صوبائی وزیر صحت سے وزارت کیوں واپس لی گئی
اویس مظفرٹپی نےمحکمہ صحت میں تھوڑی مدت میں جتنا کام کیا تھا اس سےسندھ کےلوگوں کی پیپلزپارٹی سےشکایات دورہو رہی تھیں۔
سندھ کے وزیر سید اویس مظفر سے گزشتہ ہفتے صحت کا قلمدان واپس لے لیا گیا۔
یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ ایسا فیصلہ کیوں کیا گیا ؟ سید اویس مظفر کے پاس محکمہ بلدیات کا قلمدان بھی ہے۔ یہ قلمدان بھی بہت اہم ہے لیکن صحت کا قلمدان اس حوالے سے زیادہ اہم تھا کہ طویل عرصے بعد پیپلز پارٹی کے کسی وزیر کو یہ قلمدان ملا تھا اور سید اویس مظفر نے اس محکمے میں تھوڑی مدت میں جتنا کام کیا تھا ، اس سے سندھ کے لوگوں کی پیپلز پارٹی سے شکایات دور ہو رہی تھیں ۔
سید اویس مظفر سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 88 سے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور پہلی مرتبہ انہیں سندھ کابینہ میں شامل کیا گیا تھا ۔ سندھ کابینہ کے سب سے زیادہ سرگرم وزیر کی حیثیت سے انہوں نے اپنے آپ کو تسلیم کرایا ۔ صوبائی وزیر کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے صحافیوں سے اپنی پہلی رسمی گفتگو میں کہا تھا کہ سندھ کے لوگوں کی پہلے سے زیادہ خدمت کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں گورننس پر زیادہ توجہ دینا ہوگی اور لوگوں کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ حکومت ان کے لیے کچھ کر رہی ہے۔
اس کے لیے ہمیں رات دن کام کرنا ہوگا ۔ انہوں نے اپنی اس بات پر عمل کیا اور ان کے مخالفین بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے کہ سندھ حکومت میں کوئی شخص کام کر رہا ہے۔ انتہائی مختصر عرصے میں انہوں نے ان محکموں میں کایا پلٹ دی، جو ان کے پاس تھے۔ صحت کا قلمدان سید اویس مظفر کے پاس پورے تین ماہ بھی نہیں رہا لیکن اس دوران انہوں نے وہ کام کیے ، جو کئی عشروں سے نہیں ہوئے تھے ۔ سید اویس مظفر نے محکمہ صحت کے لیے سندھ اسمبلی سے ایسے قوانین منظور کرائے جو دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں موجود ہیں اور اس ضمن میں پاکستان بہت پیچھے تھا، جو قوانین منظور کرائے گئے ان میں تھیلیسیمیا کے تدارک اور کنٹرول کا بل ، ایچ آئی وی اور ایڈز کے کنٹرول ، تدارک اور علاج کا بل ، ذہنی صحت کا بل اور نوزائیدہ بچوں کی اسکریننگ کا بل شامل ہیں ۔ یہ قانون سازی بہت ضروری تھی ۔
اس کے علاوہ گمبٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کو ایک ڈگری دینے والے ادارے کی حیثیت دینے کے لیے بھی بل منظور کرایا گیا ۔ گمبٹ میں اگرچہ ایک تعلقہ ہسپتال ہے لیکن یہ ہسپتال بین الاقوامی معیار کا ہے ۔ گمبٹ جیسے شہر میں ایسے ہسپتال کی موجودگی پاکستان کے دیگر شہروں کے لیے ایک قابل تقلید مثال ہے ۔ اس ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی نے انتہائی لگن اور خلوص سے اس ہسپتال کو ایک معیاری ہسپتال بنایا ہے ۔
سید اویس مظفر نے اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے گمبٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کو ڈگری دینے والے ادارے کی حیثیت دلوائی ۔ سید اویس مظفر نے محکمہ صحت میں اصلاحات کے لیے ایک اور بل بھی اسمبلی میں پیش کرایا ۔ اس بل کے تحت ''سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن'' قائم کیا جائے گا ، جو جدید تقاضوں کے لیے محکمہ صحت کے امور چلانے کے لیے مشاورتی اور نگران ادارے کی حیثیت سے کام کرے گا ۔ اس بل کا مسودہ سندھ اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے سپرد کردیا گیا ہے ۔ خصوصی کمیٹی اس پر اپنی رپورٹ سندھ اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں پیش کرے گی اور توقع ہے کہ آئندہ اجلاس میں ہی یہ بل منظور کرلیا جائے گا ۔ اس سے محکمہ صحت میں ہونے والی اصلاحات پر عمل درآمد شروع ہو جائے گا ۔
انتہائی اہم قانون سازی کے ساتھ ساتھ سید اویس مظفر نے محکمہ صحت میں پہلی دفعہ بیورو کریسی کو یہ احساس دلایا کہ ان پر کوئی چیک رکھنے والا ہے۔ محکمہ صحت ایک بہت بڑا محکمہ ہے۔ ماضی میں ہسپتالوں اور دیگر شعبوں کو بہت نظر انداز کیا جاتا رہا ۔ خصوصاً دیہی علاقوں کے ہسپتالوں کی طرف توجہ ہی نہیں دی گئی ۔ سید اویس مظفر نے شدید سکیورٹی خطرات لاحق ہونے کے باوجود سکھر ، میرپورخاص ، دادو ، ٹھٹھہ ، جیکب آباد اور دیگر دور دراز کے اضلاع کے خود دورے کیے اور ہسپتالوں میں جا کر حالات کا خود جائزہ لیا ۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ان ہسپتالوں کی حالت بہت خراب ہے ۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتالوں اور تعلقہ ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور عملے کے دیگر افراد غیر حاضر ہوتے تھے ۔
ان ہسپتالوں میں دوائیاں نہیں تھیں حالانکہ اندرون سندھ کے ان اضلاع کے یہ ہسپتال بہت بڑی آبادی کے علاج کا واحد ذریعہ تھے ۔ سید اویس مظفر نے محسوس کیا کہ ان ہسپتالوں میں صحت اور علاج کی بنیادی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے سندھ کے غریب لوگ کئی کئی سو میل کا سفر کرکے کراچی پہنچتے ہیں ۔ انہوں نے سختی سے ہدایت کی کہ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور عملے کے دیگر افراد کی حاضری کو یقینی بنایا جائے اور غیر حاضر افراد کے خلاف کارروائی کی جائے ۔
انہوں نے ان ہسپتالوں میں جدید طبی آلات اور دواؤں کی فوری فراہمی کے لیے بھی اقدامات کیے ۔ محکمہ صحت کے حکام کو ان ہسپتالوں میں موجود سہولتوں کو اپ گریڈ کرنے اور اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی نئی اسامیاں تخلیق کرنے کی بھی ہدایت کی ۔ سید اویس مظفر کی محکمہ پر خصوصی توجہ اور ان کی سرگرمی کی وجہ سے بہت سے معاملات تیزی سے بہتر ہونے لگے تھے ۔ سندھ کے عوام خصوصاً دیہی سندھ کے عوام اس تبدیلی کو محسوس کرنے لگے تھے۔
اس مختصر عرصے میں محکمہ صحت میں کرپشن کے بھی کئی اسکینڈلز سامنے آگئے۔ سب سے اہم اسکینڈل 84 کروڑ روپے کی مشینری کی خریداری کے حوالے سے تھا ۔ مشینری کی خریداری کے نام پر رقم خرچ کردی گئی لیکن یہ مشینری محکمہ صحت کے پاس نہیں پہنچی ۔ صرف کاغذوں میں یہ ظاہر کیا گیا کہ مشینری خریدی گئی ہے اور اسے فلاں فلاں ہسپتالوں میں منتقل کردیا گیا ہے ۔
صرف سول ہسپتال سکھر کے لیے 15 کروڑ روپے کی مشینری کی خریداری ظاہر کی گئی لیکن اس مشینری کا کہیں وجود نہیں تھا ۔ سید اویس مظفر نے حکومت سندھ کو یہ رقم واپس کرائی اور ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کی ۔ اس طرح محکمے میں ہونے والی کئی بدعنوانیوں اور گھپلوں پر سخت کارروائی کی جس کی وجہ سے محکمہ صحت کے مافیا میں کھلبلی مچ گئی ۔ یہ صورت حال ان لوگوں کے لیے پریشان کن تھی ، جو طویل عرصے سے اس محکمے میں بے تاج بادشاہ بنے ہوئے تھے اور ہونے والی کرپشن پر ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں تھا ۔ سید اویس مظفر سے صحت کا قلمدان واپس لینے سے یہ مافیا ضرور خوش ہوئی ہوگی ۔
یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ ایسا فیصلہ کیوں کیا گیا ؟ سید اویس مظفر کے پاس محکمہ بلدیات کا قلمدان بھی ہے۔ یہ قلمدان بھی بہت اہم ہے لیکن صحت کا قلمدان اس حوالے سے زیادہ اہم تھا کہ طویل عرصے بعد پیپلز پارٹی کے کسی وزیر کو یہ قلمدان ملا تھا اور سید اویس مظفر نے اس محکمے میں تھوڑی مدت میں جتنا کام کیا تھا ، اس سے سندھ کے لوگوں کی پیپلز پارٹی سے شکایات دور ہو رہی تھیں ۔
سید اویس مظفر سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 88 سے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور پہلی مرتبہ انہیں سندھ کابینہ میں شامل کیا گیا تھا ۔ سندھ کابینہ کے سب سے زیادہ سرگرم وزیر کی حیثیت سے انہوں نے اپنے آپ کو تسلیم کرایا ۔ صوبائی وزیر کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے صحافیوں سے اپنی پہلی رسمی گفتگو میں کہا تھا کہ سندھ کے لوگوں کی پہلے سے زیادہ خدمت کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں گورننس پر زیادہ توجہ دینا ہوگی اور لوگوں کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ حکومت ان کے لیے کچھ کر رہی ہے۔
اس کے لیے ہمیں رات دن کام کرنا ہوگا ۔ انہوں نے اپنی اس بات پر عمل کیا اور ان کے مخالفین بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے کہ سندھ حکومت میں کوئی شخص کام کر رہا ہے۔ انتہائی مختصر عرصے میں انہوں نے ان محکموں میں کایا پلٹ دی، جو ان کے پاس تھے۔ صحت کا قلمدان سید اویس مظفر کے پاس پورے تین ماہ بھی نہیں رہا لیکن اس دوران انہوں نے وہ کام کیے ، جو کئی عشروں سے نہیں ہوئے تھے ۔ سید اویس مظفر نے محکمہ صحت کے لیے سندھ اسمبلی سے ایسے قوانین منظور کرائے جو دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں موجود ہیں اور اس ضمن میں پاکستان بہت پیچھے تھا، جو قوانین منظور کرائے گئے ان میں تھیلیسیمیا کے تدارک اور کنٹرول کا بل ، ایچ آئی وی اور ایڈز کے کنٹرول ، تدارک اور علاج کا بل ، ذہنی صحت کا بل اور نوزائیدہ بچوں کی اسکریننگ کا بل شامل ہیں ۔ یہ قانون سازی بہت ضروری تھی ۔
اس کے علاوہ گمبٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کو ایک ڈگری دینے والے ادارے کی حیثیت دینے کے لیے بھی بل منظور کرایا گیا ۔ گمبٹ میں اگرچہ ایک تعلقہ ہسپتال ہے لیکن یہ ہسپتال بین الاقوامی معیار کا ہے ۔ گمبٹ جیسے شہر میں ایسے ہسپتال کی موجودگی پاکستان کے دیگر شہروں کے لیے ایک قابل تقلید مثال ہے ۔ اس ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی نے انتہائی لگن اور خلوص سے اس ہسپتال کو ایک معیاری ہسپتال بنایا ہے ۔
سید اویس مظفر نے اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے گمبٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کو ڈگری دینے والے ادارے کی حیثیت دلوائی ۔ سید اویس مظفر نے محکمہ صحت میں اصلاحات کے لیے ایک اور بل بھی اسمبلی میں پیش کرایا ۔ اس بل کے تحت ''سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن'' قائم کیا جائے گا ، جو جدید تقاضوں کے لیے محکمہ صحت کے امور چلانے کے لیے مشاورتی اور نگران ادارے کی حیثیت سے کام کرے گا ۔ اس بل کا مسودہ سندھ اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے سپرد کردیا گیا ہے ۔ خصوصی کمیٹی اس پر اپنی رپورٹ سندھ اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں پیش کرے گی اور توقع ہے کہ آئندہ اجلاس میں ہی یہ بل منظور کرلیا جائے گا ۔ اس سے محکمہ صحت میں ہونے والی اصلاحات پر عمل درآمد شروع ہو جائے گا ۔
انتہائی اہم قانون سازی کے ساتھ ساتھ سید اویس مظفر نے محکمہ صحت میں پہلی دفعہ بیورو کریسی کو یہ احساس دلایا کہ ان پر کوئی چیک رکھنے والا ہے۔ محکمہ صحت ایک بہت بڑا محکمہ ہے۔ ماضی میں ہسپتالوں اور دیگر شعبوں کو بہت نظر انداز کیا جاتا رہا ۔ خصوصاً دیہی علاقوں کے ہسپتالوں کی طرف توجہ ہی نہیں دی گئی ۔ سید اویس مظفر نے شدید سکیورٹی خطرات لاحق ہونے کے باوجود سکھر ، میرپورخاص ، دادو ، ٹھٹھہ ، جیکب آباد اور دیگر دور دراز کے اضلاع کے خود دورے کیے اور ہسپتالوں میں جا کر حالات کا خود جائزہ لیا ۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ان ہسپتالوں کی حالت بہت خراب ہے ۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتالوں اور تعلقہ ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور عملے کے دیگر افراد غیر حاضر ہوتے تھے ۔
ان ہسپتالوں میں دوائیاں نہیں تھیں حالانکہ اندرون سندھ کے ان اضلاع کے یہ ہسپتال بہت بڑی آبادی کے علاج کا واحد ذریعہ تھے ۔ سید اویس مظفر نے محسوس کیا کہ ان ہسپتالوں میں صحت اور علاج کی بنیادی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے سندھ کے غریب لوگ کئی کئی سو میل کا سفر کرکے کراچی پہنچتے ہیں ۔ انہوں نے سختی سے ہدایت کی کہ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور عملے کے دیگر افراد کی حاضری کو یقینی بنایا جائے اور غیر حاضر افراد کے خلاف کارروائی کی جائے ۔
انہوں نے ان ہسپتالوں میں جدید طبی آلات اور دواؤں کی فوری فراہمی کے لیے بھی اقدامات کیے ۔ محکمہ صحت کے حکام کو ان ہسپتالوں میں موجود سہولتوں کو اپ گریڈ کرنے اور اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی نئی اسامیاں تخلیق کرنے کی بھی ہدایت کی ۔ سید اویس مظفر کی محکمہ پر خصوصی توجہ اور ان کی سرگرمی کی وجہ سے بہت سے معاملات تیزی سے بہتر ہونے لگے تھے ۔ سندھ کے عوام خصوصاً دیہی سندھ کے عوام اس تبدیلی کو محسوس کرنے لگے تھے۔
اس مختصر عرصے میں محکمہ صحت میں کرپشن کے بھی کئی اسکینڈلز سامنے آگئے۔ سب سے اہم اسکینڈل 84 کروڑ روپے کی مشینری کی خریداری کے حوالے سے تھا ۔ مشینری کی خریداری کے نام پر رقم خرچ کردی گئی لیکن یہ مشینری محکمہ صحت کے پاس نہیں پہنچی ۔ صرف کاغذوں میں یہ ظاہر کیا گیا کہ مشینری خریدی گئی ہے اور اسے فلاں فلاں ہسپتالوں میں منتقل کردیا گیا ہے ۔
صرف سول ہسپتال سکھر کے لیے 15 کروڑ روپے کی مشینری کی خریداری ظاہر کی گئی لیکن اس مشینری کا کہیں وجود نہیں تھا ۔ سید اویس مظفر نے حکومت سندھ کو یہ رقم واپس کرائی اور ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کی ۔ اس طرح محکمے میں ہونے والی کئی بدعنوانیوں اور گھپلوں پر سخت کارروائی کی جس کی وجہ سے محکمہ صحت کے مافیا میں کھلبلی مچ گئی ۔ یہ صورت حال ان لوگوں کے لیے پریشان کن تھی ، جو طویل عرصے سے اس محکمے میں بے تاج بادشاہ بنے ہوئے تھے اور ہونے والی کرپشن پر ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں تھا ۔ سید اویس مظفر سے صحت کا قلمدان واپس لینے سے یہ مافیا ضرور خوش ہوئی ہوگی ۔