزگار کے لیے کوئی عملی کام کیا، ماسوائے ایک دو اداروں کے جنہوں نے محدود پیمانے پر کام کیا ہے، جبکہ نجی شعبے میں چھوٹی صنعتوں اور چھوٹے کاروبار کے ذریعے لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کیا جاسکتا تھا اور آج بھی کیا جاسکتا ہے۔ آبادی کے مسلسل دباؤ نے کراچی میں ٹریفک اور ٹرانسپورٹ کے مسئلے کو سنگین تر بنادیا۔ سرکاری بسوں میں آبادی کے لحاظ سے اضافہ نہیں ہوسکا بلکہ رفتہ رفتہ ٹرانسپورٹ کے سرکاری شعبے کو یکسر ختم کردیا گیا۔ نجی شعبے میں بھی بسوں کا اس قدر اضافہ نہ ہوسکا جس کی ضرورت تھی، چنانچہ شہر میں منی بسوں کا اضافہ ہوا۔ منی بسوں نے کراچی کی سڑکوں پر تیز رفتاری کے بین الاقوامی دہشت انگیز ریکارڈ قائم کیے۔
1985میں بشریٰ زیدی کا حادثہ ہوا جس نے کراچی میں لسانی فسادات کا ایک افسوسناک سلسلہ شروع کردیا۔ اسی دوران کراچی میں پائے جانے والے احساس محرومی، شہری سہولتوں کی کمی اور اسلحے کی فراوانی نے مسائل کو پیچیدہ بنادیا۔ مارچ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کا سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ لسانی اور مذہبی منافرت واضح طور پر ملک میں ظاہر ہوگئی اور خصوصاً کراچی میں لسانی تقسیم بالکل واضح طور پر سامنے آگئی تھی۔ جونیجو حکومت نے اکتوبر 1985 میں کراچی انکوائری کمیشن قائم کردیا جس کے سربراہ مسعود الزمان تھے۔
کمیشن نے مارچ 1986 میں رپورٹ پیش کی تھی۔ کمیشن نے انتہائی اہم سفارشات اور تجاویز مرتب کی تھیں اور کراچی شہر کے سماجی، معاشی اور بلدیاتی مسائل کا ٹھوس تجزیہ کیا تھا لیکن بدقسمتی سے اس رپورٹ پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ یہی حشر کراچی کے حالیہ مسئلے پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کی سماعت کا تفصیلی فیصلے نظر آرہا ہے۔ ہر چند کہ کراچی کو امن کا گہوارہ بنانے کی باتیں زیر گردش ہیں ، پولیس وجینجرز کا آپریشن جاری ہے اور اقدامات بھی نظر آرہے ہیں۔
لیکن جہاں اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہو وہاں امن کے لیے صرف دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کے شہر ولادت اور ان کی آخری آرام گاہ رکھنے والے شہر اور اس کے غریب، نادار، مفلس اور مظلوم دو کروڑ شہریوں کو امن و سکون اور چین نصیب ہو۔