اگر ایران سعودی جنگ ہوئی تو نتیجہ کیا ہوگا
سعودی عرب کو ایران سے لڑوا کر امریکا ایران کی دفاعی صلاحیت کا اندازہ لگانا چاہتا ہے
اگر امریکا سعودی عرب اور ایران کی جنگ کروانے میں کامیاب ہوگیا تو جو حملہ سعودی عرب کے تیل کے کنوؤں پر چھپ کر کیا گیا ہے پھر وہ حملہ کھلے عام ہوگا۔ اگر سعودی عرب دنیا کا سب سے بڑا مسلم فوجی اتحاد رکھنے کے باوجود خود کو ان حملوں سے بچا نہیں سکا تو اعلانیہ جنگ میں جو نقصان ہوگا، اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
ایران خودمختار ہے۔ وہ سوئی سے لے کر جہاز تک خود بناتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ دو ماہ قبل امریکی تیز ترین ڈرون طیارے کو ایران نے اپنے جدید نظام سے قابو کرکے گراؤنڈ کردیا تھا۔ امریکی صدر نے اسی وقت ایران پر حملہ کرنے کا حکم منسوخ کردیا تھا۔ دراصل جو کام امریکا خود نہیں کرسکا، اس کام کےلیے وہ سعودی عرب کو استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ جنگ کا ماحول بنانے کےلیے سعودی عرب پر اس طرح کا ایک اور حملہ ہوسکتا ہے۔
سعودی عرب کو ایران سے لڑوا کر امریکا ایران کی دفاعی صلاحیت کا اندازہ لگانا چاہتا ہے۔ کیونکہ امریکی ڈرون کے گراؤنڈ ہونے کے بعد پینٹاگون اور موساد کی تفتیش بڑھ چکی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر ایران تیز ترین ڈرون کو ڈھونڈ کر گرا سکتا ہے تو ممکن ہے کہ وہ ایٹمی طاقت حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوگیا ہو۔ اگر ایسا سچ ہوا تو ایران سے جنگ دنیا کی تباہی کا باعث بنے گی۔
ایران کی طاقت کا اندازہ آپ اس حقیقت سے لگالیں کہ جتنی پابندیاں ایران پر لگی ہیں اگر اتنی پابندیاں سعودی عرب پر لگ جائیں تو سعودی عرب کے حالات صومالیہ سے بدتر ہوجائیں۔ کیونکہ سعودی عرب نہ تو ٹیکنالوجی میں کسی قسم کی مہارت رکھتا ہے اور نہ ہی دفاعی صلاحیت پیدا کرنے اور اسے بروئے کار لانے میں خودمختار ہے۔ لیکن ایران ان تمام تر پابندیوں کے باوجود خودمختار ہے۔
یہاں اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ ایران کے ساتھ جنگ دراصل قطر، روس اور چین کے ساتھ جنگ تصور کی جائے گی۔ یہ تینوں طاقتیں امریکا کے خلاف ایران کی حمایت کریں گی۔ ہندوستان امریکا کی پابندیوں کے باوجود ایران سے تیل درآمد کررہا ہے۔ وہ اس جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔ امریکا کو بھی اس حقیقت کا بخوبی اندازہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں امریکا کے دوستوں سے زیادہ دشمن پائے جاتے ہیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کی جنگ میں زیادہ نقصان کس کا ہوگا؟ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس جنگ میں زیادہ نقصان سعودی عرب کا ہوگا، کیونکہ نقصان اس ملک کا زیادہ ہوتا ہے جس کے پاس کھونے کے لیے کچھ ہو۔ ایران پچھلے چالیس سال سے عالمی پابندیوں کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس جنگ نے ایران کو جتنا مالی نقصان پہنچانا تھا، پہنچا دیا ہے۔ ان حالات نے ایران کو اعصابی طور پر مضبوط بنادیا ہے۔ جنگ میں جیت اسی کی ہوتی ہے جس کے اعصاب مضبوط ہوں۔
اس ممکنہ جنگ میں پاکستان کا کردار بہت اہم رہے گا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستانی فوج کا جھکاؤ جس ملک کی جانب ہوگا وہ ملک زیادہ مضبوط رہے گا۔ پاکستان کی معاشی حالت کے پیش نظر پاک آرمی کا جھکاؤ ممکنہ طور پر سعودی عرب کی جانب ہوگا۔ کیونکہ سعودی عرب نے پاکستان کو تین سال کےلیے تیل ادھار دے رکھا ہے۔ اس کی علاوہ تین ارب ڈالر قرض بھی دیا ہے۔ پاکستان آرمی کے سابق چیف جنرل راحیل شریف سعودی عرب کی جس اسلامی فوج کے سربراہ ہیں ایران اس میں شامل نہیں ہے۔ سعودی عرب اور امریکا چونکہ ایران کے خلاف ایک صف میں کھڑے ہیں اس لیے سعودی عرب کی مخالفت امریکا کی مخالفت تصور ہوگی۔ پاکستان یہ مخالفت مول نہیں لے سکے گا، کیونکہ امریکا کی مخالفت سے آئی ایم ایف اپنی شرائط سخت کردے گا۔ دوسری طرف ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کے بلیک لسٹ ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں کمی کی بڑی وجہ آئی ایم ایف کا قرض اور سعودی عرب کا ادھار تیل ہے۔
سعودی عرب کو سالانہ تین ارب ڈالر کی ادئیگی تیل کی مد میں کی جاتی تھی۔ ادھار تیل کے باعث یہ ڈالر ملک میں ہی موجود ہیں اور آئی ایم ایف کے ایک ارب ڈالر بھی ہماری اکانومی میں شامل ہوگئے ہیں۔ اگر یہ سہولتیں ختم ہوجائیں تو پاکستان معاشی طور پر کہاں کھڑا ہوگا، ہم اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔
ایران سعودی عرب تنازعہ مستقبل میں کیا رخ اختیار کرتا ہے اس کا اندازہ چند دنوں میں ہوجائے گا، لیکن ایک بات طے ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ تیسری جنگ عظیم کی طرف پہلا قدم ہوگا۔ ایران، چین، روس، قطر، شام اور ترکی ایک گروپ ہوگا، جبکہ امریکا، اسرائیل، سعودی عرب، برطانیہ اور فرانس دوسرے گروپ میں شامل ہوں گے۔ اگر جنگ طویل ہوگئی تو جو ہتھیار ان ممالک نے اپنی بقا کےلیے بنائے تھے وہ ہتھیار دنیا کی تباہی کےلیے استعمال ہوں گے اور انسان سائنس کی دنیا سے نکل کر پتھر کے زمانے میں واپس چلا جائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ایران خودمختار ہے۔ وہ سوئی سے لے کر جہاز تک خود بناتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ دو ماہ قبل امریکی تیز ترین ڈرون طیارے کو ایران نے اپنے جدید نظام سے قابو کرکے گراؤنڈ کردیا تھا۔ امریکی صدر نے اسی وقت ایران پر حملہ کرنے کا حکم منسوخ کردیا تھا۔ دراصل جو کام امریکا خود نہیں کرسکا، اس کام کےلیے وہ سعودی عرب کو استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ جنگ کا ماحول بنانے کےلیے سعودی عرب پر اس طرح کا ایک اور حملہ ہوسکتا ہے۔
سعودی عرب کو ایران سے لڑوا کر امریکا ایران کی دفاعی صلاحیت کا اندازہ لگانا چاہتا ہے۔ کیونکہ امریکی ڈرون کے گراؤنڈ ہونے کے بعد پینٹاگون اور موساد کی تفتیش بڑھ چکی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر ایران تیز ترین ڈرون کو ڈھونڈ کر گرا سکتا ہے تو ممکن ہے کہ وہ ایٹمی طاقت حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوگیا ہو۔ اگر ایسا سچ ہوا تو ایران سے جنگ دنیا کی تباہی کا باعث بنے گی۔
ایران کی طاقت کا اندازہ آپ اس حقیقت سے لگالیں کہ جتنی پابندیاں ایران پر لگی ہیں اگر اتنی پابندیاں سعودی عرب پر لگ جائیں تو سعودی عرب کے حالات صومالیہ سے بدتر ہوجائیں۔ کیونکہ سعودی عرب نہ تو ٹیکنالوجی میں کسی قسم کی مہارت رکھتا ہے اور نہ ہی دفاعی صلاحیت پیدا کرنے اور اسے بروئے کار لانے میں خودمختار ہے۔ لیکن ایران ان تمام تر پابندیوں کے باوجود خودمختار ہے۔
یہاں اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ ایران کے ساتھ جنگ دراصل قطر، روس اور چین کے ساتھ جنگ تصور کی جائے گی۔ یہ تینوں طاقتیں امریکا کے خلاف ایران کی حمایت کریں گی۔ ہندوستان امریکا کی پابندیوں کے باوجود ایران سے تیل درآمد کررہا ہے۔ وہ اس جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔ امریکا کو بھی اس حقیقت کا بخوبی اندازہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں امریکا کے دوستوں سے زیادہ دشمن پائے جاتے ہیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کی جنگ میں زیادہ نقصان کس کا ہوگا؟ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس جنگ میں زیادہ نقصان سعودی عرب کا ہوگا، کیونکہ نقصان اس ملک کا زیادہ ہوتا ہے جس کے پاس کھونے کے لیے کچھ ہو۔ ایران پچھلے چالیس سال سے عالمی پابندیوں کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس جنگ نے ایران کو جتنا مالی نقصان پہنچانا تھا، پہنچا دیا ہے۔ ان حالات نے ایران کو اعصابی طور پر مضبوط بنادیا ہے۔ جنگ میں جیت اسی کی ہوتی ہے جس کے اعصاب مضبوط ہوں۔
اس ممکنہ جنگ میں پاکستان کا کردار بہت اہم رہے گا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستانی فوج کا جھکاؤ جس ملک کی جانب ہوگا وہ ملک زیادہ مضبوط رہے گا۔ پاکستان کی معاشی حالت کے پیش نظر پاک آرمی کا جھکاؤ ممکنہ طور پر سعودی عرب کی جانب ہوگا۔ کیونکہ سعودی عرب نے پاکستان کو تین سال کےلیے تیل ادھار دے رکھا ہے۔ اس کی علاوہ تین ارب ڈالر قرض بھی دیا ہے۔ پاکستان آرمی کے سابق چیف جنرل راحیل شریف سعودی عرب کی جس اسلامی فوج کے سربراہ ہیں ایران اس میں شامل نہیں ہے۔ سعودی عرب اور امریکا چونکہ ایران کے خلاف ایک صف میں کھڑے ہیں اس لیے سعودی عرب کی مخالفت امریکا کی مخالفت تصور ہوگی۔ پاکستان یہ مخالفت مول نہیں لے سکے گا، کیونکہ امریکا کی مخالفت سے آئی ایم ایف اپنی شرائط سخت کردے گا۔ دوسری طرف ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کے بلیک لسٹ ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں کمی کی بڑی وجہ آئی ایم ایف کا قرض اور سعودی عرب کا ادھار تیل ہے۔
سعودی عرب کو سالانہ تین ارب ڈالر کی ادئیگی تیل کی مد میں کی جاتی تھی۔ ادھار تیل کے باعث یہ ڈالر ملک میں ہی موجود ہیں اور آئی ایم ایف کے ایک ارب ڈالر بھی ہماری اکانومی میں شامل ہوگئے ہیں۔ اگر یہ سہولتیں ختم ہوجائیں تو پاکستان معاشی طور پر کہاں کھڑا ہوگا، ہم اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔
ایران سعودی عرب تنازعہ مستقبل میں کیا رخ اختیار کرتا ہے اس کا اندازہ چند دنوں میں ہوجائے گا، لیکن ایک بات طے ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ تیسری جنگ عظیم کی طرف پہلا قدم ہوگا۔ ایران، چین، روس، قطر، شام اور ترکی ایک گروپ ہوگا، جبکہ امریکا، اسرائیل، سعودی عرب، برطانیہ اور فرانس دوسرے گروپ میں شامل ہوں گے۔ اگر جنگ طویل ہوگئی تو جو ہتھیار ان ممالک نے اپنی بقا کےلیے بنائے تھے وہ ہتھیار دنیا کی تباہی کےلیے استعمال ہوں گے اور انسان سائنس کی دنیا سے نکل کر پتھر کے زمانے میں واپس چلا جائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔