امریکا میں بجٹ پر عدم اتفاق کے باعث شٹ ڈاؤن لاکھوں سرکاری ملازم بیروزگار ہوگئے
شٹ ڈاؤن سے فوجیوں کی ڈیوٹی متاثر نہیں ہوگی انہیں تنخواہیں ملتی رہیں گی، صدر باراک اوباما
امریکا میں نئے مالی سال کے بجٹ پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث وائٹ ہاؤس نے سرکاری محکموں کو شٹ ڈاوٴن کے احکامات جاری کر دیئے جس کے باعث لاکھوں سرکاری ملازمین بے روزگارہو گئے ہیں۔
وائٹ ہاؤس نےمالی سال کے اختتام پرہیلتھ کیئربل منظورنہ ہونے پر اقتصادی شٹ ڈاؤن کا اعلان کر دیا جس کے تحت امریکا کے تمام سرکاری محکموں کو بند کرنے کے احکامات جاری کر دئیے گئے ہیں۔ شٹ ڈاؤن سے 8 لاکھ وفاقی ملازمین ملازمت سے فارغ اور تنخواہ سے محروم ہو جائیں گے جب کہ لاکھوں کنٹریکٹ ملازمین کو بھی ان کی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑگیا۔
صدر براک اوباما کے ہیلتھ کیئر پلان پر حزب اختلاف اور حکومت میں اختلافات برقرار رہنے کی وجہ سے سینٹ نے ایوان نمائندگان کے منظور کردہ بجٹ بل اور ایمرجنسی فنڈنگ بل کو مسترد کر دیا۔ شٹ ڈاؤن کی وجہ سے ویزا اور پاسپورٹ کی درخواستوں پر عمل درآمد مشکل جب کہ سمتھ سونین انسٹیٹیوٹس، عجائب گھر، چڑیا گھر اور بہت سے نیشنل پارک بند ہو جائیں گے جب کہ اہم سمجھے جانے والی سروسز جس میں ایئر ٹریفک کنٹرول اور کھانے کی ضروری اشیاء کا معائنہ کرنے والے ادارے شامل ہیں میں کام جاری رہے گا۔ وزارت دفاع نے اپنے ملازمین سے کہا ہے کہ ملٹری کے باوردی ملازمین معمول کے مطابق کام کرتے رہیں گے جبکہ سویلین عملے سے گھر رہنے کو کہا جائے گا۔
اس سے قبل امریکی صدر اوباما نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر امریکا میں کاروبار حکومت بند ہوا تو کئی غیر اہم سرکاری ادارے بند ہوجائیں گے اور لاکھوں سرکاری ملازمین کوگھر بھیج دیا جائے گا، جبکہ 10 لاکھ سے زائد ملازمین تنخواہ کے بغیر کام کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ شٹ ڈاوٴن کے باعث امریکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اورعام لوگوں کی زندگی شدید متاثر ہوگی تاہم اس سے فوجیوں کی ڈیوٹی متاثر نہیں ہوگی۔
واضح رہے کہ امریکا میں سرکاری محکموں کو بند کرنے کے احکامات پہلی بار نہیں دیئے گئے، 17 سال قبل 1996 میں صدر بل کلنٹن کے دور حکومت میں بھی سیاست دانوں کے درمیان اختلافات کے باعث سرکاری محکموں کے شٹ ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا جس کے باعث غیر اہم سرکاری اداروں کے لاکھوں ملازمین کو بغیر تنخواہوں کے کام پڑا تھا۔
وائٹ ہاؤس نےمالی سال کے اختتام پرہیلتھ کیئربل منظورنہ ہونے پر اقتصادی شٹ ڈاؤن کا اعلان کر دیا جس کے تحت امریکا کے تمام سرکاری محکموں کو بند کرنے کے احکامات جاری کر دئیے گئے ہیں۔ شٹ ڈاؤن سے 8 لاکھ وفاقی ملازمین ملازمت سے فارغ اور تنخواہ سے محروم ہو جائیں گے جب کہ لاکھوں کنٹریکٹ ملازمین کو بھی ان کی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑگیا۔
صدر براک اوباما کے ہیلتھ کیئر پلان پر حزب اختلاف اور حکومت میں اختلافات برقرار رہنے کی وجہ سے سینٹ نے ایوان نمائندگان کے منظور کردہ بجٹ بل اور ایمرجنسی فنڈنگ بل کو مسترد کر دیا۔ شٹ ڈاؤن کی وجہ سے ویزا اور پاسپورٹ کی درخواستوں پر عمل درآمد مشکل جب کہ سمتھ سونین انسٹیٹیوٹس، عجائب گھر، چڑیا گھر اور بہت سے نیشنل پارک بند ہو جائیں گے جب کہ اہم سمجھے جانے والی سروسز جس میں ایئر ٹریفک کنٹرول اور کھانے کی ضروری اشیاء کا معائنہ کرنے والے ادارے شامل ہیں میں کام جاری رہے گا۔ وزارت دفاع نے اپنے ملازمین سے کہا ہے کہ ملٹری کے باوردی ملازمین معمول کے مطابق کام کرتے رہیں گے جبکہ سویلین عملے سے گھر رہنے کو کہا جائے گا۔
اس سے قبل امریکی صدر اوباما نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر امریکا میں کاروبار حکومت بند ہوا تو کئی غیر اہم سرکاری ادارے بند ہوجائیں گے اور لاکھوں سرکاری ملازمین کوگھر بھیج دیا جائے گا، جبکہ 10 لاکھ سے زائد ملازمین تنخواہ کے بغیر کام کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ شٹ ڈاوٴن کے باعث امریکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اورعام لوگوں کی زندگی شدید متاثر ہوگی تاہم اس سے فوجیوں کی ڈیوٹی متاثر نہیں ہوگی۔
واضح رہے کہ امریکا میں سرکاری محکموں کو بند کرنے کے احکامات پہلی بار نہیں دیئے گئے، 17 سال قبل 1996 میں صدر بل کلنٹن کے دور حکومت میں بھی سیاست دانوں کے درمیان اختلافات کے باعث سرکاری محکموں کے شٹ ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا جس کے باعث غیر اہم سرکاری اداروں کے لاکھوں ملازمین کو بغیر تنخواہوں کے کام پڑا تھا۔